کیا پاکستان نئی ادویہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے دوسرا حصہ
کئی چیلنجزکےباوجود حکومت کو ادویہ سازی پرتوجہ دینی چاہیےکیونکہ یہ سیکٹرملکی معیشت میں انقلاب پیداکرنیکی صلاحیت رکھتاہے
پاکستان میں موجود ملٹی نیشنل کمپنیوں میں سے کوئی بھی کمپنی ڈرگ ڈسکوری اور پری کلینیکل ریسرچ پر کام نہیں کر رہی لیکن اُن کے پاس کلینیکل ٹرائلز کیلئے تربیت یافتہ ٹیم موجود ہے۔ فوٹو: فائل
تحریر کے پہلے حصے میں دوا کی تیاری کے مختلف مراحل کو تفصیل سے زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ اب ایک نظر ہم ملک میں موجود فارماسیوٹیکل انڈسٹریز پر ڈالتے ہیں۔ یہاں اِس حقیقت کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ پاکستان کا مقام آبادی کے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر آتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 400 فارماسیوٹیکل یونٹس کام کررہے ہیں۔ جن میں سے 25 یونٹس ملٹی نیشنل کمپنیاں چلا رہی ہیں، جبکہ لوکل کمپنیاں ملکی ضرورت کی 70 فیصد ادویات کی تیاری میں تعاون کرتی ہیں لیکن اِن لوکل کمپنیوں میں کسی بھی قسم کی کوئی تحقیق نہیں کی جارہی۔ پاکستان میں موجود ملٹی نیشنل کمپنیوں میں سے کوئی بھی کمپنی ڈرگ ڈسکوری اور پری کلینیکل ریسرچ پر کام نہیں کر رہی لیکن اُن کے پاس کلینیکل ٹرائلز کیلئے تربیت یافتہ ٹیم موجود ہے اور یہ ٹرائلز صرف دوا کی رجسٹریشن سے پہلے کے مرحلے کیلئے کئے جاتے ہیں۔
جب میں اِس تحریر کیلئے اعداد و شمار اور ضروری مواد کا مطالعہ کر رہا تھا تو میری نظر سے پاکستانی اخبار کی ایک رپورٹ گزری جسے پڑھ کر مجھے بہت زیادہ دکھ ہوا۔ رپورٹ میں واضح الفاظ میں لکھا تھا کہ
ہمارے میڈیا کا المیہ یہ ہے کہ اِس نے پاکستان میں موجود ریسرچ سینٹرز کی جانب سے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ہمارے ملک کے ریسرچ سینٹرز کی جانب سے سالانہ سینکٹروں تحقیقی رپورٹس کی عالمی جریدوں میں اشاعت ہوتی ہے، جنہیں پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہمارے صحافی حضرات میں شاید موجود نہیں (معذرت کے ساتھ)۔ پاکستان میں سائنسی صحافت کا کوئی خاص رجحان نہیں پایا جاتا جس کے نتیجے میں ملک میں کی جانے والی سائنسی تحقیقات کو عام فہم الفاظ میں بیان کرکے لوگوں کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا۔ اِس لیے اِس انتہائی اہم امر پر بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں ڈرگ ڈسکوری اور پری کلینیکل ریسرچ کی کیا صورت حال ہے؟ یہ ریسرچ کن اداروں میں کی جارہی ہے؟ اور مستقبل میں ملکی سطح پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟
پاکستان میں یوں تو کئی عالمی معیار کے ریسرچ سینٹرز کام کر رہے ہیں۔ بالخصوص ڈرگ ڈسکوری اور پری کلینیکل ریسرچ کی بات کی جائے تو اُن میں سرِفہرست جامعہ کراچی میں موجود انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز (ICCBS) ہے۔ اِس ادارے کا قیام ایچ ای جے ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری (HEJ RIC) کے نام سے آج سے تقریباً 50 سال قبل عمل میں آیا۔ مختصراً بتاتا چلوں کہ اِس ادارے میں کئی ذیلی سینٹرز کام کررہے ہیں جن میں سے ایک سینٹر کا کیمسٹری کے حوالے سے کام میں اپنا ایک مقام ہے۔ اِس سینٹر میں کام کرنے والے طالب علموں اور ریسرچ ٹیم نے اب تک مختلف پودوں سے 14500 سے زائد نئے کیمیائی مرکبات کو علیحدہ کیا ہے جو کیمسٹری کی دنیا میں ایک حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ اِن مرکبات کو اِسی سینٹر میں قائم پاکستان کے پہلے مالیکولر بینک میں محفوظ کیا گیا ہے تاکہ اِن مرکبات کی پری کلینیکل ریسرچ کی جاسکے۔ یہ کیمیائی مرکبات (قدرتی و مصنوعی) متعدد بیماریوں کے علاج کیلئے نئی ادویات کی تیاری میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
