کیا پاکستان نئی ادویہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے پہلا حصہ
کسی دوا کی سیفٹی کے حوالے سے مارکیٹ میں لائف ٹائم دستیابی کیلئے مہینوں اور سالوں کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔
کسی ایک دوا کی ایجاد اور مارکیٹ میں دستیابی تک کے مراحل میں 10 سے 15 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور تقریباً 8 سو مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین، ڈاکٹرز اور سائنسدانوں کی پیشہ ورانہ مہارت استعمال ہوتی ہے۔
قدرت نے جہاں اِس دنیا میں متعدد بیماریاں پیدا کی ہیں، وہیں اُس نے اپنے کارخانے میں اِس کے سدِباب کے ذرائع بھی مخفی رکھے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اُس نے انسانوں کو علم کی عظیم دولت سے بھی نوازا ہے اور اِسے درست سمت میں اِستعمال کرنے کی صلاحیت بھی عطا کی ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی بیماریوں کی تشخیص اور اُن کے علاج کے طریقوں کی دریافت کا عمل نسل در نسل پروان چڑھتا آ رہا ہے اور یہ سلسلہ آج کے زمانہ جدید تک جاری و ساری ہے۔
اِس کام کا آغاز کب سے ہوا؟ اِس بات کا ذکر کہیں موجود نہیں لیکن بیماریوں کے علاج میں نباتات بالخصوص جڑی بوٹیوں کا کردار ہمیشہ سے ہی قابلِ ذکر رہا ہے۔ قدرت نے اِن نباتات میں ایسے جوہر پیدا کئے ہیں کہ جن کا مکمل علم ابھی تک انسانی ذہن حاصل کرنے سے قاصر رہا ہے لیکن اِن کے بارے میں جاننے کی کوششیں جاری ہیں۔
جیسے جیسے ادویہ کے بارے میں انسانی علم کا ارتقاء ہوتا رہا، ویسے ویسے ادویہ کی تیاری اور اِن کے اِستعمال میں جدت آتی رہی۔ مثال کے طور پر قدیم ادوار میں بیماریوں کے علاج کیلئے خام جڑی بوٹیاں اِستعمال کی جاتی تھیں۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے مختلف اجزاء کو علیحدہ کرکے اِستعمال کیا جانے لگا، پھر اِن اجزاء میں موجود مرکبات کو کیمیائی طریقوں سے علیحدہ کرکے مخصوص مرکب کو اِستعمال کیا جانے لگا۔ مزید اِن اجزاء میں کیمیائی تبدیلیاں کی جانے لگیں اور مختلف مرکبات کو باہم ملا کر اِستعمال کیا جانے لگا جیسا کہ زمانہ جدید میں کیا جارہا ہے۔
پودوں کے کسی مخصوص حصے جیسے پتے، پھل، پھول، بیج وغیرہ کا سائنسی طریقوں سے مطالعہ کیا جائے تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اِن میں سینکڑوں اور ہزاروں اقسام کے کیمیائی مرکبات موجود ہوتے ہیں اور ہر مرکب (Compound) ایک خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے جو کہ انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد مخصوص طریقے سے ایک خاص حیاتیاتی عمل پر اثر انداز ہوتا ہے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کوئی مخصوص مرکب اگر کسی ایک حیاتیاتی عمل کو درست کرتا ہے تو دوسری طرف وہ کسی دوسرے حیاتیاتی عمل پر ضمنی اثرات (Side Effects) بھی مرتب کر رہا ہوتا ہے۔ اِس خامی کو دور کرنے کیلئے قدرت نے پودوں کے اُس مخصوص حصے میں دوسرے کئی مرکبات پیدا کئے ہیں جو بُرے اثرات کو زائل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل تمام دستیاب ادویہ، جو کہ مخصوص کیمیائی مرکب سے تیار ہوتی ہیں، اُن کے کچھ سائڈ ایفیکٹس ضرور ہوتے ہیں۔
اب ایک نظر ہم ادویہ کی تیاری کے مراحل پر ڈالتے ہیں جنہیں مدِنظر رکھتے ہوئے ہم اِس بات پر تجزیہ کرنے کی کوشش کریں گے کہ کیا پاکستان نئی ادویہ کی تیاری کا حامل ملک ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو اِس ملک میں ادویہ کی تیاری کے مراحل میں کن امور پر توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے؟
کسی ایک دوا کی ایجاد اور مارکیٹ میں دستیابی تک کے مراحل میں دس (10) سے پندرہ (15) سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور تقریباً آٹھ (8) سو مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین، ڈاکٹرز اور سائنسدانوں کی پیشہ ورانہ مہارت استعمال ہوتی ہے۔ اِس پورے عمل میں ایک بلین ڈالر سے زائد رقم صرف ہوتی ہے۔ یہاں دو اصطلاحات کا جاننا ضروری ہے، ایک مرکب یا کمپاؤنڈ (Compound) اور دوسری ڈرگ (Drug)۔
