کیا افغانستان پاکستان کا دشمن بن چکا؟

سید عاصم محمود  اتوار 6 اگست 2017
ان خطرناک حالات میں مناسب یہی دکھائی دیتا ہے کہ امریکا و نیٹو افواج افغانستان سے رخصت ہوجائیں۔ فوٹو : فائل

ان خطرناک حالات میں مناسب یہی دکھائی دیتا ہے کہ امریکا و نیٹو افواج افغانستان سے رخصت ہوجائیں۔ فوٹو : فائل

24 جولائی 2017ء کو لاہور میں ایک خودکش حملے نے چھبیس پاکستانیوں کی جانیں لے لیں۔ ان میں پولیس کے سپاہی بھی شامل تھے۔ یہ دھماکہ تحریک طالبان پاکستان المعروف بہ ٹی ٹی پی نے کرایا تھا۔ آج مشرقی افغانستان کے صوبے اس شدت پسند تنظیم کے گڑھ بن چکے جو وقتاً فوقتاً پاکستانی قوم اور ریاست کو دہشت گردی کا نشانہ بناتی ہے۔

خود کش حملے کی تحقیقات سے انکشاف ہوا کہ ٹی ٹی پی نے پاکستان میں وسیع پیمانے پر بم دھماکے اور خودکش حملے کرانے کی خاطر ’’طالبان اسپیشل گروپ‘‘ کے نام سے ایک نیا گروہ تشکیل دیا ہے۔ اس گروہ میں انتہائی تربیت یافتہ ’’خودکش بمبار‘‘ شامل ہیں جو جان کی پروا کیے بغیر لڑنے بھڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ گویا پاکستانی سکیورٹی فورسز کو اب ایک نئے گروہ کا مقابلہ کرنا ہے جو پہلے ہی مذہبی شدت پسندوں اور پاکستان دشمن طاقتوں سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں سے نبرد آزما ہیں۔

افغان طالبان اور داعش میں کشمکش
جب پاک افواج نے فاٹا اور دیگر شمالی علاقوں میں فوجی آپریشن شروع کیے، تو ٹی ٹی پی، لشکر جھنگوی اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے لیڈر افغانستان فرار ہوگئے۔ تب تک داعش کا ظہور ہوچکا تھا جو بظاہر پوری دنیا میں خلافت قائم کرنے کا خواب دیکھ رہی تھی۔ چناں چہ داعش نے جنوری 2015ء میں ’’اسلامی ریاست خراسان‘‘ کے قیام کا اعلان کردیا جس میں برصغیر کے علاقے شامل تھے۔داعش پھر ٹی ٹی پی، لشکر جھنگوی وغیرہ کے کارکنوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کی خاطر پُرکش ترغیبات اور مراعات دینے کا اعلان کرنے لگی۔ پاک افواج کے حملوں نے ٹی ٹی پی اور دیگر تنظیموں کے کارکنوں کو تتر بتر کردیا تھا۔ لہٰذا ان میں سے بیشتر داعش میں شامل ہوگئے۔ یوں افغانستان میں داعش طاقتور ہوکر اپنے پر پھیلانے لگی۔ اس نے افغان طالبان کو بھی داعش کا حصہ بننے کی دعوت دی۔

افغان طالبان آزادانہ حیثیت سے حملہ آور امریکا و نیٹوافواج کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے۔ چناں چہ تب کے امیر، ملا منصور اختر نے سربراہ داعش، ابو البکر البغدادی کو خط لکھا کہ داعش افغانستان میں کارکن بھرتی کرنا بند کردے اور افغان طالبان کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ البغدادی نے یہ مطالبہ مسترد کردیا۔

دسمبر 2015ء میں پاک افغان سرحد پر داعش افغانستان کے کمانڈروں اور امیر افغان طالبان کے مابین میٹنگ ہوئی۔ یہ ملاقات پہلے توتکار میں بدلی اور پھر فریقین نے اسلحہ نکال لیا۔ تصادم میں ملا منصور اختر زخمی ہوئے جبکہ طرفین کے کئی آدمی مارے گئے۔ تب سے افغانستان میں افغان طالبان اور داعش کے کارکن ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔

پاکستانی طالبان افغان صوبوں میں
پاکستان کے نکتہ نظر سے سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ خاص طور پر پاکستانی سرحد سے لگنے والے افغان صوبوں ننگرہار، کنٹر،خوست وغیرہ میں ٹی ٹی پی، لشکر جھنگوی اور دیگر پاکستان دشمن تنظیمیں اپنے ہیڈ کوارٹر قائم کرچکیں۔ ان صدر دفاتر میں پاکستان دشمن طاقتیں دہشت گردی کے ناپاک منصوبے بناتی ہیں۔ پھر افغانستان اور پاکستان میں مقیم ان کے پیدل سوار منصوبے پر عمل کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں دہشت گردی کا جن قابو میں نہیں آرہا۔سچ یہ ہے کہ افغانستان میں پاکستان دشمن طاقتوں کا مجتمع ہونا کئی خطرناک پہلو رکھتا ہے۔

پاکستانی حکومت اور افواج پاکستان بار بار افغان حکومت سے مطالبہ کررہی ہیں کہ افغانستان میں پاکستانی قوم کی دشمن طاقتوں کے ٹھکانے تباہ کیے جائیں تاہم افغان سکیورٹی فورسز نے آج تک ٹی ٹی پی وغیرہ کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی۔ اس عمل کی دو توجیہہ ہوسکتی ہیں۔اول یہ کہ افغان سکیورٹی فورسز ننگرہار، کنٹر اور خوست میں زیادہ عمل دخل نہیں رکھتیں۔ ان صوبوں میں افغان طالبان اور داعش کا اثر و رسوخ زیادہ ہے۔ اس لیے افغان حکومت پاکستان کا مطالبہ پورا کرنے سے قاصر ہے۔

دوم یہ کہ افغانستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیاں ٹی ٹی پی، لشکر جھنگوی وغیرہ کی حمایت کررہی ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ انہیں طاقتور بناکر ریاست پاکستان کے بالمقابل کھڑا کر دیا جائے۔وہ پھر پاکستان کو معاشی،عسکری اور معاشرتی طور پہ کمزور کرنے کی کوششیں کرنے لگیں۔گویا یہ قوتیں امریکا کی افغان جنگ پاکستان تک لانا چاہتی ہیں۔عالمی ومقامی حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس امر میں صداقت نظر آتی ہے۔امریکا کی خواہش ہے کہ بھارت چین کو چیلنج کرے اور خطے کا تھانیدار بن جائے۔اسی لیے امریکی حکومت کی آشیرباد سے بھارت کا افغانستان میں عمل دخل بڑھتا جا رہا ہے جہاں معاشی طور پر چین کا بھی کافی اثرورسوخ ہے۔افغان حکومت امریکا کی کٹھ پتلی ہے۔چناں چہ آقا کے حکم پر وہ بھی نریندر مودی سے دوستی کی پینگیں بڑھاتی دکھائی دیتی ہے۔جبکہ پاکستان کے ساتھ اس کا رویّہ بڑا معاندانہ ہو چکا۔لگتا یہی ہے کہ ایک طرف سے بھارت اور دوسری سمت سے افغانستان پاکستان کو گھیرے میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔سابق وزیر داخلہ، نثار علی خان نے اپنی ایک کانفرنس میں اسی سازش کا ذکر کیا تھا۔

افغان حکومت کی پاکستان دشمنی اس بات سے بھی عیاں ہے کہ کہ اس نے پاک فوج کے حالیہ شروع کیے گئے آپریشن خیبر 4 کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ افغان وزارت دفاع کے ترجمان، میجر جنرل دولت وزیری نے بیان دیا:

’’پاک آرمی کو چاہیے کہ وہ شہروں میں فوجی آپریشن شروع کرے۔ دہشت گردوں کے بیشتر مراکز وہاں پوشیدہ ہیں۔ ڈیورینڈ لائن کے علاقوں میں ان مراکز کی تعداد کم ہے۔ ویسے بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ دہشت گردوں کے مرکز پاکستان میں واقع ہیں۔‘‘

