راشٹرپتی بھون یا وائسرائے کا محل
نائب صدر کی طرح‘ صدر کی سیکیورٹی بھی حکومت کے ہاتھوں میں ہوتی ہے جس پر نیلی کتاب کی ہدایات کے مطابق عمل کیا جاتا ہے
لاہور:
مجھے حیرت ہے کہ پرناب مکھرجی جیسا ایک عوامی رہنما کس آسانی کے ساتھ پھسل کر ایوان صدر کی شاہانہ فضا میں تحلیل ہو گیا، اب صرف چھ ماہ کے عرصے میں ہی شاہی دربار جیسے باوردی اہلکاروں کے جمگھٹے میں جو ہر بار جھک جھک کر انھیں آداب کرتے ہیں۔ مکھرجی ایک بالکل ہی مختلف شخص بن گئے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ وہ صدارتی دفتر میں پہنچ کر وہاں تبدیلیاں پیدا کریں گے تا کہ اس عالیشان عمارت کے دروازے عوام پر بھی کھل سکیں لیکن انھوں نے برطانوی وائسرائے کے دور ِ حکمرانی کے رعب و دبدبے کو فروغ دینے والے ماحول کو اپنانے میں ترجیح کا مظاہرہ کیا۔
مجھے اس ہفتے ایک تقریب میں شرکت کے لیے ایوان صدر (راشٹر پتی بھون) جانا پڑا۔ میں بطور خاص مکھرجی کے اسٹائل اور ان کے پیشروئوں میں فرق کا جائزہ لینا چاہتا تھا۔ لیکن مجھے کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ ڈائس پر تین عام کرسیوں کے درمیان رکھی گئی شان و شوکت والی کرسی بڑی بے جوڑ سی لگ رہی تھی۔ ایک آفیسر نے' جس کی وردی پر بہت سارے بٹن لگے تھے اور جو غالباً تینوں مسلح افواج میں سے کسی ایک سے ڈیپوٹیشن پر ایوان صدر متعین کیا گیا تھا' صدارتی تقریر کا مسودہ پوڈیم پر رکھ دیا جہاں سے صدر نے خطاب کیا۔ اس بات کا البتہ مجھے اعتراف ہے کہ انھوں نے جو کہا، وہ ملک کی موجودہ صورتحال کے مطابق تھا۔ لیکن یہی وہ مقام ہے جہاں انھیں تبدیلی کرنا چاہیے تھی۔ انھیں لازماً اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ وہ ملکہ برطانیہ کی مانند محض ایک نمائشی سربراہ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ آئین کے نگہبان ہیں اور تمام اختیارات کا منبع انھی کا دفتر ہے لیکن اختیارات کا استعمال ایک منتخب حکومت کرتی ہے جو عوام کو جوابدہ ہوتی ہے۔ صدر مکھرجی کی زیادہ تقاریر جو انھوں نے اب تک کی ہیں، وہ سیاسی ہیں اور ان کے ذہنی جھکائو کی عکاسی کرتی ہیں، گویا کہ وہ ابھی تک ایک رکن پارلیمنٹ ہوں۔ ان کا کردار ایک رہنما کا، ایک فلا سفر کا ہونا چاہیے۔ لیکن وہ ابھی تک ایک فعال سیاستدان کا سا طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہیں۔
اگر صدر پرناب مکھرجی کی نظر زمینی حقائق پر ہوتی تو وہ لازماً عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا مسودہ قانون واپس بھجوا دیتے۔ سابق چیف جسٹس جے سی ورما کی سفارشات بھی اس میں ساری کی ساری شامل کی جانی چاہیے تھیں۔ خواتین اس مسودہ قانون کے خلاف ہیں کیونکہ یہ غیر مناسب ہے اور ان نکات کا احاطہ نہیں کرتا جو عورتوں کی طرف سے اٹھائے گئے ہیں۔
عجیب بات یہ بھی تھی کہ تقریب کے بعد مکھرجی صدارتی محل کے رہائشی حصے میں چلے گئے حالانکہ ان کے پیشرو صدور مہمانوں کے ساتھ گھل مل جایا کرتے تھے بلکہ ساتھ چائے بھی پیتے تھے۔ غالباً مکھرجی بیورو کریٹس کی بات بہت زیادہ سنتے ہیں جو روائتی طور پر صدر اور عوام کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ میں نے صدر مکھرجی کے قافلے کو دیکھا ہے جب وہ دہلی میں کسی جگہ وزٹ کرنے جاتے ہیں۔ ٹریفک پہلے کی مانند ہی روک دی جاتی ہے اور ان کے جلوس میں کاروں کا پورا بیڑا شامل ہوتا ہے۔ میں نے ایک مرتبہ نائب صدر حامد انصاری سے پوچھا کہ آخر اتنے غیر معمولی سیکیورٹی انتظامات کی آخر ضرورت ہی کیا ہے تو نائب صدر نے کہا یہ ان کے ہاتھ میں نہیں کیونکہ حکومت ایسا ہی چاہتی ہے۔ حالانکہ مجھے یقین ہے اگر وہ اتنے زیادہ تکلفات سے انکار کریں تو ان کی خواہش کا ضرور احترام کیا جا سکتا ہے۔
