سلسلہ روز و شب
اب فوج کے ساتھ سول حکومت کو بھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ فوج آگے بڑھے اورایسے اقدامات کرے جیسے کہ سوات میں کیے گئے تھے۔
یہ تو صحیح ہے کہ پاکستان کے بارے میں خود پاکستانیوں اور دنیا والوں کے دلوں میں بڑی بے یقینی، بے اعتمادی اور مایوسی پیدا ہوگئی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی سیاست دانوں، سرکاری نظام چلانے والوں اور دوسرے کارپردازوں کو اس کا احساس نہیں ہے۔ پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ فوجی اعلیٰ قیادت نے بہت عرصے کے بعد یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستان کو باہر سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہاں پاکستان کو جو خطرہ ہے وہ ملک کے اندر سے ہے۔ یہ بالکل درست فیصلہ ہے۔
کلمہ حق یہ ہے کہ اس موضوع پر علمائے دین کی طرف سے ہی کوئی واضح اظہار برأت نہیں آیا۔ علما کا کچھ ایسا انداز رہا کہ جناب شیخ کا رخ اور نظر یوں بھی ہے اور یوں بھی۔ لیکن مولانا طاہرالقادری میری نظر میں وہ واحد مولوی ہیں جنہوں نے طالبان فکر اور عناصر کو دو ٹوک انداز میں گمراہی قرار دے دیا ہے۔ اس موضوع پر ان کی سوچی سمجھی رائے ہے اور مشہور تصانیف ہیں جن کی مغربی دنیا میں خصوصاً بڑی پذیرائی ہے۔
اب جس موضوع پر ہم بات کر رہے تھے وہ یہ کہ ہماری مشکلات کے بارے میں اخبارات اور ٹی وی میں بہت شور مچایا جارہا ہے لیکن حیرانی ہے کہ کوئی عملی حل نہیں پیش کیا جارہا، جس پر رہنماؤں کا اتفاق ہوسکے اور مسئلہ اپنے حل کی طرف بڑھے۔ ہم تو اس سے یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ ملکی حالات کا صاحبان اقتدار کو کوئی ادراک نہیں ہے اور اگر ہے تو وہ بہتری کی طرف بڑھنے کی کوئی صورت نکالنے میں سنجیدہ اور مخلص نہیں ہیں اور صاف بات یہ کہ وہ اس کے اہل نہیں ہیں۔ ان کی تمام توانائی اور ذہانت صرف اپنی جیب بھرنے اور اپنا اقتدار قائم رکھنے اور طول دینے میں صرف ہوجاتی ہے اور ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایسی لوٹ مار ہوتی رہے۔
عام پاکستانی یعنی بقیہ 98 فیصد کے لیے وہ کیا کر رہے ہیں؟ تو جواب یہ ہے کہ نہ تو انھیں ایسا کچھ کرنا آتا ہے اور نہ وہ کر رہے ہیں۔ ملکی منظرنامے میں امریکی پالیسیوں کا جو عمل دخل ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ یہاں دونوں طرف یعنی پاکستان اور امریکا کی جانب سے تضاد نظر آتا ہے۔ یہ کہ امریکا ہم پر شمالی وزیرستان پر حملہ کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے اور ساتھ ہی طالبان سے بھی گفت و شنید کر رہا ہے بلکہ اب تو امریکا انھیں چار صوبے بھی دے رہا ہے کہ وہ اس کا انتظام سنبھالیں ، اب افغان علاقوں میں چار صوبے مل رہے ہیں، باقی وزیرستان اور ازبکستانی سرحدوں کا نام وہ اسلامی جمہوریہ رکھ ہی چکے ہیں جب یہی صورتحال ہے تو پاکستان کو وزیرستان میں فوجی آپریشن کی کیا ضرورت ہے۔