گویا افغان حکومت نے طوطے کی طرح پرانا سبق پڑھ دیا کہ پاکستان دہشت گردی کا منبع ہے اور یہ کہ افغانستان میں پاکستانیوں کی وجہ سے جنگ و جدل جاری ہے۔ اس سے بڑا برہنہ جھوٹ شاید ہی کوئی ہو۔
بہرحال یہ حقیقت ہے کہ خانہ جنگی اور جنگوں سے تباہ حال افغانستان پاکستان کے لیے درد سر بنتا چلا جا رہا ہے۔ سرزمین افغان پر پاکستان دشمن طاقتوں نے کمین گاہیں اور پناہ گاہیں بنالی ہیں۔ چناں چہ وہ وقتاً فوقتاً وہاں سے پاکستانی قوم اور مملکت پر حملے کرتی رہتی ہیں۔ افواج پاکستان دشمن کا سدباب کرنے کے لیے مناسب اقدامات کررہی ہیں۔ مگر یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ جب تک افغانستان میں سکون نہیں ہوتا، پاکستان بھی دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنا رہے گا۔

انوکھی گریٹ گیم
بدقسمتی سے آج افغانستان میں آگ اور خون کا ایسا عجیب و غریب کھیل جاری ہے جو شیطان کی آنت بن چکا…اس کھیل کا کوئی انت، کوئی اختتام دکھائی نہیں دیتا۔ ایک وجہ یہ ہے کہ اس انوکھے کھیل میں اتنے زیادہ کھلاڑی شریک ہوچکے کہ کچھ سمجھ نہیں آتا، کون کس سے مقابلہ کررہا ہے۔ یہ وہ پُراسرار کھیل ہے جس میں کھلاڑی اچانک اپنی ٹیم بدل لیتے اور اپنوں ہی کو دھوکا دیتے ہیں۔

افغان طالبان، افغان حکومت، افغان جنگی سردار (وار لارڈز)، داعش، ٹی ٹی پی و دیگر پاکستانی تنظیمیں، امریکہ و نیٹو، بھارت، پاکستان، چین اور روس افغانستان میں جاری ’’گریٹ گیم‘‘ کے چیدہ کھلاڑی ہیں۔ یہ سبھی کھلاڑی شطرنج کی بساط پر اپنے اپنے مہرے چلنے میں مصروف ہیں۔ بعض کھلاڑیوں نے تو اپنی ٹیمیں بنا رکھی ہے مگر کچھ کھلاڑیوں کی بابت معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا کس ٹیم سے تعلق ہے۔ افسوس کی بات یہ کہ تقریباً نصف صدی سے ہاتھیوں کی لڑائیوں میں گیہوں یعنی افغان عوام کا بہت زیادہ نقصان ہوچکا۔ افغانستان میں مسلسل جنگ و جدل کے باعث ساڑھے تین کروڑ افغان باشندوں میں سے بیشتر 14 جولائی کو پاک افواج نے ’’وادی راجگال‘‘ میں ایک نئی فوجی مہم ’’آپریشن خیبر چہارم‘‘ کا آغاز کردیا۔ راجگال زیادہ بڑی ’’وادی تیرہ‘‘ کا حصہ ہے۔ وادی تیرہ فاٹا میں خیبر، کرم اور اورک زئی ایجنسیوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا کچھ حصہ افغان صوبے، ننگرہار میں واقع ہے۔ وادی تیرہ کا رقبہ تقریباً سات سو مربع میل ہے۔ اس کی ذیلی وادیوں میں راجگال کے علاوہ میدان، وارن، باڑہ اور مستورا نمایاں ہیں۔

جب فاٹا میں پاک افواج نے شدت پسندوں کے خلاف فوجی مہم کا آغاز کیا تو وہ پسپا ہوکر پیچھے ہٹتے گئے۔ انہوں نے پھر خیبر ایجنسی میں واقع راجگال اور کچکول کی وادیوں میں اپنی پناہ گاہیں بنالیں اور وہاں سے پاکستانی قوم پر حملے کرنے لگے۔ جب ان کے حملوں میں شدت آگئی، تو پاک افواج نے وادی راجگال میں آپریشن خیبر چہارم کا آغاز کردیا۔ 24 جولائی کو لاہور میں ہونے والا خودکش حملہ اس آپریشن کا ردعمل ہوسکتا ہے۔