جب کوئی دوا تیاری کے مراحل میں ہوتی ہے تو اُسے کمپاؤنڈ کہتے ہیں اور جب دوا فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA) سے منظور ہو کر مارکیٹ میں آتی ہے تو اُسے ڈرگ (عام فہم میں میڈیسن) کا درجہ دیا جاتا ہے۔ دوا کی تیاری کا عمل پانچ مختلف مرحلوں پر مشتمل ہوتا ہے، جو ذیل میں درج ہیں۔
(1) ڈرگ ریسرچ (Drug Research)
(2) پری کلیکینل اسٹڈی (Pre-Clinical Study)
(3) کلینیکل ٹرائلز (Clinical Trials)
(4) ایف ڈی اے ریویو (FDA Review)
(5) ایف ڈی اے پوسٹ مارکیٹ سیفٹی مانیٹرنگ (FDA Post-Market Safety Monitoring)
اب ہم تسلسل سے اِن مراحل کی تفصیل کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
اِس ابتدائی مرحلے میں کسی بیماری کے علاج کیلئے دوا ایجاد (Discover) کی جاتی ہے پھر اِسے قابلِ استعمال بنانے کیلئے تیار (Develop) کیا جاتا ہے۔ ڈرگ ڈسکوری کے مرحلے میں کسی ایک بیماری کا انتخاب کیا جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ اِس بیماری کے علاج کیلئے کون سے موجودہ طریقے رائج ہیں اور اُنہیں کس طرح بہتر بنایا جاِسکتا ہے۔
سب سے پہلے اِس بیماری کا گہرائی میں مطالعہ کیا جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ بیماری انسانی جسم کے کن افعال کو متاثر کررہی ہے۔ پھر اُن افعال کو کسی دوا کا ٹارگٹ بنایا جاتا ہے تاکہ اِس بیماری کا سدِباب کیا جاسکے۔ ابتدائی طور پر ہزاروں کمپاؤنڈز کی اِسکریننگ کی جاتی ہے اور انہیں مختلف سائنسی ٹیسٹ سے گزارا جاتا ہے تاکہ ان کمپاؤنڈز کا مخصوص بیماری کے خلاف اثر (Effect) معلوم کیا جاسکے۔ اِس ابتدائی اِسکریننگ سے گزرنے کے بعد کمپاؤنڈز کی محدود تعداد سامنے آتی ہے جو بیماری کے خلاف مؤثر کردار ادا کرتی ہے، پھر اُن کمپاؤنڈز کو مزید مطالعہ کیلئے منتخب کرلیا جاتا ہے۔
اب دوسرے مرحلے کی طرف آتے ہیں جسے ڈرگ ڈیولپمنٹ (Drug Development) کہا جاتا ہے۔ اِس مرحلے میں منتخب کردہ کمپاؤنڈز کو مزید تجربات سے گزارا جاتا ہے۔ اِن تجربات سے یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ کمپاؤنڈز کس طرح جسم میں جذب (Absorb) ہوکر مختلف حصوں میں تقسیم (Distribute) ہوں گے اور خلیوں میں کس طرح تحول پذیر (Metabolize) ہوکر جسم کے کن راِستوں سے ان کا اخراج (Excretion) عمل میں آئے گا۔
مزید برآں یہ بھی معلوم کیا جاتا ہے کہ اِن کمپاؤنڈز کی خوراک (Dose) کیا دی جانی چاہیئے اور اُنہیں کس طرح (مثلاً منہ، انجیکشن یا کسی اور طریقے سے) دیا جانا چاہیئے؟ اُن کے مضر اثرات (Side Effects) کیا ہوں گے؟ مختلف جنس اور نسل پر یہ کمپاؤنڈز کیسے اثر انداز ہوں گے؟ دوسری ادویہ اور علاج کے ساتھ اِن کا باہمی عمل کیا ہوگا اور ملتے جلتے یا ہم جنس ادویہ کے مقابلے میں اِن کی کیا کارکردگی ہے؟ یہ تمام امور ڈرگ ڈیولپمنٹ کا حصہ ہیں۔ جب اِن کمپاؤنڈز کی اِن تمام حوالوں سے جانچ پڑتال کرلی جاتی ہے تو اُنہیں اگلے مرحلے میں داخل کردیا جاتا ہے۔ اِس مرحلے کیلئے تقریباً دو سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔
انسانوں میں کسی کمپاؤنڈ کے اثرات معلوم کرنے سے پہلے اُنہیں پری کلینیکل ٹیسٹنگ سے گزارا جاتا ہے تاکہ انسانی جانوں کے زیاں سے بچا جاِسکے۔ پری کلینیکل ٹیسٹنگ کا بنیادی مقصد یہ جاننا ہے کہ یہ کمپاؤنڈز انسانی جسم میں سنگین مضر اثرات (Toxicity) مرتب کرنے کا باعث تو نہیں بنیں گے اور ان کمپاؤنڈز کی Safe Dose کیا ہوگی۔ بنیادی طور پر یہ اِسٹڈی دو طریقوں سے کی جاتی ہے۔ ایک In vitro یعنی جسم سے باہر کے تجربات اور دوسری In vivo یعنی جسم کے اندر کے تجربات۔
