پاناما کیس پہلی رپورٹ عدالت کے رو برو پیش

بلاشبہ تفتیش میں بڑے بڑے نام شامل ہیں

بلاشبہ تفتیش میں بڑے بڑے نام شامل ہیں، فوٹو؛ فائل

سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں وزیراعظم اور ان کے خاندان کے خلاف الزامات کی تفتیش کے لیے قائم جے آئی ٹی کو ہر صورت میں60دن کے اندر اپنا کام مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ تحقیقات کے لیے مزید وقت نہیں ملے گا، عدالت نے تحریک انصاف کی طرف سے رپورٹ عام کرنے کی استدعا مسترد کردی، جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے15روزہ پیشرفت رپورٹ سربمہر لفافے میں سپریم کورٹ میں پیش کی جب کہ نیب، سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن اور اسٹیٹ بینک کے نمایندے بھی موجود تھے، عدالت نے رپورٹ کا جائزہ لیتے ہوئے اسے تسلی بخش قرار دیا اور جے آئی ٹی کے سربراہ کو کہا کہ وہ خود رپورٹ کو بند کرکے رجسٹرار آفس میں جمع کرائیں۔ عدالت نے واضح کیا کہ ٹیم کا اپنا اختیار ہے کہ وہ تفتیش کے لیے جو بھی چاہے طریقہ کار اپنائے لیکن انکوائری ہر حال میں60دن کے اندر مکمل کرکے حتمی رپورٹ جمع کرائے۔

پاناما کیس یقیناً انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس کی تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن جو تفتیش کر رہی ہے وہ بھی یقینی ذہانت اور عرق ریزی کا نام ہے۔ جے آئی ٹی نے اپنے مینڈیٹ کے مطابق 15روزہ تحقیقات کی رپورٹ فاضل جج صاحبان کے رو برو پیش کر دی ہے اور جج صاحبان نے اس رپورٹ کو تسلی بخش بھی قرار دیا ہے۔ جے آئی ٹی کے قیام کے بعد بعض حلقوں میں ایسی باتیں ہو رہی تھیں کہ شاید جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم اپنی مقررہ مدت میں پاناما کیس کی تحقیقات مکمل نہ کر پائے مگر گزشتہ روز عدالت عظمیٰ نے اس حوالے سے موجود شکوک و شبہات ختم کر دیے اور جے آئی ٹی کو واضح طور پر حکم دیا ہے کہ وہ مینڈیٹری مدت کے اندر اندر اپنا کام مکمل کر کے رپورٹ عدالت کے رو برو پیش کرے۔

اب اس حوالے سے قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہو جانا چاہیے' بلاشبہ تفتیش میں بڑے بڑے نام شامل ہیں اور اس حوالے سے معلومات کا حصول خاصا مشکل کام ہے اور جے آئی ٹی کے پاس اپنا کام مکمل کرنے کے لیے 60دن ہیں' انھیں اب ہر صورت میں اس مدت کے دوران اپنا کام مکمل کرنا پڑے گا۔ عدالت عظمیٰ نے بھی اس حوالے سے کسی قسم کی رائے دینے سے انکار کر دیا۔ اس کیس کی سماعت کرنے والے بنچ میں جسٹس اعجاز افضل خان'جسٹس عظمی سعیداور جسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں۔ جناب جسٹس عظمت سعید کے حوالے سے اخبارات میں یہ ریمارک شایع ہوا ہے جس میں انھوں نے واضح کیا کہ رخنا ڈالنے والے سے عدالت نمٹ لے گی ۔


انھوں نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں جے آئی ٹی پر مکمل اعتماد ہے اور اس کی عبوری رپورٹ سے غیر مطمئن نہیں،آپ درست سمت پر جا رہے ہیں، یہ تفتیش کا ایک کثیرالجہتی کیس ہے، جے آئی ٹی نے ہر پہلو سے اسے دیکھنا ہے اور بہت سے اداروں سے معلومات اکٹھا کرنا ہیں لیکن اس کے لیے وقت فیصلے میں مقرر ہے، معلومات حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ ہو،کوئی ادارہ تعاون نہ کررہا ہو اور مسائل کھڑے کررہا ہو تو ہمیں بتایا جائے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کوئی رکاوٹ ہو تو بتادیں، ہم اس کے خلاف تادیبی کارروائی کریں گے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کے کام میں مداخلت ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی، ایسا ہوا تو کارروائی کریں گے۔ اس دوران تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری روسٹرم پر آگئے اور استدعا کی کہ رپورٹ تک رسائی اور اسے عام کرنے کی اجازت دی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت اس کیس میں فریق ہے اور یہ مفاد عامہ کا مقدمہ ہے ،عوام کو حقائق کا علم ہونا چاہیے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وہ ضابطہ فوجداری، پولیس رولز یا کسی اور قانون کی کسی شق کا حوالہ دے کر بتائیں کہ دوران تفتیش، تفتیشی افسر حاصل ہونے والی معلومات فریقین کو دے سکتا ہے، ہم قانون کے مطابق معاملے کو دیکھ رہے ہیں اور اس کے مطابق ہی چلیں گے، قانون کے مطابق دوران تفتیش حاصل ہونے والی معلومات کا تبادلہ فریقین کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے معلومات لینے سے کوئی اور فائدہ اٹھا لے، تفتیش کو خراب نہ کریں، رپورٹ مناسب وقت پرمنظر عام پر لائی جائے گی۔ اس معاملے پر عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان کی رائے بہرحال فوقیت رکھتی ہے۔

اس کیس کی جس قدر اہمیت ہے ججز کو یقینی طور پر اس کا احساس ہے اور اسی لیے عدالت عظمیٰ نے رپورٹ کو پبلک کرنے سے منع کیا۔ بہرحال جے آئی ٹی اپنی تفتیش کر رہی ہے اور معاملات درست سمت میں جا رہے ہیں۔ پاناما کیس خالصتاً ایک آئینی اور قانونی معاملہ ہے اور اس کو آئین و قانون کے مطابق ہی حل کیا جانا چاہیے۔
Load Next Story