اب فوج کے ساتھ سول حکومت کو بھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ فوج آگے بڑھے اورایسے اقدامات کرے جیسے کہ سوات میں کیے گئے تھے۔ ملالہ پر حملہ ایک علامت ہوگیا ہے یعنی یہ پاکستان کے لوگوں کے طرز حیات، انداز فکر، زندگی کی جدوجہد، آگے بڑھنے کی امنگ، علم کی روشنی کا حصول، دانش کو بروئے کار لانے کا جذبہ اور ایسی ترقی اور بہتری کے تمام جہد انسانی پر حملہ ہے۔ جو لوگ حملہ کر رہے ہیں وہ بہت طاقتور ہوگئے ہیں، ان کا طرز فکر یہ ہے جو ہمارے ہم خیال نہیں ہیں اور جو ہمارے طریقہ کار سے متفق نہیں ہیں وہ گردن زنی میں واجب القتل ہیں۔
اب ایک طرف یہ بھی ہے کہ عمران خان پرامید ہیں کہ وہ طالبان عناصر کے گروہ سے ڈائیلاگ کریں گے ان کو قائل کردیں گے اور اس میں سے اچھے طالبان کو الگ کردیں گے اور برے طالبان کو تنہا کردیں گے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طالبان میں جو برکی قبائل کے لوگ ہیں وہ ان کے قرابت دار ہیں، اس لیے کہ خان صاحب کی والدہ ماجدہ بھی برکی قبائل سے تعلق رکھتی ہیں۔ لہٰذا ان کے ننھیال والے ان کی بات سنیں گے۔ خدا کرے عمران خان کا یہ خیال قابل عمل ہو اور ان کی تمنا بر آئے، مگر سامنے کی بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ مولانا حسن جان اور مفتی نعیمی جیسے نیک لوگوں کو بھی نہیں بخشتے۔
اب دیکھیے کہ حکیم اﷲ محسود اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں۔ احسان اﷲ احسان کیا کہتے ہیں۔ رہا ان سے ڈائیلاگ، تو آپ ڈائیلاگ کریں یا نہ کریں امریکا تو ان سے ڈائیلاگ کر رہا ہے، وہ افغانستان کو آٹھ ٹکڑوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا قبلہ، طالبان کی فکر کے پیش نظر حکمرانی کریں گے جیسے کہ حامد کرزئی صاحب کر رہے ہیں، مگر طالبان تو ان سے بھی چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔ ایسی صورت میں معیشت پر کنٹرول تو امریکیوں اور یورپی یونین کا ہی ہوگا۔ غالباً پاکستان کے حوالے سے امریکا اور مغرب بھی یہی چاہتے ہیں۔ چلیے ہم نے مان لیا کہ عمران خان کا ڈائیلاگ کامیاب ہوگیا اور پاکستان میں انھی کے ہم خیال لوگ برسر اقتدار آگئے۔
یہاں تک تو ٹھیک ہے، مگر مشکل یہ ہے کہ جو اُن کا اسلام ہے، جو اُن کی شریعت ہے وہ ان کا خودساختہ نظریہ ضرورت کے مطابق ہے۔ اس کا تعلق سب سے ہوسکتا ہے مگر محمد عربیؐ سے نہیں ہوسکتا ہے اور نہ ہے۔ یہاں پھر فساد شروع ہوجاتا ہے اور بصورت عدم قبولیت دین طالبان کشت و خون کا سلسلہ پھر نئے سرے سے شروع ہوجاتا ہے۔ تو اب یہ مسلکی اختلاف بہت بڑی تباہی لاسکتا ہے جس کی ابتدا ہوچکی ہے اور آپ روز دیکھ رہے ہیں کہ ہزارہ کمیونٹی کس عذاب سے دوچار ہے؟ یہ سب تصورات ان تاثرات سے پیدا ہورہے ہیں جن کی عملی تصویر طالبان صاحبان نے اپنی فہم دین اور اس کے زیر اثر اعمال سے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور کررہے ہیں۔
