انتخابی اصلاحات کی اشد ضرورت
انتخابات جمہوری نظام کا بنیادی ستون ہیں
tauceeph@gmail.com
KARACHI:
سیاسی جماعتوں میں اختلافات کم نہ ہوسکے۔انتخابی اصلاحات کمیٹی کا اجلاس پھر بے نتیجہ ختم ہوا۔ قومی اسمبلی کے انتخابی اصلاحات کمیٹی کے 24 اجلاس ہوچکے جب کہ اصلاحات کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے 87 اجلاس ہوئے۔ الیکٹرونک اور بائیو میٹرک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کے بارے میں اتفاق رائے نہ ہوا نہ ہی سمندر پار پاکستانیوںکے ووٹ دینے کا طریقہ کارطے ہوا۔ کمیٹی کے سربراہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر عزم ہیں کہ بجٹ اجلاس سے پہلے ترمیمی مسودے پر اتفاق رائے ہوجائے گا اور بجٹ اجلا س کے بعد انتخابی اصلاحات کی پارلیمنٹ سے منظوری حاصل ہوجائے گی۔
جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق اصلاحات کے مسودے پر اتفاق رائے کے لیے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤںسے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اس معاملے پر عدالت عظمی سے رجوع کرنے پر غور فکر میں مصروف ہے، مجموعی نتیجہ صفر ہے۔انتخابات جمہوری نظام کی بنیادی سیڑھی ہیں مگر انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے قانون سازی نہ ہونا سیاسی جماعتوں کے لیے دھچکا ہے۔ پاکستان میں انتخابات الیکشن کمیشن کی نگرانی میں ہوتے ہیں۔آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم سے پہلے الیکشن کمیشن عملی طورپر وفاقی حکومت کا ذیلی ادارہ تھا۔ وفاقی حکومت الیکشن کمیشن کے سربراہ اور اس کے چار اراکین کا تقررکرتی تھی۔
الیکشن کمیشن کے سربراہ سپریم کورٹ کے حاضر یا ریٹائرڈ جج ہوتے تھے اور چاروں صوبوںسے تعلق رکھنے والے اراکین کا تعلق متعلقہ ہائی کورٹ سے ہوتا تھا۔الیکشن کمیشن انتخابات کے لیے عدلیہ کی خدمات حاصل کرتا تھا اور ووٹر لسٹوں کی تیاری کے لیے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی خدمات مستعارلی جاتی تھیں۔ عموماً پولیس، رینجرز اور فوجی دستے انتخابات والے دن انتخابی عملے کو تحفظ فراہم کرتے تھے مگر انتخابی نتائج ہمیشہ متنازعہ رہتے تھے۔ ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے 1991ء اور 1993ء کے انتخابات کے نتائج کو مسترد کردیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابی نتائج چرالیے گئے ہیں۔ پھر بے نظیر بھٹو اورمیاں نواز شریف کے درمیان 2005ء میں ہونے والے میثاقِ جمہوریت میں اس بات پر اتفاق رائے کیا گیا تھا کہ جب بھی یہ جماعتیں برسر اقتدار آئیں گی ایک خودمختار الیکشن کمیشن کے قیام کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔ یوں18ویں ترمیم کے تحت وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے اتفاق رائے سے الیکشن کمیشن کے سربراہ کا تقرر لازمی قرار دیا گیا۔ پھر یہ بات طے کردی گئی کہ چیف الیکشن کمشنر اورکمیشن کے چاروں اراکین کے اختیارات یکساں ہونگے اور اس بات پر بھی اتفاق رائے ہوا کہ انتخابات سے 90 روز قبل وفاق اور صوبوں میں عبوری حکومتیں قائم ہوں گی، یوں سپریم کورٹ کے سابق جج اور نامور قانون دان جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کو اتفاق رائے سے چیف الیکشن کمشنر مقررکیا گیا۔ 2013ء کے انتخابات میں ان مٹ سیاہی ووٹرکے انگوٹھے پر لگانے کا بھی فیصلہ ہوا۔
اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے انتخابات میں مداخلت شروع کردی۔ جسٹس افتخار چوہدری نے پہلے فیصلہ کیا کہ ججوں کو ریٹرننگ افسر نہیں بننے دیا جائے گا، پھر یہ فیصلہ واپس ہوا۔ انھوں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ امیدوار ووٹروں کو ٹرانسپورٹ فراہم نہیں کریں گے اور پولنگ اسٹیشن ووٹروں کے گھروں کے قریب بنائے جائیں گے۔ انھوں نے انتخابی عمل شروع ہونے کے بعد ملک بھر کے ریٹرننگ افسروں کے اجلاس طلب کیے اور اپنی تقاریر میں زور دیا کہ ریٹرننگ افسر کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورے اترنے والے امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیں، یوں معروف صحافی ایاز امیر سمیت کئی امیدوار اس آرٹیکل کی زد میں آئے مگر ذرایع ابلاغ پر زیر بحث آنے کے بعد اعلیٰ عدالتوں نے نااہل قرار دیے جانے والے امیدواروں کی اپیلیں منظور کرلیں۔ انتخابات والے دن بدترین بدنظمی کا مظاہرہ ہوا۔ پولنگ اسٹیشن گھر کے نزدیک تو بنا دیے گئے مگر محل ووقوع کا جائزہ نہیں لیا گیا۔آبادی میں گھرے اسکولوں میں کئی کئی پولنگ اسٹیشن قائم کردیے گئے۔
کہیں ان مٹ سیاہی دستیاب نہیں تھی اورکہیں سیاہی غیرمعیاری نکلی۔ پولیس اور رینجرز نے ملک کے مختلف علاقوں خاص طور پر کراچی میں پولنگ اسٹیشنوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا۔گنتی کے وقت مسلح گروہوں نے پولنگ اسٹیشنوں پر قبضہ کیا ، تحریک انصاف نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگائے۔ جب عدالتوں میں مقدمات گئے تو پتہ چلا کہ کاؤنٹر فائلوں پر موجود انگوٹھے کے نشانات کی نادرا کا سسٹم توثیق نہیں کررہا۔ بعض مقامات پر انتخابی عملے نے نتائج بناتے وقت فارم 14 اور 15 پر نہیں کیے، یوں تھیلوں سے برآمد ہونے والے ووٹوں اور عملے کے تیارکردہ نتائج میں فرق ظاہر ہونے لگا۔ سب سے زیاد ہ مشکل صورتحال صدارتی انتخابات کے وقت ہوئی۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے رمضان کی عبادات کے تناظر میں صدارتی انتخاب کی طے شدہ تاریخ تبدیل کردی اور پہلے انتخاب کرانے کا حکم دیا۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخر الدین نے اس فیصلے کے نقصانات کے بارے میں ایک نوٹ لکھا جس میں شیڈول سے قبل انتخابات کرانے کو غیر قانونی قرار دیا مگر الیکشن کمیشن کے دیگر اراکین نے اس نوٹ پر دستخط نہیں کیے، یوں جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم غیر مؤثر ہوگئے اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا۔
انتخابات جمہوری نظام کا بنیادی ستون ہیں۔ ملک میں جب بھی انتخابات ہوئے کسی ایک فریق نے ان انتخابات کے نتائج کو قبول نہیں کیا جس کی بناء پر منتخب حکومت کی پوزیشن کمزور ہوگئی اور غیر منتخب اداروں کی بالادستی پر فرق نہیں آیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 2013ء کے انتخابات کے نتائج کو چیلنج کیا۔ عمران خان نے انتخابی اصلاحات کے بجائے وزیر اعظم نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اسلام آباد میں چھ (6) ماہ تک دھرنا دیا۔ عمران خان نے پنجاب کے سابق نگراں وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی پر 35 پنکچر لگانے کا الزام لگایا لیکن عدالتی کمیشن میں عمران خان اپنے الزامات ثابت نہ کرسکے مگر قومی اسمبلی نے ان اصلاحات کے لیے کمیٹی بنادی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے اصلاحات کے معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا اور تحریک انصاف کے نمایندوں اور الیکشن کمیشن کے اراکین کے درمیان جھگڑے کی بناء پر افسروں نے اس کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔گزشتہ دو انتخابات کے نتیجے میں بہت سی باتیں واضح ہوگئیں۔ ووٹر لسٹوں کا معاملہ نادرا کے سپرد ہوا اور ہر ووٹرکی تصویر بھی چسپاں ہونے لگی مگر ووٹر کی تصدیق ،پولنگ اسٹیشن کے قیام اور گنتی کے طریقہ کار پر اتفاق نہیں ہوا۔ ووٹرکے انگوٹھے پر ان مٹ سیاہی لگانے کا معاملہ ناکام ہوا۔ اس کا حل بائیومیٹرک تصدیق کا نظام ہے، پولنگ اسٹیشن پر بائیومیٹرک نظام کا کارآمد ہوا لازمی ہے۔
