خود سوزی کی دھمکی سے معافی تک کا سفر
افسوس کہ نصرت سحر کے رویے سے یہ تاثر دیا گیا کہ عورت کیساتھ جب بھی ناانصافی ہوتی ہے تو وہ خود سوزی کیجانب مائل ہوتی ہے
نصرت عباسی نے ایوان سے باہر کیے گئے تمام دعووں اور وعدوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے وسیع القلبی کا ثبوت دیا اور وزیرِ موصوف کو چادر کے صدقے معاف کرنے کا اعلان کردیا۔
عورت بہل جاتی ہے محبت کے چند بول سن کر، میٹھی باتیں اُس کا دل موہ لیتی ہیں، مردوں کے معاشرے میں عورت کو دبا کر رکھا جاتا ہے، عورت ہے ہی مظلوم، چاہے وہ اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والی ہو یا اسمبلی میں بیٹھی ہو۔ یہ باتیں مجھے اپنے اِرد گرد موجود خواتین سے سننے کو ملیں جن سے میں نے عورت کے اختیار کے بارے میں سوال کیا۔
مجھے اُن کے جوابات سن کر حیرانی قطعاً نہیں ہوئی کیوںکہ مشرقی معاشرے میں عورت کی اسی شبیہہ کو سامنے لیا جاتا ہے، مظلومیت اور مشرقی عورت ترقی یافتہ معاشروں میں ایک استعارہ ہے۔ الزام مذہب کو دیا جاتا ہے کہ معاشرے میں عورت کے اختیار کو مذہب (اسلام) نے ختم کردیا ہے، مگر اِس بات سے مجھے قطعی طور پر اتفاق نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ فنکشنل کی رکن اسمبلی نصرت سحر عباسی اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے وزیر امداد پتافی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، اسمبلی میں ہونے والی اِس نوک جھونک کو میڈیا نے خوب اُچھالا، سوشل میڈیا پر بھی صوبائی وزیر کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے پی پی پی کے ذمہ داران کو بھی میدان میں آنا پڑا اور اور انہوں نے امداد پتافی کے رویے کی مذمت بھی کی اور بختاور اور آصفہ نے اپنے ٹوئٹر پیغامات کے ذریعے وزیر کے خلاف ایکشن کی یقین بھی دہانی کرائی۔
دوسری جانب نصرت سحر عباسی میڈیا کیمروں کے سامنے آئیں اور پٹرول کی ایک بوتل ہاتھ میں تھامے خود سوزی کی دھمکی بھی دی، اور قسم کھا کر یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر دو دنوں میں امداد پتافی کو اُن کی سیٹ سے نہ ہٹایا گیا تو وہ ایوان میں ہی خود کو آگ لگادیں گی، جبکہ معافی کا راستہ مکمل طور بند کردیا، اور اِس کی وجہ یہ بتائی کہ اب یہ مسئلہ صرف اُن کا نہیں رہا بلکہ پورے صوبے ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی خواتین کا مسئلہ بن چکا ہے۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ جیسے ہی وہ ایوان میں گئیں تو امداد پتافی نے مذکورہ خاتون سے معافی مانگی اور انہیں عزت بخشتے ہوئے ایک چادر عنایت کی۔ نصرت عباسی نے ایوان سے باہر کیے گئے تمام دعووں اور وعدوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے وسیع القلبی کا ثبوت دیا اور وزیرِ موصوف کو چادر کے صدقے معاف کرنے کا اعلان کردیا۔
لبرل ازم کی داعی پیپلزپارٹی، خواتین کی آزادی کی علمبردار پیپلزپارٹی اور عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دینے کا دعویٰ کرنے والی پیپلزپارٹی کے وزیر کا ''عورت'' کے حوالے سے یہ رویہ دیکھ کر میں حیران ہوں، لیکن اِس رویے نے ایک نظریے کو ختم کیا ہے کہ مذہب عورت کی آزادی کا قاتل ہے۔ جی نہیں، مذہب عورت کی آزادی کا قاتل نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی اور سماجی رویے عورت کی آزادی کے قاتل ہیں۔ یہی رویے عورت کو مظلوم دِکھا کر اپنے نظریات کو فروغ دیتے ہیں۔