راجگال اور کچکول کی وادیاں پاک افغان سرحد پر واقع ہیں۔ یہ تحریک طالبان پاکستان، داعش، جمعیت الاحرار، لشکر اسلام وغیرہ کے شدت پسندوں کا مسکن ہیں۔ یہ شدت پسند خود کو حقیقی مسلمان سمجھتے اور جدید زندگی اختیار کرلینے والے مسلمانوں کو مرتد قرار دیتے ہیں۔ اسی لیے ان کے نزدیک خاص طور پر شہری پاکستانی واجب القتل ہیں۔ شدت پسند مختلف تنظیموں میں تقسیم ہیں مگر ان کا نظریہ یکساں ہے۔

پاک افواج کی زبردست مہمات کے بعد بہت سے شدت پسند افغانستان بھاگ گئے تھے۔ وہ اب وہاں بیٹھ کر مملکت پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں۔ ان کا ایک آنا جانا بھی لگا رہتا ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے مابین سرحد 2611 کلومیٹر طویل ہے۔ اس میں سے 1230 کلو میٹر صوبہ خیبرپختونخواہ اور 1381 کلو میٹر بلوچستان میں واقع ہے۔

حکومت پاکستان کئی بار افغان حکومت سے درخواست کرچکی کہ پاکستانی علاقوں میں در آنے والے شدت پسندوں کی راہ روکی جائے مگر اس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ افغان حکمران الٹا پاک فوج کی خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی پر الزام لگاتے رہتے ہیں کہ وہ افغان طالبان اور امریکی و نیٹو افواج سے نبرد آزما حقانی نیٹ ورک کو اسلحہ و مالی امداد فراہم کرتی ہے۔افغان حکومت کی بے عملی کے باعث پاکستان کو یقین ہے کہ افغان و بھارتی خفیہ ایجنسیاں پاکستانی علاقوں پر حملہ کرنے والے شدت پسندوں کو اسلحہ و رقم دیتی ہیں۔

شدت پسند تنظیموں کی وجہ سے کئی اسلامی ممالک خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہیں۔ ان کے پیچھے اسلام دشمن طاقتیں مثلاً اسرائیل، امریکا اور بھارت بھی کارفرما ہوسکتی ہیں۔ ظاہر ہے اس خانہ جنگی کے باعث دنیا والے ان مظالم پر توجہ نہیں دیتے جو اسرائیل اور بھارت بالترتیب فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں نہتے مسلمانوں پر توڑ رہے ہیں۔ امریکا، روس، برطانیہ اور دیگر مغربی طاقتوں کی توجہ اسلامی ممالک اور میں جاری خانہ جنگی پر مرکوز ہیں اور ان کے باعث کچھ ملکوں میں تو فرقہ وارانہ فسادات بھی جنم لے چکے۔ مغربی طاقتوں کی روش دیکھ کر ہی اسلامی ماہرین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ عالم اسلام کو چھوٹے چھوٹے جغرافیائی ٹکڑوں میں بانٹ کر اس کی طاقت و یکجہتی ختم کرنا چاہتی ہیں۔

افغان حکومت کی سرتوڑ مخالفت کے باوجود پاک فوج پاک افغان سرحد پر باڑ لگانا چاہتی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ پاکستان دشمن شدت پسندوں، تخریب کاروں اور دہشت گردوں کو وطن عزیز میں آنے سے روکا جاسکے۔ اس ضمن میں فاٹا کی خیبر، باجوڑ اور مہمند ایجنسیوں میں سب سے پہلے باڑ لگانے کا منصوبہ ہے۔ یہ باڑ تقریباً 237 کلو میٹر طویل ہوگی۔ اس باڑ کی تنصیب پر کام شروع ہوچکا۔

پاک فوج اور فرنٹیئر کور پاک افغان سرحد پر نئی فوجی چوکیاں اور قلعے بھی تعمیر کررہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ نگرانی کو مؤثر بنایا جاسکے۔ اس سلسلے میں بھی سب سے پہلے فاٹا کی درج بالا تین ایجنسیوں میں چوکیاں بنانے کا کام جاری ہے۔ فی الوقت ’’45‘‘ فوجی چوکیاں اور قلعے تعمیر ہوچکے۔ مزید 338 چوکیاں اور قلعے بنانے کا ارادہ ہے۔ یہ تعمیرات 2019ء میں مکمل ہوجائیں گی۔پاکستان اب کاغذات اور ویزے کے بغیر افغانستان سے آنے والے کسی شخص کو ارض پاک میں داخل نہیں ہونے دیتا۔ سخت پڑتال کے باعث ہی افغانستان میں مقیم شدت پسند خیبر، باجوڑ اور مہمند کی وادیوں میں واقع دروں سے پاکستان میں داخل ہوتے اور یہاں تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں۔ اب عموماً شدت پسند تنظیموں کے افغانستان میں بیٹھے لیڈر دہشت گردی کا ایک منصوبہ بناتے ہیں۔ پھر پاکستان میں چھپے بیٹھے ان کے کارندے اسے عملی جامہ پہناتے ہیں۔