الیکٹرونک ووٹنگ مشین بہت زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوگی۔ اس کو ضمنی انتخابات میں استعمال کرنا چاہیے تھا تاکہ اس مشین کی شفافیت کا معاملہ واضح ہوسکے۔ اگر اس مشین کو فوری طور پر استعمال کیا گیا تو بہت سے اعتراضات ہونگے مگر ووٹر لسٹوں کی شفافیت اور پولنگ اسٹیشن کا اس کے محل وقوع کے تناظر میں فیصلہ ضروری ہے۔ انتخابات کے نتائج تمام امیدواروں کو فراہم کرنے اور پولنگ اسٹیشن پر آویزاں کرنے کے طریقہ کارکو قانونی شکل دینا ضروری ہے۔
اساتذہ سے انتخابی کام لینے کا تجربہ بہت زیادہ کامیاب نہیں ہوا جس کی بناء پر فیصلوں کو عدالتوں میں چیلنج کرنے کے دروازے کھلے۔ الیکشن کمیشن ایک فورس تیار کرے اور اس فورس میں شامل عملے کو تربیت دی جائے تو پھر انتخابی عمل میں بے ضابطگی کا معاملہ تھم سکتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اور باقی اراکین کے یکساں اختیارات کا تجربہ بھی ناکام ہوگیا اور ہمارے ملک کے کلچرکے مطابق چیف ایگزیکٹو کو مکمل اختیارات سے لیس ہونا چاہیے۔ الیکشن کمیشن نے ہر پولنگ اسٹیشن کی نگرانی کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے لگائے اور ہر پولنگ اسٹیشن کو گوگل سیٹلائٹ سسٹم سے منسلک کرنے اور عدلیہ سے ریٹرننگ افسر لینے کا منصوبہ بنایا ہے۔ کمیشن کو اس ضمن میں تمام ضروری اقدامات یقینی بنانے چاہئیں۔ سیاسی جماعتوں کوانتخابی اصلاحات کے عمل میں سنجیدہ ہونا چاہیے۔شفاف انتخابات ہی منتخب حکومت کی ریاستی اداروںپر بالادستی کو یقینی بنائیں گے وگرنہ غیر منتخب ادارے ویٹو استعمال کرتے رہیں گے۔
سیاسی جماعتوں میں اختلافات کم نہ ہوسکے۔انتخابی اصلاحات کمیٹی کا اجلاس پھر بے نتیجہ ختم ہوا۔ قومی اسمبلی کے انتخابی اصلاحات کمیٹی کے 24 اجلاس ہوچکے جب کہ اصلاحات کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے 87 اجلاس ہوئے۔ الیکٹرونک اور بائیو میٹرک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کے بارے میں اتفاق رائے نہ ہوا نہ ہی سمندر پار پاکستانیوںکے ووٹ دینے کا طریقہ کارطے ہوا۔ کمیٹی کے سربراہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر عزم ہیں کہ بجٹ اجلاس سے پہلے ترمیمی مسودے پر اتفاق رائے ہوجائے گا اور بجٹ اجلا س کے بعد انتخابی اصلاحات کی پارلیمنٹ سے منظوری حاصل ہوجائے گی۔
جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق اصلاحات کے مسودے پر اتفاق رائے کے لیے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤںسے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اس معاملے پر عدالت عظمی سے رجوع کرنے پر غور فکر میں مصروف ہے، مجموعی نتیجہ صفر ہے۔انتخابات جمہوری نظام کی بنیادی سیڑھی ہیں مگر انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے قانون سازی نہ ہونا سیاسی جماعتوں کے لیے دھچکا ہے۔ پاکستان میں انتخابات الیکشن کمیشن کی نگرانی میں ہوتے ہیں۔آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم سے پہلے الیکشن کمیشن عملی طورپر وفاقی حکومت کا ذیلی ادارہ تھا۔ وفاقی حکومت الیکشن کمیشن کے سربراہ اور اس کے چار اراکین کا تقررکرتی تھی۔
