بھٹو کی ایک یادگار پریس کانفرنس
بھٹو صاحب بڑے حساس اور نازک مزاج تھے۔ صرف ایک لفظ پر جذباتی ہو گئے تھے۔
ایک بار پشاور میں بھٹو کی پریس کانفرنس تھی۔یونیورسٹی ٹاؤن میں حیات شیر پاؤ کے اسی چھوٹے سے بنگلے میں۔ اسی چھوٹے سے کمرے میں جہاں بغیر بازو والی کرسیاں پڑی تھیں جن پر نصف درجن سے کم صحافی بیٹھ سکتے تھے۔
اخبار نویس انتظار کر رہے تھے کہ بھٹو تیزی سے آکر اخبارنویسوں کے بیچ میں بیٹھ گئے۔ درجنوں بڑے بڑے جلسوں اور لمبے لمبے جلوسوں سے خطاب کرنے کے باوجود بھٹو کا چہرہ تر و تازہ تھا۔بھٹو اسی طرح صحت مند تھے جس طرح وہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی کابینہ میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے تھے۔ پریس کانفرنس ہمیشہ انگریزی میں ہوتی اور پھر انگریزی بولنے میں بھٹو کی ایسی روانی ہوتی کہ صحافیوں کا قلم بھی ساتھ چھوڑ دیتا۔
سوالات بھی انگریزی میں ہوتے۔ہمارے بزرگ صحافی قدوس صہبائی مرحوم ایک انگریزی اخبار کے لیے کام کرتے تھے۔بڑے دلیر اور ایمان دارانسان تھے، پریس کانفرنسوں میں جھگڑالو بھی ۔لیڈروں کوہر پوائنٹ پر پکڑکر الجھا دیتے، بحث کرتے، دلیل کو دلیل سے رد کرتے چلے جاتے، سوالات کی بوچھاڑ کرتے، اور اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک اس لیڈر کا بلڈ پریشر ہائی نہ کر ڈالتے، اور اسے اچھلتا دیکھ کر ہی چھوڑتے۔ پھر ہماری طرف طنزیہ مسکراہٹ سے بھی دیکھتے۔ یوں لگتا جیسے وہ پہلوانوں کی طرح پریس کانفرنس والے کے ساتھ کشتی لڑ رہے اور اپنے داؤ پیچ سے اسے پچھاڑنے میں لگے ہوئے ہوں۔
یہ صہبائی صاحب تھے جو بھٹو پر پے در پے سوالات کرتے جاتے تھے۔اِکا دکا سوال اِدھرادھر سے بھی آ جاتا ۔یہ صہبائی صاحب ہی کا کام تھا کہ وہ بھٹو جیسے شعلہ بیاں مقرر سے نمٹ لیتے۔صہبائی صاحب نے پریس کانفرنس سے تھوڑی دیر پہلے مجھے بتایا کہ آج وہ بھٹو صاحب پر سوالات کی زبردست بمباری کرنے والے ہیں۔ دس سوالات ٹائپ شدہ لایا ہوں جو ''ڈان'' کراچی نے بھیجے ہیں۔پریس کانفرنس میں جب سوالات کا وقت آیا تو صہبائی صاحب نے جیب سے کاغذ نکالا اور بھٹو صاحب سے کہا۔ٹائپ شدہ دس سوالات ہیں۔
بھٹو کہنے لگے بولیں ، بولیں، بارہ سوالات کیوں نہیں لائے ۔بھٹو نے از راہ تفنن طبع مسکراتے ہوئے کہا۔صہبائی صاحب انگریزی میں لکھا ہوا پہلا سوال پڑھ رہے تھے کہ بھٹو کا موڈ خراب ہو گیا۔ صہبائی صاحب نے انگریزی میں اپنے سوال میں جو کہا وہ انگریزی میں یوں تھا۔if you grab power Mr Bhutto ۔ اس کا ترجمہ کچھ یوں تھاـ ''بھٹو صاحب ۔اگر آپ نے اقتدار چھین لیا تو...''