کون سنتا ہے فغانِ درویش

محمود عالم خالد  منگل 8 اگست 2017

یہ مقولہ قبول عام کی حیثیت رکھتا ہے کہ عقل مند دوسروں سے جب کہ بے وقوف اپنے تجربے سے سیکھتا ہے ۔ ہر فرد اس دانش سے اتفاق کرتا ہے لیکن صورتحال عملاً اس کے بالکل برعکس ہے۔ زیادہ تر لوگ دوسروں کے تجربوں سے سبق سیکھنے کے بجائے خود اپنے تجربے سے سبق حاصل کرتے ہیں۔ ایسے احمقوں کی بھی کمی نہیں جو نہ اپنے اور نہ ہی دوسروں کے تجربوں سے سبق سیکھ کر اپنی زندگی کی راہیں متعین کرتے ہیں۔

کون نہیں جانتا کہ جنگ ایک ہولناک مظہر ہے۔ وہ تباہی بربادی اور ہلاکتوں کے سوا اورکچھ بھی نہیں دیتی۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ ہر جنگ کے بعد امن کا ایک سمجھوتا کرنا پڑتا ہے، لڑنے والوں کو ایک میز پر بیٹھ کر اپنے معاملات طے کرنے پڑتے ہیں۔ انسانی تاریخ جنگوں سے بھری پڑی ہے۔ بلامبالغہ ان جنگوں میں کروڑوں انسان ہلاک ہوئے ہیں، زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے۔ کھربوں روپے کے معاشی نقصانات ہونے کے علاوہ بے گھر اور دربدر اور بے روزگار ہونے والوں کا شمار بھی کروڑوں میں کیا جاتا ہے۔

اتنے بھیانک تجربے کے بعد آج 21 ویں صدی میں بھی دنیا کے مختلف علاقوں میں جنگیں، خانہ جنگیاں اور لڑائیاں جاری ہیں۔ صرف عرب ملکوں میں لاکھوں افراد حالیہ برسوں میں قتل ہوچکے ہیں اورگھر بار چھوڑ کر بھاگنے والوں کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس صورتحال سے ثابت کیا ہوتا ہے؟

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو مہذب اور دانش مند ہونے میں ابھی کافی وقت درکار ہے۔ تاہم بعض تجربے ایسے ہوتے ہیں جو آپ کو سیکھنے کا کوئی بھی موقع فراہم نہیں کرتے۔ ایسا ہی ایک مسئلہ عالمی حدت میں تیزی سے ہونے والا اضافہ اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی موسمی تبدیلیاں ہیں۔ اس مسئلے کو نظر اندازکرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے جنگوں میں بعض علاقے اور ممالک تباہی کا نشانہ بنتے ہیں جب کہ دنیا کے دیگر ممالک نسبتاً کم متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی پورے کرئہ ارض کی تباہی کا سبب بننے والی ہے۔

ہر قیمت پر ترقی کے جنون نے پہلے سوا سو سال تک کوئی خاص گُل نہیں کھلائے، لیکن انسان کی ہوس کے آگے کون ٹہر سکتا ہے۔ زمین کا سینہ چیرا گیا ، دھاتیں، معدنیات، تیل اور گیس کے ذخائر نکالے گئے۔ انھیں بے دریغ پھونکا جانے لگا۔ وہ کرہ ارض جہاں انسان کی پیدا کردہ گیسیں اور دھواں نہ ہونے کے برابر تھیں، زہریلی گیسوں سے بھرگیا۔ ہر طرف ہر طرح کی آلودگی۔ انسان کا دم گھٹنے لگا، پرندے اور جانور مرنے لگے اور بالا آخر وہ وقت بھی آگیا جب زہریلی گیسوں نے قدرتی ماحول میں ایسا بگاڑ پیدا کردیا کہ کرہ ارض کا موسم بدلنے لگا ۔ موسم کا بدلنا، فطرت کی طرف سے انسان کو سب سے بھیانک انتباہ ہے۔ ایک وارننگ ہے کہ رک جاؤ، ٹہر جاؤ، فطرت کے توازن کو مزید نہ بگاڑو ورنہ کچھ باقی نہیں رہے گا۔ وحشت کا دور دورہ ہوگا۔ کرئہ ارض تو باقی رہے گا لیکن اس پر سے زندگی کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ یہ سزائے موت کے خطرے کا انتباہ ہے۔

موسمی تبدیلیوں کا مظہر یوں تو عالمگیر ہے لیکن بعض مخصوص ممالک اس کے اثرات سے دیگر ملکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ جنوبی ایشیا کا خطہ جس میں پاکستان واقع ہے ایک ایسا خطہ ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے بد ترین طور پر متاثر ہورہا ہے۔ اس خطے کا ایک بہت بڑا حصہ دریائی میدانوں پر مشتمل ہے۔ ڈیڑھ ارب سے زائد کی آبادی رکھنے والے اس خطے کی غذائی ضروریات کے لیے بہت بڑے پیمانے پرکاشت کاری کی جاتی ہے۔ موسموں میں ہونے والا تغیر اگر مزید شدت اختیار کرلیتا ہے جس کی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں تو اس کا براہ راست اثر غذائی اجناس کی پیداور پر پڑے گا اور کسی بحران کی صورت میں کروڑوں انسان قحط جیسی صورتحال کا شکار ہوجائیں گے۔

پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) میں زراعت کا حصہ 20 فیصد سے زائد ہے۔ملک کی 70 فیصد آبادی کا براہ راست یا بالواسط انحصار زراعت کے شعبے پر ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ عالمی حدت میں اضافے سے موسموں میں آہستہ آہستہ جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں ان کو نہ روکا گیا تو ہمارے ملک کے زرعی شعبے پر اس کے اتنے ہی تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے جس کے مظاہر آہستہ آہستہ ہمارے سامنے آتے جارہے ہیں کیونکہ زراعت اور فصلیں موسم کے مطابق ہوتی ہیں۔

پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام موجود ہے۔ اس کا مطلب اور مفہوم یہ ہے کہ پاکستان میں زراعت کا مکمل انحصار دریاؤں، جھیلوں ، ندیوں، نالوں اور بارش سے حاصل ہونے والے پانی پر ہوتا ہے۔ آبی ذخائر میں تیزی سے عالمی سطح پر جو کمی واقع ہورہی ہے اس کے منفی اثرات براہ راست مرتب ہورہے ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارے دریا یا تو خشک ہورہے ہیں یا ان میں پانی کی مقدار بتدریج کم ہورہی ہے۔

ہمارے موجودہ ڈیموں میں بھی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش بتدریج کم ہوتی جارہی ہے۔ سال کے 365 دنوں میں سے 100 دنوں میں مون سون کی بارشوں کے ذریعے جو اضافی پانی ہمیں میسر آتا ہے اسے ذخیرہ کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی انتظام موجود نہیں ہے جب کہ جھیلیں اور آب گاہیں خشک ہوتی جارہی ہیں یا اس قدر آلودہ ہوچکی ہیں کہ ان کا پانی نہ صرف پینے بلکہ زراعت کے قابل بھی نہیں رہا ہے جس کے نتیجے میں مقامی آبادیاں اور کمیونیٹیز بے گھر ہورہی ہیں اور ان کا ذریعہ معاش ختم ہوتا جا رہا ہے وہ قریبی شہروں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوچکی ہیں۔

ایک زمانے میں پاکستان جنگلی اور آبی حیات کا خوبصورت مسکن ہوا کرتا تھا۔ اب یہ صورتحال نہیں ہے۔ جنگل تیزی سے کٹ رہے ہیں۔ سمندر اور دریاؤں کے ساحل آلودہ ہوچکے ہیں، جنگلی اور آبی حیات تباہی اور معدومی کے خطرے سے دوچار ہوچکی ہے۔ ملک کے شہروں میں آلودگی میں تیز رفتاری سے اضافہ ہوتا جارہا ہے، ہمارے بڑے شہر ہر نوعیت کی آلودگی کا شکار ہوچکے ہیں۔

افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ ہم 70 برسوں میں اس بات کا ادراک نہیں کرسکے کہ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ ذرا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے بہت سے مسائل ایسے ہیں جو گھر، گلی، محلے کی سطح پر ختم ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر پانی کا ضیاع،کھلی جگہوں پر کوڑا جلانا، درختوں کو کاٹنا اور نئے درخت نہ لگانا وغیرہ۔ ہمیں تبدیل ہوتے ہوئے موسموں کی طرح زندگیوں میں بھی تبدیلی لانا ہوگی۔

موسمیاتی تبدیلی جس تیزی کے ساتھ انسانی زندگیوں پر اثر انداز ہورہی ہے اور اس کے منفی اثرات ہماری زندگیوں پر جس طرح مرتب ہونے شروع ہوچکے ہیں اس کے لیے ہمیں خود انفرادی طور پر بھی کچھ عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ہمیں اپنے جنگلات کا رقبہ بڑھانے کے لیے خود پائیدار شجر کاری کرنا ہوگی، قلت آب کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہمیں انفرادی طور پر پانی کی بچت کرنا ہوگی، ہمیں اپنے ساحلوں کو آلودہ کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھانا ہوگی۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ آنے والی نسلیں ہماری ہی اولادیں ہوں گی۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان میں عملی اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔ اس کے لیے ایک مربوط اور موثر مہم کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی مہم جس کے ذریعے عوامی سطح پر شعور کو عام کیا جائے اور ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے اور جدوجہد کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس عمل میں شریک ہوسکیں۔ مصیبت اور آفت کا انتظار کرنا اور جب وہ آکر گزر جائے تو ماتم کرنے اور دنیا کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے کہ پیش بندی کرلی جائے۔ دیکھتے ہیں۔ کون سنتا ہے فغانِ درویش۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