پاناما کا اصل فیصلہ عوام کی عدالت میں ہی ہو گا

مزمل سہروردی  اتوار 15 جنوری 2017
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاناما کا کیس عدالت عالیہ میں زیر سماعت ہے۔ فریقین پوری طا قت سے اپنا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ اور انصاف حا صل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن پاناما کا مقدمہ ایک مرتبہ پھر اعلیٰ عدلیہ سے عوام کی عدالت میں پہنچ رہا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جنہوں نے سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس کی سماعت کے آغاز پر نہ صرف اپنی احتجاجی تحریک ختم کر دی تھی بلکہ یوم تشکر منانے کا اعلان کر دیا تھا۔ اب دوبارہ پاناما پر عوامی جلسوں کی طرف جا رہے ہیں۔ انھوں نے اسی ماہ میں چار جلسوں کا مزید پروگرام بنا لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ سپریم کورٹ سے نا امید ہو گئے ہیں۔

ویسے بھی سپریم کورٹ نے اب تک جو ریمارکس دیے ہیں ان میں سب سے اہم ریمارکس یہی ہیں کہ سپریم کورٹ توقعات کے مطابق نہیں بلکہ قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرے گی۔ میاں نواز شریف کو عدالت میں طلب کرنے کا معاملہ بھی ممکن نظر نہیں آ رہا کیونکہ پاکستان کے قانون کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ کسی بھی ملزم کو اپنے خلاف گواہی دینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے جو یہ امید لگا کر بیٹھے ہیں کہ عدالت میاں نواز شریف یا ان کے بچوں کو عدالت بلا کر تفتیش کرے گی یہ ممکن نظر نہیں آرہا۔ میاں نواز شریف نے اپنا دفاع الگ کر کے خود کو مزید محفوظ کر لیا ہے۔ کیونکہ اب تک کے دلائل میں میاں نواز شریف کے وکیل کسی حد تک میاں نواز شریف کو اس مقدمہ سے الگ کرنے میں کامیاب نظر آ رہے ہیں۔ ایسے میں عمران خان کی نا امیدی سمجھ آ رہی ہے۔ ایسا ایک کمیشن میں ممکن تھا جس کو عمران خان پہلے ہی رد کر چکے ہیں۔ اسی لیے اب نعیم بخاری بھی غائب نظر آ رہے ہیں۔

دوسری طرف پاناما کے حوالہ سے بی بی سی کی اسٹوری نے بھی شور مچایا ہے۔ اس اسٹوری میں بھی نئی کوئی بات نہیں تھی۔ سوال بھی پرانے تھے۔ اس لیے جواب بھی پرانے ہی ہو سکتے تھے۔ حسین نواز صاحب ان سوالوں کا پہلے بھی جواب دے چکے ہیں۔ لیکن اس وقت کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے تو وہ دوران سماعت جواب نہیں دینے چاہتے ہوں گے اسی لیے بی بی سی کو جواب نہیں دیا گیا۔

حالانکہ جن فلیٹس کا اتنا شور ہے یہ پہلے دن سے دو کمپنیوں نیلسن اور نیسکول کی ملکیت ہیں۔ برطانیہ میں ا ن فلیٹس کی ملکیت میں شروع سے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ شریف خاندان کا کیس صرف یہی ہے کے 2006ء میں ان دو کمپنیوں کی ملکیت شریف خاندان کو مل گئی تھیں۔ اس سے پہلے یہ کمپنیاں شریف خاندان کی ملکیت میں نہیں تھیں۔ لہذا 2006ء سے پہلے یہ کمپنیاں جس کی ملکیت میں تھیں فلیٹس بھی اسی کی ملکیت میں تھے۔ شاید حسین نواز اور حسن نواز سپریم کورٹ میں بھی صرف یہی ثابت کریں گے کہ قطری کاروبار کے اختتام پر ان دو کمپنیوں کی ملکیت انھیں ملی جس کے نتیجے میں یہ فلیٹس مل گئے۔ اس لیے منی ٹریل اور منی لانڈرنگ جیسے الزمات ختم نظر آ رہے ہیں۔ یہ تو بک سیٹلمنٹ کا کیس لگ رہا ہے۔ جس کی کسی کو بھی توقع نہیں تھی۔

عمران خان اور ان کے رفقا بھی شاید سپریم کورٹ میں کوئی ثبوت اسی لیے نہیں پیش کر سکے کہ ان فلیٹس کی ملکیت میں لندن میں کبھی بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی جس کو وہ بطور ثبوت ا ستعمال کر سکتے۔ لندن میں کمپنیوں کے نام جائیداد خریدنا ایک عام رواج ہے اور خود عمران خان نے بھی لندن میں اپنا فلیٹ ایک کمپنی کے نام ہی خریدا تھا۔ اس لیے وہاں کمپنی کے نا م پر جائیداد کوئی غلط بات نہیں ہے۔

