21 لیویز اہلکاروں کی شہادت

دہشت گردوں نے بے گناہ خاصہ دار اہلکاروں کو شہید کر کے ریاست کے خلاف کھلی جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔

شدت پسندوں کے ہاتھوں شہید اہلکاروں کو ان کے آبائی علاقوں میں سپرد خاک کردیا گیا ۔ فوٹو : فائل

HYDERABAD:
ایف آر پشاور سے چار روز قبل اغوا کیے گئے لیویز کے 23 اہلکاروں میں سے 21کو دہشت گردوں نے جبئی نامی علاقے میں فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا جب کہ ایک اہلکار زخمی ہوا ہے اور ایک معجزانہ طور پر فائرنگ سے بچ گیا ہے۔ ایف آر حکام نے لیویز اہلکاروں کے قتل کی تصدیق کر دی ہے۔ 19 شہدا کی نعشوں کی شناخت ہو گئی ہے۔ شہید ہونے والے ان اہلکاروں کو جمعرات کو حسن خیل چیک پوسٹ پر حملے کے بعد اغوا کیا گیا تھا۔

اس واقعے کی جو تفصیلات اخبارات میں شایع ہوئی تھیں اس کے مطابق جدید ترین ہتھیاروں سے لیس عسکریت پسندوں نے خاصہ دار فورس کی حسن خیل چیک پوسٹ پر حملہ کیا تھا۔ 4 اہلکار موقع پر ہی شہید ہوئے جب کہ 23 اغوا کر لیے گئے تھے۔ دہشت گردی کے اس واقعے کے بعد تحریک طالبان درہ آدم خیل کے ترجمان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے ان اہلکاروں کو یرغمال بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد حکام نے جرگہ بلا کر قبائلی مشران کو ان اہلکاروں کی بازیابی کے لیے تین دن کی مہلت دی تھی۔مگر دہشت گردوں نے ان اہلکاروں کو زندہ حوالے کرنے کے بجائے ان کی نعشیں بھجوا دیں۔

خاصہ دار فورس کے 21 اہلکاروں کی شہادت پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔ یہ اہلکار دہشت گردی کے خلاف وطن عزیز کی حفاظت پر مامور تھے مگر وہ خود دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دہشت گردوں نے ان بے گناہ اہلکاروں کو شہید کر کے ریاست کے خلاف کھلی جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ انھوں نے اس واقعے سے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ وہ ظلم کی کسی بھی انتہا تک جا سکتے ہیں۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا، اس سے پیشتر بھی دہشت گرد مسلح فورسز کی چوکیوں اور قافلوں پر حملے کر کے انھیں نقصان پہنچاتے رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ہماری بہادر فورسز کے سیکڑوں جوان اب تک جام شہادت نوش کر چکے ہیں مگر ان غازیوں کے حوصلے آج بھی بلند ہیں اور وہ پہلے سے بھی زیادہ عزم اور بہادری سے ان دہشت گردوں سے نمٹ رہے ہیں۔


عسکری اداروں اور امن وامان قائم کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں پر یہ حملے اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کو اندرون و بیرون ملک کچھ خفیہ طاقتور قوتیں سپورٹ کر رہی ہیں کیونکہ ان قوتوں کی معاونت کے بغیر دہشت گرد عسکری اداروں پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کر سکتے۔ لگتا ہے کہ اندرون ملک بھی ان کے حامی انتہائی مضبوط ہیں جو انھیں مالی اور اسلحے کے تعاون کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی خفیہ معلومات فراہم کر رہے ہیں۔ آستین میں چھپے ان سانپوں کی معاونت ہی ہے جن کی بدولت دہشت گرد ایک طویل عرصے سے اب تک اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ورنہ جس منظم انداز میں ہماری فورسز دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہیں ان کا نیٹ ورک کمزور پڑ چکا ہوتا اور ان میں اتنی جرأت سے حملہ کرنے کی استعداد نہ رہتی۔