جبکہ اِس ادارے کا دوسرا سینٹر ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ (PCMD) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اِس سینٹر میں اِن کیمیائی مرکبات کو متعدد بیماریوں کے علاج کیلئے In vitro اور In vivo یعنی جانوروں کے تجربات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اِس سینٹر میں ایک علیحدہ عالمی معیار کا Animal House بھی قائم کیا گیا ہے جس میں بڑی تعداد میں تجربات کیلئے چوہوں (Mice/Rats)، خرگوش اور Guinae Pigs کی افزائش و نشوونما کی جاتی ہے۔ اِس ادارے میں طِب کے حوالے سے نینو میڈیسن (Nano-medicine) پر بھی کام کا آغاز کیا جاچکا ہے جس کا تفصیلی ذکر میں اپنی آئندہ تحریر میں کروں گا۔ اِس کے علاوہ دوسرے ادارے جن میں پری کلینیکل ریسرچ کی سہولت بھی میسر ہے، اُن میں قائداعظم یونیورسٹی (اسلام آباد)، نیشنل انسٹیٹیوٹ فار بائیوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ (فیصل آباد)، ڈاکٹر اے کیو خان انسٹیٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ (جامعہ کراچی)، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (اسلام آباد)، پنجاب یونیورسٹی (لاہور)، آغا خان یونیورسٹی (کراچی)، آرمڈ فورسز پوسٹ گریجویٹ انسٹیٹیوٹ (راولپنڈی)، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (لاہور) اور لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لاہور) شامل ہیں۔
یہ بات بھی قابلِ تحسین ہے کہ گزشتہ 15 سال میں فارماسیوٹیکل انڈسٹریز کی ترقی میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پہلے چھوٹے فارماسیوٹیکل یونٹس سے اِس بات کی توقع رکھنا ممکن نظر نہیں آتا تھا کہ وہ کم اخراجات میں معیاری ریسرچ کرسکیں لیکن اب گزشتہ دہائی کے دوران انہوں نے اپنے آپ کو اِس قابل بنالیا ہے کہ اُن سے یہ توقع کی جاسکے۔ اِس کیلئے ضروری ہے کہ پبلک اور پرائیوٹ سیکٹرز باہمی تعاون سے کام کا آغاز کریں اور فارماسیوٹیکل انڈسٹریز پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کی خاطر خواہ مالی تعاون کریں جس سے کسی دوا کے بارے میں ابتدائی ریسرچ کی جاسکے۔
فی الوقت لوکل فارماسیوٹیکل انڈسٹریز کی طرف سے اِس بات کا مثبت رجحان دیکھنے میں نہیں آرہا جو قابلِ تشویش ہے۔ یہاں فارماسیوٹیکل کمپنی کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا بیان بھی غور طلب ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ''لوکل فارماسیوٹیکل کمپنیوں میں ریسرچ کا نہ ہونا حکومتی عدم توجہی کا نتیجہ ہے۔'' یوں تو موجودہ دور میں حکومت کو بیک وقت کئی چیلنجز درپیش ہیں لیکن ملکی معیشت کے استحکام کیلئے حکومت کو اس طرف بھی متوجہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ سیکٹر ملکی ریونیو کے اضافے میں انقلاب پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جیسا کہ پہلے یہ بیان کیا جاچکا ہے کہ ایک دوا کی تیاری میں ایک بلین ڈالر سے زائد رقم درکار ہوتی ہے لیکن ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ لوکل کمپنیاں کچھ ملین ڈالر سے ایک نئی دوا ایجاد کرسکتی ہیں۔ اُن کا یہ کہنا ہے کہ اگر امریکی اور یورپی کمپنیاں کم اخراجات میں ایک نئی پروڈکٹ بناسکتی ہیں تو ہم کیوں نہیں بناسکتے؟
اب ہم پاکستان میں کلینیکل ٹرائلز کی موجودہ صورتحال پر تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اُن امور پر بھی غور کرتے ہیں جن پر توجہ دے کر اِس عمل کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک پاکستان میں 80 سے زائد کلینیکل ٹرائلز رجسٹر کئے گئے ہیں جن میں سرِفہرست کینسر، انفیکشن، ہائپر ٹینشن، خون کی بیماریاں، بانجھ پن کی بیماریاں، معدہ اور جگر کی بیماریاں، سانس اور دل کی بیماریاں، ذہنی اور نفسیاتی بیماریاں، ذیابیطس یا شوگر اور دوسری بیماریاں شامل ہیں۔ فی الوقت صرف 7 فارماسیوٹیکل انڈسٹریز اِن ٹرائلز میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