In vitro تجربات کے بھی بہت سے طریقے ہیں لیکن اِن میں خلیات (Cultured Cells) کا اِستعمال سرِفہرست ہے۔ اِن تجربات میں کسی عضو کے مخصوص خلیوں (جو کہ بیماری سے متاثر ہوتے ہیں) کو لیباریٹری میں علیحدہ کرکے اُن کی افزائش کی جاتی ہے اور پھر اُن پر کمپاؤنڈز کے اثرات کا مطالعہ مختلف سائنسی اوزار اور طریقوں سے کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر جگر کے کینسر (Liver Cancer) کا مطالعہ کرنا ہو تو جگر کے کینسر زدہ خلیات کو علیحدہ کرکے اُن کی افزائش کی جاتی ہے اور پھر اُن پر کمپاؤنڈز کی اِسکریننگ کی جاتی ہے۔ جو کمپائونڈز کینسر زدہ خلیات کی موت کا باعث بنتے ہیں اُنہیں مزید مطالعے کیلئے منتخب کرلیا جاتا ہے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ کمپاونڈز خلیات میں کس طرح اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں یعنی اُن کا مالیکیولر میکینزم (Molecular Mechanism) کیا ہے؟ پھر اِن کمپاونڈز کا In vivo مطالعہ کیا جاتا ہے۔
In vivo مطالعے میں پہلے چھوٹے جانوروں یعنی چوہوں کو اِستعمال کیا جاتا ہے پھر بڑے جانوروں یعنی بندر، بلی، گھوڑے وغیرہ پر اِن کمپاؤنڈز کے اثرات دیکھے جاتے ہیں۔ چوہوں میں In vivo مطالعہ کو سمجھنے کیلئے میں اپنے ایک پی ایچ ڈی پروجیکٹ کا حوالہ مختصراً دینا چاہوں گا۔ میں نے اپنے پروجیکٹ میں گردوں کی شدید چوٹ (Acute Kidney Injury) کا مطالعہ چوہوں (Mice) پر کیا۔ فی الوقت اِس بیماری کا کوئی مخصوص علاج دریافت نہیں ہوسکا البتہ ابتدائی تحقیق جاری ہے۔ اِس مطالعہ میں ایسے کمپاؤنڈز کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن کے استعمال سے اِس بیماری سے بچنے کی تدابیر کی جاِسکے۔
چوہوں کا کچھ دنوں تک مختلف نئے کمپاؤنڈز سے علاج کیا گیا پھر ایک خاص کیمیکل کے ذریعے اُن میں گردوں کی بیماری پیدا کی گئی۔ ایک خاص وقت کے بعد اُن چوہوں کے گردوں کو سرجری کے ذریعے نکالا گیا اور پھر مختلف سائنسی طریقوں سے اُن گردوں کی جانچ پڑتال کی گئی۔ مزید اُن چوہوں کے خون کے نمونے (Blood Samples) بھی لئے گئے اور اُن کی بائیو کیمیکل ٹیسٹنگ کی گئی۔ اِس پورے مطالعے میں تین ایسے کمپاؤنڈز کی نشاندہی کی گئی جو گردوں کی اِس بیماری سے بچاؤ کا باعث بنتے ہیں۔
مزید برآں اِن کمپاؤنڈز کے مالیکیولر میکینزم (Molecular mechanism) بھی معلوم کئے گئے کہ یہ کیسے گردوں کی اِس بیماری سے بچنے کا باعث بنتے ہیں۔ پری کلینیکل ٹیسٹنگ کے بعد جو کمپاؤنڈز مثبت اثرات ظاہر کرتے ہیں انہیں انسانوں میں مطالعے کیلئے منتخب کرلیا جاتا ہے۔ اِس پورے عمل میں تقریباً چار سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ ہزار کمپاؤنڈز جن کی پری کلینیکل ٹیسٹنگ ہوتی ہے، اِن میں سے صرف ایک کمپاؤنڈ FDA سے منظور ہوکر مارکیٹ میں دستیاب ہوتا ہے۔
کلینیکل ریسرچ یا ٹرائلز اِس مطالعے کو کہتے ہیں کہ جو انسانوں پر کئے جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پری کلینیکل مطالعے سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں وہ بہت بنیادی ہوتی ہیں اور حتمی طور پر یہ نہیں کہا جاِسکتا کہ یہ کمپاؤنڈز انسانوں میں بھی اِسی طرح اثر انداز ہوں گے جیسے جانوروں میں ہوئے ہیں۔ یہ ٹرائلز کسی میڈیکل پروڈکٹ کے بارے میں اِن مخصوص سوالوں کے جواب معلوم کرنے کیلئے کئے جاتے ہیں۔ اِن ٹرائلز کو شروع کرنے سے پہلے محقق ایک پلان (Protocol) مرتب کرتے ہیں۔ اِس پلان کو مرتب کرنے میں کچھ ابتدئی معلومات کو مدِنظر رکھا جاتا ہے۔ جیسے
یہ ٹرائلز دراصل ایک تسلسل سے کئے جاتے ہیں اور اِس کے مختلف مراحل (Phases) ہوتے ہیں جن کی تفصیل ذیل میں درج کی گئی ہے۔
اِس مرحلے میں 20 سے 100 صحت مند افراد اور مریضوں کو شامل کیا جاتا ہے اور اِس کا دورانیہ کچھ مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اِس مرحلے کا بنیادی مقصد دوا کی سیفٹی (Safety) دیکھنا اور خوراک (Dose) متعین کرنا ہوتا ہے۔ فیز 1 میں 70 فیصد ڈرگز اگلے مرحلے کیلئے منتخب کی جاتی ہیں۔