آپ اخبارات میں پڑھیں، ٹی وی پر دیکھ رہے ہیں، لوگوں سے سن رہے ہیں اور دوسرے دن خود اس کا شکار ہورہے ہیں۔ عورتوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے، بچوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے، پولیو کے قطرے پلانے کے نیک کام کرنے والوں کا کیا حشر کیا جارہا ہے، دنیا حیران ہے، پاکستان دنیا کے سامنے نکو بن گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ وقت ایسا ہے کہ پاکستان کو طے کرلینا چاہیے کہ وہ ایسا ہی پاکستان چاہتے ہیں جیساکہ اس وقت لنگڑا رہا ہے، اگر ایسا ہے تو سوائے کشت و خون، مغربی غلامی، بے روزگاری اور لوٹ مار کے کچھ حاصل نہ ہوگا اور اگر وہ پاکستان چاہتے ہیں جیساکہ قائد اعظم چاہتے تھے اور جس کے لیے برصغیر کے لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں جانیں گئیں، جس کے لیے برصغیر کے جملہ مسلمانوں نے اپنی، زمینی، نسلی، لسانی، ثقافتی اور ملکی شناختوں کو قربان کردیا تھا، اس اعتماد اور بھروسے کی زمین کے حصول کے لیے دفن کردیا تھا اور والہانہ پاکستان کو اپنالیا تھا حالانکہ بقول شاعر:
ہم گراں گوش نہ تھے کیوں نہ سمجھ پائے حنیف
اک صدا آئی تھی آغاز سفر سے پہلے
خیر یہ تو تذکرے کے طور پر بات آگئی ورنہ ہمیں اس طرح دیکھنا چاہیے کہ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمیں ایک اتنا بڑا ملک پاکستان مل گیا اور یہ تو اس برصغیر کے جملہ مسلمانوں کی حق خود ارادیت تھی یعنی Sovereignityکا مظہر ہے۔ خدانخواستہ میرے منہ میں خاک اگر اپنی نالائقیوں اور بوالعجبیوں سے ہم نے اسے توڑ دیا تو پھر اس کے نہایت خطرناک نتائج ہوں گے اور پھر برصغیر میں مسلمانوں کو حق خودارادیت شاید کبھی نہ مل سکے گا۔
بصورت دیگر جو لوگ اپنی عجیب فہم دین کے مطابق خود کو ترجمان اسلام سمجھتے ہیں ان کا اقتدار قائم ہوگیا تو صورت حال قابو سے باہر ہوجائے گی۔ ذرا سوچیے دنیا خصوصاً مغربی دنیا ہمیں گھیر لے گی اور کیا حشر کرے گی جس کا تصور نہایت خوفناک ہے۔ یعنی تیسری عالمی جنگ کے خطرات ہیں۔ تو یہ بھی بڑی اہم بات ہے کہ طالبان عناصر سے ہمیں یک گونہ ہمدردی ہے اور ہمارے علمائے دین ظاہری اور باطنی طور پر ان کی ترک تازیوںکو یک گونہ صحیح سمجھتے ہیں۔ اس پر بہت سوچ بچار اور فیصلے کی ضرورت ہے۔
کلمہ حق یہ ہے کہ اس موضوع پر علمائے دین کی طرف سے ہی کوئی واضح اظہار برأت نہیں آیا۔ علما کا کچھ ایسا انداز رہا کہ جناب شیخ کا رخ اور نظر یوں بھی ہے اور یوں بھی۔ لیکن مولانا طاہرالقادری میری نظر میں وہ واحد مولوی ہیں جنہوں نے طالبان فکر اور عناصر کو دو ٹوک انداز میں گمراہی قرار دے دیا ہے۔ اس موضوع پر ان کی سوچی سمجھی رائے ہے اور مشہور تصانیف ہیں جن کی مغربی دنیا میں خصوصاً بڑی پذیرائی ہے۔
اب جس موضوع پر ہم بات کر رہے تھے وہ یہ کہ ہماری مشکلات کے بارے میں اخبارات اور ٹی وی میں بہت شور مچایا جارہا ہے لیکن حیرانی ہے کہ کوئی عملی حل نہیں پیش کیا جارہا، جس پر رہنماؤں کا اتفاق ہوسکے اور مسئلہ اپنے حل کی طرف بڑھے۔ ہم تو اس سے یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ ملکی حالات کا صاحبان اقتدار کو کوئی ادراک نہیں ہے اور اگر ہے تو وہ بہتری کی طرف بڑھنے کی کوئی صورت نکالنے میں سنجیدہ اور مخلص نہیں ہیں اور صاف بات یہ کہ وہ اس کے اہل نہیں ہیں۔ ان کی تمام توانائی اور ذہانت صرف اپنی جیب بھرنے اور اپنا اقتدار قائم رکھنے اور طول دینے میں صرف ہوجاتی ہے اور ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایسی لوٹ مار ہوتی رہے۔
