لاہور میں خود کش دھماکا

ایڈیٹوریل  منگل 25 جولائی 2017
مختلف حلقوں کی جانب سےیہ کہاجاتا ہےکہ دہشتگردی کاموادمختلف قبائلی علاقوں یا سرحد پار افغانستان سے آرہا ہے . فوٹو : اے ایف پی

مختلف حلقوں کی جانب سےیہ کہاجاتا ہےکہ دہشتگردی کاموادمختلف قبائلی علاقوں یا سرحد پار افغانستان سے آرہا ہے . فوٹو : اے ایف پی

لاہور میں فیروز پور روڈ پر سبزی منڈی کے علاقے میں خودکش دھماکے سے پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے‘ زخمیوں میں سے کچھ کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے جس کے باعث  ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بم دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے پولیس حکام سے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی۔

لاہور میں ہونے والا دھماکا انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے‘ دہشت گردوں نے ایک بار پھر اپنی مذموم کارروائی کے لیے پرہجوم جگہ کا انتخاب کیا‘ اس سے قبل انھوں نے بم دھماکے کے لیے گلشن اقبال پارک کا انتخاب کیا تھا جہاں شہریوں کا بہت زیادہ رش تھا جس کے باعث بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔ دہشت گرد پرہجوم جگہ کا اس لیے انتخاب کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ہلاکتیں ہونے سے شہریوں میں خوف و ہراس پھیلے اور حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہو۔ کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کا نشانہ خصوصی طور پر پولیس اہلکار تھے۔ پنجاب حکومت کے مطابق اس افسوسناک واقعے کے وقت علاقے میں پولیس اور مقامی انتظامیہ تجاوزات کے خلاف آپریشن میں مصروف تھی جب کہ ارفع کریم ٹاور کے قریب پرانی عمارتوں کو بھی گرایا جا رہا تھا۔

صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد دھماکا کر کے شہریوں میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں‘ کوئی نئی تنظیم ملک میں پنجے نہیں گاڑ رہی بلکہ دہشت گرد نام بدل بدل کر کارروائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ کبھی طالبان کبھی جماعت الاحرار اور کبھی لشکر جھنگوی کا نام استعمال کرتے ہیں۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ چند روز قبل محکمہ داخلہ پنجاب نے دہشت گردی کا خدشہ ظاہر کیا تھا جس کے بعد شہر بھر میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی تھی۔ تجزیہ نگار بم دھماکے کے واقعے کو انتظامیہ اور پولیس حکام کی نااہلی پر منطبق کر رہے ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ جب دہشت گردی کے خدشے کی اطلاع موجود تھی تو ایسے انتظامات کیوں نہیں کیے گئے کہ دہشت گرد اپنے مذموم مقصد سے پیشتر ہی گرفتار ہو جاتا۔ اس سے پہلے بھی لاہور اور دیگر شہروں میں جو بم دھماکے ہوتے رہے ہیں۔

ان کے بارے میں بھی حکومتی حکام یہ کہتے چلے آئے ہیںکہ ان دھماکوں کی اطلاعات پہلے سے موجود تھیں مگر کبھی دہشت گردوں کو دھماکوں سے پیشتر گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ دھماکے کے بعد روایتی بیان بازی کرتے ہوئے یہی کہا گیا کہ حکومت دہشت گردوں کے خلاف پرعزم ہے اور وہ ان کے سامنے سرنگوں نہیں ہو گی اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا۔ عوام کو حکومت کی اس روایتی بیان بازی سے کوئی سروکار نہیں وہ ملک میں ہر صورت امن و امان چاہتے ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ سیکیورٹی ہائی الرٹ کے باوجود دہشت گرد بارودی مواد لے کر پورے شہر سے گزر کر مطلوبہ جگہ پہنچا اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا اور سیکیورٹی ادارے ’’ہائی الرٹ‘‘ ہی رہے۔

مختلف حلقوں کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی کا مواد مختلف قبائلی علاقوں یا سرحد پار افغانستان سے آ رہا ہے۔ افغانستان کی سرحد سے لے کر لاہور تک راستے میں ہزاروں سیکیورٹی اہلکار متعین ہیں حیرت انگیز امر ہے کہ کسی نے دہشت گردی کا مواد لے جانے والوں کو چیک نہیں کیا‘ سیکیورٹی اہلکاروں کی اسی غفلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد دھماکا خیز مواد ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں لے جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہر بم دھماکے کے بعد حکومت دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کرتی ہے مگر دہشت گرد گرفتار ہوتے ہیں یا نہیں بم دھماکے ضرور ہو جاتے ہیں۔ لاہور میں ہونے والا یہ دھماکا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ سرحد پار سے لے کر اندرون شہر تک دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا مضبوط نیٹ ورک  موجود ہے جو تمام تر سیکیورٹی ہائی الرٹ کے باوجود بم دھماکے کر رہا ہے۔

دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے شہروں کے اندر وسیع پیمانے پر آپریشن کے علاوہ شہریوں کو بھی مقامی سطح پر متحرک کرنا ہو گا اس مقصد کے لیے بلدیاتی اداروں کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جا بجا کچی آبادیاں وجود میں آ رہی ہیں جن پر کوئی چیک نہیں‘ اس خدشے کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد قانون کی نگاہ سے بچنے کے لیے ان کچی یا خانہ بدوش آبادیوں میں پناہ لے لیتے ہوں۔ مزید دھماکوں کا خدشہ رد نہیں کیا جا سکتا اس لیے حکومت کو روایتی انتظامات سے ہٹ کر سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کی جانب توجہ دینی ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