فورٹ منرو گرمی میں راحت کا جھونکا
پرسکون فضا، ٹھنڈی ہوائیں اور رات کو جھیل کنارے بیٹھ کر باتیں کرتے لوگ فورٹ منرو کی پہچان ہے۔
اگست میں فورٹ منرو بادلوں میں گِھرا رہتا ہے، اور ٹھنڈی ہوائیں آپ کے چہرے کو چھوتی ہوئی گزر جاتی ہیں۔فوٹو:فائل
MULTAN:
گوروں کی ایک اچھی عادت ہے کہ جب بھی کسی انسان سے کچھ فائدہ لیتے ہیں تو اُس کو بدلے میں کسی شے سے نواز دیتے ہیں، اور ہمارے پیارے پاکستان میں ابھی تک بہت سی گوروں کی نوازشات نظر آتی ہیں، جیسا کہ کراچی میں موجود سندھ سیکریٹریٹ کی پرانی بلڈنگ۔
اِنہی نوازشات میں کچھ ایسے شہر بھی ہیں جو انگریز سرکار نے آباد کیے جو آج بھی اُن ہی کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں، جیسا کہ جنرل جیمز کا آباد کیا ہو جیمز آباد، جنرل جان جیکب کا آباد کیا ہوا جیکب آباد، جنرل منرو کا آباد کیا ہوا فورٹ منرو۔ اِن علاوہ بھی ایسے بہت سے علاقے ہیں جو انگریزوں کے نام سے ابھی تک کہلائے اور پکارے جاتے ہیں۔
فوٹو: سیف اللہ
N-70 فورٹ منرو جسے علاقائی افراد ''فوٹ منڈو'' کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ علاقہ ڈیرہ غازی خان سے 83.2 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ آپ اگر سندھ سے جانا چاہیں تو کشمور سے آگے راجن پور سے براستہ جام پور فورٹ منرو آسانی سے پہنچ سکتے ہیں۔ یہ شہر اصل میں برطانوی فوج کے جنرل جان منرو نے آباد کیا۔ کہتے ہیں اُس کا ملازم وہاں یعنی آج کے ڈیرہ غازی خان کا رہائشی تھا۔ جب جان منرو گرمی سے گھبرا کر ملازم کے مشورے پر اِس جگہ پہنچا تو جس راستے سے گزرا، وہ راستہ آج بھی موجود ہے اور مقامی افراد اِسے ''شاہی سڑک'' کے نام سے پکارتے ہیں۔
فوٹو: گوگل
علاقے کی آب و ہوا سے متاثر ہوکر جنرل نے یہاں موجود پہاڑی چوٹی تک راستہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اِس چوٹی کو آج ''اناڑی پوائنٹ'' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
فوٹو: سیف اللہ
اِس کے ساتھ منرو نے ایک مصنوعی جھیل بھی قائم کی جو ''ڈیمس لیک'' کے نام سے مشہور ہے۔ اِس لیک کا نام ایک فوجی M. L. Demis کے نام پر رکھا گیا۔
فوٹو: گوگل
آزادی کے بعد یہ علاقہ لغاری قبائل کے حوالے کردیا گیا، یہی وجہ ہے کہ یہ ''تمن لغاری'' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ مقامی افراد اِسے ''مری'' کے نام سے بھی پکارنے لگے ہیں، کیونکہ موسم گرما میں یہ علاقہ اندرون سندھ اور پنجاب کے رہنے والوں کے لیے مری سے کم نہیں۔ عوام 45 سینٹی گریڈ سے نکل کر 15 سینٹی گریڈ میں جاکر لطف اندوز ہوتے ہیں۔
فوٹو: سیف اللہ
موجودہ حکومت نے اگرچہ یہاں کچھ نئے پراجیکٹ شروع کیے ہیں لیکن ابھی تک یہ مکمل نہیں ہوسکے ہیں۔ یہاں ہوٹل کا کرایہ نسبتاً کم ہے۔ آپ کو ایک کمرہ عام دنوں میں 1 ہزار روپیہ کے حساب سے مل جاتا ہے، لیکن عید کے دنوں میں یہ کرایہ 2 ہزار تک جا پہنچتا ہے کیوںکہ سیاحوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ یہاں کی پرسکون فضا، ٹھنڈی ہوائیں اور رات کو جھیل کنارے بیٹھ کر باتیں کرتے لوگ فورٹ منرو کی پہچان ہے۔
فوٹو: سیف اللہ
اگست میں فورٹ منرو بادلوں میں گِھرا رہتا ہے اور ٹھنڈی ہوائیں آپ کے چہرے کو چھوتی ہوئی گزر جاتی ہیں۔ یہاں کے تاریخی مقامات میں میوزیم، پرانا قلعہ اور ساتھ ہی ساتھ جنرل منرو اور اِس کے خاندان کی قبریں بھی ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ کو ہائیکنگ کرنی ہو تو یہاں کے خوبصورت پہاڑ آپ کے منتظر ہیں۔
فوٹو: سیف اللہ
اور آخری بات، جاتے ہوئے صوفی بزرگ ''سخی سرور'' کے مزار پر فاتحہ خوانی کیلئے ضرور جائیے گا۔ تو پھر دیر کس بات کی؟ ابھی پروگرام بنائیے اور تاریخی مقامات کے ساتھ ساتھ موسمِ گرما میں موسمِ سرما کا مزہ لینے کی تیاری کیجیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