ابھی یہ الفاظ صہبائی صاحب کے منہ سے نکلے ہی تھے اور ابھی سوال مکمل ہونے بھی نہ پایا تھا کہ بھٹو صاحب ناراض ہو گئے۔ غصے اور جذبات میں آگئے۔ کہنے لگے ۔''میں اقتدار کیوں چھینوں گا، میں تو اقتدار چھوڑ کر آیا ہوں، اقتدار پر تو کسی اور کا قبضہ ہے، میں تو وہ قبضہ ختم کرانے آیا ہوں، میں اقتدار پر کیوں قبضہ کروں گا'' بھٹو صاحب بڑے حساس اور نازک مزاج تھے۔ صرف ایک لفظ پر جذباتی ہو گئے تھے۔
میں اس وقت بھٹو کے ساتھ بیٹھا تھا۔میں نے دیکھا کہ بھٹو کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔آنکھیں 'پرنم ہو گئی تھیں ۔بھٹوصاحب کو اگر صہبائی صاحب گالی دے دیتے تو شاید وہ اتنا محسوس نہ کرتے جتنا اس لفظ کے استعمال سے بھٹو خفا ہو گئے تھے۔ انگریزی کے الفاظ تھے۔بھٹوصاحب نے صہبائی صاحب سے کہاکہ آپ تو سینئر جرنلسٹ ہیں۔آپ کو تومیرے لیے grab power کے الفاظ نہیں استعمال کرنے چاہیے تھے۔صہبائی صاحب نے کہا۔یہ ''ڈان '' کے سوالات ہیں۔ میرے نہیں ہیں۔ تاہم صہبائی صاحب نے کہا کہ اچھا یوں کہہ دیتے ہیں کہ اگر آپ اقتدار میں آگئے تو... ۔if you come into power۔
بھٹو نے فوراً کہا۔ ہاں ۔یوں کہیں۔''اقتدار پر قبضہ کرنے ''کے الفاظ کی جگہ '' اقتدار میں آنے ''کے الفاظ استعمال ہوئے تو تب کہیں جاکر بھٹو کے جذبات ٹھنڈے ہوئے۔ورنہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں بھٹو پریس کانفرنس کا بائیکاٹ نہ کردیں اور کہیں اُٹھ کر کمرہ سے نکل نہ جائیں ۔پھر بھٹو نے اس سوال کا تفصیلی جواب دیا اور صہبائی صاحب کو مزید سوالات کا موقع نہ دیا بلکہ ان کے ہاتھ سے وہ کاغذ لے لیا۔جس پر سوالات ٹائپ شدہ تھے اور ایک ایک سوال خود ہی پڑھتے گئے اور جواب دیتے گئے۔
حسب معمول حیات شیر پاؤ نے بھٹو صاحب اور اخبار نویسوں کے سامنے چائے بھی رکھ دی تھی۔سادہ کیک تھے، کچھ نمکین بسکٹ تھے اور کچھ میٹھے، چارسدہ کا پستے بادام اور گریوں والا گڑبھی تھا۔ مگر بھٹو صاحب کے موڈ کو دیکھ کر کسی نے بھی چائے کو ہاتھ نہ لگایا بلکہ صہبائی صاحب کے لکھے ہوئے سوالات کے جوابات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔
بھٹو جلدی جلدی ان سوالات کو سرسری طور پر پڑھتے گئے اورمختصر جواب دیتے گئے۔ اور پھر وہ کاغذ وہیں چھوڑ کر چائے پیئے بغیر اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ ورنہ بھٹو ہمیشہ پشاور میں پریس کانفرنس کے بعد اخبارنویسوں کے ساتھ چائے پیتے تھے اور اس دوران گپ شپ بھی کرتے تھے اور اس کے بعد ایک ایک صحافی سے ہاتھ ملا ملاکر رخصت بھی کرتے تھے۔ایک بار پشاور میں بھٹو کی پریس کانفرنس ہوئی۔ حیات شیر پاؤ نے پریس کانفرنس کے بعد مجھے کہا ، ثنا اللہ تم ٹھہر جاؤ، بھٹو صاحب تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ ملاقات میں بھٹو صاحب نے کیا کہا ۔ اس کی تفصیل اگلے کالم میں دیکھئے۔
