ہاں! میں گولڈ میڈل بیچ آئی ہوں

فرحین نوید  بدھ 8 مارچ 2017
مرد نشے کا مریض ہو تو گھر والے دوست احباب سب اسپتال کے چکر لگاتے ہیں، فیملی سپورٹ پروگرام میں شریک ہوتے ہیں، مگر عورت ۔۔۔ توبہ توبہ!

مرد نشے کا مریض ہو تو گھر والے دوست احباب سب اسپتال کے چکر لگاتے ہیں، فیملی سپورٹ پروگرام میں شریک ہوتے ہیں، مگر عورت ۔۔۔ توبہ توبہ!

روکو، روکو! ریورس کرو ۔۔۔ یہ وہی بدنصیب تھی، اُف خدایا! تو کیسی کیسی شاہکار تصویریں بناتا ہے مگر وہ کون ہے؟ جو تیری صنّائی کو بدصورتی کی انتہا تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ نوشین ہی تھی، حسین و جمیل، نامور یونیورسٹی کی گولڈ میڈلسٹ نوشین۔

ہڈیوں پر لپٹی ہوئی زرد کھال، حلقوں میں دھنسی ہوئی بے نور آنکھیں، ربڑ کی طرح میل میں جکڑے ہوئے بال، تن پر چیتھڑے لپیٹے وہ فُٹ پاتھ پر اوندھی پڑی تھی۔ بِھنبھناتی مکھیوں کی گھنی چادر نے اُسے ڈھکا ہوا تھا۔ نشے کے مریضوں کے ساتھ دن رات کام کرنے والی مجھ جیسی عادی عورت کو بھی اُسے دیکھ کر اُبکائیاں آرہی تھیں۔ یہ درد نوشین کی بدحالی کا نہیں تھا، یہ میری ناکامی کا درد تھا۔ تین مرتبہ اِس نامراد کا علاج کرنے کے باوجود میں اِسے اِس دلدل سے باہر کھینچ نکالنے میں ناکام رہی تھی۔

  • مگر کیا میں نوشین کی حالت کی ذمہ دار ہوں؟
  • کیا اِس کا ذمہ دار وہ عطائی ڈاکٹر ہے؟ جس نے پین کِلر انجکشن ٹھونک ٹھونک کر اُسے نشئی بنادیا؟
  • کیا اِس کا ذمہ دار اُس کا شوہر ہے، جس نے بدنامی کے ڈر سے نوشین کا علاج نہیں کروایا اور جب پانی سر سے گزرگیا تو اپنے دو بچوں کی ماں کو طلاق دے کر گھر سے نکال باہر کیا؟
  • کیا اِس کے ذمہ دار نوشین کے ماں باپ ہیں، جنہوں نے نشئی بیٹی کے لئے گھر کے دروازے بند کرلئے؟
  • کیا اِس کے ذمے دار نوشین کے عزیز و اقارب ہیں جو اِسے اپنا رشتے دار ماننے ہی سے انکاری ہیں؟
  • کیا اِس کے ذمہ دار وہ میڈیکل اسٹور والے ہیں، جو دوپیسوں کے لیے نشئیوں کو دھڑلے سے انجکشن بیچتے ہیں؟
  • کیا اِس کی ذمہ دار معاشرے کی وہ نفرت و حقارت ہے جس نے اِسے بے حس بنادیا؟
  • اِس بات کا کون ذمہ دار ہے کہ ایک ماں اپنی ممتا ہی سے بیگانی ہوگئی؟

کوئی نہ کوئی تو اِس کا ذمہ دار ہے، ہاں مگر بے چاری حکومت کا اِس میں کوئی قصور نہیں۔ حکومت غریب تو پانامہ کیس میں پھنسی ہوئی ہے، بم دھماکوں میں الجھی ہوئی ہے، لوڈ شیڈنگ کے جن سے پنجہ آزمائی کر رہی ہے، سی پیک کے تانے بانے بُن رہی ہے، بھارت کو دندان شکن جواب دے رہی ہے، پی ایس ایل کروارہی ہے، پریس کانفرنسں کر رہی ہے، ٹاک شوز کو گرما رہی ہے، حکومت کو کیا پڑی ہے کہ نشے میں رینگتے ہوئے کیڑے مکوڑوں کی طرف بھی توجہ دے۔ یہ تو آپ کا اور ہمارا کام ہے جو چندے مانگ مانگ کر خیراتی اسپتال چلائیں اور نشے کے مریضوں کا علاج کریں۔