ایک لمحے کو سوچئے! بھٹوں پر عورت سے جبری مشقت لینے والوں کا مذہب سے کیا تعلق؟ اسمبلی میں عورت کی نمائندگی کرنے والے خواتین کی تذلیل کرنے والے مذہب کے نمائندے کہاں سے ہوگئے؟ عورت کو ٹریکٹر ٹرالی کہنے والے اور اسے چیمبر میں دعوت دینے والوں کا تعلق کس مسجد سے ہے؟ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے جسے مذہب سے جوڑ دیا گیا ہے۔ آپ خود اپنے اطراف میں عورت کی مظلومیت، تضحیک اور تذلیل کی مثالیں ملاحظہ کریں ایسا کرنے والوں کا دور دور تک مذہب سے تعلق نظر نہیں آئے گا۔
میری اِس تحریر کا مقصد عورت کی آزادی پر اسلام اور لبرل ازم کے اثرات کی بحث کرنا نہیں ہے بلکہ مجھے قانون بنانے والوں، ایوان کی کرسیوں پر براجمان، عوام کے ووٹوں سے منتخب شدہ عوامی نمائندوں کے رویوں سے دکھ پہنچتا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے بنانے کے بجائے اسمبلی اجلاسوں میں شش شش، مم مم، ہش ہش کے نعرے اور آوازیں بلند کرتے رہتے ہیں، اسمبلیاں کلاس رومز کا منظر پیش کرتی ہیں، جیسے کلاس میں طالب علم شرارتوں سے جینا دوبھر کردیتے ہیں، ایسی ہی بچگانہ شرارتیں ممبران اسمبلی کرتے نظر آتے ہیں۔
عوام کے ووٹ سے منتخب ہوکر، عوام کے ٹیکسوں سے مراعات لے کر، عوام کی خون پسینے کی کمائی سے جاری اسمبلی اجلاسوں کو ایک اسٹیج شو، سرکس، مچھلی بازار اور کامیڈی پروگرام بنانا معمول سا بن گیا ہے۔ عوام اِس بارے میں اپنے نمائندوں سے پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اسمبلی کے اجلاس میں اگر جگت بازی کا مقابلہ کرنا ہے تو آپ سے بہتر ملک کا نظام تو اسٹیج کے فنکار چلا لیں گے۔ اگر اسمبلی اجلاس کو کامیڈی شو کا درجہ دینا ہے تو یقین جانیں پاکستانی کامیڈینز کا مقابلہ دنیا بھر کے کامیڈینز نہیں کرسکتے۔ مچھلی بازار ہی بنانا ہے تو کراچی کے مچھیرے آپ سے زیادہ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔
ہاں! اگر آپ عوام کے ٹیکس اور عوام کے ووٹ کا خیال نہیں رکھ سکتے تو عوام کے اندر اتنا شعور ہے کہ وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے آپ کو گھر کا راستہ بھی دِکھا سکتی ہے، پھر آپ کی مرضی ہے کہ آپ مچھلی منڈی سجائیں، سرکس چلائیں یا کامیڈی شو کی میزبانی اختیار کرلیں۔ دوسری جانب خواتین کے احترام کی بات کو لے کر دیکھا جائے تو عوامی نمائندے عوام کے رول ماڈل ہیں، اگر عوامی نمائندے ہی خواتین کی تذلیل کو اپنا وطیرہ بنالیں گے تو اِس سے عوام کو کیا تاثر جائے گا؟ ساتھ ہی خواتین کو بھی اپنی مظلومیت کا فائدہ نہیں اٹھانا چاہیئے۔
نصرت سحر کو جب میڈیا میں پزیرائی ملی تو انہوں نے میڈیا کے سامنے پیٹرول کی بوتل کا ڈرامہ رچایا جو کسی بھی صورت مناسب رویہ نہیں تھا۔ افسوس یہ کہ نصرت سحر کے رویے سے یہ تاثر دیا گیا کہ عورت کیساتھ جب بھی ناانصافی ہوتی ہے تو وہ خود سوزی کیجانب مائل ہوتی ہے۔ اِس لیے پٹرول کی بوتل لہرا کر خواتین کو جو پیغام دیا گیا اُس پر عوام سے مذکورہ ایم پی اے کو معافی مانگنی چاہیئے۔
ویسے سچ پوچھیے تو جناب اِس سارے کھیل کا ڈراپ سین بھی مجھے مضحکہ خیز ہی لگا کیوں کہ وزیرِ موصوف پارٹی کے دباؤ کے بعد معافی مانگنے پہنچے، اسمبلی اجلاس کے دوران نصرت سحر کو چادر پہنائی اور ''بہن'' کہہ کر بلایا، مگر میڈیا کے کیمروں نے اُن کے چہرے کی مضحکہ خیز اور ذومعنی مسکراہٹ کو قید کرلیا جس کا واضح تاثر یہ ہے کہ وہ انہیں ڈرامہ کوئین کہنے اور چیمبر میں بلانے میں حق بجانب تھے۔