ان چھپے کارندوں کو مار بھگانے کی خاطر ہی وادی راجگال میں آپریشن خیبر چہارم شروع کیا گیا۔ عسکری ماہرین کے نزدیک یہ پاک افغان سرحد پر واقع ان چند وادیوں میں شامل تھی جہاں اب بھی شدت پسندوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔

وادی راجگال 256 مربع کلو میٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں پہاڑوںکی کثرت ہے جو بارہ سے چودہ ہزار فٹ بلند ہیں۔ اس میں آٹھ درے بھی واقع ہیں جن سے شدت پسند افغانستان آتے جاتے ہیں۔ وادی میں چٹانوں، جنگلوں اور چشموں کی کثرت ہے۔ یہ علاقہ نہایت دشوار گزار ہے۔ اسی لیے ماضی میں راجگال میں کوئی فوجی آپریشن شروع نہیں کیا گیا۔ لیکن اب ضروری ہوگیا تھا کہ ارض پاک سے تمام دہشت گردوں کا صفایا کردیا جائے۔ چناں چہ آپریشن خیبر چہارم کو عملی جامہ پہنا دیا گیا۔خیبر ایجنسی میںماضی میں بھی شدت پسندوں کے خلاف کئی چھوٹے فوجی آپریشن انجام پاچکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غربت و افلاس، جہالت اور بیماری کے باعث تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر ان کے حکمرانوں کو ذاتی مفادات زیادہ عزیز ہیں، ملک و قوم کو ترقی دینے کی کوئی فکر نہیں، صد افسوس۔

سچ یہ ہے کہ جدید افغانستان میں کبھی کوئی مستحکم حکومت وجود میں نہیں آسکی۔ بیسویں صدی کے نصف اول تک پشتون قبائل ایک دوسرے سے نبرد آزما رہے۔ پھر ان کے اقلیتی تاجک، ہزارہ اور ازبک قبائل سے بھی اختلافات پیدا ہو گئے۔ بعدازاں مملکت میں کمیونسٹ اور غیر کمیونسٹ کا جھگڑا چل پڑا۔ اسی جھگڑے کے باعث افغان بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔ پھر کمیونسٹ رہنما آپس میں لڑ پڑے۔ 1997ء میں افغانستان کو زیر اثر رکھنے کی خاطر سویت یونین نے حملہ کردیا۔ امریکیوں کو خیال آیا کہ افغانستان کو ’’روس کا ویت نام‘‘ بنا دینا چاہیے۔ چناں چہ وہ اپنے اسلحے اور ڈالروں سے مجاہدین کی مدد کرنے لگے۔

سویت یونین کو شکست ہوئی، تو مجاہدین میں کرسی کی خاطر کھینچا تانی شروع ہوگئی۔ اس دوران پشتون طالبان کا ظہور ہوا۔ تاہم اقلیتی قبائل نے ان کی حکومت تسلیم نہیں کی اور شمالی اتحاد بنا کر طالبان سے مقابلہ کرنے لگے۔ 2002ء میں القاعدہ رہنمائوں کا پیچھا کرتا امریکا افغانستان آپہنچا اور یوں جنگوں کے نئے سلسلے کا آغاز ہوگیا۔

