کراچی کی حالت زار
آپریشن سے ہٹ کر سماجی اور معاشی پیکیج کا فیصلہ غربت ختم کرنے میں معاون ثابت ہو گا۔
آپریشن سے ہٹ کر سماجی اور معاشی پیکیج کا فیصلہ غربت ختم کرنے میں معاون ثابت ہو گا ۔ فوٹو فائل
ملک کے سب سے بڑے تجارتی اور کاروباری مرکز کراچی کو درپیش چیلنجز انتہائی چشم کشا ہیں۔ ایک طرف بابائے قوم کی جنم بھومی مسائل کے ناقابل یقین گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔ دوسری جانب جمعہ کو شہر قائد میں وزیراعظم نواز شریف نے کراچی حیدرآباد موٹر وے کے 75 کلومیٹر ٹریک کا افتتاح کیا اور اس کے تکمیل شدہ حصہ کا سفر بھی کیا، قبل ازیں سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ سید ناصر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ ایک پرانی شاہراہ پر لیپا پوتی کر کے اسے موٹر وے قراردینا تعجب انگیز ہے، صوبہ کے نئے گورنر کی حیثیت میں محمد زبیر عمر سے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ نے عہدے کا حلف لیا۔
گورنر نے یقین دلایا کہ وہ عوام کو ریلیف دلائیں گے، ادھرسندھ ہائی کورٹ کے حکم پر وزیراعلیٰ کے تمام مشیر اور معاونین خصوصی فارغ کر دیے گئے جن میں مولابخش چانڈیو، سعید غنی اور دیگر کے نام شامل ہیں، میئر کراچی وسیم اخترنے عدالتی کمیشن کے روبرو بیان دیا ہے کہ فراہمی و نکاسی آب کا نظام تباہ ہو چکا ہے، نالوں پر قبضہ ہے، غیر قانونی ہائیڈرینٹ چل رہے ہیں، قوانین کے خلاف بنائی گئی کثیرالمنزلہ عمارتیں مسائل بڑھا رہی ہیں۔
تاجر برادری نے مارکیٹوں میں گندگی اور کچرے کے ڈھیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بلدیاتی ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے، بجلی کے محکمہ نے ایک غریب خاتون کو ایک ماہ کا 50 ہزار کا بل بھیج دیا ہے، شہری صوبائی محتسب سے دادرسی کے لیے جوق در جوق پہنچ رہے ہیں جب کہ جمعرات کو پاکستان رینجرزسندھ نے لیاری کے پھول پتی لین میں مبینہ مقابلہ میں گینگ وار کے مرکزی کردار نور محمد عرف بابا لاڈلہ اور اس کے دو قریبی ساتھیوں کو ہلاک کر دیا۔
یوں شہر قائد بنیادی شہری سہولتوں سے محرومی کا استعارہ بن گیا ہے جو اپنی ماہیت میں گڈ گورننس کے فقدان کا شاخسانہ ہے، کراچی کی کوئی کل سیدھی نہیں، برس ہا برس کے مسائل وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا امتحان لے رہے ہیں، بلاشبہ شاہ صاحب متحرک اور فعال ہیں مگر جس ڈائنامک لیڈرشپ اور سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنے، مقامی حکومت کی بااختیاریت کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے وہ اسپرٹ کہاں سے لائی جائے گی جب کہ 50 ہزار والے مشیر لاکھوں روپے بطور تنخواہ وصول کرتے رہے ہیں، ایک ادارہ جاتی بحران پر شہری شکوہ کناں ہیں، بد عنوانی عروج پر ہے، سماجی و انتظامی تطہیر کے بغیر سندھ اپنے پیروں پر ہر گز کھڑا نہیں ہوسکتا۔
آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے کہا ہے کہ بابا لاڈلہ بڑا دہشتگرد اور کراچی میں خوف کی علامت اورگینگ وار کا بڑا بت تھا۔ بابا لاڈلا اور اس کے ساتھی پولیس افسران، سیاسی و سماجی رہنماؤں سمیت100سے زائدافرادکے قتل، اقدام قتل، اغوا برائے تاوان، پولیس مقابلوں، منشیات فروشی اور بھتہ خوری سمیت دیگر سنگین مقدمات میں پولیس کو مطلوب تھے، سندھ حکومت نے بابا لاڈلا کی گرفتاری پر 25 اور اس کے ساتھی سکندرعرف سکو کی گرفتاری پر 10 لاکھ روپے انعامی رقم مقرر کی تھی لیکن درد انگیز حقیقت یہ ہے کہ سیاسی وسیع المشربی، امن دوستی اور سیاسی شعور سے مالال مال محنت کشوں کے علاقے کو گینگ وار کی شرم ناک دلدل میں دھکیل دیا گیا۔