الیکشن کمیشن کے سربراہ سپریم کورٹ کے حاضر یا ریٹائرڈ جج ہوتے تھے اور چاروں صوبوںسے تعلق رکھنے والے اراکین کا تعلق متعلقہ ہائی کورٹ سے ہوتا تھا۔الیکشن کمیشن انتخابات کے لیے عدلیہ کی خدمات حاصل کرتا تھا اور ووٹر لسٹوں کی تیاری کے لیے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی خدمات مستعارلی جاتی تھیں۔ عموماً پولیس، رینجرز اور فوجی دستے انتخابات والے دن انتخابی عملے کو تحفظ فراہم کرتے تھے مگر انتخابی نتائج ہمیشہ متنازعہ رہتے تھے۔ ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے 1991ء اور 1993ء کے انتخابات کے نتائج کو مسترد کردیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابی نتائج چرالیے گئے ہیں۔ پھر بے نظیر بھٹو اورمیاں نواز شریف کے درمیان 2005ء میں ہونے والے میثاقِ جمہوریت میں اس بات پر اتفاق رائے کیا گیا تھا کہ جب بھی یہ جماعتیں برسر اقتدار آئیں گی ایک خودمختار الیکشن کمیشن کے قیام کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔ یوں18ویں ترمیم کے تحت وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے اتفاق رائے سے الیکشن کمیشن کے سربراہ کا تقرر لازمی قرار دیا گیا۔ پھر یہ بات طے کردی گئی کہ چیف الیکشن کمشنر اورکمیشن کے چاروں اراکین کے اختیارات یکساں ہونگے اور اس بات پر بھی اتفاق رائے ہوا کہ انتخابات سے 90 روز قبل وفاق اور صوبوں میں عبوری حکومتیں قائم ہوں گی، یوں سپریم کورٹ کے سابق جج اور نامور قانون دان جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کو اتفاق رائے سے چیف الیکشن کمشنر مقررکیا گیا۔ 2013ء کے انتخابات میں ان مٹ سیاہی ووٹرکے انگوٹھے پر لگانے کا بھی فیصلہ ہوا۔
اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے انتخابات میں مداخلت شروع کردی۔ جسٹس افتخار چوہدری نے پہلے فیصلہ کیا کہ ججوں کو ریٹرننگ افسر نہیں بننے دیا جائے گا، پھر یہ فیصلہ واپس ہوا۔ انھوں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ امیدوار ووٹروں کو ٹرانسپورٹ فراہم نہیں کریں گے اور پولنگ اسٹیشن ووٹروں کے گھروں کے قریب بنائے جائیں گے۔ انھوں نے انتخابی عمل شروع ہونے کے بعد ملک بھر کے ریٹرننگ افسروں کے اجلاس طلب کیے اور اپنی تقاریر میں زور دیا کہ ریٹرننگ افسر کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورے اترنے والے امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیں، یوں معروف صحافی ایاز امیر سمیت کئی امیدوار اس آرٹیکل کی زد میں آئے مگر ذرایع ابلاغ پر زیر بحث آنے کے بعد اعلیٰ عدالتوں نے نااہل قرار دیے جانے والے امیدواروں کی اپیلیں منظور کرلیں۔ انتخابات والے دن بدترین بدنظمی کا مظاہرہ ہوا۔ پولنگ اسٹیشن گھر کے نزدیک تو بنا دیے گئے مگر محل ووقوع کا جائزہ نہیں لیا گیا۔آبادی میں گھرے اسکولوں میں کئی کئی پولنگ اسٹیشن قائم کردیے گئے۔
کہیں ان مٹ سیاہی دستیاب نہیں تھی اورکہیں سیاہی غیرمعیاری نکلی۔ پولیس اور رینجرز نے ملک کے مختلف علاقوں خاص طور پر کراچی میں پولنگ اسٹیشنوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا۔گنتی کے وقت مسلح گروہوں نے پولنگ اسٹیشنوں پر قبضہ کیا ، تحریک انصاف نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگائے۔ جب عدالتوں میں مقدمات گئے تو پتہ چلا کہ کاؤنٹر فائلوں پر موجود انگوٹھے کے نشانات کی نادرا کا سسٹم توثیق نہیں کررہا۔ بعض مقامات پر انتخابی عملے نے نتائج بناتے وقت فارم 14 اور 15 پر نہیں کیے، یوں تھیلوں سے برآمد ہونے والے ووٹوں اور عملے کے تیارکردہ نتائج میں فرق ظاہر ہونے لگا۔ سب سے زیاد ہ مشکل صورتحال صدارتی انتخابات کے وقت ہوئی۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے رمضان کی عبادات کے تناظر میں صدارتی انتخاب کی طے شدہ تاریخ تبدیل کردی اور پہلے انتخاب کرانے کا حکم دیا۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخر الدین نے اس فیصلے کے نقصانات کے بارے میں ایک نوٹ لکھا جس میں شیڈول سے قبل انتخابات کرانے کو غیر قانونی قرار دیا مگر الیکشن کمیشن کے دیگر اراکین نے اس نوٹ پر دستخط نہیں کیے، یوں جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم غیر مؤثر ہوگئے اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا۔