اخبار نویس انتظار کر رہے تھے کہ بھٹو تیزی سے آکر اخبارنویسوں کے بیچ میں بیٹھ گئے۔ درجنوں بڑے بڑے جلسوں اور لمبے لمبے جلوسوں سے خطاب کرنے کے باوجود بھٹو کا چہرہ تر و تازہ تھا۔بھٹو اسی طرح صحت مند تھے جس طرح وہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی کابینہ میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے تھے۔ پریس کانفرنس ہمیشہ انگریزی میں ہوتی اور پھر انگریزی بولنے میں بھٹو کی ایسی روانی ہوتی کہ صحافیوں کا قلم بھی ساتھ چھوڑ دیتا۔
سوالات بھی انگریزی میں ہوتے۔ہمارے بزرگ صحافی قدوس صہبائی مرحوم ایک انگریزی اخبار کے لیے کام کرتے تھے۔بڑے دلیر اور ایمان دارانسان تھے، پریس کانفرنسوں میں جھگڑالو بھی ۔لیڈروں کوہر پوائنٹ پر پکڑکر الجھا دیتے، بحث کرتے، دلیل کو دلیل سے رد کرتے چلے جاتے، سوالات کی بوچھاڑ کرتے، اور اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک اس لیڈر کا بلڈ پریشر ہائی نہ کر ڈالتے، اور اسے اچھلتا دیکھ کر ہی چھوڑتے۔ پھر ہماری طرف طنزیہ مسکراہٹ سے بھی دیکھتے۔ یوں لگتا جیسے وہ پہلوانوں کی طرح پریس کانفرنس والے کے ساتھ کشتی لڑ رہے اور اپنے داؤ پیچ سے اسے پچھاڑنے میں لگے ہوئے ہوں۔
یہ صہبائی صاحب تھے جو بھٹو پر پے در پے سوالات کرتے جاتے تھے۔اِکا دکا سوال اِدھرادھر سے بھی آ جاتا ۔یہ صہبائی صاحب ہی کا کام تھا کہ وہ بھٹو جیسے شعلہ بیاں مقرر سے نمٹ لیتے۔صہبائی صاحب نے پریس کانفرنس سے تھوڑی دیر پہلے مجھے بتایا کہ آج وہ بھٹو صاحب پر سوالات کی زبردست بمباری کرنے والے ہیں۔ دس سوالات ٹائپ شدہ لایا ہوں جو ''ڈان'' کراچی نے بھیجے ہیں۔پریس کانفرنس میں جب سوالات کا وقت آیا تو صہبائی صاحب نے جیب سے کاغذ نکالا اور بھٹو صاحب سے کہا۔ٹائپ شدہ دس سوالات ہیں۔
بھٹو کہنے لگے بولیں ، بولیں، بارہ سوالات کیوں نہیں لائے ۔بھٹو نے از راہ تفنن طبع مسکراتے ہوئے کہا۔صہبائی صاحب انگریزی میں لکھا ہوا پہلا سوال پڑھ رہے تھے کہ بھٹو کا موڈ خراب ہو گیا۔ صہبائی صاحب نے انگریزی میں اپنے سوال میں جو کہا وہ انگریزی میں یوں تھا۔if you grab power Mr Bhutto ۔ اس کا ترجمہ کچھ یوں تھاـ ''بھٹو صاحب ۔اگر آپ نے اقتدار چھین لیا تو...''ابھی یہ الفاظ صہبائی صاحب کے منہ سے نکلے ہی تھے اور ابھی سوال مکمل ہونے بھی نہ پایا تھا کہ بھٹو صاحب ناراض ہو گئے۔ غصے اور جذبات میں آگئے۔ کہنے لگے ۔''میں اقتدار کیوں چھینوں گا، میں تو اقتدار چھوڑ کر آیا ہوں، اقتدار پر تو کسی اور کا قبضہ ہے، میں تو وہ قبضہ ختم کرانے آیا ہوں، میں اقتدار پر کیوں قبضہ کروں گا'' بھٹو صاحب بڑے حساس اور نازک مزاج تھے۔ صرف ایک لفظ پر جذباتی ہو گئے تھے۔