عام پاکستانی یعنی بقیہ 98 فیصد کے لیے وہ کیا کر رہے ہیں؟ تو جواب یہ ہے کہ نہ تو انھیں ایسا کچھ کرنا آتا ہے اور نہ وہ کر رہے ہیں۔ ملکی منظرنامے میں امریکی پالیسیوں کا جو عمل دخل ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ یہاں دونوں طرف یعنی پاکستان اور امریکا کی جانب سے تضاد نظر آتا ہے۔ یہ کہ امریکا ہم پر شمالی وزیرستان پر حملہ کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے اور ساتھ ہی طالبان سے بھی گفت و شنید کر رہا ہے بلکہ اب تو امریکا انھیں چار صوبے بھی دے رہا ہے کہ وہ اس کا انتظام سنبھالیں ، اب افغان علاقوں میں چار صوبے مل رہے ہیں، باقی وزیرستان اور ازبکستانی سرحدوں کا نام وہ اسلامی جمہوریہ رکھ ہی چکے ہیں جب یہی صورتحال ہے تو پاکستان کو وزیرستان میں فوجی آپریشن کی کیا ضرورت ہے۔
اب فوج کے ساتھ سول حکومت کو بھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ فوج آگے بڑھے اورایسے اقدامات کرے جیسے کہ سوات میں کیے گئے تھے۔ ملالہ پر حملہ ایک علامت ہوگیا ہے یعنی یہ پاکستان کے لوگوں کے طرز حیات، انداز فکر، زندگی کی جدوجہد، آگے بڑھنے کی امنگ، علم کی روشنی کا حصول، دانش کو بروئے کار لانے کا جذبہ اور ایسی ترقی اور بہتری کے تمام جہد انسانی پر حملہ ہے۔ جو لوگ حملہ کر رہے ہیں وہ بہت طاقتور ہوگئے ہیں، ان کا طرز فکر یہ ہے جو ہمارے ہم خیال نہیں ہیں اور جو ہمارے طریقہ کار سے متفق نہیں ہیں وہ گردن زنی میں واجب القتل ہیں۔
اب ایک طرف یہ بھی ہے کہ عمران خان پرامید ہیں کہ وہ طالبان عناصر کے گروہ سے ڈائیلاگ کریں گے ان کو قائل کردیں گے اور اس میں سے اچھے طالبان کو الگ کردیں گے اور برے طالبان کو تنہا کردیں گے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طالبان میں جو برکی قبائل کے لوگ ہیں وہ ان کے قرابت دار ہیں، اس لیے کہ خان صاحب کی والدہ ماجدہ بھی برکی قبائل سے تعلق رکھتی ہیں۔ لہٰذا ان کے ننھیال والے ان کی بات سنیں گے۔ خدا کرے عمران خان کا یہ خیال قابل عمل ہو اور ان کی تمنا بر آئے، مگر سامنے کی بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ مولانا حسن جان اور مفتی نعیمی جیسے نیک لوگوں کو بھی نہیں بخشتے۔
اب دیکھیے کہ حکیم اﷲ محسود اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں۔ احسان اﷲ احسان کیا کہتے ہیں۔ رہا ان سے ڈائیلاگ، تو آپ ڈائیلاگ کریں یا نہ کریں امریکا تو ان سے ڈائیلاگ کر رہا ہے، وہ افغانستان کو آٹھ ٹکڑوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا قبلہ، طالبان کی فکر کے پیش نظر حکمرانی کریں گے جیسے کہ حامد کرزئی صاحب کر رہے ہیں، مگر طالبان تو ان سے بھی چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔ ایسی صورت میں معیشت پر کنٹرول تو امریکیوں اور یورپی یونین کا ہی ہوگا۔ غالباً پاکستان کے حوالے سے امریکا اور مغرب بھی یہی چاہتے ہیں۔ چلیے ہم نے مان لیا کہ عمران خان کا ڈائیلاگ کامیاب ہوگیا اور پاکستان میں انھی کے ہم خیال لوگ برسر اقتدار آگئے۔