نائب صدر کی طرح' صدر کی سیکیورٹی بھی حکومت کے ہاتھوں میں ہوتی ہے جس پر نیلی کتاب کی ہدایات کے مطابق عمل کیا جاتا ہے۔ کتاب میں صدر' نائب صدر' وزیراعظم وغیرہ کی سیکیورٹی کی مقدار اور تعداد درج ہے۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو نہیں چاہتے تھے کہ ان کے لیے ٹریفک روکی جائے۔ لیکن مجھے یاد ہے کہ وزیر داخلہ گووند پلاب پنت نے' جن کے ساتھ میں نے انفارمیشن آفیسر کے طور پر کام کیا' سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر نہرو کی درخواست مسترد کر دی۔
شاید صدر کی اپنی علیحدہ پروٹوکول ڈویژن ہونی چاہیے جب کہ فی الحال یہ ذمے داری وزارت امور خارجہ پر ہے۔ یہ وزارت پرانی روش پر ہی قائم ہے اور سیکیورٹی کے رعب داب پر کچھ زیادہ ہی توجہ دیتی ہے۔ لیکن جب صدر مکھرجی نے اپنی آمد پر بگل بجانے والوں کو روک دیا ہے اور بعض دیگر چیزوں کو بھی تبدیل کیا ہے مگر اصل تکلیف دہ بات تو ٹریفک کا روک دیا جانا ہے۔ صدر کو چاہیے کہ وہ اس علت کو ختم کر دیں۔ مکھرجی کو ایک ایسا شخص ہونا چاہیے جن تک رسائی بہت آسان ہو اور ان کی صدارت کا عہدۂ جلیلہ اس میں کوئی رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔
جب میں لندن میں بھارت کا ہائی کمشنر تھا تو میں نے دیکھا کہ ملکہ برطانیہ کی کار کے آگے صرف ایک پائلٹ موٹر سائیکل چلتی ہے۔ شاہی کار کے پیچھے اور کوئی گاڑی نہیں ہوتی اور نہ ہی ٹریفک روکی جاتی ہے۔ یہ تسلیم کہ برطانیہ عظمیٰ میں حالات ہم سے زیادہ بہتر ہیں حالانکہ دہشت گردوں نے وہاں بھی کارروائی ڈال دی ہے تاہم ہمارے ملک میں تو سیکیورٹی کا گویا ایک خبط طاری ہے۔ صدر مکھرجی ایک مقبول شخصیت ہیں، جن کی ابھی گزرے کل تک کوئی سیکیورٹی نہیں تھی۔ اب انھیں اپنی سیکیورٹی میں کمی تو یقیناً کر دینی چاہیے اور اس شان و شوکت کو ترک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو ان کے عہدے کے ساتھ خوامخواہ وابستہ کر دی گئی ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں تو ہمیشہ ہی خطرات کے حوالے سے خاصی مبالغہ آرائی سے کام لیتی ہیں، کیونکہ وہ اس حوالے سے کوئی ''ہوم ورک'' نہیں کرتیں کہ آیا کسی خاص شخص کو بہت سارے بندوق بردار محافظوں کی احتیاج بھی ہے یا نہیں ہے۔ مجھے سیکیورٹی کے حوالے سے برطانیہ کے ٹھنڈے رویے کا ایک اور واقعہ بھی یاد آ رہا ہے۔ جب بھارتی صدر وینکٹ رامن سرکاری دورے پر لندن پہنچے تو اس موقع پر ایک ناگوار صورت پیدا ہو گی۔ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ایک شاپنگ بیگ پڑا تھا جسے ایک ضرورت سے زیادہ ہوشیار پولیس والے نے دھماکہ خیز مواد سے بھرا سمجھ لیا۔ شاہی ریل گاڑی ایئر پورٹ کے قریب انتظار کر رہی تھی تا کہ مہمان صدر اور ان کے وفد کو وکٹوریہ اسٹیشن لے جایا جا سکے جہاں ملکہ برطانیہ نے بنفس نفیس بھارتی صدر کا استقبال کرنا تھا۔ تاہم اس پولیس والے نے ٹرین واپس بھجوا دی۔ اس کی اس حرکت پر کسی نے اس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی تا آنکہ بم ڈسپوزل اسکواڈ نے اس بیگ کے بے ضرر ہونے کی تصدیق کر دی۔ اس وقت تک صدر اور ان کے وفد کو ایک بہت پرہجوم سڑک کی طرف موڑ دیا گیا تھا اور چار پائلٹ موٹر سائیکل سواروں نے نہایت مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صدر کے ساتھ آنے والی گاڑیوں کے جلوس کو بحفاظت بکنگھم محل پہنچا دیا جہاں ملکہ برطانیہ نے ان کا استقبال کیا۔ حتیٰ کہ خود مجھے بھی اس تبدیلی کی اطلاع شاہی محل میں داخلے سے قبل بر وقت دیدی گئی تھی۔ سیکیورٹی کو تو ایک طرف رکھیے صدر مکھرجی کو راشٹر پتی بھون کی پوری کارکردگی کو تبدیل کرنا چاہیے۔ بھارت کے پہلے صدر راجندر پرشاد نے راشٹر پتی بھون میں داخل ہو کر اس کے ماحول میں خوشگوار تبدیلی پیدا کر دی تھی حالانکہ اس وقت تک یہ وائسرائے کی رہائش گاہ تھی۔ یہ تبدیلی اس قدر نمایاں تھی کہ سب جان گئے اب اس محل میں ایک بھارتی باشندہ داخل ہو چکا ہے۔
صدارتی محل کی تقریباتی شان و شوکت میں عوام کی سوچ کے مطابق تبدیلی پیدا کرنا ناگزیر ہے۔ میرا شکوہ یہ ہے کہ صدر کا دفتر پہلے ہی بہت زیادہ درباری نوعیت کا ہے مگر اب تو اسے اور زیادہ سلطانی بنایا جا رہا ہے۔ صدر پرناب مکھرجی نے ممکن ہے جدوجہد آزادی میں کوئی حصہ نہ لیا ہو گا کیونکہ اس وقت ان کی عمر بہت چھوٹی تھی لیکن کم از کم انھیں اتنا تو کرنا چاہیے کہ ان کی بود و باش کا اسٹائل برطانوی وائسرائے جیسا نہ ہو بلکہ عوام کے ساتھ ان کا فاصلہ کم سے کم ہو۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
مجھے حیرت ہے کہ پرناب مکھرجی جیسا ایک عوامی رہنما کس آسانی کے ساتھ پھسل کر ایوان صدر کی شاہانہ فضا میں تحلیل ہو گیا، اب صرف چھ ماہ کے عرصے میں ہی شاہی دربار جیسے باوردی اہلکاروں کے جمگھٹے میں جو ہر بار جھک جھک کر انھیں آداب کرتے ہیں۔ مکھرجی ایک بالکل ہی مختلف شخص بن گئے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ وہ صدارتی دفتر میں پہنچ کر وہاں تبدیلیاں پیدا کریں گے تا کہ اس عالیشان عمارت کے دروازے عوام پر بھی کھل سکیں لیکن انھوں نے برطانوی وائسرائے کے دور ِ حکمرانی کے رعب و دبدبے کو فروغ دینے والے ماحول کو اپنانے میں ترجیح کا مظاہرہ کیا۔
مجھے اس ہفتے ایک تقریب میں شرکت کے لیے ایوان صدر (راشٹر پتی بھون) جانا پڑا۔ میں بطور خاص مکھرجی کے اسٹائل اور ان کے پیشروئوں میں فرق کا جائزہ لینا چاہتا تھا۔ لیکن مجھے کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ ڈائس پر تین عام کرسیوں کے درمیان رکھی گئی شان و شوکت والی کرسی بڑی بے جوڑ سی لگ رہی تھی۔ ایک آفیسر نے' جس کی وردی پر بہت سارے بٹن لگے تھے اور جو غالباً تینوں مسلح افواج میں سے کسی ایک سے ڈیپوٹیشن پر ایوان صدر متعین کیا گیا تھا' صدارتی تقریر کا مسودہ پوڈیم پر رکھ دیا جہاں سے صدر نے خطاب کیا۔ اس بات کا البتہ مجھے اعتراف ہے کہ انھوں نے جو کہا، وہ ملک کی موجودہ صورتحال کے مطابق تھا۔ لیکن یہی وہ مقام ہے جہاں انھیں تبدیلی کرنا چاہیے تھی۔ انھیں لازماً اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ وہ ملکہ برطانیہ کی مانند محض ایک نمائشی سربراہ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ آئین کے نگہبان ہیں اور تمام اختیارات کا منبع انھی کا دفتر ہے لیکن اختیارات کا استعمال ایک منتخب حکومت کرتی ہے جو عوام کو جوابدہ ہوتی ہے۔ صدر مکھرجی کی زیادہ تقاریر جو انھوں نے اب تک کی ہیں، وہ سیاسی ہیں اور ان کے ذہنی جھکائو کی عکاسی کرتی ہیں، گویا کہ وہ ابھی تک ایک رکن پارلیمنٹ ہوں۔ ان کا کردار ایک رہنما کا، ایک فلا سفر کا ہونا چاہیے۔ لیکن وہ ابھی تک ایک فعال سیاستدان کا سا طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہیں۔
اگر صدر پرناب مکھرجی کی نظر زمینی حقائق پر ہوتی تو وہ لازماً عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا مسودہ قانون واپس بھجوا دیتے۔ سابق چیف جسٹس جے سی ورما کی سفارشات بھی اس میں ساری کی ساری شامل کی جانی چاہیے تھیں۔ خواتین اس مسودہ قانون کے خلاف ہیں کیونکہ یہ غیر مناسب ہے اور ان نکات کا احاطہ نہیں کرتا جو عورتوں کی طرف سے اٹھائے گئے ہیں۔
عجیب بات یہ بھی تھی کہ تقریب کے بعد مکھرجی صدارتی محل کے رہائشی حصے میں چلے گئے حالانکہ ان کے پیشرو صدور مہمانوں کے ساتھ گھل مل جایا کرتے تھے بلکہ ساتھ چائے بھی پیتے تھے۔ غالباً مکھرجی بیورو کریٹس کی بات بہت زیادہ سنتے ہیں جو روائتی طور پر صدر اور عوام کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ میں نے صدر مکھرجی کے قافلے کو دیکھا ہے جب وہ دہلی میں کسی جگہ وزٹ کرنے جاتے ہیں۔ ٹریفک پہلے کی مانند ہی روک دی جاتی ہے اور ان کے جلوس میں کاروں کا پورا بیڑا شامل ہوتا ہے۔ میں نے ایک مرتبہ نائب صدر حامد انصاری سے پوچھا کہ آخر اتنے غیر معمولی سیکیورٹی انتظامات کی آخر ضرورت ہی کیا ہے تو نائب صدر نے کہا یہ ان کے ہاتھ میں نہیں کیونکہ حکومت ایسا ہی چاہتی ہے۔ حالانکہ مجھے یقین ہے اگر وہ اتنے زیادہ تکلفات سے انکار کریں تو ان کی خواہش کا ضرور احترام کیا جا سکتا ہے۔
نائب صدر کی طرح' صدر کی سیکیورٹی بھی حکومت کے ہاتھوں میں ہوتی ہے جس پر نیلی کتاب کی ہدایات کے مطابق عمل کیا جاتا ہے۔ کتاب میں صدر' نائب صدر' وزیراعظم وغیرہ کی سیکیورٹی کی مقدار اور تعداد درج ہے۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو نہیں چاہتے تھے کہ ان کے لیے ٹریفک روکی جائے۔ لیکن مجھے یاد ہے کہ وزیر داخلہ گووند پلاب پنت نے' جن کے ساتھ میں نے انفارمیشن آفیسر کے طور پر کام کیا' سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر نہرو کی درخواست مسترد کر دی۔
شاید صدر کی اپنی علیحدہ پروٹوکول ڈویژن ہونی چاہیے جب کہ فی الحال یہ ذمے داری وزارت امور خارجہ پر ہے۔ یہ وزارت پرانی روش پر ہی قائم ہے اور سیکیورٹی کے رعب داب پر کچھ زیادہ ہی توجہ دیتی ہے۔ لیکن جب صدر مکھرجی نے اپنی آمد پر بگل بجانے والوں کو روک دیا ہے اور بعض دیگر چیزوں کو بھی تبدیل کیا ہے مگر اصل تکلیف دہ بات تو ٹریفک کا روک دیا جانا ہے۔ صدر کو چاہیے کہ وہ اس علت کو ختم کر دیں۔ مکھرجی کو ایک ایسا شخص ہونا چاہیے جن تک رسائی بہت آسان ہو اور ان کی صدارت کا عہدۂ جلیلہ اس میں کوئی رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔
جب میں لندن میں بھارت کا ہائی کمشنر تھا تو میں نے دیکھا کہ ملکہ برطانیہ کی کار کے آگے صرف ایک پائلٹ موٹر سائیکل چلتی ہے۔ شاہی کار کے پیچھے اور کوئی گاڑی نہیں ہوتی اور نہ ہی ٹریفک روکی جاتی ہے۔ یہ تسلیم کہ برطانیہ عظمیٰ میں حالات ہم سے زیادہ بہتر ہیں حالانکہ دہشت گردوں نے وہاں بھی کارروائی ڈال دی ہے تاہم ہمارے ملک میں تو سیکیورٹی کا گویا ایک خبط طاری ہے۔ صدر مکھرجی ایک مقبول شخصیت ہیں، جن کی ابھی گزرے کل تک کوئی سیکیورٹی نہیں تھی۔ اب انھیں اپنی سیکیورٹی میں کمی تو یقیناً کر دینی چاہیے اور اس شان و شوکت کو ترک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو ان کے عہدے کے ساتھ خوامخواہ وابستہ کر دی گئی ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں تو ہمیشہ ہی خطرات کے حوالے سے خاصی مبالغہ آرائی سے کام لیتی ہیں، کیونکہ وہ اس حوالے سے کوئی ''ہوم ورک'' نہیں کرتیں کہ آیا کسی خاص شخص کو بہت سارے بندوق بردار محافظوں کی احتیاج بھی ہے یا نہیں ہے۔ مجھے سیکیورٹی کے حوالے سے برطانیہ کے ٹھنڈے رویے کا ایک اور واقعہ بھی یاد آ رہا ہے۔ جب بھارتی صدر وینکٹ رامن سرکاری دورے پر لندن پہنچے تو اس موقع پر ایک ناگوار صورت پیدا ہو گی۔ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ایک شاپنگ بیگ پڑا تھا جسے ایک ضرورت سے زیادہ ہوشیار پولیس والے نے دھماکہ خیز مواد سے بھرا سمجھ لیا۔ شاہی ریل گاڑی ایئر پورٹ کے قریب انتظار کر رہی تھی تا کہ مہمان صدر اور ان کے وفد کو وکٹوریہ اسٹیشن لے جایا جا سکے جہاں ملکہ برطانیہ نے بنفس نفیس بھارتی صدر کا استقبال کرنا تھا۔ تاہم اس پولیس والے نے ٹرین واپس بھجوا دی۔ اس کی اس حرکت پر کسی نے اس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی تا آنکہ بم ڈسپوزل اسکواڈ نے اس بیگ کے بے ضرر ہونے کی تصدیق کر دی۔ اس وقت تک صدر اور ان کے وفد کو ایک بہت پرہجوم سڑک کی طرف موڑ دیا گیا تھا اور چار پائلٹ موٹر سائیکل سواروں نے نہایت مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صدر کے ساتھ آنے والی گاڑیوں کے جلوس کو بحفاظت بکنگھم محل پہنچا دیا جہاں ملکہ برطانیہ نے ان کا استقبال کیا۔ حتیٰ کہ خود مجھے بھی اس تبدیلی کی اطلاع شاہی محل میں داخلے سے قبل بر وقت دیدی گئی تھی۔ سیکیورٹی کو تو ایک طرف رکھیے صدر مکھرجی کو راشٹر پتی بھون کی پوری کارکردگی کو تبدیل کرنا چاہیے۔ بھارت کے پہلے صدر راجندر پرشاد نے راشٹر پتی بھون میں داخل ہو کر اس کے ماحول میں خوشگوار تبدیلی پیدا کر دی تھی حالانکہ اس وقت تک یہ وائسرائے کی رہائش گاہ تھی۔ یہ تبدیلی اس قدر نمایاں تھی کہ سب جان گئے اب اس محل میں ایک بھارتی باشندہ داخل ہو چکا ہے۔
صدارتی محل کی تقریباتی شان و شوکت میں عوام کی سوچ کے مطابق تبدیلی پیدا کرنا ناگزیر ہے۔ میرا شکوہ یہ ہے کہ صدر کا دفتر پہلے ہی بہت زیادہ درباری نوعیت کا ہے مگر اب تو اسے اور زیادہ سلطانی بنایا جا رہا ہے۔ صدر پرناب مکھرجی نے ممکن ہے جدوجہد آزادی میں کوئی حصہ نہ لیا ہو گا کیونکہ اس وقت ان کی عمر بہت چھوٹی تھی لیکن کم از کم انھیں اتنا تو کرنا چاہیے کہ ان کی بود و باش کا اسٹائل برطانوی وائسرائے جیسا نہ ہو بلکہ عوام کے ساتھ ان کا فاصلہ کم سے کم ہو۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)