اِس مرحلے میں سینکٹروں مریضوں کو شامل کیا جاتا ہے اور تقریباً دو سال تک کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اِس مرحلے کا بنیادی مقصد دوا کی افادیت (Efficiency) اور مضرِ اثرات (Side Effects) کا مطالعہ کرنا ہوتا ہے۔ فیز 2 میں 33 فیصد ڈرگز اگلے مرحلے کیلئے منتخب کی جاتی ہیں۔
اِس مرحلے میں تین سو سے تین ہزار رضاکار مریضوں کو شامل کیا جاتا ہے اور اِس کا دورانیہ ایک سے چار سال تک ہوتا ہے۔ اِس مرحلے کا بنیادی مقصد دوا کی افادیت (Efficiency) اور منفی اثرات (Adverse Reactions) کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ فیز 3 میں 25 سے 30 فیصد ڈرگز اگلے مرحلے کیلئے منتخب کی جاتی ہیں۔
اِس مرحلے میں کئی ہزار رضاکار مریضوں کو شامل کیا جاتا ہے اور اِس کا دورانیہ کم از کم 2 سال پر محیط ہوتا ہے۔ اِس کا بنیادی مقصد دوا کی سیفٹی (Safety) اور افادیت (Efficiency) کا مطالعہ بڑے پیمانے پر کرنا ہوتا ہے۔ اِس مرحلے میں دوا کے طویل مدتی (Long Term) اثرات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔
اگر ابتدائی ٹیسٹ، پری کلینیکل اور کلینیکل ریسرچ سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ زیرِ مطالعہ دوا استعمال کیلئے محفوظ اور مؤثر ہے تو اِس دوا پر ریسرچ کرنے والی کمپنی دوا کی مارکیٹنگ کیلئے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA) کو درخواِست جمع کرواتی ہے جسے (NDA New Drug Application) کہا جاتا ہے۔ اِس کے بعد FDA کی ریویو ٹیم دوا سے متعلق تمام جمع کی گئی معلومات کا جائزہ چھ (6) سے دس (10) مہینوں میں لینے کے بعد فیصلہ کرتی ہے کہ کمپنی کو مذکورہ دوا کی مارکیٹنگ کی اجازت دی جائے یا نہیں۔
اجازت ملنے کی صورت میں کمپنی اِس دوا کی تیاری کا اِستحقاق (Patent) اپنے نام سے محفوظ کرواتی ہے جس کی وجہ سے دوسری کمپنیاں Patent کی میعاد ختم ہونے تک اِس دوا کو تیار کرنے کی مجاز نہیں ہوتیں۔ دس (10) سے بیس (20) سال کے عرصہ کے بعد Patent کی میعاد ختم ہوجاتی ہے۔ میعاد ختم ہونے کے بعد دوسری کمپنیوں کو اِس دوا کی تیاری کی اجازت ہوتی ہے۔ دوسری کمپنیاں جب یہ دوا تیار کرتی ہیں تو اِس دوا کو Generic Drug کہا جاتا ہے جو کہ برانڈ کمپنی کے مساوی ہوتی ہیں۔
اِن کمپنیوں کو مذکورہ دوا کی تیاری کیلئے مزید کلینیکل ٹرائلز کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن اِن دواؤں کا ایک خاص مطالعہ کیا جاتا ہے جسے Bio-equivalence Studies کہتے ہے۔ اِس مطالعے میں دو کمپنیوں سے تیار کی گئی ایک ہی دوا کا موازنہ انسانوں میں کیا جاتا ہے۔
اگرچہ کلینیکل ٹرائلز سے کسی دوا کی سیفٹی اور افادیت کے بارے میں حاصل کی گئی معلومات بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں لیکن ڈرگ اپروول کے وقت اِس دوا کے بارے میں مکمل معلومات کا ہونا ناممکن ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ دوا کو سخت مراحل سے گزار کر ہی مارکیٹ میں لایا جاتا ہے لیکن اِس کی بھی کچھ حدبندیاں ہوتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کسی دوا کی سیفٹی کے حوالے سے مارکیٹ میں لائف ٹائم دستیابی کیلئے مہینوں اور سالوں کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ جب کوئی دوا FDA سے منظور ہوکر مارکیٹ میں دستیاب ہوجاتی ہے تو اِس کے بعد FDA کی ٹیم اِس دوا کی مانیٹرنگ کرتی ہے۔ اِس مانیٹرنگ کے نتائج کی بنیاد پر دوا کی خوراک اور استعمال سے متعلق تبدیلیاں کی جاتی ہیں اور دوسرے سنگین مسائل کو حل کرنے کے اقدامات کئے جاتے ہیں۔