کیا عمران خان کی جانب سے دوبارہ عوامی عدالت میں جانے سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ عمران خان اور ان کی جماعت اس نتیجے پر پہنچ گئی ہے کہ سپریم کورٹ سے ان کی مرضی کا فیصلہ نہیں آرہا۔کیا نعیم بخاری درست کہہ رہے تھے کہ وکیل نہیں موکل کیس ہارتا ہے۔ اگر عمران خان آہستہ آہستہ سپریم کورٹ سے ناامید ہو رہے ہیں تو ان کے پاس اب آخری آپشن عوام کی عدالت ہی ہے۔

ویسے تو میاں نواز شریف بھی عوام کی عدالت کے فورم کو خالی نہیں چھوڑ رہے اور کسی نہ کسی بہانے سے عوامی اجتماع سے خطاب کو کوئی نہ موقع بنا ہی لیتے ہیں۔ انھیں شاید اس بات کا بخوبی انداذہ ہے کہ اس کیس کا آخری فیصلہ عوام کی عدالت میں ہی ہونا ہے۔

عوا م کی عدالت ہی کیوں آخری عدالت ہے۔ اس کو سمجھنے کیلیے مرحوم ذولفقار علی بھٹو کا کیس سب سے بہترین مثال ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے بھٹو کو پھانسی کی سزا دی۔ لیکن اس سزا کو عوام کی عدالت نے قبول نہیں کیا۔ عوام کی عدالت نے بلا شبہ بھٹو کو بے گناہ قرار دیا۔ اور بھٹو کی سیاست زندہ رہی۔

اسی طرح دوسری بہترین مثال آصف زرداری کی ہے۔ پاکستان کی تمام عدالتوں نے آصف زرداری کو کرپشن کیسز سے بری کر دیا ہے۔ لیکن شاید کہیں نہ کہیں عوام کی عدالت میں آصف زرداری اپنا مقدمہ ہار گئے ہیں۔ اسی ضمن میں میاں نواز شریف کو طیارہ ہائی جیک کیس میں سنائی جانیوالی سزا بھی ایک عمدہ مثال ہے۔ عوام کی عدالت نے اس سزا کو بھی جائز اور قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

ایسے میں عدالت عظمیٰ پاناما کیس کا کچھ بھی فیصلہ کرے۔ پاناما کیس کا اصل فیصلہ اگلے انتخابات میں ہی ہو گا۔ سیاسی منظر نامہ بتا رہا ہے کہ میاں نواز شریف کے مخالفین پاناما کو مرکزی نقطہ رکھ کر اگلی انتخابی مہم کی تیاری کر رہے ہیں۔جب کہ میاں نواز شریف اپنی حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر انتخاب لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

اس ضمن میں گزشتہ انتخاب کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ پیپلزپارٹی آئین کی بحالی صوبائی خود مختاری کے کریڈٹ کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگ رہی تھی جب کہ میاں نواز شریف لوڈ شیڈنگ اور حکومت کی دیگر بری کارکردگی کوسامنے لا رہے تھے اور عوام کو یہ یقین دلا رہے تھے کہ وہ ان کے یہ مسائل حل کریں گے ۔ ایک طرف پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت کی بری کارکردگی تھی اور دوسری طرف ن لیگ کی پنجاب حکومت کی گڈ گورننس تھی۔ ا ور عوام نے اپنے مسائل کو سامنے رکھ کر ووٹ دئے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کیا اگلے انتخاب میں عوام پاناما کے تناظر میں ووٹ دیں گے یا حکومتوں کی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیں گے۔

اگر عوام نے گڈ گورننس کی بنیاد پر ووٹ دیے تو شا ید عمران خان کے پاس کچھ نہیں ہو گا۔ وہ کے پی کے میں کچھ بھی بڑا نہیں کر سکے۔ انھوں نے پہلے دھاندلی پر وقت ضایع کیا اور انھیں کچھ حا صل نہیں ہوا۔ کیا اب وہ پاناما پر وقت ضایع کر رہے ہیں۔ کیا وہ پاناما کے ذریعے کے پی کے میں اپنی بری کارکردگی کو چھپا لیں گے۔ یا احسن اقبال خواجہ ٓاصف اور ن لیگ کے دیگر رہنماؤں کے مطابق پاناما چائے کی پیالی میں  طوفان سے زیادہ کچھ ثابت نہیں ہو گا۔ کیا عوام لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ پاک چین اقتصادی راہدری کے کریڈٹ کو ووٹ دیں گے یا پاناما کے شور سے متاثر ہو کر ووٹ دیں گے۔ یہ فیصلہ بہر حال عوام کو ہی کرنا ہے۔ اس لیے پاناما کا اصل فیصلہ عوام کی عدالت میں ہو گا۔ باقی سب شور ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