بابا لاڈلہ نے اپنے پسماندگان میں لواحقین کے علاوہ سیکڑوں نوجوان گینگسٹرز چھوڑے ہیں جو روزگار، سماجی تحفظ، اچھی تعلیم اور بہتر رہائش نہ ملنے کے باعث آیندہ بھی تاریک راہوں میں مارے جا سکتے ہیں، گینگ وار کے باعث فٹ بال، باکسنگ اور فنون لطیفہ سے وابستہ لوگ برباد ہوئے، گینگ وارکا ارتقا ریاستی، حکومتی تغافل اور فرسودہ تھانہ کلچر کے انحطاط اور جرائم پیشہ عناصر سے مالیاتی گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھا، گینگ وار کا ایک کردار گن ڈاؤن ہوا ہے تاہم گینگ وار کا سرغنہ عزیر بلوچ ابھی جیل میں ہے، کراچی سمیت لیاری کو ہر قسم کے جرائم پیشہ عناصر اور گینگز سے نجات ملنی چاہیے، بابا لاڈلہ کے بعد سب سے بڑا کام کراچی میں سٹریٹ کرائم کی بیخ کنی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ 2008ء سے لیاری میں گینگ وار کی لرزہ خیز وارداتوں کی کھلی چھوٹ کا پانچ سالہ دورانیہ خود سندھ حکومت کے لیے بدنامی کا باعث بنا، جہاں چار تھانے ناکام ہوئے تب رینجرز نے آپریشن کے لیے اختیارات مانگے اور کایا پلٹ دی۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ لیاری کے عوام کے رنج و مصائب کا ازالہ اور نوجوانوں کو روزگار مہیا کیا جائے، تعلیم و صحت اور تفریح کے مواقع میسر ہونے چاہئیں۔ ہزاروں ذہین افراد فنون لطیفہ کے ذریعہ لیاری کی نئی صبح کے طلوع ہونے کی آرزو رکھتے ہیں۔ لیاری پیکیج ایک صائب سماجی اور سیاسی اقدام ہوگا۔
آپریشن سے ہٹ کر سماجی اور معاشی پیکیج کا فیصلہ غربت ختم کرنے میں معاون ثابت ہو گا ، معاشی محرومیوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ بابا لاڈلہ بلاشبہ جرائم کی مقامی دنیا کا ایک دہشت انگیز کردار تھا ،لہٰذا اس کی موت نوجوان گینگسٹرز کے لیے درس عبرت ہے جو میڈیا کی چکا چوند میں زندگی کی بنیادی سہولتوں کو ترستے رہے جب کہ دہشتگردوں اور گینگ وار کمانڈروں کو ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی جرات کیسے ہوئی۔ ارباب اختیار کے لیے سوچنے کا وقت ہے کہ شہر قائد کیوں سسک رہا ہے؟
گورنر نے یقین دلایا کہ وہ عوام کو ریلیف دلائیں گے، ادھرسندھ ہائی کورٹ کے حکم پر وزیراعلیٰ کے تمام مشیر اور معاونین خصوصی فارغ کر دیے گئے جن میں مولابخش چانڈیو، سعید غنی اور دیگر کے نام شامل ہیں، میئر کراچی وسیم اخترنے عدالتی کمیشن کے روبرو بیان دیا ہے کہ فراہمی و نکاسی آب کا نظام تباہ ہو چکا ہے، نالوں پر قبضہ ہے، غیر قانونی ہائیڈرینٹ چل رہے ہیں، قوانین کے خلاف بنائی گئی کثیرالمنزلہ عمارتیں مسائل بڑھا رہی ہیں۔
تاجر برادری نے مارکیٹوں میں گندگی اور کچرے کے ڈھیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بلدیاتی ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے، بجلی کے محکمہ نے ایک غریب خاتون کو ایک ماہ کا 50 ہزار کا بل بھیج دیا ہے، شہری صوبائی محتسب سے دادرسی کے لیے جوق در جوق پہنچ رہے ہیں جب کہ جمعرات کو پاکستان رینجرزسندھ نے لیاری کے پھول پتی لین میں مبینہ مقابلہ میں گینگ وار کے مرکزی کردار نور محمد عرف بابا لاڈلہ اور اس کے دو قریبی ساتھیوں کو ہلاک کر دیا۔