ماضی کے تجربات سے یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سی دوائیں مارکیٹ میں آنے کے بعد انسانی جسم میں سنگین مضر اثرات مرتب کررہی تھیں، جن پر بعد میں FDA نے پابندی لگادی اور اِس طرح اِن ادویہ کو تیار کرنے والی کمپنیوں کو جو نقصان اٹھانا پڑا اِس کا اندازہ آپ اب تک کی تحریر پڑھنے کے بعد بخوبی لگا سکتے ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اِس کام کا آغاز کب سے ہوا؟ اِس بات کا ذکر کہیں موجود نہیں لیکن بیماریوں کے علاج میں نباتات بالخصوص جڑی بوٹیوں کا کردار ہمیشہ سے ہی قابلِ ذکر رہا ہے۔ قدرت نے اِن نباتات میں ایسے جوہر پیدا کئے ہیں کہ جن کا مکمل علم ابھی تک انسانی ذہن حاصل کرنے سے قاصر رہا ہے لیکن اِن کے بارے میں جاننے کی کوششیں جاری ہیں۔
جیسے جیسے ادویہ کے بارے میں انسانی علم کا ارتقاء ہوتا رہا، ویسے ویسے ادویہ کی تیاری اور اِن کے اِستعمال میں جدت آتی رہی۔ مثال کے طور پر قدیم ادوار میں بیماریوں کے علاج کیلئے خام جڑی بوٹیاں اِستعمال کی جاتی تھیں۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے مختلف اجزاء کو علیحدہ کرکے اِستعمال کیا جانے لگا، پھر اِن اجزاء میں موجود مرکبات کو کیمیائی طریقوں سے علیحدہ کرکے مخصوص مرکب کو اِستعمال کیا جانے لگا۔ مزید اِن اجزاء میں کیمیائی تبدیلیاں کی جانے لگیں اور مختلف مرکبات کو باہم ملا کر اِستعمال کیا جانے لگا جیسا کہ زمانہ جدید میں کیا جارہا ہے۔
پودوں کے کسی مخصوص حصے جیسے پتے، پھل، پھول، بیج وغیرہ کا سائنسی طریقوں سے مطالعہ کیا جائے تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اِن میں سینکڑوں اور ہزاروں اقسام کے کیمیائی مرکبات موجود ہوتے ہیں اور ہر مرکب (Compound) ایک خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے جو کہ انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد مخصوص طریقے سے ایک خاص حیاتیاتی عمل پر اثر انداز ہوتا ہے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کوئی مخصوص مرکب اگر کسی ایک حیاتیاتی عمل کو درست کرتا ہے تو دوسری طرف وہ کسی دوسرے حیاتیاتی عمل پر ضمنی اثرات (Side Effects) بھی مرتب کر رہا ہوتا ہے۔ اِس خامی کو دور کرنے کیلئے قدرت نے پودوں کے اُس مخصوص حصے میں دوسرے کئی مرکبات پیدا کئے ہیں جو بُرے اثرات کو زائل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل تمام دستیاب ادویہ، جو کہ مخصوص کیمیائی مرکب سے تیار ہوتی ہیں، اُن کے کچھ سائڈ ایفیکٹس ضرور ہوتے ہیں۔
اب ایک نظر ہم ادویہ کی تیاری کے مراحل پر ڈالتے ہیں جنہیں مدِنظر رکھتے ہوئے ہم اِس بات پر تجزیہ کرنے کی کوشش کریں گے کہ کیا پاکستان نئی ادویہ کی تیاری کا حامل ملک ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو اِس ملک میں ادویہ کی تیاری کے مراحل میں کن امور پر توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے؟
کسی ایک دوا کی ایجاد اور مارکیٹ میں دستیابی تک کے مراحل میں دس (10) سے پندرہ (15) سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور تقریباً آٹھ (8) سو مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین، ڈاکٹرز اور سائنسدانوں کی پیشہ ورانہ مہارت استعمال ہوتی ہے۔ اِس پورے عمل میں ایک بلین ڈالر سے زائد رقم صرف ہوتی ہے۔ یہاں دو اصطلاحات کا جاننا ضروری ہے، ایک مرکب یا کمپاؤنڈ (Compound) اور دوسری ڈرگ (Drug)۔
جب کوئی دوا تیاری کے مراحل میں ہوتی ہے تو اُسے کمپاؤنڈ کہتے ہیں اور جب دوا فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA) سے منظور ہو کر مارکیٹ میں آتی ہے تو اُسے ڈرگ (عام فہم میں میڈیسن) کا درجہ دیا جاتا ہے۔ دوا کی تیاری کا عمل پانچ مختلف مرحلوں پر مشتمل ہوتا ہے، جو ذیل میں درج ہیں۔
(1) ڈرگ ریسرچ (Drug Research)
(2) پری کلیکینل اسٹڈی (Pre-Clinical Study)
(3) کلینیکل ٹرائلز (Clinical Trials)
(4) ایف ڈی اے ریویو (FDA Review)
(5) ایف ڈی اے پوسٹ مارکیٹ سیفٹی مانیٹرنگ (FDA Post-Market Safety Monitoring)
اب ہم تسلسل سے اِن مراحل کی تفصیل کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
(1) ڈرگ ریسرچ (Drug Research)