جب ایک دوا کی Patent کی میعاد ختم ہوجاتی ہے تو دوسری کمپنیاں بھی اِس دوا کو تیار کرسکتی ہیں۔ جب ایک ہی دوا دوسری کمپنی پہلی بار تیار کرتی ہے تو اُس دوا کی مارکیٹ میں دستیابی سے قبل Bio-equivalence Studies کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ ماضی میں پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں تھا جو یہ کام سرانجام دے سکے۔ لیکن فی الوقت پاکستان میں تین ادارے قائم ہوچکے ہیں جن میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، یونیورسٹی آف وٹنری اینڈ اینیمل سائنسز، اور سینٹر فار بائیو ایکویویلنس اسٹڈیز اینڈ کلینیکل ریسرچ (CBSCR) جو کہ ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ (PCMD) کا حصہ ہے۔
ضرورت اِس بات کی ہے کہ حکومتی سطح پر مزید ایسے ادارے قائم کئے جائیں جن میں کلینیکل ریسرچ کی جاسکے تاکہ لوکل فارماسیوٹیکل کمپنیاں آسانی سے اور کم اخراجات میں دوائیں تیار کرکے مارکیٹ میں مہیا کرسکیں، تاکہ اِس پورے عمل کا فائدہ پاکستان اور دوسرے ممالک کے لوگوں کو بالواسطہ ہو اور پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوجائے جو بذات خود کلینیکل ٹرائلز کا ڈیٹا پیدا کرتے ہیں۔ کلینیکل ٹرائلز کے کلچر کو فروغ دینے میں اِس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ حکومت دواؤں کی مد میں ٹیکس پر خاطر خواہ کمی کرے جو اب تک 17 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور اِس میں ہمیشہ سے ہی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر اور تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں دواؤں کی ابتدائی ریسرچ سے لے کر مارکیٹ میں دستیابی تک کے مراحل میں کردار ادا کرنے والے ادارے، ماہرین، ڈاکٹرز اور سائنسدانوں کی باصلاحیت ٹیم موجود ہے۔ اب بس ضرورت اِس بات کی ہے کہ اِس ملک میں ایک ایسا 'نظام' بنایا جائے جس کی بدولت یہ ادارے جو الگ الگ کام کر رہے ہیں، آپس میں باہمی اشتراک و عمل سے اپنی جدوجہد کا آغاز ایک نئے سرے سے کریں۔ یہ نظام نہ صرف ملکی معیشت میں خاطر خواہ اضافے کا باعث بنے گا بلکہ پاکستان میں پائی جانے والی بیماریوں سے متاثرہ افراد بھی ایک صحت مند زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
جب میں اِس تحریر کیلئے اعداد و شمار اور ضروری مواد کا مطالعہ کر رہا تھا تو میری نظر سے پاکستانی اخبار کی ایک رپورٹ گزری جسے پڑھ کر مجھے بہت زیادہ دکھ ہوا۔ رپورٹ میں واضح الفاظ میں لکھا تھا کہ
پاکستان میں ڈرگ ڈسکوری اور پری کلینیکل ریسرچ پر کوئی کام نہیں ہورہا۔
ہمارے میڈیا کا المیہ یہ ہے کہ اِس نے پاکستان میں موجود ریسرچ سینٹرز کی جانب سے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ہمارے ملک کے ریسرچ سینٹرز کی جانب سے سالانہ سینکٹروں تحقیقی رپورٹس کی عالمی جریدوں میں اشاعت ہوتی ہے، جنہیں پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہمارے صحافی حضرات میں شاید موجود نہیں (معذرت کے ساتھ)۔ پاکستان میں سائنسی صحافت کا کوئی خاص رجحان نہیں پایا جاتا جس کے نتیجے میں ملک میں کی جانے والی سائنسی تحقیقات کو عام فہم الفاظ میں بیان کرکے لوگوں کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا۔ اِس لیے اِس انتہائی اہم امر پر بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں ڈرگ ڈسکوری اور پری کلینیکل ریسرچ کی کیا صورت حال ہے؟ یہ ریسرچ کن اداروں میں کی جارہی ہے؟ اور مستقبل میں ملکی سطح پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟
پاکستان میں یوں تو کئی عالمی معیار کے ریسرچ سینٹرز کام کر رہے ہیں۔ بالخصوص ڈرگ ڈسکوری اور پری کلینیکل ریسرچ کی بات کی جائے تو اُن میں سرِفہرست جامعہ کراچی میں موجود انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز (ICCBS) ہے۔ اِس ادارے کا قیام ایچ ای جے ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری (HEJ RIC) کے نام سے آج سے تقریباً 50 سال قبل عمل میں آیا۔ مختصراً بتاتا چلوں کہ اِس ادارے میں کئی ذیلی سینٹرز کام کررہے ہیں جن میں سے ایک سینٹر کا کیمسٹری کے حوالے سے کام میں اپنا ایک مقام ہے۔ اِس سینٹر میں کام کرنے والے طالب علموں اور ریسرچ ٹیم نے اب تک مختلف پودوں سے 14500 سے زائد نئے کیمیائی مرکبات کو علیحدہ کیا ہے جو کیمسٹری کی دنیا میں ایک حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ اِن مرکبات کو اِسی سینٹر میں قائم پاکستان کے پہلے مالیکولر بینک میں محفوظ کیا گیا ہے تاکہ اِن مرکبات کی پری کلینیکل ریسرچ کی جاسکے۔ یہ کیمیائی مرکبات (قدرتی و مصنوعی) متعدد بیماریوں کے علاج کیلئے نئی ادویات کی تیاری میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
جبکہ اِس ادارے کا دوسرا سینٹر ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ (PCMD) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اِس سینٹر میں اِن کیمیائی مرکبات کو متعدد بیماریوں کے علاج کیلئے In vitro اور In vivo یعنی جانوروں کے تجربات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اِس سینٹر میں ایک علیحدہ عالمی معیار کا Animal House بھی قائم کیا گیا ہے جس میں بڑی تعداد میں تجربات کیلئے چوہوں (Mice/Rats)، خرگوش اور Guinae Pigs کی افزائش و نشوونما کی جاتی ہے۔ اِس ادارے میں طِب کے حوالے سے نینو میڈیسن (Nano-medicine) پر بھی کام کا آغاز کیا جاچکا ہے جس کا تفصیلی ذکر میں اپنی آئندہ تحریر میں کروں گا۔ اِس کے علاوہ دوسرے ادارے جن میں پری کلینیکل ریسرچ کی سہولت بھی میسر ہے، اُن میں قائداعظم یونیورسٹی (اسلام آباد)، نیشنل انسٹیٹیوٹ فار بائیوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ (فیصل آباد)، ڈاکٹر اے کیو خان انسٹیٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ (جامعہ کراچی)، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (اسلام آباد)، پنجاب یونیورسٹی (لاہور)، آغا خان یونیورسٹی (کراچی)، آرمڈ فورسز پوسٹ گریجویٹ انسٹیٹیوٹ (راولپنڈی)، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (لاہور) اور لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لاہور) شامل ہیں۔
یہ بات بھی قابلِ تحسین ہے کہ گزشتہ 15 سال میں فارماسیوٹیکل انڈسٹریز کی ترقی میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پہلے چھوٹے فارماسیوٹیکل یونٹس سے اِس بات کی توقع رکھنا ممکن نظر نہیں آتا تھا کہ وہ کم اخراجات میں معیاری ریسرچ کرسکیں لیکن اب گزشتہ دہائی کے دوران انہوں نے اپنے آپ کو اِس قابل بنالیا ہے کہ اُن سے یہ توقع کی جاسکے۔ اِس کیلئے ضروری ہے کہ پبلک اور پرائیوٹ سیکٹرز باہمی تعاون سے کام کا آغاز کریں اور فارماسیوٹیکل انڈسٹریز پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کی خاطر خواہ مالی تعاون کریں جس سے کسی دوا کے بارے میں ابتدائی ریسرچ کی جاسکے۔