امریکا کی طویل ترین جنگ
امریکی و نیٹو فوجی افغانستان میں القاعدہ کو خاصی حد تک ختم کرنے میں کامیاب رہے مگر ان کا افغان طالبان سے ٹکرائو ہوگیا جو اب تک جاری ہے۔ امریکیوں نے نعرہ لگایا تھا کہ وہ شدت پسندوں کا خاتمہ کرکے افغانستان کو ترقی یافتہ، خوشحال اور روشن خیال مملکت بنایا چاہتے ہیں۔ یہ مقصد پانے کی خاطر امریکا نے تقریباً ’’2600‘‘ ارب ڈالر خرچ کردیئے مگر وہ اپنا خواب شرمندہ تعبیر نہ کرسکا۔ افغانستان آج بھی مسلسل جنگ اور کرپٹ افغان حکمران طبقے کے باعث دنیا کے پس ماندہ ترین اور غریب ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں کے بیشتر انسان حیوانوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں اور انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات بھی میسّر نہیں۔

امریکا اور مغربی ممالک آج بھی افغان حکومت کو ہر سال اربوں ڈالر دیتے ہیں۔ حقیقت میں افغان حکومت اسی بیرونی امداد کے سہارے قائم ہے۔ مگر اس غیر ملکی امداد کا بیشتر حصہ افغان حکمران طبقہ (سیاست داں، جرنیل، سرکاری افسر، مقامی وار لارڈز) ڈکار جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، پچھلے سولہ برس میں افغان عوام کی بہتری کے لیے بہت کم ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے اور کامیاب بھی ہوئے۔ افغان حکومت نے اربوں ڈالر کاغذی منصوبوں پر خرچ کر ڈالے اور یہ رقم بااثر شخصیات کی تجوریوں میں پہنچ گئی۔

امریکا نے اربوں ڈالر کے اخراجات سے افغان فوج بھی کھڑی کی۔ مگر آج یہ حال ہے کہ افغانستان کے تقریباً 400 اضلاع میں سے آدھے میں افغان طالبان بہت اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ افغان فوج نفری میں زیادہ ہونے اور جدید ترین امریکی اسلحہ رکھنے کے باوجود افغان طالبان کو ختم نہیں کرسکی۔ افغان طالبان وقتاً فوقتاً افغان حکومت اور امریکہ و نیٹو افواج پر حملے کرتے رہتے ہیں۔

افغان حکمران طبقے کی احسان فراموشی
کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق افغان حکمران پاکستان پر یہ الزام دھر دیتے ہیں کہ اس کی خفیہ ایجنسیاں افغان طالبان کی مدد کررہی ہیں، اسی لیے انہیں ختم نہیں کیا جاسکا۔ افغان حکمران باقاعدگی سے اس قسم کے بیانات جاری کرتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ افغان عوام کے سامنے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنا کر اپنی کرپشن اور کوتاہیاں چھپائی جاسکیں۔ افغان حکمرانوں کے پروپیگنڈے کی وجہ سے اچھے خاصے تعلیم یافتہ افغان بھی پاکستان کو اپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں۔

افغان حکمران و عوام یہ بھول گئے کہ 1979ء میں جب ان کا ملک خانہ جنگی کا نشانہ بنا، تو یہ پاکستان ہی تھا جس نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی۔ ان کے قیام و طعام کا بندوبست کیا۔ حتیٰ کہ افغان خانہ جنگی کے باعث بعدازاں پاکستان بھی بم دھماکوں اور خودکش حملوں کا نشانہ بن گیا۔ پاکستانیوں کا عظیم احسان و ایثار فراموش کرکے افغان حکمران طبقے نے اچھی مثال قائم نہیں کی۔

دوسری بات یہ کہ دنیا میں اسلحے کی خرید و فروخت کی بین الاقوامی مارکیٹ وجود میں آچکی۔ اس مارکیٹ سے کوئی بھی شخص یا تنظیم ہر قسم کا اسلحہ خرید سکتی ہے۔ ویسے بھی پشتون ہنرمند چینی ماہرین کی طرح اسلحے کی نقل کرنے میں طاق ہیں۔ لہٰذا افغان طالبان کے لیے اسلحے کا حصول مشکل نہ تھا اور اس سلسلے میں انہیں پاکستان کی مدد درکار نہیں تھی۔

افغان طالبان کے نزدیک کابل کی حکومت امریکہ اور نیٹو کی کٹھ پتلی ہے۔ لہٰذا وہ اس کو تسلیم نہیں کرتے۔وہ وقتاً فوقتاً امریکی، نیٹو اور افغان سکیورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات پر حملے کرتے ہیں۔ افغان حکومت کے حامی بھی ان کا نشانہ بنتے ہیں۔ امریکا نے افغانستان میں اپنی عسکری تاریخ کی طویل ترین جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ دنیا کی اکلوتی طاقت نے اربوں ڈالر جنگ کی بھٹی میں جھونک دیئے مگر وہ افغانستان میں کامیاب نہیںہوسکا۔