اِس ابتدائی مرحلے میں کسی بیماری کے علاج کیلئے دوا ایجاد (Discover) کی جاتی ہے پھر اِسے قابلِ استعمال بنانے کیلئے تیار (Develop) کیا جاتا ہے۔ ڈرگ ڈسکوری کے مرحلے میں کسی ایک بیماری کا انتخاب کیا جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ اِس بیماری کے علاج کیلئے کون سے موجودہ طریقے رائج ہیں اور اُنہیں کس طرح بہتر بنایا جاِسکتا ہے۔
سب سے پہلے اِس بیماری کا گہرائی میں مطالعہ کیا جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ بیماری انسانی جسم کے کن افعال کو متاثر کررہی ہے۔ پھر اُن افعال کو کسی دوا کا ٹارگٹ بنایا جاتا ہے تاکہ اِس بیماری کا سدِباب کیا جاسکے۔ ابتدائی طور پر ہزاروں کمپاؤنڈز کی اِسکریننگ کی جاتی ہے اور انہیں مختلف سائنسی ٹیسٹ سے گزارا جاتا ہے تاکہ ان کمپاؤنڈز کا مخصوص بیماری کے خلاف اثر (Effect) معلوم کیا جاسکے۔ اِس ابتدائی اِسکریننگ سے گزرنے کے بعد کمپاؤنڈز کی محدود تعداد سامنے آتی ہے جو بیماری کے خلاف مؤثر کردار ادا کرتی ہے، پھر اُن کمپاؤنڈز کو مزید مطالعہ کیلئے منتخب کرلیا جاتا ہے۔
اب دوسرے مرحلے کی طرف آتے ہیں جسے ڈرگ ڈیولپمنٹ (Drug Development) کہا جاتا ہے۔ اِس مرحلے میں منتخب کردہ کمپاؤنڈز کو مزید تجربات سے گزارا جاتا ہے۔ اِن تجربات سے یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ کمپاؤنڈز کس طرح جسم میں جذب (Absorb) ہوکر مختلف حصوں میں تقسیم (Distribute) ہوں گے اور خلیوں میں کس طرح تحول پذیر (Metabolize) ہوکر جسم کے کن راِستوں سے ان کا اخراج (Excretion) عمل میں آئے گا۔
مزید برآں یہ بھی معلوم کیا جاتا ہے کہ اِن کمپاؤنڈز کی خوراک (Dose) کیا دی جانی چاہیئے اور اُنہیں کس طرح (مثلاً منہ، انجیکشن یا کسی اور طریقے سے) دیا جانا چاہیئے؟ اُن کے مضر اثرات (Side Effects) کیا ہوں گے؟ مختلف جنس اور نسل پر یہ کمپاؤنڈز کیسے اثر انداز ہوں گے؟ دوسری ادویہ اور علاج کے ساتھ اِن کا باہمی عمل کیا ہوگا اور ملتے جلتے یا ہم جنس ادویہ کے مقابلے میں اِن کی کیا کارکردگی ہے؟ یہ تمام امور ڈرگ ڈیولپمنٹ کا حصہ ہیں۔ جب اِن کمپاؤنڈز کی اِن تمام حوالوں سے جانچ پڑتال کرلی جاتی ہے تو اُنہیں اگلے مرحلے میں داخل کردیا جاتا ہے۔ اِس مرحلے کیلئے تقریباً دو سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔
(2) پری کلینیکل اِسٹڈی (Pre-Clinical Study)
انسانوں میں کسی کمپاؤنڈ کے اثرات معلوم کرنے سے پہلے اُنہیں پری کلینیکل ٹیسٹنگ سے گزارا جاتا ہے تاکہ انسانی جانوں کے زیاں سے بچا جاِسکے۔ پری کلینیکل ٹیسٹنگ کا بنیادی مقصد یہ جاننا ہے کہ یہ کمپاؤنڈز انسانی جسم میں سنگین مضر اثرات (Toxicity) مرتب کرنے کا باعث تو نہیں بنیں گے اور ان کمپاؤنڈز کی Safe Dose کیا ہوگی۔ بنیادی طور پر یہ اِسٹڈی دو طریقوں سے کی جاتی ہے۔ ایک In vitro یعنی جسم سے باہر کے تجربات اور دوسری In vivo یعنی جسم کے اندر کے تجربات۔
- In vitro
In vitro تجربات کے بھی بہت سے طریقے ہیں لیکن اِن میں خلیات (Cultured Cells) کا اِستعمال سرِفہرست ہے۔ اِن تجربات میں کسی عضو کے مخصوص خلیوں (جو کہ بیماری سے متاثر ہوتے ہیں) کو لیباریٹری میں علیحدہ کرکے اُن کی افزائش کی جاتی ہے اور پھر اُن پر کمپاؤنڈز کے اثرات کا مطالعہ مختلف سائنسی اوزار اور طریقوں سے کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر جگر کے کینسر (Liver Cancer) کا مطالعہ کرنا ہو تو جگر کے کینسر زدہ خلیات کو علیحدہ کرکے اُن کی افزائش کی جاتی ہے اور پھر اُن پر کمپاؤنڈز کی اِسکریننگ کی جاتی ہے۔ جو کمپائونڈز کینسر زدہ خلیات کی موت کا باعث بنتے ہیں اُنہیں مزید مطالعے کیلئے منتخب کرلیا جاتا ہے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ کمپاونڈز خلیات میں کس طرح اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں یعنی اُن کا مالیکیولر میکینزم (Molecular Mechanism) کیا ہے؟ پھر اِن کمپاونڈز کا In vivo مطالعہ کیا جاتا ہے۔
