پانی کے ذخائر کی کمیابی لمحہ فکریہ
آنے والے برسوں میں جنگیں پانی کے مسئلے پر ہی ہوںگی۔۔۔
آنے والے برسوں میں جنگیں پانی کے مسئلے پر ہی ہوںگی ۔ فوٹو؛ فائل
ترقی یافتہ ممالک کو یہ طرہ امتیازحاصل ہے کہ ان کی حکومتیں اور تھنک ٹینک اپنے مستقبل کی ضروریات کے پیش نظر برسوں پہلے پلاننگ کرتے ہیں، منصوبے بنا کر ان پر عمل درآمدکرتے ہیں ۔جب کہ وطن عزیز میں اس امر کا فقدان ہے، ذرا اس تشویش ناک انکشاف کو ہی لیجیے جو وفاقی وزیر منصوبہ بندی وترقیات احسن اقبال نے کیا ہے کہ پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف30دن کی ہے، جو بہت بڑا خطرہ ہے، زراعت و خوراک کے تحفظ کے لیے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر ناگزیر ہے۔
ہر پاکستانی کا اس خبر پرفکر مند ہونا فطری امر ہے۔ آنے والے برسوں میں جنگیں پانی کے مسئلے پر ہی ہوںگی۔ وفاقی وزیر نے پارلیمانی کمیٹی برائے چین پاک اقتصادی راہداری کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ دیامربھاشاڈیم منصوبے کی لاگت تقریباً 16ارب ڈالر ہے اوریہ آٹھ سال میں مکمل ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مسئلے کا حل ہے، جواب نفی میں آتا ہے ۔ سندھ طاس معاہدے پر بھارت پہلے ہی عمل نہیں کررہا، اور ہم اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکے۔ پاکستانی بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے، جو نہ صرف اپنے ملک کے بیس کروڑ عوام کی ضروریات پوری کرتا ہے بلکہ دیگر ممالک میں بھی زرعی اجناس برآمد کی جاتی ہیں لیکن اب تو صورتحال اتنی تشویش ناک ہوچکی ہے، کہ مستقبل میں ہمارے سرسبز ولہلہاتے کھیتوں میں ریت اڑتی نظر آرہی ہے۔کیونکہ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ہم نے ڈیمز نہیں بنائے ، کالا باغ ڈیم جیسا اہم منصوبہ اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث شروع ہی نہ کیا جاسکا ۔
بھارت اور چین کی روشن مثالیں موجود ہیں جنھوں نے ڈیمز بنا کر اپنے عوام کی خوراک کی ضروریات کو پورا کیا بلکہ اپنے ملکوں کو خود کفیل کیا۔ پاکستانی صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ملکی پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مختصر مدتی منصوبے بنائیں ،لاکھوں کیوسک سیلابی پانی ڈیمز نہ ہونے کے باعث سمندر میں جا گرتا ہے ، اسے استعمال میں لا کر نہ صرف سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا جاسکتا ہے بلکہ اسے ذخیرہ کر کے زرعی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ وافر مقدار میں بجلی بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔پانی کے ذخائر بنانے کے لیے ایمرجنسی پلان بنانے سے مسئلے کا دیرپا حل نکلے گا۔
ہر پاکستانی کا اس خبر پرفکر مند ہونا فطری امر ہے۔ آنے والے برسوں میں جنگیں پانی کے مسئلے پر ہی ہوںگی۔ وفاقی وزیر نے پارلیمانی کمیٹی برائے چین پاک اقتصادی راہداری کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ دیامربھاشاڈیم منصوبے کی لاگت تقریباً 16ارب ڈالر ہے اوریہ آٹھ سال میں مکمل ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مسئلے کا حل ہے، جواب نفی میں آتا ہے ۔ سندھ طاس معاہدے پر بھارت پہلے ہی عمل نہیں کررہا، اور ہم اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکے۔ پاکستانی بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے، جو نہ صرف اپنے ملک کے بیس کروڑ عوام کی ضروریات پوری کرتا ہے بلکہ دیگر ممالک میں بھی زرعی اجناس برآمد کی جاتی ہیں لیکن اب تو صورتحال اتنی تشویش ناک ہوچکی ہے، کہ مستقبل میں ہمارے سرسبز ولہلہاتے کھیتوں میں ریت اڑتی نظر آرہی ہے۔کیونکہ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ہم نے ڈیمز نہیں بنائے ، کالا باغ ڈیم جیسا اہم منصوبہ اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث شروع ہی نہ کیا جاسکا ۔
بھارت اور چین کی روشن مثالیں موجود ہیں جنھوں نے ڈیمز بنا کر اپنے عوام کی خوراک کی ضروریات کو پورا کیا بلکہ اپنے ملکوں کو خود کفیل کیا۔ پاکستانی صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ملکی پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مختصر مدتی منصوبے بنائیں ،لاکھوں کیوسک سیلابی پانی ڈیمز نہ ہونے کے باعث سمندر میں جا گرتا ہے ، اسے استعمال میں لا کر نہ صرف سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا جاسکتا ہے بلکہ اسے ذخیرہ کر کے زرعی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ وافر مقدار میں بجلی بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔پانی کے ذخائر بنانے کے لیے ایمرجنسی پلان بنانے سے مسئلے کا دیرپا حل نکلے گا۔