امریکی فوج رخصت ہوئی تو…
امریکا کا نیا صدر، ڈونالڈ ٹرمپ کئی بار کہہ چکا ہے کہ امریکی دوسروں کی جنگ لڑنے کے لیے تیار نہیں… مگر حیرت انگیز بات یہ کہ ٹرمپ بھی افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد بڑھانا چاہتا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اپنی کٹھ پتلی افغان حکومت کو سہارا دینے کے علاوہ جنوبی اور وسطی ایشیا میں اپنا کلہ گاڑا جاسکے۔ جاسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغان حکومت امریکا ہی کے سہارے قائم و دائم ہے۔ ماہرین سیاسیات و عسکریات کا کہنا ہے کہ اگر آج امریکا افغانستان چھوڑنے کا اعلان کردے، تو اس بدقسمت ملک میں درج ذیل مختلف حالات جنم لے سکتے ہیں:

٭پہلی صورت حال:۔ امریکی و نیٹو افواج کے رخصت ہونے سے افغانستان میں افراتفری پھیل جائے گی۔ اس سے فائدہ اٹھا کر شدت پسند حکومت پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ وہ پھر طاقت پکڑ کر امریکا اور مغربی ممالک میں بم دھماکے اور خودکش حملے کریں گے۔ شدت پسندوں میں اقتدار کی خاطر جنگ بھی چھڑسکتی ہے جیسا کہ ماضی میں سویت افواج کی رخصتی کے بعد ہوا تھا۔اس صورتحال کے پیش نظر امریکی و نیٹو افواج کو افغانستان ہی میں قیام کرنا چاہیے تاکہ شدت پسند اور جنگجو اقتدار حاصل نہ کر سکیں۔

٭دوسری صورتحال:۔ افغان طالبان کا دعویٰ ہے کہ امریکی و نیٹو افواج کے جانے سے افغانستان میں امن و امان بحال ہوجائے گا۔ وہ اپنی لڑائی روک دیں گے۔ یوں مزید انسانی جانیں ضائع نہیں ہوں گی اور معیشت کی بحالی کا آغاز ہوجائے گا۔ تمام افغان عوام مل کر پھر اسلامی ریاست کی بنیاد رکھیں گے۔

٭تیسری صورتحال:۔ امریکی و نیٹو افواج کے رخصت ہوتے ہی افغانستان میں موجودہ تمام گروپ مثلاً طالبان، شمالی اتحاد، داعش وغیرہ اقتدار کے لیے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوجائیں گے۔ یہ جنگ فرقہ ورانہ ٹکرائو کی شکل بھی اختیار کرسکتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ افغانستان صومالیہ کی طرح مختلف خود مختار اور علیحدہ علاقوں میں تقسیم ہوسکتا ہے۔

ایک علاقے میں پشتون آباد ہوں گے، جبکہ وسطی، مغربی اور شمالی علاقوں میں مقامی وار لارڈز اور فرقے اپنی اپنی حکومتیں قائم کرلیں گے۔ مغربی ماہرین کو خطرہ ہے کہ پشتون لیڈر اپنی ریاست میں شریعت نافذ کردیں گے۔ نیز وہ امریکا وہ مغربی ممالک کے خلاف بھی سرگرم عمل رہیں گے۔

٭چوتھی صورتحال:۔ افغان حکومت اپنا 80 فیصد بجٹ غیر ملکی امداد سے بناتی ہے جو اسے امریکا اور مغربی ممالک فراہم کرتے ہیں۔ اگر امریکی حکومت نے افغان حکومت کے سر پر سے ہاتھ کھینچ لیا، تو وہ آناً فاناً دھڑام سے گرپڑے گی۔ حکومت کی عدم موجودگی میں جنم لینے والے سیاسی و عسکری مناقشے افغانستان کو دوبارہ خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل دیں گے۔