- In vivo
In vivo مطالعے میں پہلے چھوٹے جانوروں یعنی چوہوں کو اِستعمال کیا جاتا ہے پھر بڑے جانوروں یعنی بندر، بلی، گھوڑے وغیرہ پر اِن کمپاؤنڈز کے اثرات دیکھے جاتے ہیں۔ چوہوں میں In vivo مطالعہ کو سمجھنے کیلئے میں اپنے ایک پی ایچ ڈی پروجیکٹ کا حوالہ مختصراً دینا چاہوں گا۔ میں نے اپنے پروجیکٹ میں گردوں کی شدید چوٹ (Acute Kidney Injury) کا مطالعہ چوہوں (Mice) پر کیا۔ فی الوقت اِس بیماری کا کوئی مخصوص علاج دریافت نہیں ہوسکا البتہ ابتدائی تحقیق جاری ہے۔ اِس مطالعہ میں ایسے کمپاؤنڈز کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن کے استعمال سے اِس بیماری سے بچنے کی تدابیر کی جاِسکے۔
چوہوں کا کچھ دنوں تک مختلف نئے کمپاؤنڈز سے علاج کیا گیا پھر ایک خاص کیمیکل کے ذریعے اُن میں گردوں کی بیماری پیدا کی گئی۔ ایک خاص وقت کے بعد اُن چوہوں کے گردوں کو سرجری کے ذریعے نکالا گیا اور پھر مختلف سائنسی طریقوں سے اُن گردوں کی جانچ پڑتال کی گئی۔ مزید اُن چوہوں کے خون کے نمونے (Blood Samples) بھی لئے گئے اور اُن کی بائیو کیمیکل ٹیسٹنگ کی گئی۔ اِس پورے مطالعے میں تین ایسے کمپاؤنڈز کی نشاندہی کی گئی جو گردوں کی اِس بیماری سے بچاؤ کا باعث بنتے ہیں۔
مزید برآں اِن کمپاؤنڈز کے مالیکیولر میکینزم (Molecular mechanism) بھی معلوم کئے گئے کہ یہ کیسے گردوں کی اِس بیماری سے بچنے کا باعث بنتے ہیں۔ پری کلینیکل ٹیسٹنگ کے بعد جو کمپاؤنڈز مثبت اثرات ظاہر کرتے ہیں انہیں انسانوں میں مطالعے کیلئے منتخب کرلیا جاتا ہے۔ اِس پورے عمل میں تقریباً چار سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ ہزار کمپاؤنڈز جن کی پری کلینیکل ٹیسٹنگ ہوتی ہے، اِن میں سے صرف ایک کمپاؤنڈ FDA سے منظور ہوکر مارکیٹ میں دستیاب ہوتا ہے۔
(3) کلینیکل ٹرائلز (Clinical Trials)
کلینیکل ریسرچ یا ٹرائلز اِس مطالعے کو کہتے ہیں کہ جو انسانوں پر کئے جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پری کلینیکل مطالعے سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں وہ بہت بنیادی ہوتی ہیں اور حتمی طور پر یہ نہیں کہا جاِسکتا کہ یہ کمپاؤنڈز انسانوں میں بھی اِسی طرح اثر انداز ہوں گے جیسے جانوروں میں ہوئے ہیں۔ یہ ٹرائلز کسی میڈیکل پروڈکٹ کے بارے میں اِن مخصوص سوالوں کے جواب معلوم کرنے کیلئے کئے جاتے ہیں۔ اِن ٹرائلز کو شروع کرنے سے پہلے محقق ایک پلان (Protocol) مرتب کرتے ہیں۔ اِس پلان کو مرتب کرنے میں کچھ ابتدئی معلومات کو مدِنظر رکھا جاتا ہے۔ جیسے
- کن لوگوں کو اِس مطالعہ میں شامل کیا جائے گا؟
- کتنے لوگ اِس مطالعے کا حصہ ہوں گے؟
- اِس مطالعے کا دورانیہ کیا ہوگا؟
- تحقیقی تعصب (Research Bias) سے بچنے کے لئے کیا حکمت عملی اپنائی جائے گی؟
- مریضوں کو کتنے عرصے تک اور کس خوراک میں دوا دی جائے گی؟
- کب اور کس طرح مریضوں کا معائنہ کیا جائے گا اور کیا معلومات حاصل کی جائیں گی؟ اور
- معلومات کا تجزیہ کس طرح کیا جائے گا؟
یہ ٹرائلز دراصل ایک تسلسل سے کئے جاتے ہیں اور اِس کے مختلف مراحل (Phases) ہوتے ہیں جن کی تفصیل ذیل میں درج کی گئی ہے۔
- (الف) فیز 1
اِس مرحلے میں 20 سے 100 صحت مند افراد اور مریضوں کو شامل کیا جاتا ہے اور اِس کا دورانیہ کچھ مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اِس مرحلے کا بنیادی مقصد دوا کی سیفٹی (Safety) دیکھنا اور خوراک (Dose) متعین کرنا ہوتا ہے۔ فیز 1 میں 70 فیصد ڈرگز اگلے مرحلے کیلئے منتخب کی جاتی ہیں۔
- (ب) فیز 2
اِس مرحلے میں سینکٹروں مریضوں کو شامل کیا جاتا ہے اور تقریباً دو سال تک کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اِس مرحلے کا بنیادی مقصد دوا کی افادیت (Efficiency) اور مضرِ اثرات (Side Effects) کا مطالعہ کرنا ہوتا ہے۔ فیز 2 میں 33 فیصد ڈرگز اگلے مرحلے کیلئے منتخب کی جاتی ہیں۔