میں اس وقت بھٹو کے ساتھ بیٹھا تھا۔میں نے دیکھا کہ بھٹو کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔آنکھیں 'پرنم ہو گئی تھیں ۔بھٹوصاحب کو اگر صہبائی صاحب گالی دے دیتے تو شاید وہ اتنا محسوس نہ کرتے جتنا اس لفظ کے استعمال سے بھٹو خفا ہو گئے تھے۔ انگریزی کے الفاظ تھے۔بھٹوصاحب نے صہبائی صاحب سے کہاکہ آپ تو سینئر جرنلسٹ ہیں۔آپ کو تومیرے لیے grab power کے الفاظ نہیں استعمال کرنے چاہیے تھے۔صہبائی صاحب نے کہا۔یہ ''ڈان '' کے سوالات ہیں۔ میرے نہیں ہیں۔ تاہم صہبائی صاحب نے کہا کہ اچھا یوں کہہ دیتے ہیں کہ اگر آپ اقتدار میں آگئے تو... ۔if you come into power۔
بھٹو نے فوراً کہا۔ ہاں ۔یوں کہیں۔''اقتدار پر قبضہ کرنے ''کے الفاظ کی جگہ '' اقتدار میں آنے ''کے الفاظ استعمال ہوئے تو تب کہیں جاکر بھٹو کے جذبات ٹھنڈے ہوئے۔ورنہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں بھٹو پریس کانفرنس کا بائیکاٹ نہ کردیں اور کہیں اُٹھ کر کمرہ سے نکل نہ جائیں ۔پھر بھٹو نے اس سوال کا تفصیلی جواب دیا اور صہبائی صاحب کو مزید سوالات کا موقع نہ دیا بلکہ ان کے ہاتھ سے وہ کاغذ لے لیا۔جس پر سوالات ٹائپ شدہ تھے اور ایک ایک سوال خود ہی پڑھتے گئے اور جواب دیتے گئے۔
حسب معمول حیات شیر پاؤ نے بھٹو صاحب اور اخبار نویسوں کے سامنے چائے بھی رکھ دی تھی۔سادہ کیک تھے، کچھ نمکین بسکٹ تھے اور کچھ میٹھے، چارسدہ کا پستے بادام اور گریوں والا گڑبھی تھا۔ مگر بھٹو صاحب کے موڈ کو دیکھ کر کسی نے بھی چائے کو ہاتھ نہ لگایا بلکہ صہبائی صاحب کے لکھے ہوئے سوالات کے جوابات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔
بھٹو جلدی جلدی ان سوالات کو سرسری طور پر پڑھتے گئے اورمختصر جواب دیتے گئے۔ اور پھر وہ کاغذ وہیں چھوڑ کر چائے پیئے بغیر اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ ورنہ بھٹو ہمیشہ پشاور میں پریس کانفرنس کے بعد اخبارنویسوں کے ساتھ چائے پیتے تھے اور اس دوران گپ شپ بھی کرتے تھے اور اس کے بعد ایک ایک صحافی سے ہاتھ ملا ملاکر رخصت بھی کرتے تھے۔ایک بار پشاور میں بھٹو کی پریس کانفرنس ہوئی۔ حیات شیر پاؤ نے پریس کانفرنس کے بعد مجھے کہا ، ثنا اللہ تم ٹھہر جاؤ، بھٹو صاحب تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ ملاقات میں بھٹو صاحب نے کیا کہا ۔ اس کی تفصیل اگلے کالم میں دیکھئے۔