- نان فائلرز کے موبائل بیلنس پر 100 میں سے 90 روپے ٹیکس کٹوتی کا فیصلہ
- خفیہ معلومات کی تشہیر اورپھیلانے والوں کو سزا دینے کا اعلان
- کراچی میں گرمی میں مزید اضافے کا امکان
- پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا امکان
- پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کا آغاز
- بابر اعظم دنیا کے کامیاب ترین ٹی 20 کپتان بن گئے
- شاہین کے 300 انٹرنیشنل شکار مکمل
- پاکستانی ایئرلائنز پر پابندی ختم کرنے کے تناظر میں پیش رفت کاامکان
- ہم ترقی یافتہ قوم کب بنیں گے؟
- اسلام آباد میں پی آئی اے پرواز خراب موسم کی زد میں آگئی، متعدد مسافر زخمی
- زہریلے کیمیکل کا استعمال، بھارتی غذائی اشیاء پرعالمی پابندیاں عائد
- اصلاحات کے ذریعے آئی ایم ایف پروگرام کو گیم چینجر بنانا ممکن
- پاکستان کیلیے چند سال آئی ایم ایف کے بغیر مشکل ہیں، برطانوی چیف اکانومسٹ
- انا چھوڑیں ٹیم کو دیکھیں
- استحکام کیلئے خودانحصاری کی طرف بڑھنا ہوگا!
- ہالا؛ قومی شاہراہ پر مسافر کوچ اور ٹرالر میں تصادم، 5 مسافر جاں بحق
- پکتیکا پر مبینہ حملہ، افغان طالبان نے پاکستانی وفد کا دورہ منسوخ کردیا
- وزیراعظم کا آزاد کشمیر کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار، ہنگامی اجلاس طلب
- بار بی کیو بنانے کیلئے جھاڑن کا استعمال، سوشل میڈیا صارفین کی تنقید
- ڈیمنشیا کے مریض موت سے پہلے نارمل کیوں ہوجاتے ہیں؟
ہاں! میں گولڈ میڈل بیچ آئی ہوں
روکو، روکو! ریورس کرو ۔۔۔ یہ وہی بدنصیب تھی، اُف خدایا! تو کیسی کیسی شاہکار تصویریں بناتا ہے مگر وہ کون ہے؟ جو تیری صنّائی کو بدصورتی کی انتہا تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ نوشین ہی تھی، حسین و جمیل، نامور یونیورسٹی کی گولڈ میڈلسٹ نوشین۔
ہڈیوں پر لپٹی ہوئی زرد کھال، حلقوں میں دھنسی ہوئی بے نور آنکھیں، ربڑ کی طرح میل میں جکڑے ہوئے بال، تن پر چیتھڑے لپیٹے وہ فُٹ پاتھ پر اوندھی پڑی تھی۔ بِھنبھناتی مکھیوں کی گھنی چادر نے اُسے ڈھکا ہوا تھا۔ نشے کے مریضوں کے ساتھ دن رات کام کرنے والی مجھ جیسی عادی عورت کو بھی اُسے دیکھ کر اُبکائیاں آرہی تھیں۔ یہ درد نوشین کی بدحالی کا نہیں تھا، یہ میری ناکامی کا درد تھا۔ تین مرتبہ اِس نامراد کا علاج کرنے کے باوجود میں اِسے اِس دلدل سے باہر کھینچ نکالنے میں ناکام رہی تھی۔
- مگر کیا میں نوشین کی حالت کی ذمہ دار ہوں؟
- کیا اِس کا ذمہ دار وہ عطائی ڈاکٹر ہے؟ جس نے پین کِلر انجکشن ٹھونک ٹھونک کر اُسے نشئی بنادیا؟
- کیا اِس کا ذمہ دار اُس کا شوہر ہے، جس نے بدنامی کے ڈر سے نوشین کا علاج نہیں کروایا اور جب پانی سر سے گزرگیا تو اپنے دو بچوں کی ماں کو طلاق دے کر گھر سے نکال باہر کیا؟
- کیا اِس کے ذمہ دار نوشین کے ماں باپ ہیں، جنہوں نے نشئی بیٹی کے لئے گھر کے دروازے بند کرلئے؟
- کیا اِس کے ذمے دار نوشین کے عزیز و اقارب ہیں جو اِسے اپنا رشتے دار ماننے ہی سے انکاری ہیں؟
- کیا اِس کے ذمہ دار وہ میڈیکل اسٹور والے ہیں، جو دوپیسوں کے لیے نشئیوں کو دھڑلے سے انجکشن بیچتے ہیں؟
- کیا اِس کی ذمہ دار معاشرے کی وہ نفرت و حقارت ہے جس نے اِسے بے حس بنادیا؟