اُف خدایا! زمین کیوں نہیں پھٹتی؟ آسمان کیوں نہیں ٹوٹتا، یہ محض ایک عام سی عورت نہیں یہ گولڈ میڈلسٹ طالبہ ہے، یہ ایک ماں ہے، ایک ماں ہے، ایک ماں ۔۔۔ ہاں ایک ماں جو ممتا ہی سے عاری ہے۔ جس کے بچے شہر کے ایک پوش علاقے کے مہنگے اسکول میں پڑھ رہے ہیں، مگر اُسے کیا خبر کہ اُس کے بچے کہاں اور کس حال میں ہیں، اُسے تو شاید اپنے بچوں کے نام تک نہ یاد ہوں گے۔

نوشین کا ہم نے کئی مرتبہ علاج کیا اور یہ ہر مرتبہ اِس یقین کے ساتھ گئی کہ اب کبھی نشہ نہیں کرے گی، مگر وہ کیا کرتی، وہ ایسے معاشرے میں عورت بن کر پیدا ہوئی تھی، جہاں عورت کے دامن پر لگا ہوا کوئی داغ کبھی نہیں دُھلتا۔ مرد نشے کا مریض ہو تو گھر والے دوست احباب سب اسپتال کے چکر لگاتے ہیں، فیملی سپورٹ پروگرام میں شریک ہوتے ہیں، مگر عورت ۔۔۔ توبہ توبہ! عورت ہوکر ایسی لت! اول تو عورت کو اسپتال نہیں لے جایا جاتا کہ لوگوں کو علم ہوگا تو ہماری بدنامی ہوگی، اور اگرعورت غلطی سے اسپتال پہنچ جائے تو اُس کے پیچھے بالکل نہیں جانا کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے، اور پھر کہیں غلطی سے عورت کا علاج ہو بھی جائے اور وہ نشہ چھوڑنے پر دل سے آمادہ ہو بھی جائے تو اُسے دوبارہ قبول نہ کرنا، ہمارے سو کالڈ معاشرے کا وہ وطیرہ جسے میں کم سے کم ایک دہائی سے بچشم خود دیکھ رہی ہوں۔

گھر سے فُٹ پاتھ تک کا نوشین کا سفر خاصا طویل اور بھیانک ہے۔ وہ کسی جھونپڑی سے فُٹ پاتھ پر نہیں آئی، وہ ایک پوش محل سے دھکیلی گئی ہے۔ اُس کے کل دو جرم ہیں۔ پہلا یہ کہ اُس نے نشہ کیا، اور دوسرا یہ کہ وہ عورت ہے۔ شاید عورت ہونا اُس کا بڑا جرم تھا، ورنہ پوش علاقوں کے مرد نشہ کرنے کے باوجود کبھی بے سہارا نہیں ہوتے۔

اُف میرے خدایا میں کیا کروں، میرے بس میں کچھ کردے میرے مالک! ہزاروں نوشین اور لاکھوں افراد یونہی کیڑے مکوڑوں کی طرح گل سڑ رہے ہیں۔ اِن لاوارثوں کا کوئی وارث نہیں، نہ حکومت نہ معاشرہ، البتہ میں میاں نواز شریف صاحب سے یہ ضرور کہنا چاہوں گی وہ اب اپنی ٹکسال میں سونے کے میڈل ڈھالنا بند کردیں کیوںکہ جب آخری مرتبہ نوشین علاج کے لئے آئی تھی تو میں نے اِس سے کہا تھا،

”جب بھی آتی ہو، سینٹر میں گولڈ میڈلسٹ گولڈ میڈلسٹ کا شور مچ جاتا ہے، کبھی ہمیں بھی اپنا گولڈ میڈل دکھاؤ“

تو وہ بڑی اُداس ہوکر بولی تھی،

”میڈیم! گولڈ میڈل تو میں کب کا بیچ آئی ہوں۔“

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
فرحین نوید

فرحین نوید

فرحین نوید ایک سماجی کارکن ہیں، آپ ایک ماہرِ انسدادِ منشیات ہیں اور ڈرگ فری پاکستان فائونڈیشن میں بطور ڈائیریکٹر خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ علاوہ ازیں آپ ریاست ہائے متحدہ کے انٹرنیشنل وزیٹرز لیڈر شپ پروگرام (IVLP) اور ہبرٹ ہمفری ریسرچ فیلو کا حصہ بھی بن چکی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