گوروں کی ایک اچھی عادت ہے کہ جب بھی کسی انسان سے کچھ فائدہ لیتے ہیں تو اُس کو بدلے میں کسی شے سے نواز دیتے ہیں، اور ہمارے پیارے پاکستان میں ابھی تک بہت سی گوروں کی نوازشات نظر آتی ہیں، جیسا کہ کراچی میں موجود سندھ سیکریٹریٹ کی پرانی بلڈنگ۔
اِنہی نوازشات میں کچھ ایسے شہر بھی ہیں جو انگریز سرکار نے آباد کیے جو آج بھی اُن ہی کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں، جیسا کہ جنرل جیمز کا آباد کیا ہو جیمز آباد، جنرل جان جیکب کا آباد کیا ہوا جیکب آباد، جنرل منرو کا آباد کیا ہوا فورٹ منرو۔ اِن علاوہ بھی ایسے بہت سے علاقے ہیں جو انگریزوں کے نام سے ابھی تک کہلائے اور پکارے جاتے ہیں۔
فوٹو: سیف اللہ
N-70 فورٹ منرو جسے علاقائی افراد ''فوٹ منڈو'' کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ علاقہ ڈیرہ غازی خان سے 83.2 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ آپ اگر سندھ سے جانا چاہیں تو کشمور سے آگے راجن پور سے براستہ جام پور فورٹ منرو آسانی سے پہنچ سکتے ہیں۔ یہ شہر اصل میں برطانوی فوج کے جنرل جان منرو نے آباد کیا۔ کہتے ہیں اُس کا ملازم وہاں یعنی آج کے ڈیرہ غازی خان کا رہائشی تھا۔ جب جان منرو گرمی سے گھبرا کر ملازم کے مشورے پر اِس جگہ پہنچا تو جس راستے سے گزرا، وہ راستہ آج بھی موجود ہے اور مقامی افراد اِسے ''شاہی سڑک'' کے نام سے پکارتے ہیں۔
فوٹو: گوگل
علاقے کی آب و ہوا سے متاثر ہوکر جنرل نے یہاں موجود پہاڑی چوٹی تک راستہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اِس چوٹی کو آج ''اناڑی پوائنٹ'' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
فوٹو: سیف اللہ
اِس کے ساتھ منرو نے ایک مصنوعی جھیل بھی قائم کی جو ''ڈیمس لیک'' کے نام سے مشہور ہے۔ اِس لیک کا نام ایک فوجی M. L. Demis کے نام پر رکھا گیا۔
فوٹو: گوگل
آزادی کے بعد یہ علاقہ لغاری قبائل کے حوالے کردیا گیا، یہی وجہ ہے کہ یہ ''تمن لغاری'' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ مقامی افراد اِسے ''مری'' کے نام سے بھی پکارنے لگے ہیں، کیونکہ موسم گرما میں یہ علاقہ اندرون سندھ اور پنجاب کے رہنے والوں کے لیے مری سے کم نہیں۔ عوام 45 سینٹی گریڈ سے نکل کر 15 سینٹی گریڈ میں جاکر لطف اندوز ہوتے ہیں۔
فوٹو: سیف اللہ
موجودہ حکومت نے اگرچہ یہاں کچھ نئے پراجیکٹ شروع کیے ہیں لیکن ابھی تک یہ مکمل نہیں ہوسکے ہیں۔ یہاں ہوٹل کا کرایہ نسبتاً کم ہے۔ آپ کو ایک کمرہ عام دنوں میں 1 ہزار روپیہ کے حساب سے مل جاتا ہے، لیکن عید کے دنوں میں یہ کرایہ 2 ہزار تک جا پہنچتا ہے کیوںکہ سیاحوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ یہاں کی پرسکون فضا، ٹھنڈی ہوائیں اور رات کو جھیل کنارے بیٹھ کر باتیں کرتے لوگ فورٹ منرو کی پہچان ہے۔
فوٹو: سیف اللہ
اگست میں فورٹ منرو بادلوں میں گِھرا رہتا ہے اور ٹھنڈی ہوائیں آپ کے چہرے کو چھوتی ہوئی گزر جاتی ہیں۔ یہاں کے تاریخی مقامات میں میوزیم، پرانا قلعہ اور ساتھ ہی ساتھ جنرل منرو اور اِس کے خاندان کی قبریں بھی ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ کو ہائیکنگ کرنی ہو تو یہاں کے خوبصورت پہاڑ آپ کے منتظر ہیں۔
فوٹو: سیف اللہ
اور آخری بات، جاتے ہوئے صوفی بزرگ ''سخی سرور'' کے مزار پر فاتحہ خوانی کیلئے ضرور جائیے گا۔ تو پھر دیر کس بات کی؟ ابھی پروگرام بنائیے اور تاریخی مقامات کے ساتھ ساتھ موسمِ گرما میں موسمِ سرما کا مزہ لینے کی تیاری کیجیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصرمگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی۔