اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

گزشتہ سال حکومت نے انرجی سیکٹر میں صرف 50 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی۔

rkaleemi@hotmail.com

ایک آسان کلیے کے مطابق کسی بھی رپورٹ میں دو بنیادی خصوصیات کا موجود ہونا ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ وہ سچی اور قابل اعتبار ہو اور دوسری یہ کہ کار آمد ہو۔ یہ بات یقینا قابل اطمینان ہے کہ اسٹیٹ بینک میں نہایت لائق اور ذہین ڈائریکٹران، افسران اور اہلکاران کی موجودگی کی بدولت اسے بڑی حد تک کارآمد تو کہا جا سکتا ہے، مگر اس کی سچائی اور قابل اعتبار ہونے میں غالباً ان کا اختیار صرف تجزیے اور تحریر تک محدود ہے۔ اس میں جو مزاح اور سحر کی کیفیت پیدا کی گئی ہے، اس کا آغاز پہلے جملے سے ہی کر دیا گیا ہے۔ یعنی کہا گیا کہ معیشت کی کارکردگی غیر تسلی بخش رہی ہے، اس لیے کہ گزشتہ برس حقیقی جی ڈی پی کا نمو 3.7 فیصد رہا جب کہ ہدف 4.2 فیصد مقرر کیا گیا تھا۔

پھر مزاح مسلسل کی کیفیت یہ کہہ کر پیدا کی گئی ہے کہ ایسا ہونے کی توقع بھی تھی اور اس توقع کی جو وجوہات بیان کی گئی ہیں ان میں توانائی (یعنی بجلی، گیس وغیرہ) کا بحران، امن عامہ کی دگرگوں اور مخدوش صورت حال اور مسلسل دو برسوں میں آنے والے سیلاب کو شامل کیا گیا ہے۔ سبحان اللہ! یعنی جب 2011 میں ''حقیقی جی ڈی پی'' (گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ) یا ''حقیقی ملکی پیداوار'' کا ہدف مقرر کیا جا رہا تھا تو منصوبہ بندی کمیشن کے علماء و فضلاء توانائی کے بحران، امن و امان کی ہولناکی اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے یا تو لا علم تھے یا ان کے چشم زدن میں درست ہو جانے کی خوش گمانی کے سنڈروم میں مبتلا تھے اور حضرت عاصم حسین اور رحمٰن ملک کے اوصاف سے نا بلد تھے۔ پھر یہ ''حقیقی ملکی پیداوار'' بھی گویا ایک ایسی اصطلاح ہے کہ اس میں بلبل ہزار داستان سے لے کر فسانہ عجائب تک ہر قصہ اس طرح ملفوف و مستور کیا جا سکتا ہے کہ جس کو پانی میں نمک یا چینی حل کرنے سے بھی تشبیہہ نہیں دی جا سکتی، کیونکہ اس کا پتہ ذائقہ اور کثافت اضافی سے یقینا لگایا جا سکتا ہے، مگر یہاں 3.7 فیصد کا محلول دو بڑے اجزائے ترکیبی کی ماہرانہ جگل بندی سے اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ یہ پتہ چلانا مشکل ہے کہ غیر منافع بخش یا غیر پیداواری اشیائے صرف پر خرچ کی گئی رقوم کی شرح نمو پہلے ایجاد ہوئی یا افراط زر کی شرح۔

کیونکہ دونوں کی مقدار تقریباً برابر یعنی گیارہ فیصد دکھائی گئی۔ کمال یہ ہے کہ محض اپنی ضروریات اور تکمیل خواہشات اور اپنی انا کی تسکین کے لیے ایک ایسی قوم نے جس کی معاشی خستہ حالی اب ضرب المثل بن چکی ہے، اس نے اپنی ملکی پیداوار میں سال گزشتہ کے مقابلے میں تقریباً 7.2 فیصد زیادہ صرف کیا۔ اور نتیجتاً افراط زر کی شرح سال گزشتہ کے مقابلے میں 2.7 فیصد کم ہوکر 11 فیصد ہو گئی۔ یہ رپورٹ کا وہ حصہ ہے جسے سحر یا جادوگری کہا جا سکتا ہے۔ اول تو یہ شرح اصراف ایک بہت ہی خوشحال اور مالا مال قوم کی نشاندہی کرتی ہے اور پاکستان کے بارے میں ایسی غلط فہمی کا شکار ہونا جائز نہیں۔ دوسری جانب منطق تو یہی کہتی ہے کہ اگر ملکی پیداوار میں قوم اپنے اشیائے صرف اور ضروریات زندگی پر اس رفتار اور مقدار میں خرچ کر رہی ہے تو افراط زر کی شرح میں اضافہ بے تحاشہ اور بے محابہ ہونا چاہیے، مگر اس کو بھی کمال ہوشیاری سے 11 فیصد پر مقید کر دیا گیا ہے۔