انتخابات جمہوری نظام کا بنیادی ستون ہیں۔ ملک میں جب بھی انتخابات ہوئے کسی ایک فریق نے ان انتخابات کے نتائج کو قبول نہیں کیا جس کی بناء پر منتخب حکومت کی پوزیشن کمزور ہوگئی اور غیر منتخب اداروں کی بالادستی پر فرق نہیں آیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 2013ء کے انتخابات کے نتائج کو چیلنج کیا۔ عمران خان نے انتخابی اصلاحات کے بجائے وزیر اعظم نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اسلام آباد میں چھ (6) ماہ تک دھرنا دیا۔ عمران خان نے پنجاب کے سابق نگراں وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی پر 35 پنکچر لگانے کا الزام لگایا لیکن عدالتی کمیشن میں عمران خان اپنے الزامات ثابت نہ کرسکے مگر قومی اسمبلی نے ان اصلاحات کے لیے کمیٹی بنادی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے اصلاحات کے معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا اور تحریک انصاف کے نمایندوں اور الیکشن کمیشن کے اراکین کے درمیان جھگڑے کی بناء پر افسروں نے اس کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔گزشتہ دو انتخابات کے نتیجے میں بہت سی باتیں واضح ہوگئیں۔ ووٹر لسٹوں کا معاملہ نادرا کے سپرد ہوا اور ہر ووٹرکی تصویر بھی چسپاں ہونے لگی مگر ووٹر کی تصدیق ،پولنگ اسٹیشن کے قیام اور گنتی کے طریقہ کار پر اتفاق نہیں ہوا۔ ووٹرکے انگوٹھے پر ان مٹ سیاہی لگانے کا معاملہ ناکام ہوا۔ اس کا حل بائیومیٹرک تصدیق کا نظام ہے، پولنگ اسٹیشن پر بائیومیٹرک نظام کا کارآمد ہوا لازمی ہے۔
الیکٹرونک ووٹنگ مشین بہت زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوگی۔ اس کو ضمنی انتخابات میں استعمال کرنا چاہیے تھا تاکہ اس مشین کی شفافیت کا معاملہ واضح ہوسکے۔ اگر اس مشین کو فوری طور پر استعمال کیا گیا تو بہت سے اعتراضات ہونگے مگر ووٹر لسٹوں کی شفافیت اور پولنگ اسٹیشن کا اس کے محل وقوع کے تناظر میں فیصلہ ضروری ہے۔ انتخابات کے نتائج تمام امیدواروں کو فراہم کرنے اور پولنگ اسٹیشن پر آویزاں کرنے کے طریقہ کارکو قانونی شکل دینا ضروری ہے۔
اساتذہ سے انتخابی کام لینے کا تجربہ بہت زیادہ کامیاب نہیں ہوا جس کی بناء پر فیصلوں کو عدالتوں میں چیلنج کرنے کے دروازے کھلے۔ الیکشن کمیشن ایک فورس تیار کرے اور اس فورس میں شامل عملے کو تربیت دی جائے تو پھر انتخابی عمل میں بے ضابطگی کا معاملہ تھم سکتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اور باقی اراکین کے یکساں اختیارات کا تجربہ بھی ناکام ہوگیا اور ہمارے ملک کے کلچرکے مطابق چیف ایگزیکٹو کو مکمل اختیارات سے لیس ہونا چاہیے۔ الیکشن کمیشن نے ہر پولنگ اسٹیشن کی نگرانی کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے لگائے اور ہر پولنگ اسٹیشن کو گوگل سیٹلائٹ سسٹم سے منسلک کرنے اور عدلیہ سے ریٹرننگ افسر لینے کا منصوبہ بنایا ہے۔ کمیشن کو اس ضمن میں تمام ضروری اقدامات یقینی بنانے چاہئیں۔ سیاسی جماعتوں کوانتخابی اصلاحات کے عمل میں سنجیدہ ہونا چاہیے۔شفاف انتخابات ہی منتخب حکومت کی ریاستی اداروںپر بالادستی کو یقینی بنائیں گے وگرنہ غیر منتخب ادارے ویٹو استعمال کرتے رہیں گے۔