- اِس بات کا کون ذمہ دار ہے کہ ایک ماں اپنی ممتا ہی سے بیگانی ہوگئی؟
کوئی نہ کوئی تو اِس کا ذمہ دار ہے، ہاں مگر بے چاری حکومت کا اِس میں کوئی قصور نہیں۔ حکومت غریب تو پانامہ کیس میں پھنسی ہوئی ہے، بم دھماکوں میں الجھی ہوئی ہے، لوڈ شیڈنگ کے جن سے پنجہ آزمائی کر رہی ہے، سی پیک کے تانے بانے بُن رہی ہے، بھارت کو دندان شکن جواب دے رہی ہے، پی ایس ایل کروارہی ہے، پریس کانفرنسں کر رہی ہے، ٹاک شوز کو گرما رہی ہے، حکومت کو کیا پڑی ہے کہ نشے میں رینگتے ہوئے کیڑے مکوڑوں کی طرف بھی توجہ دے۔ یہ تو آپ کا اور ہمارا کام ہے جو چندے مانگ مانگ کر خیراتی اسپتال چلائیں اور نشے کے مریضوں کا علاج کریں۔
اُف خدایا! زمین کیوں نہیں پھٹتی؟ آسمان کیوں نہیں ٹوٹتا، یہ محض ایک عام سی عورت نہیں یہ گولڈ میڈلسٹ طالبہ ہے، یہ ایک ماں ہے، ایک ماں ہے، ایک ماں ۔۔۔ ہاں ایک ماں جو ممتا ہی سے عاری ہے۔ جس کے بچے شہر کے ایک پوش علاقے کے مہنگے اسکول میں پڑھ رہے ہیں، مگر اُسے کیا خبر کہ اُس کے بچے کہاں اور کس حال میں ہیں، اُسے تو شاید اپنے بچوں کے نام تک نہ یاد ہوں گے۔
نوشین کا ہم نے کئی مرتبہ علاج کیا اور یہ ہر مرتبہ اِس یقین کے ساتھ گئی کہ اب کبھی نشہ نہیں کرے گی، مگر وہ کیا کرتی، وہ ایسے معاشرے میں عورت بن کر پیدا ہوئی تھی، جہاں عورت کے دامن پر لگا ہوا کوئی داغ کبھی نہیں دُھلتا۔ مرد نشے کا مریض ہو تو گھر والے دوست احباب سب اسپتال کے چکر لگاتے ہیں، فیملی سپورٹ پروگرام میں شریک ہوتے ہیں، مگر عورت ۔۔۔ توبہ توبہ! عورت ہوکر ایسی لت! اول تو عورت کو اسپتال نہیں لے جایا جاتا کہ لوگوں کو علم ہوگا تو ہماری بدنامی ہوگی، اور اگرعورت غلطی سے اسپتال پہنچ جائے تو اُس کے پیچھے بالکل نہیں جانا کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے، اور پھر کہیں غلطی سے عورت کا علاج ہو بھی جائے اور وہ نشہ چھوڑنے پر دل سے آمادہ ہو بھی جائے تو اُسے دوبارہ قبول نہ کرنا، ہمارے سو کالڈ معاشرے کا وہ وطیرہ جسے میں کم سے کم ایک دہائی سے بچشم خود دیکھ رہی ہوں۔
گھر سے فُٹ پاتھ تک کا نوشین کا سفر خاصا طویل اور بھیانک ہے۔ وہ کسی جھونپڑی سے فُٹ پاتھ پر نہیں آئی، وہ ایک پوش محل سے دھکیلی گئی ہے۔ اُس کے کل دو جرم ہیں۔ پہلا یہ کہ اُس نے نشہ کیا، اور دوسرا یہ کہ وہ عورت ہے۔ شاید عورت ہونا اُس کا بڑا جرم تھا، ورنہ پوش علاقوں کے مرد نشہ کرنے کے باوجود کبھی بے سہارا نہیں ہوتے۔
اُف میرے خدایا میں کیا کروں، میرے بس میں کچھ کردے میرے مالک! ہزاروں نوشین اور لاکھوں افراد یونہی کیڑے مکوڑوں کی طرح گل سڑ رہے ہیں۔ اِن لاوارثوں کا کوئی وارث نہیں، نہ حکومت نہ معاشرہ، البتہ میں میاں نواز شریف صاحب سے یہ ضرور کہنا چاہوں گی وہ اب اپنی ٹکسال میں سونے کے میڈل ڈھالنا بند کردیں کیوںکہ جب آخری مرتبہ نوشین علاج کے لئے آئی تھی تو میں نے اِس سے کہا تھا،
”جب بھی آتی ہو، سینٹر میں گولڈ میڈلسٹ گولڈ میڈلسٹ کا شور مچ جاتا ہے، کبھی ہمیں بھی اپنا گولڈ میڈل دکھاؤ“
تو وہ بڑی اُداس ہوکر بولی تھی،
”میڈیم! گولڈ میڈل تو میں کب کا بیچ آئی ہوں۔“
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