اگر امداد پتافی کا نصرت سحر کو چیمبر میں بلانا پی پی پی کی ترقی پسندی پر ایک سوالیہ نشان ہے، تو دوسری جانب چادر کے ذریعے احترام کا رشتہ بنانا بھی مشرقی روایات کا آئینہ دار ہے۔
[poll id="1308"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
مجھے اُن کے جوابات سن کر حیرانی قطعاً نہیں ہوئی کیوںکہ مشرقی معاشرے میں عورت کی اسی شبیہہ کو سامنے لیا جاتا ہے، مظلومیت اور مشرقی عورت ترقی یافتہ معاشروں میں ایک استعارہ ہے۔ الزام مذہب کو دیا جاتا ہے کہ معاشرے میں عورت کے اختیار کو مذہب (اسلام) نے ختم کردیا ہے، مگر اِس بات سے مجھے قطعی طور پر اتفاق نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ فنکشنل کی رکن اسمبلی نصرت سحر عباسی اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے وزیر امداد پتافی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، اسمبلی میں ہونے والی اِس نوک جھونک کو میڈیا نے خوب اُچھالا، سوشل میڈیا پر بھی صوبائی وزیر کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے پی پی پی کے ذمہ داران کو بھی میدان میں آنا پڑا اور اور انہوں نے امداد پتافی کے رویے کی مذمت بھی کی اور بختاور اور آصفہ نے اپنے ٹوئٹر پیغامات کے ذریعے وزیر کے خلاف ایکشن کی یقین بھی دہانی کرائی۔
دوسری جانب نصرت سحر عباسی میڈیا کیمروں کے سامنے آئیں اور پٹرول کی ایک بوتل ہاتھ میں تھامے خود سوزی کی دھمکی بھی دی، اور قسم کھا کر یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر دو دنوں میں امداد پتافی کو اُن کی سیٹ سے نہ ہٹایا گیا تو وہ ایوان میں ہی خود کو آگ لگادیں گی، جبکہ معافی کا راستہ مکمل طور بند کردیا، اور اِس کی وجہ یہ بتائی کہ اب یہ مسئلہ صرف اُن کا نہیں رہا بلکہ پورے صوبے ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی خواتین کا مسئلہ بن چکا ہے۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ جیسے ہی وہ ایوان میں گئیں تو امداد پتافی نے مذکورہ خاتون سے معافی مانگی اور انہیں عزت بخشتے ہوئے ایک چادر عنایت کی۔ نصرت عباسی نے ایوان سے باہر کیے گئے تمام دعووں اور وعدوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے وسیع القلبی کا ثبوت دیا اور وزیرِ موصوف کو چادر کے صدقے معاف کرنے کا اعلان کردیا۔
لبرل ازم کی داعی پیپلزپارٹی، خواتین کی آزادی کی علمبردار پیپلزپارٹی اور عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دینے کا دعویٰ کرنے والی پیپلزپارٹی کے وزیر کا ''عورت'' کے حوالے سے یہ رویہ دیکھ کر میں حیران ہوں، لیکن اِس رویے نے ایک نظریے کو ختم کیا ہے کہ مذہب عورت کی آزادی کا قاتل ہے۔ جی نہیں، مذہب عورت کی آزادی کا قاتل نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی اور سماجی رویے عورت کی آزادی کے قاتل ہیں۔ یہی رویے عورت کو مظلوم دِکھا کر اپنے نظریات کو فروغ دیتے ہیں۔
ایک لمحے کو سوچئے! بھٹوں پر عورت سے جبری مشقت لینے والوں کا مذہب سے کیا تعلق؟ اسمبلی میں عورت کی نمائندگی کرنے والے خواتین کی تذلیل کرنے والے مذہب کے نمائندے کہاں سے ہوگئے؟ عورت کو ٹریکٹر ٹرالی کہنے والے اور اسے چیمبر میں دعوت دینے والوں کا تعلق کس مسجد سے ہے؟ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے جسے مذہب سے جوڑ دیا گیا ہے۔ آپ خود اپنے اطراف میں عورت کی مظلومیت، تضحیک اور تذلیل کی مثالیں ملاحظہ کریں ایسا کرنے والوں کا دور دور تک مذہب سے تعلق نظر نہیں آئے گا۔