خیبر پختونخوا دہشت گردوں کا ٹارگٹ بنا ہوا ہے۔اس صوبے کے سینئر وزیر بشیر احمد بلور کو ایک خود کش حملے میں شہید کیا جاچکا ہے۔یہ صورتحال اس امر کی غماض ہے کہ دہشت گرد ایک منصوبے کے تحت ریاستی اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنا رہے اور اس کے ساتھ ان سیاستدانوں کو بھی راستے سے ہٹا رہے ہیں جو روشن خیالی کے علمبردار ہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ ایک جانب تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کر رہے ہیں تو دوسری جانب چیک پوسٹوں پر حملے اور اہلکاروں کو اغوا کر کے شہید کیا جارہا ہے۔یہ کون سا طریقہ کار ہے کہ سینے میں گولیاں اتار کر دوستی کا خونی ہاتھ بڑھایا جائے ۔ ان لیویز اہلکاروں کی شہادت سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ دہشت گرد اپنی جنگ ترک کرنے پر تیار نہیں' یہ کھلی دھمکی ہے جس کا جواب دینے کے لیے حکومتی ارکان کو اب روایتی انداز ترک کر کے بھرپور جارحانہ انداز اپنانا ہو گا۔

دہشت گرد اب کسی رو رعایت کے مستحق نہیں ٹھہرتے۔یہ دہشت گرد پاکستانی علاقوں ہی میں چھپے ہوئے ہیں جہاں سے نکل کر وہ قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتے ہیں۔ ارباب اختیار کو قبائلی مشران اور پوری قوم کے تعاون سے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر آپریشن کرنا ہو گا۔ قبائلی علاقوں سے بھی ہزاروں جوانوں کو دہشت گردوں سے لڑنے کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے،ان کی معاونت انتہائی سود مند ثابت ہو گی۔ ہم پہلے بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں انگریز دور میں قائم کی گئی چھائونیوں اور چیک پوسٹوں کو بحال کر کے جدید ہتھیاروں اور آلات سے لیس اہلکار تعینات کیے جائیں۔ اس کے علاوہ فاٹا اور ایف آر کی آئینی اور قانونی پوزیشن میں تبدیلی لانا بھی ناگزیر ہے۔قبائلی علاقوں کو ملک کے دوسرے علاقوں کے برابر لانا، قبائلی عوام کا حق ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ ملک کی مذہبی و سیاسی قیادت بھی اپنے موقف اور رویے پر نظرثانی کرے۔

انھیں بھی روایتی سوچ سے نکل کر حالات کا جائزہ لینا چاہیے۔ دہشت گرد کسی کے دوست نہیں ہیں۔ ان کے نظریات اور خیالات اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ملک کی سیاسی اور مذہبی قیادت کا فرض ہے کہ وہ ملک کے مفاد کو مدنظر رکھ کر ایسا موقف اختیار کریں جس سے دہشت گرد ، ان کے ہمدرد اور پشت پناہ الگ تھلگ ہوجائیں۔ جب تک دہشت گردی کے اس سانپ کو کچلا نہیں جائے گا تب تک ایسے سانحات رونما ہوتے رہیں گے۔ ادھر مرکزی حکومت کا فرض ہے کہ وہ تمام مذہبی و سیاسی رہنمائوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرے اور اتفاق رائے سے دہشت گردوں کا ہمیشہ کے لیے قلع قمع کرنے کے لیے قدم بڑھائے۔ اندرون ملک بھی جو قوتیں دہشت گردوں کی ڈھکے چھپے حمایت کر رہی ہیں انھیں بھی یہ امر ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ اس طرح کی سوچ وطن عزیز کی سلامتی اور بقا کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ یہ وطن ہے تو ہم ہیں سب سے پہلی ترجیح وطن عزیز کی سلامتی ہونا چاہیے۔
Load Next Story