- (ج) فیز 3
اِس مرحلے میں تین سو سے تین ہزار رضاکار مریضوں کو شامل کیا جاتا ہے اور اِس کا دورانیہ ایک سے چار سال تک ہوتا ہے۔ اِس مرحلے کا بنیادی مقصد دوا کی افادیت (Efficiency) اور منفی اثرات (Adverse Reactions) کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ فیز 3 میں 25 سے 30 فیصد ڈرگز اگلے مرحلے کیلئے منتخب کی جاتی ہیں۔
- (د) فیز 4
اِس مرحلے میں کئی ہزار رضاکار مریضوں کو شامل کیا جاتا ہے اور اِس کا دورانیہ کم از کم 2 سال پر محیط ہوتا ہے۔ اِس کا بنیادی مقصد دوا کی سیفٹی (Safety) اور افادیت (Efficiency) کا مطالعہ بڑے پیمانے پر کرنا ہوتا ہے۔ اِس مرحلے میں دوا کے طویل مدتی (Long Term) اثرات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔
(4) ایف ڈی اے ریویو (FDA Review)
اگر ابتدائی ٹیسٹ، پری کلینیکل اور کلینیکل ریسرچ سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ زیرِ مطالعہ دوا استعمال کیلئے محفوظ اور مؤثر ہے تو اِس دوا پر ریسرچ کرنے والی کمپنی دوا کی مارکیٹنگ کیلئے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA) کو درخواِست جمع کرواتی ہے جسے (NDA New Drug Application) کہا جاتا ہے۔ اِس کے بعد FDA کی ریویو ٹیم دوا سے متعلق تمام جمع کی گئی معلومات کا جائزہ چھ (6) سے دس (10) مہینوں میں لینے کے بعد فیصلہ کرتی ہے کہ کمپنی کو مذکورہ دوا کی مارکیٹنگ کی اجازت دی جائے یا نہیں۔
اجازت ملنے کی صورت میں کمپنی اِس دوا کی تیاری کا اِستحقاق (Patent) اپنے نام سے محفوظ کرواتی ہے جس کی وجہ سے دوسری کمپنیاں Patent کی میعاد ختم ہونے تک اِس دوا کو تیار کرنے کی مجاز نہیں ہوتیں۔ دس (10) سے بیس (20) سال کے عرصہ کے بعد Patent کی میعاد ختم ہوجاتی ہے۔ میعاد ختم ہونے کے بعد دوسری کمپنیوں کو اِس دوا کی تیاری کی اجازت ہوتی ہے۔ دوسری کمپنیاں جب یہ دوا تیار کرتی ہیں تو اِس دوا کو Generic Drug کہا جاتا ہے جو کہ برانڈ کمپنی کے مساوی ہوتی ہیں۔
اِن کمپنیوں کو مذکورہ دوا کی تیاری کیلئے مزید کلینیکل ٹرائلز کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن اِن دواؤں کا ایک خاص مطالعہ کیا جاتا ہے جسے Bio-equivalence Studies کہتے ہے۔ اِس مطالعے میں دو کمپنیوں سے تیار کی گئی ایک ہی دوا کا موازنہ انسانوں میں کیا جاتا ہے۔
(5) ایف ڈی اے پوسٹ مارکیٹ سیفٹی مانیٹرنگ (FDA Post-Market Safety Monitoring)
اگرچہ کلینیکل ٹرائلز سے کسی دوا کی سیفٹی اور افادیت کے بارے میں حاصل کی گئی معلومات بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں لیکن ڈرگ اپروول کے وقت اِس دوا کے بارے میں مکمل معلومات کا ہونا ناممکن ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ دوا کو سخت مراحل سے گزار کر ہی مارکیٹ میں لایا جاتا ہے لیکن اِس کی بھی کچھ حدبندیاں ہوتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کسی دوا کی سیفٹی کے حوالے سے مارکیٹ میں لائف ٹائم دستیابی کیلئے مہینوں اور سالوں کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ جب کوئی دوا FDA سے منظور ہوکر مارکیٹ میں دستیاب ہوجاتی ہے تو اِس کے بعد FDA کی ٹیم اِس دوا کی مانیٹرنگ کرتی ہے۔ اِس مانیٹرنگ کے نتائج کی بنیاد پر دوا کی خوراک اور استعمال سے متعلق تبدیلیاں کی جاتی ہیں اور دوسرے سنگین مسائل کو حل کرنے کے اقدامات کئے جاتے ہیں۔
ماضی کے تجربات سے یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سی دوائیں مارکیٹ میں آنے کے بعد انسانی جسم میں سنگین مضر اثرات مرتب کررہی تھیں، جن پر بعد میں FDA نے پابندی لگادی اور اِس طرح اِن ادویہ کو تیار کرنے والی کمپنیوں کو جو نقصان اٹھانا پڑا اِس کا اندازہ آپ اب تک کی تحریر پڑھنے کے بعد بخوبی لگا سکتے ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیولنکس بھی۔