میری اِس تحریر کا مقصد عورت کی آزادی پر اسلام اور لبرل ازم کے اثرات کی بحث کرنا نہیں ہے بلکہ مجھے قانون بنانے والوں، ایوان کی کرسیوں پر براجمان، عوام کے ووٹوں سے منتخب شدہ عوامی نمائندوں کے رویوں سے دکھ پہنچتا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے بنانے کے بجائے اسمبلی اجلاسوں میں شش شش، مم مم، ہش ہش کے نعرے اور آوازیں بلند کرتے رہتے ہیں، اسمبلیاں کلاس رومز کا منظر پیش کرتی ہیں، جیسے کلاس میں طالب علم شرارتوں سے جینا دوبھر کردیتے ہیں، ایسی ہی بچگانہ شرارتیں ممبران اسمبلی کرتے نظر آتے ہیں۔
عوام کے ووٹ سے منتخب ہوکر، عوام کے ٹیکسوں سے مراعات لے کر، عوام کی خون پسینے کی کمائی سے جاری اسمبلی اجلاسوں کو ایک اسٹیج شو، سرکس، مچھلی بازار اور کامیڈی پروگرام بنانا معمول سا بن گیا ہے۔ عوام اِس بارے میں اپنے نمائندوں سے پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اسمبلی کے اجلاس میں اگر جگت بازی کا مقابلہ کرنا ہے تو آپ سے بہتر ملک کا نظام تو اسٹیج کے فنکار چلا لیں گے۔ اگر اسمبلی اجلاس کو کامیڈی شو کا درجہ دینا ہے تو یقین جانیں پاکستانی کامیڈینز کا مقابلہ دنیا بھر کے کامیڈینز نہیں کرسکتے۔ مچھلی بازار ہی بنانا ہے تو کراچی کے مچھیرے آپ سے زیادہ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔
ہاں! اگر آپ عوام کے ٹیکس اور عوام کے ووٹ کا خیال نہیں رکھ سکتے تو عوام کے اندر اتنا شعور ہے کہ وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے آپ کو گھر کا راستہ بھی دِکھا سکتی ہے، پھر آپ کی مرضی ہے کہ آپ مچھلی منڈی سجائیں، سرکس چلائیں یا کامیڈی شو کی میزبانی اختیار کرلیں۔ دوسری جانب خواتین کے احترام کی بات کو لے کر دیکھا جائے تو عوامی نمائندے عوام کے رول ماڈل ہیں، اگر عوامی نمائندے ہی خواتین کی تذلیل کو اپنا وطیرہ بنالیں گے تو اِس سے عوام کو کیا تاثر جائے گا؟ ساتھ ہی خواتین کو بھی اپنی مظلومیت کا فائدہ نہیں اٹھانا چاہیئے۔
نصرت سحر کو جب میڈیا میں پزیرائی ملی تو انہوں نے میڈیا کے سامنے پیٹرول کی بوتل کا ڈرامہ رچایا جو کسی بھی صورت مناسب رویہ نہیں تھا۔ افسوس یہ کہ نصرت سحر کے رویے سے یہ تاثر دیا گیا کہ عورت کیساتھ جب بھی ناانصافی ہوتی ہے تو وہ خود سوزی کیجانب مائل ہوتی ہے۔ اِس لیے پٹرول کی بوتل لہرا کر خواتین کو جو پیغام دیا گیا اُس پر عوام سے مذکورہ ایم پی اے کو معافی مانگنی چاہیئے۔
ویسے سچ پوچھیے تو جناب اِس سارے کھیل کا ڈراپ سین بھی مجھے مضحکہ خیز ہی لگا کیوں کہ وزیرِ موصوف پارٹی کے دباؤ کے بعد معافی مانگنے پہنچے، اسمبلی اجلاس کے دوران نصرت سحر کو چادر پہنائی اور ''بہن'' کہہ کر بلایا، مگر میڈیا کے کیمروں نے اُن کے چہرے کی مضحکہ خیز اور ذومعنی مسکراہٹ کو قید کرلیا جس کا واضح تاثر یہ ہے کہ وہ انہیں ڈرامہ کوئین کہنے اور چیمبر میں بلانے میں حق بجانب تھے۔
اگر امداد پتافی کا نصرت سحر کو چیمبر میں بلانا پی پی پی کی ترقی پسندی پر ایک سوالیہ نشان ہے، تو دوسری جانب چادر کے ذریعے احترام کا رشتہ بنانا بھی مشرقی روایات کا آئینہ دار ہے۔
[poll id="1308"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں