نفرت برائے نفرت مسئلہ کا حل نہیں
بدقسمتی یہ کہ ہم نفرت کے خاتمے کیلئے مزید نفرت پھیلاتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے امن لانے کے لئے مزید جنگیں کرتے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے قصور مانیں اور امتیازات کو پس پُشت ڈالتے ہوئے انفرادی سطح پر اپنی ذمہ داری کا تعین کریں۔ فوٹو: ایکسپریس
KARACHI:
ہم میں سے کچھ ملالہ سے نفرت کرتے ہیں، کچھ ڈاکٹر عبدالسلام سے، کچھ ایدھی سے تو کچھ لوگ آپ سے اور مجھ سے بھی نفرت کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو دوسرے مذہب اور کسی اور مسلک کو برداشت نہیں کرتے اور ایک دوسرے کیخلاف نفرت اُن کے دل میں پنپتی رہتی ہے، اور اگر میں اِسی طرح لوگوں کی نفرت کے بارے میں بتاتا چلا جاؤں تو اوراق کم پڑجائیں گے لیکن منافرت ختم نہیں ہوگی۔ ایسا کیوں؟ کیونکہ ہم نفرت ختم کرنے کے لئے مزید نفرت پھیلاتے ہیں۔ بالکل اِسی طرح جیسے ہم امن لانے کے لئے مزید جنگیں کرتے ہیں۔
تاریخ پر اگر ایک غیرجانبدارنہ نظر دوڑائی جائے تو واضح ہوجائے گا کہ اِس نفرت نے کیا کیا تباہی کی داستانیں رقم کی ہیں۔ معاشرہ نفرت کرنے کی کئی وجوہات بتادے گا، میں مسلمانوں سے نفرت کیوں کروں؟ کیونکہ وہ دہشت گردی پھیلاتے ہیں۔ یہودیوں سے نفرت کیوں کروں؟ کیونکہ وہ فلسطین پر قابض ہیں اور یہ کہ وہ ہمارے ازلی دشمن ہیں۔ میں قندیل سے نفرت کیوں کروں؟ کیونکہ وہ تو تھی ہی ایسی ویسی عورت۔ بس اِسی طرح آپ پوچھتے جائیے اور وجوہات کا نا ختم ہونیوالا پلندہ ڈھیر ہوتا جائے گا۔
سچ تو یہ ہے کہ آپ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، وہ کرنے کی وجہ بہرصورت بن ہی جاتی ہے۔ لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا ہم امن و آشتی اور عدم تشدد کی فضاء قائم کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں تو کیسے؟ اِس سوال کا کھوج لگانے کے لئے ہم تین اہم پہلوؤں سے روشناس ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر آپ کسی بھی بات کو جواز بنا کر کسی دوسرے کو اپنے سے کم درجہ سمجھتے ہیں تو سماجی بگاڑ پیدا ہوتا ہے، جو لامحالہ دہشتگردی اور سماجی برائیوں کا سبب بنتا ہے۔ ہٹلر اپنے ساتھیوں سے تو ہمدردانہ رویہ رکھتا تھا مگر یہودیوں کو اپنے سے کم تر انسان سمجھتا تھا اور نتیجہ آپ کو معلوم ہے کہ لاکھوں انسان اُس کے ظلم کی نظر ہوئے۔ شیعہ کافر، احمدی غلط، قندیل بے غیرت، یہودی دشمن، عورت کم عقل تو قریب قریب سب مان لیتے ہیں مگر اِس بات سے متفق شاید نہ ہوں کہ اِن سب کو قتل کردینا چاہیئے، لیکن وہ 'کچھ لوگ' جن کا میں نے شروع میں ذکر کیا، قتل کرنے، ونی چڑھانے، دھماکہ کرنے اور نہ جانے کیا کیا کرنے کو تیار ہیں۔ اُن کو بس ہم جیسے تھوڑا بہت متفق ہونیوالوں کی تعداد چاہیئے تاکہ اُن کے خلاف ٹھوس اقدامات کا مطالبہ نہ ہو اور خون کا کھیل جاری رہے۔
ہم انسان اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ یہ قدرتی عمل ہے، لیکن اِس معاملے میں کچھ لوگ اِس حد تک گزر جاتے ہیں کہ اگر اُن کے خیالات کی پیروی نہ کی جائے تو مختلف سزائیں تجویز کرتے ہیں وگرنہ گالی پر اکتفا کرتے ہیں۔ بس، یہیں سے مسائل جنم لینا شروع ہوجاتے ہیں۔
روزانہ کئی انسان مذہب کے نام پر قتل ہوتے ہیں۔ کئی خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کئی بچوں کا بچپن چھین لیا جاتا ہے، لیکن ہمیں کیا؟ ہم تو ذمہ دار نہیں ہیں ناں، تو پھر یہ خون کی ہولی کون کھیل جاتا ہے؟ کبھی یہودیوں، امریکیوں، ہندوؤں تو کبھی کپڑوں اور سوچوں کی بنیاد پر الزام دَھر دَھر کے ہم نے اپنے مسائل کو کچھ دیر کے لئے چھپایا ہے، حل نہیں کیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اپنے قصور مانیں اور امتیازات کو پس پُشت ڈالتے ہوئے انفرادی سطح پر حلف اٹھائیں کہ،
اِس پیغام کو اپنے دوستوں تک بھی ضرور پہنچائیں اور محبت پھیلانے کا باقاعدہ آغاز کریں۔ محبت سے محبت بانٹنے والوں کی خیر ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ہم میں سے کچھ ملالہ سے نفرت کرتے ہیں، کچھ ڈاکٹر عبدالسلام سے، کچھ ایدھی سے تو کچھ لوگ آپ سے اور مجھ سے بھی نفرت کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو دوسرے مذہب اور کسی اور مسلک کو برداشت نہیں کرتے اور ایک دوسرے کیخلاف نفرت اُن کے دل میں پنپتی رہتی ہے، اور اگر میں اِسی طرح لوگوں کی نفرت کے بارے میں بتاتا چلا جاؤں تو اوراق کم پڑجائیں گے لیکن منافرت ختم نہیں ہوگی۔ ایسا کیوں؟ کیونکہ ہم نفرت ختم کرنے کے لئے مزید نفرت پھیلاتے ہیں۔ بالکل اِسی طرح جیسے ہم امن لانے کے لئے مزید جنگیں کرتے ہیں۔
تاریخ پر اگر ایک غیرجانبدارنہ نظر دوڑائی جائے تو واضح ہوجائے گا کہ اِس نفرت نے کیا کیا تباہی کی داستانیں رقم کی ہیں۔ معاشرہ نفرت کرنے کی کئی وجوہات بتادے گا، میں مسلمانوں سے نفرت کیوں کروں؟ کیونکہ وہ دہشت گردی پھیلاتے ہیں۔ یہودیوں سے نفرت کیوں کروں؟ کیونکہ وہ فلسطین پر قابض ہیں اور یہ کہ وہ ہمارے ازلی دشمن ہیں۔ میں قندیل سے نفرت کیوں کروں؟ کیونکہ وہ تو تھی ہی ایسی ویسی عورت۔ بس اِسی طرح آپ پوچھتے جائیے اور وجوہات کا نا ختم ہونیوالا پلندہ ڈھیر ہوتا جائے گا۔
سچ تو یہ ہے کہ آپ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، وہ کرنے کی وجہ بہرصورت بن ہی جاتی ہے۔ لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا ہم امن و آشتی اور عدم تشدد کی فضاء قائم کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں تو کیسے؟ اِس سوال کا کھوج لگانے کے لئے ہم تین اہم پہلوؤں سے روشناس ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
احساس برتری
اگر آپ کسی بھی بات کو جواز بنا کر کسی دوسرے کو اپنے سے کم درجہ سمجھتے ہیں تو سماجی بگاڑ پیدا ہوتا ہے، جو لامحالہ دہشتگردی اور سماجی برائیوں کا سبب بنتا ہے۔ ہٹلر اپنے ساتھیوں سے تو ہمدردانہ رویہ رکھتا تھا مگر یہودیوں کو اپنے سے کم تر انسان سمجھتا تھا اور نتیجہ آپ کو معلوم ہے کہ لاکھوں انسان اُس کے ظلم کی نظر ہوئے۔ شیعہ کافر، احمدی غلط، قندیل بے غیرت، یہودی دشمن، عورت کم عقل تو قریب قریب سب مان لیتے ہیں مگر اِس بات سے متفق شاید نہ ہوں کہ اِن سب کو قتل کردینا چاہیئے، لیکن وہ 'کچھ لوگ' جن کا میں نے شروع میں ذکر کیا، قتل کرنے، ونی چڑھانے، دھماکہ کرنے اور نہ جانے کیا کیا کرنے کو تیار ہیں۔ اُن کو بس ہم جیسے تھوڑا بہت متفق ہونیوالوں کی تعداد چاہیئے تاکہ اُن کے خلاف ٹھوس اقدامات کا مطالبہ نہ ہو اور خون کا کھیل جاری رہے۔
طریقہ تبلیغ و ترویج
ہم انسان اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ یہ قدرتی عمل ہے، لیکن اِس معاملے میں کچھ لوگ اِس حد تک گزر جاتے ہیں کہ اگر اُن کے خیالات کی پیروی نہ کی جائے تو مختلف سزائیں تجویز کرتے ہیں وگرنہ گالی پر اکتفا کرتے ہیں۔ بس، یہیں سے مسائل جنم لینا شروع ہوجاتے ہیں۔
احساسِ ذمہ داری
روزانہ کئی انسان مذہب کے نام پر قتل ہوتے ہیں۔ کئی خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کئی بچوں کا بچپن چھین لیا جاتا ہے، لیکن ہمیں کیا؟ ہم تو ذمہ دار نہیں ہیں ناں، تو پھر یہ خون کی ہولی کون کھیل جاتا ہے؟ کبھی یہودیوں، امریکیوں، ہندوؤں تو کبھی کپڑوں اور سوچوں کی بنیاد پر الزام دَھر دَھر کے ہم نے اپنے مسائل کو کچھ دیر کے لئے چھپایا ہے، حل نہیں کیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اپنے قصور مانیں اور امتیازات کو پس پُشت ڈالتے ہوئے انفرادی سطح پر حلف اٹھائیں کہ،
- میں کسی بھی وجہ یا فرق کو بنیاد بنا کر کبھی کسی سے امتیازی یا متشدد سلوک روا نہیں رکھوں گا۔
- میں نہ صرف نفرت آمیز گفتگو سےخود اجتناب کروں گا بلکہ دوسروں کو بھی یہی پیغام دوں گا۔
- اپنے گروہ کو درست ثابت کرنے یا اُس کی تبلیغ کے چکر میں کسی دوسرے گروہ کی تذلیل نہیں کروں گا۔
اِس پیغام کو اپنے دوستوں تک بھی ضرور پہنچائیں اور محبت پھیلانے کا باقاعدہ آغاز کریں۔ محبت سے محبت بانٹنے والوں کی خیر ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