آئن اسٹائن کا نظریۂ اضافیت غلط۔۔۔۔۔؟

غزالہ عامر  جمعرات 29 دسمبر 2016
ماہر طبیعیات کے مطابق ڈارک میٹر وجود ہی نہیں رکھتا۔ فوٹو: فائل

ماہر طبیعیات کے مطابق ڈارک میٹر وجود ہی نہیں رکھتا۔ فوٹو: فائل

ماہرین طبیعیات کے مطابق جدید طبیعیات کی عمارت دو ستونوں پر قائم ہے۔ ان دوستونوں میں سے ایک آئن اسٹائن کا مشہور زمانہ نظریۂ اضافیت اور دوسرا کوانٹم میکانیات ہے۔

آئن اسٹائن نے نظریہ اضافیت 1915ء میں پیش کیا تھا جو کائنات میں کشش ثقل کی تقسیم کی وضاحت کرتا ہے۔ تاہم کئی پہلوؤں کی وضاحت کرنے سے یہ نظریہ بھی قاصر رہا۔ اسی لیے بعد ازاں ماہرین طبیعیات نے ان وضاحت طلب معاملات کے جواز کے طور پر ایک ایسے غیرمرئی مادّے ( ڈارک میٹر ) کی موجودگی کا تصور پیش کیا جو کائنات میں ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔

سائنس دانوں کے مطابق قابل مشاہدہ کائنات میں کمیت و توانائی کا 27 فی صد ڈارک میٹر پر مشتمل ہے۔ اس پراسرار مادّے کی موجودگی کا نظریہ پہلی بار 1922ء میں پیش کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک اس کا کھوج لگانے کے لیے ان گنت کوششیں ہوچکی ہیں، اور سائنس داں ہنوز تحقیق و تجربات میں مصروف ہیں، مگر اب تک حتمی طور پر اس کے وجود کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

ستاروں اور کہکشاؤں کا مطالعہ کرتے ہوئے ماہرین فلکیات نے دریافت کیا کہ خلائے بسیط میں کشش ثقل کی قوتیں توقع سے زیادہ طاقت وَر تھیں۔ کہکشاؤں بشمول ہماری ملکی وے، کی بیرونی حدود میں شامل علاقے اپنے اپنے مرکز کے گرد توقع سے زیادہ تیز رفتاری سے گردش کررہے ہیں۔ آئن اسٹائن کا نظریہ اضافیت اس تیزرفتاری کا جواز پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اسی لیے سائنس دانوں نے یہ فرض کرلیا کہ کائنات میں کوئی اور قوت بھی ہے جسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔ انھوں نے اس قوت کو ڈارک میٹر کا نام دیا۔

سائنس داں ڈارک میٹر کے ذرات کا مشاہدہ کرنے میں ہنوز ناکام ہیںِ۔ محض مرئی مادّے پر کچھ ثقلی اثرات کے مشاہدے کی بنیاد پر انھوں نے ڈارک میٹر کا وجود متصور کرلیا ہے۔

رواں برس ایک مفروضہ پیش کیا گیا تھا۔ اس مفروضے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کشش ثقل کے بارے میںہماری تفہیم، جو سب سے پہلے آئن اسٹان نے پیش کی تھی، یکسر غلط ہے۔ بہ الفاظ دیگر آئن اسٹائن کا نظریۂ اضافیت غلط ہے ! یہ مفروضہ ایمسٹرڈم یونی ورسٹی کے پروفیسر ایرک ورلندے نے پیش کیا ہے جو رواں سال کے اوائل میں ایک سائنسی جریدے میں شائع ہوا تھا۔ پروفیسر ایرک مفروضے میں ڈارک میٹر کے معمّے کا حل بھی پیش کرتے ہیں۔

ماہر طبیعیات کے مطابق ڈارک میٹر وجود ہی نہیں رکھتا۔ نیدرلینڈز کے سائنس دانوں نے اس مفروضے کو پرکھنے کے لیے تحقیقی مطالعات کیے۔ حیران کُن طور پر ان کی اسٹڈیز اس کے درست ہونے کا ثبوت پیش کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اگر یہ مفروضہ درست ثابت ہوجاتا ہے تو پھر علم طبیعیات کی موجودہ عمارت ڈھے جائے گی اور تمام اصول و ضوابط نئے سرے سے تحریر کرنے پڑیں گے۔

پروفیسر ورلندے کے مطابق ہمیں کشش ثقل پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے، اور اس کے لیے ڈارک میٹر کی نفی کرنا ضروری ہے۔ پروفیسر نے اپنے مفروضے میں یہ تصور مسترد کردیا ہے کہ کشش ثقل فطرت کی بنیادی قوت ہے۔ اس کے بجائے وہ اسے ایک ’ فجائی مظہر‘ (emergent phenomenon ) قرار دیتے ہیں۔

پروفیسر ورلندے کے مفروضے کو پرکھنے کے لیے لیڈن آبزرویٹری، نیدرلینڈز کے سائنس دانوں نے مارگوٹ بروور کی سربراہی میں تیس ہزار سے زائد کہکشاؤں میں مادّے کی تقسیم کا بہ غور مشاہدہ کیا۔ آخرکار انھوں نے دریافت کیا کہ ورلندے کے مفروضے سے کام لیتے ہوئے ڈارک میٹر کے بغیر مادّے کی تقسیم کی وضاحت کی جاسکتی ہے۔

کہکشاؤں کا مشاہدہ کرنے کے لیے تحقیقی ٹیم نے gravitational lensing سے کام لیا۔ کہکشاؤں کی کمیت معلوم کرنے کا یہ مستند طریقہ ہے۔ اس طریقے کا استعمال کرتے ہوئے محققین نے باری باری، آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت اور ورلندے کے مفروضے کو پیمانہ مقرر کرتے ہوئے کہکشاؤں کے بارے میں پیش گوئیاں کیں۔ انھوں نے دیکھا کہ کشش ثقل کے دونوں نظریات کے نتائج ایک ہی جیسے تھے مگر اہم بات یہ تھی کہ ورلندے کے نظریے میں کسی’ آزاد پیمانے‘ کا سہارا نہیں لیا گیا تھا۔

مارگوٹ کا کہنا تھا کہ ڈارک میٹر ماڈل کے نتائج ورلندے کے مفروضے سے قدرے بہتر تھے مگر اس نظریے میں آزاد پیمانوں سے مدد لی گئی ہے، اس کے برعکس ورلندے کے مفروضے میںکوئی آزاد پیمانہ نہیں ہے۔ یوںدراصل ورلندے کے مفروضے یا کشش ثقل کے ماڈل کی کارکردگی بہتر رہی ۔

اگر ورلندے کا پیش کردہ مفروضہ مزید آزمائشوں سے گزرکر نظریہ بن جاتا ہے تو پھر طبیعیات میں انقلاب برپا ہوجائے گا۔ آئن اسٹائن کا نظریہ غلط ثابت ہوجائے گا اس کے ساتھ ہی جدید طبیعیات کی تاریخ بھی ازسرنو لکھی جائے گی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