یہاں تک تو ٹھیک ہے، مگر مشکل یہ ہے کہ جو اُن کا اسلام ہے، جو اُن کی شریعت ہے وہ ان کا خودساختہ نظریہ ضرورت کے مطابق ہے۔ اس کا تعلق سب سے ہوسکتا ہے مگر محمد عربیؐ سے نہیں ہوسکتا ہے اور نہ ہے۔ یہاں پھر فساد شروع ہوجاتا ہے اور بصورت عدم قبولیت دین طالبان کشت و خون کا سلسلہ پھر نئے سرے سے شروع ہوجاتا ہے۔ تو اب یہ مسلکی اختلاف بہت بڑی تباہی لاسکتا ہے جس کی ابتدا ہوچکی ہے اور آپ روز دیکھ رہے ہیں کہ ہزارہ کمیونٹی کس عذاب سے دوچار ہے؟ یہ سب تصورات ان تاثرات سے پیدا ہورہے ہیں جن کی عملی تصویر طالبان صاحبان نے اپنی فہم دین اور اس کے زیر اثر اعمال سے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور کررہے ہیں۔
آپ اخبارات میں پڑھیں، ٹی وی پر دیکھ رہے ہیں، لوگوں سے سن رہے ہیں اور دوسرے دن خود اس کا شکار ہورہے ہیں۔ عورتوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے، بچوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے، پولیو کے قطرے پلانے کے نیک کام کرنے والوں کا کیا حشر کیا جارہا ہے، دنیا حیران ہے، پاکستان دنیا کے سامنے نکو بن گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ وقت ایسا ہے کہ پاکستان کو طے کرلینا چاہیے کہ وہ ایسا ہی پاکستان چاہتے ہیں جیساکہ اس وقت لنگڑا رہا ہے، اگر ایسا ہے تو سوائے کشت و خون، مغربی غلامی، بے روزگاری اور لوٹ مار کے کچھ حاصل نہ ہوگا اور اگر وہ پاکستان چاہتے ہیں جیساکہ قائد اعظم چاہتے تھے اور جس کے لیے برصغیر کے لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں جانیں گئیں، جس کے لیے برصغیر کے جملہ مسلمانوں نے اپنی، زمینی، نسلی، لسانی، ثقافتی اور ملکی شناختوں کو قربان کردیا تھا، اس اعتماد اور بھروسے کی زمین کے حصول کے لیے دفن کردیا تھا اور والہانہ پاکستان کو اپنالیا تھا حالانکہ بقول شاعر:
ہم گراں گوش نہ تھے کیوں نہ سمجھ پائے حنیف
اک صدا آئی تھی آغاز سفر سے پہلے
خیر یہ تو تذکرے کے طور پر بات آگئی ورنہ ہمیں اس طرح دیکھنا چاہیے کہ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمیں ایک اتنا بڑا ملک پاکستان مل گیا اور یہ تو اس برصغیر کے جملہ مسلمانوں کی حق خود ارادیت تھی یعنی Sovereignityکا مظہر ہے۔ خدانخواستہ میرے منہ میں خاک اگر اپنی نالائقیوں اور بوالعجبیوں سے ہم نے اسے توڑ دیا تو پھر اس کے نہایت خطرناک نتائج ہوں گے اور پھر برصغیر میں مسلمانوں کو حق خودارادیت شاید کبھی نہ مل سکے گا۔
بصورت دیگر جو لوگ اپنی عجیب فہم دین کے مطابق خود کو ترجمان اسلام سمجھتے ہیں ان کا اقتدار قائم ہوگیا تو صورت حال قابو سے باہر ہوجائے گی۔ ذرا سوچیے دنیا خصوصاً مغربی دنیا ہمیں گھیر لے گی اور کیا حشر کرے گی جس کا تصور نہایت خوفناک ہے۔ یعنی تیسری عالمی جنگ کے خطرات ہیں۔ تو یہ بھی بڑی اہم بات ہے کہ طالبان عناصر سے ہمیں یک گونہ ہمدردی ہے اور ہمارے علمائے دین ظاہری اور باطنی طور پر ان کی ترک تازیوںکو یک گونہ صحیح سمجھتے ہیں۔ اس پر بہت سوچ بچار اور فیصلے کی ضرورت ہے۔