امریکی حکومت کا مخمصہ
افغانستان کے معاملے میں امریکی حکمران طبقہ باہمی اختلافات کا شکار ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور بعض وزیر افغانستان کو خیرباد کہہ دینا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اربوں ڈالر افغان جنگ پر لگا چکی مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا اور دور دور تک فتح کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔امریکی فوج ابھی افغانستان سے واپس نہیں آنا چاہتی۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اگر امریکی فوج شکست خوردہ حالت میں افغانستان سے رخصت ہوئی، تو بین الاقوامی سطح پر اس کے مقام و مرتبے کو نقصان پہنچے گا۔ یہی نہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ افغانستان میں ہار کے باعث سویت یونین کی طرح ریاست ہائے متحدہ امریکا بھی شکست و ریخت کا عمل شروع ہو جائے۔

روس کے حالیہ صدر ،ولادیمر پیوٹن نے تو زیرکی و دانشمندی سے اپنے ملک کا زوال روک لیا۔ مگر امریکی جرنیلوں کی نگاہ میں ڈونالڈ ٹرمپ اتنی صلاحیتیں نہیں رکھتا کہ وہ امریکا کی ٹوٹ پھوٹ روک سکے۔ پہلے ہی یہ آثار نظر آرہے ہیں کہ ٹرمپ عالمی سطح پر امریکہ کا عمل دخل کم کرنا چاہتا ہے۔

پچھلے سولہ برس کے دوران امریکی حکمرانوں اور افواج نے سرتوڑ کوششیں کی کہ وہ افغان عوام کا دل جیت لیں مگر بات نہیں بنی۔ دراصل طویل جنگ افغان عوام کو امریکیوں سے متنفرکرچکی۔ اب صرف وہی افغان امریکیوں کو افغانستان میں قیام کرتا دیکھنا چاہتے ہیں جن کی روزی روٹی امریکی امداد سے بندھی ہے یا سرکاری کرپشن کے باعث ان کے وارے نیارے ہیں۔

تباہ حال مملکت
خاص طور پر افغان نوجوان لڑکے زبردست بیروزگاری کے باعث ملک چھوڑ رہے ہیں یا جنگجو تنظیموں میں جا شامل ہوتے ہیں۔ معاشی بحران کے باعث پرانی دشمنیاں سر اٹھا رہی ہیں اور خطرہ ہے کہ بڑھتی لاقانونیت کے باعث افغانستان انارکی اور انتشار کا نشانہ بن سکتا ہے۔

ان خطرناک حالات میں مناسب یہی دکھائی دیتا ہے کہ امریکا و نیٹو افواج افغانستان سے رخصت ہوجائیں۔ تب ممکن ہے کہ متحارب افغان گروہ مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکال لیں۔ یوں افغانستان میں کسی حد تک امن اور حکومت کی رٹ بحال ہوسکتی ہے۔ فی الوقت تو یہ دیس مختلف طاقتوں کے مابین جاری گریٹ گیم کا نشانہ بن کر آگ اور خون میں لتھڑا ہوا ہے۔ اس بدقسمت مملکت میں انسانی جان پانی سے بھی زیادہ سستی ہوچکی۔ جس افغان کو روزانہ شدائد زندگی سے مقابلہ کرتے ہوئے دو وقت کی روٹی مل جائے، وہ اسے ہی قارون کا خزانہ سمجھتا ہے۔ آج ایک عام افغان جس خوفناک عذاب سے گزر رہا ہے اس کے ذمے دار دنیاوی حکمران ہیں۔قوم پرستانہ اور ذاتی مفادات پورے کرنے کی خاطر ان کے سامنے انسانی جانیں مٹی کے ذرے جیسی بھی وقعت نہیں رکھتیں۔

مشہور اداکار ،چارلی چپلن کا قول ہے:لالچ و ہوس انسان کی روح کو کرپٹ کر دیتی ہے۔‘‘جب افغان حکمران طبقے کو دیکھا جائے تو یہی احساس ہوتا ہے کہ لالچ وہوس کے باعث وہ تمام انسانی اقدار سے محروم ہو چکا۔حتی کہ امریکی ڈالروں کی چاہ میں اب وہ پاکستان کو نقصان پنچا کر احسان فراموشی کرنا چاہتا ہے۔لیکن اوپر والے کی لاٹھی بھی بے آواز ہے۔جلد یا بدیر افغان حکمرانوں کو احسان فراموشی پر عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