فی الوقت لوکل فارماسیوٹیکل انڈسٹریز کی طرف سے اِس بات کا مثبت رجحان دیکھنے میں نہیں آرہا جو قابلِ تشویش ہے۔ یہاں فارماسیوٹیکل کمپنی کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا بیان بھی غور طلب ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ''لوکل فارماسیوٹیکل کمپنیوں میں ریسرچ کا نہ ہونا حکومتی عدم توجہی کا نتیجہ ہے۔'' یوں تو موجودہ دور میں حکومت کو بیک وقت کئی چیلنجز درپیش ہیں لیکن ملکی معیشت کے استحکام کیلئے حکومت کو اس طرف بھی متوجہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ سیکٹر ملکی ریونیو کے اضافے میں انقلاب پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جیسا کہ پہلے یہ بیان کیا جاچکا ہے کہ ایک دوا کی تیاری میں ایک بلین ڈالر سے زائد رقم درکار ہوتی ہے لیکن ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ لوکل کمپنیاں کچھ ملین ڈالر سے ایک نئی دوا ایجاد کرسکتی ہیں۔ اُن کا یہ کہنا ہے کہ اگر امریکی اور یورپی کمپنیاں کم اخراجات میں ایک نئی پروڈکٹ بناسکتی ہیں تو ہم کیوں نہیں بناسکتے؟
اب ہم پاکستان میں کلینیکل ٹرائلز کی موجودہ صورتحال پر تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اُن امور پر بھی غور کرتے ہیں جن پر توجہ دے کر اِس عمل کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک پاکستان میں 80 سے زائد کلینیکل ٹرائلز رجسٹر کئے گئے ہیں جن میں سرِفہرست کینسر، انفیکشن، ہائپر ٹینشن، خون کی بیماریاں، بانجھ پن کی بیماریاں، معدہ اور جگر کی بیماریاں، سانس اور دل کی بیماریاں، ذہنی اور نفسیاتی بیماریاں، ذیابیطس یا شوگر اور دوسری بیماریاں شامل ہیں۔ فی الوقت صرف 7 فارماسیوٹیکل انڈسٹریز اِن ٹرائلز میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
جب ایک دوا کی Patent کی میعاد ختم ہوجاتی ہے تو دوسری کمپنیاں بھی اِس دوا کو تیار کرسکتی ہیں۔ جب ایک ہی دوا دوسری کمپنی پہلی بار تیار کرتی ہے تو اُس دوا کی مارکیٹ میں دستیابی سے قبل Bio-equivalence Studies کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ ماضی میں پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں تھا جو یہ کام سرانجام دے سکے۔ لیکن فی الوقت پاکستان میں تین ادارے قائم ہوچکے ہیں جن میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، یونیورسٹی آف وٹنری اینڈ اینیمل سائنسز، اور سینٹر فار بائیو ایکویویلنس اسٹڈیز اینڈ کلینیکل ریسرچ (CBSCR) جو کہ ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ (PCMD) کا حصہ ہے۔
ضرورت اِس بات کی ہے کہ حکومتی سطح پر مزید ایسے ادارے قائم کئے جائیں جن میں کلینیکل ریسرچ کی جاسکے تاکہ لوکل فارماسیوٹیکل کمپنیاں آسانی سے اور کم اخراجات میں دوائیں تیار کرکے مارکیٹ میں مہیا کرسکیں، تاکہ اِس پورے عمل کا فائدہ پاکستان اور دوسرے ممالک کے لوگوں کو بالواسطہ ہو اور پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوجائے جو بذات خود کلینیکل ٹرائلز کا ڈیٹا پیدا کرتے ہیں۔ کلینیکل ٹرائلز کے کلچر کو فروغ دینے میں اِس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ حکومت دواؤں کی مد میں ٹیکس پر خاطر خواہ کمی کرے جو اب تک 17 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور اِس میں ہمیشہ سے ہی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر اور تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں دواؤں کی ابتدائی ریسرچ سے لے کر مارکیٹ میں دستیابی تک کے مراحل میں کردار ادا کرنے والے ادارے، ماہرین، ڈاکٹرز اور سائنسدانوں کی باصلاحیت ٹیم موجود ہے۔ اب بس ضرورت اِس بات کی ہے کہ اِس ملک میں ایک ایسا 'نظام' بنایا جائے جس کی بدولت یہ ادارے جو الگ الگ کام کر رہے ہیں، آپس میں باہمی اشتراک و عمل سے اپنی جدوجہد کا آغاز ایک نئے سرے سے کریں۔ یہ نظام نہ صرف ملکی معیشت میں خاطر خواہ اضافے کا باعث بنے گا بلکہ پاکستان میں پائی جانے والی بیماریوں سے متاثرہ افراد بھی ایک صحت مند زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگرجامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی۔