بے نامی اکاؤنٹس اور جائیدادوں کے خلاف بل منظور

ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن اور کرپٹ عناصر کے تحت غیر ممالک میں جائیدادوں کی منتقلی کی روک تھام کے لیے یہ ایک موثر قدم ہے

: فوٹو: فائل

سینیٹ میں بے نامی ترسیلات (ممانعت) بل 2016کی منظوری دے دی گئی ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن اور کرپٹ عناصر کے تحت غیر ممالک میں جائیدادوں کی منتقلی کی روک تھام کے لیے یہ ایک موثر قدم ہے، جو یقیناً ہمہ جہت مثبت پہلو رکھتا ہے۔ مذکورہ بل ایوان بالا کے اجلاس میں قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کردہ صورت میں زیر غور لایا گیا۔ واضح رہے کہ نیشنل اسمبلی نے پہلے ہی یہ بل پاس کیا ہوا ہے لیکن اجلاس میں منظور ہونے والی ترمیمات کے بعد یہ بل دوبارہ نیشنل اسمبلی میں پیش ہوکر منظور ہونے کے بعد قانون کا حصہ بن جائے گا۔ اجلاس میں بل میں ترمیم پیش کی گئی کہ بے نامی اکاؤنٹس کے ساتھ ساتھ ملکی اور غیر ملکی بے نامی جائیدادوں کو بھی شامل کیا جائے۔


یقیناً یہ ایک مستحسن اقدام ہے کیونکہ بے نامی ترسیلات کے ذریعے کرپشن کی راہیں کھلتی ہیں۔ وطن عزیز کی دولت کا کتنا ہی بڑا حصہ غیر ممالک کے اکاؤنٹس میں موجود ہے جس کا کوئی حساب کتاب نہیں، شنید ہے کہ دو سو ارب ڈالر تو محض سوئس بینکوں میں موجود ہیں، جس کی واپسی کے لیے وزیر داخلہ نے بارہا دعوے کیے لیکن پاکستان کے غربا اب تک اس عظیم سرمائے سے مستفیض ہونے سے قاصر ہیں۔ پانامہ لیکس بھی کرپشن کا وہ عظیم باب ہے جس کا دائرہ کار محض وزیراعظم کی فیملی تک محدود کردیا گیا ہے جب کہ پانامہ لیکس کی فہرست میں سیکڑوں پاکستانیوں کے نام سامنے آئے لیکن ان دیگر افراد کا میڈیا سمیت کسی فورم پر تذکرہ تک نہیں۔ بے نامی ٹرانزیکشنز بھی وہ ترسیلات ہیں جس میں کوئی پراپرٹی کسی دوسرے شخص کی رقم کے عوض ایک الگ شخص کے نام کردی جاتی ہے۔ اس طرح اصل مالک خفیہ پردوں کے پیچھے چھپا رہتا ہے۔

اگر کوئی شخص یہ چیز اپنی بیوی، اولاد یا قریبی رشتہ دار کے نام سے خریدے تو وہ جرم نہیں بلکہ تحفہ ہے، لیکن اگر کوئی قانونی پہلوؤں سے بچنے کے لیے ایسا کرے تو یہ صریحاً جرم کے زمرے میں شمار ہوگا۔ ان قانونی اسقام کا سہارا لے کر کرپشن اور کالا دھن سفید کرنے کے مواقع مجرموں کو حاصل ہوجاتے ہیں۔ صائب ہوگا کہ پاکستان میں کرپشن کے تمام راستے بند کیے جائیں اور غیر ممالک میں موجود پاکستانی رقوم کو واپس لایا جائے۔
Load Next Story