یوں شہر قائد بنیادی شہری سہولتوں سے محرومی کا استعارہ بن گیا ہے جو اپنی ماہیت میں گڈ گورننس کے فقدان کا شاخسانہ ہے، کراچی کی کوئی کل سیدھی نہیں، برس ہا برس کے مسائل وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا امتحان لے رہے ہیں، بلاشبہ شاہ صاحب متحرک اور فعال ہیں مگر جس ڈائنامک لیڈرشپ اور سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنے، مقامی حکومت کی بااختیاریت کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے وہ اسپرٹ کہاں سے لائی جائے گی جب کہ 50 ہزار والے مشیر لاکھوں روپے بطور تنخواہ وصول کرتے رہے ہیں، ایک ادارہ جاتی بحران پر شہری شکوہ کناں ہیں، بد عنوانی عروج پر ہے، سماجی و انتظامی تطہیر کے بغیر سندھ اپنے پیروں پر ہر گز کھڑا نہیں ہوسکتا۔
آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے کہا ہے کہ بابا لاڈلہ بڑا دہشتگرد اور کراچی میں خوف کی علامت اورگینگ وار کا بڑا بت تھا۔ بابا لاڈلا اور اس کے ساتھی پولیس افسران، سیاسی و سماجی رہنماؤں سمیت100سے زائدافرادکے قتل، اقدام قتل، اغوا برائے تاوان، پولیس مقابلوں، منشیات فروشی اور بھتہ خوری سمیت دیگر سنگین مقدمات میں پولیس کو مطلوب تھے، سندھ حکومت نے بابا لاڈلا کی گرفتاری پر 25 اور اس کے ساتھی سکندرعرف سکو کی گرفتاری پر 10 لاکھ روپے انعامی رقم مقرر کی تھی لیکن درد انگیز حقیقت یہ ہے کہ سیاسی وسیع المشربی، امن دوستی اور سیاسی شعور سے مالال مال محنت کشوں کے علاقے کو گینگ وار کی شرم ناک دلدل میں دھکیل دیا گیا۔
بابا لاڈلہ نے اپنے پسماندگان میں لواحقین کے علاوہ سیکڑوں نوجوان گینگسٹرز چھوڑے ہیں جو روزگار، سماجی تحفظ، اچھی تعلیم اور بہتر رہائش نہ ملنے کے باعث آیندہ بھی تاریک راہوں میں مارے جا سکتے ہیں، گینگ وار کے باعث فٹ بال، باکسنگ اور فنون لطیفہ سے وابستہ لوگ برباد ہوئے، گینگ وارکا ارتقا ریاستی، حکومتی تغافل اور فرسودہ تھانہ کلچر کے انحطاط اور جرائم پیشہ عناصر سے مالیاتی گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھا، گینگ وار کا ایک کردار گن ڈاؤن ہوا ہے تاہم گینگ وار کا سرغنہ عزیر بلوچ ابھی جیل میں ہے، کراچی سمیت لیاری کو ہر قسم کے جرائم پیشہ عناصر اور گینگز سے نجات ملنی چاہیے، بابا لاڈلہ کے بعد سب سے بڑا کام کراچی میں سٹریٹ کرائم کی بیخ کنی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ 2008ء سے لیاری میں گینگ وار کی لرزہ خیز وارداتوں کی کھلی چھوٹ کا پانچ سالہ دورانیہ خود سندھ حکومت کے لیے بدنامی کا باعث بنا، جہاں چار تھانے ناکام ہوئے تب رینجرز نے آپریشن کے لیے اختیارات مانگے اور کایا پلٹ دی۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ لیاری کے عوام کے رنج و مصائب کا ازالہ اور نوجوانوں کو روزگار مہیا کیا جائے، تعلیم و صحت اور تفریح کے مواقع میسر ہونے چاہئیں۔ ہزاروں ذہین افراد فنون لطیفہ کے ذریعہ لیاری کی نئی صبح کے طلوع ہونے کی آرزو رکھتے ہیں۔ لیاری پیکیج ایک صائب سماجی اور سیاسی اقدام ہوگا۔
آپریشن سے ہٹ کر سماجی اور معاشی پیکیج کا فیصلہ غربت ختم کرنے میں معاون ثابت ہو گا ، معاشی محرومیوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ بابا لاڈلہ بلاشبہ جرائم کی مقامی دنیا کا ایک دہشت انگیز کردار تھا ،لہٰذا اس کی موت نوجوان گینگسٹرز کے لیے درس عبرت ہے جو میڈیا کی چکا چوند میں زندگی کی بنیادی سہولتوں کو ترستے رہے جب کہ دہشتگردوں اور گینگ وار کمانڈروں کو ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی جرات کیسے ہوئی۔ ارباب اختیار کے لیے سوچنے کا وقت ہے کہ شہر قائد کیوں سسک رہا ہے؟