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ''حقیقی جی ڈی پی'' کا تخمینہ لگانے کے لیے ''جی ڈی پی'' (جس میں غیر پیداواری روز مرہ کے اخراجات اور افراط زر، دونوں شامل ہوتے ہیں) کو افراط زر کی شرح سے تقسیم کر دیا جاتا ہے، گویا دونوں ہی اشاریے جن کا براہ راست تعلق عوام کے معیار زندگی سے ہوتا ہے اس کو اس اہم اشاریے (Indication) سے نکال دیا جاتا ہے جو قوم کی اصل معاشی صورت حال کا آئینہ دار سمجھا جاتا ہے۔ دوسری جانب سیلاب کو بھی بری معاشی کارکردگی کا ذمے دار قرار دیا گیا ہے، مگر حیرت انگیز طور پر زراعت کا حصہ سال گزشتہ کے مقابلے میں 0.7 فیصد زیادہ رہا ہے۔ خدمات کا شعبہ ناقص کارکردگی کا شکار رہا ہے اور اس کی شرح نمو گزشتہ برس کے مقابلے میں 0.4 فیصد کم رہی ہے۔ سرمایہ کاری کی منفی کارکردگی گزشتہ برس کے مقابلے میں ( جو پہلے ہی منفی 4.7 فیصد تھی مزید چار فیصد کم یعنی منفی 8.6 فیصد ہو گئی، یعنی گھر میں غارت کرنے کے لیے پہلے ہی کچھ نہیں تھا، اور جو تھا اس کو بھی مزید 4 فیصد سے محض ایک سال میں غارت کر دیا گیا۔


سب سے بڑا سوالیہ نشان Consumption یا اشیائے صرف میں نمو کسی رپورٹ کی جدولوں میں نہیں بلکہ عوام کے چہروں پر نظر آنی چاہیے۔ دوسری جانب افراط زر کی شرح نہ معلوم 11 فیصد کس کارخانے میں تیار کی گئی ہے۔ عوام مہنگائی سے بلبلا اٹھے ہیں، آٹا، دال، چاول، چینی، کرایہ آمد و رفت، بجلی، گیس، کپڑے جیسی بنیادی اشیائے ضرورت میں افراط زر کی شرح صرف گیارہ فیصد ہے، ہمارا خیال ہے کہ ایسے کہنے والے نہ صرف قوم ہی نہیں بلکہ اپنے ضمیر سے بھی مخلص نہیں ہیں۔ صرف اگر ایسی ایک شرح کو لیا جائے تو افراط زر اگر 12 فیصد ہو تو حقیقی جی ڈی پی صرف 3.4 فیصد رہ جائے گی اور اگر یہ 13 فیصد ہو تو 3.1 فیصد، 14 فیصد پر 2.9 فیصد اور 15 فیصد افراط زر پر ''جی ڈی پی'' کی شرح محض 2.7 فیصد تک کم ہو جاتی ہے۔ یہ تمام اعداد و شمار خود اسٹیٹ بینک اور صوبائی ادارہ شماریات نے مشترکہ طور پر تیار کی ہیں۔ مگر کسی بھی شخصیت یا ادارے کی ذہانت یا خلوص نیت پر شک کرنا نہ جائز ہے اور نہ مستحسن۔

مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہی ملک کا ایک وزیر اعظم ایک صبح اچانک اعداد و شمار کا پلندہ لے کر آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے مرکزی دفاتر میں جا کر بصد افتخار یہ اعلان کرتا ہے کہ یہ تمام اعداد و شمار جو پہلے پیش کیے جاتے ہیں وہ نہ صرف سراسر غلط اور ناقابل اعتبار ہیں بلکہ صریحاً دھوکا دینے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ اور یہ اعلان تھا ان اعداد و شمار کے بارے میں جو دونوں بڑی جماعتوں کے دس سالہ جمہوری دور حکومت کے دوران ترتیب دیے گئے تھے۔ یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب موقر ادارے عوام اور ملک سے پرخلوص اور وفادار ہونے کی بجائے حکومتوں اور ملازمت دینے والوں سے اخلاص، احسان مندی اور وفاداری کا حق نبھانے لگتے ہیں اور ایسی صورت میں بظاہر بہت ہی قابل اعتبار دستاویز کے بارے میں بھی شکوک و شبہات کے امکانات نکل ہی آتے ہیں۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قوم کے حیرت انگیز اضافی غیر پیداواری اخراجات کی وجوہات میں بیرون ملک سے پاکستانیوں کی روز افزوں ترسیلات، ایک انتہائی طاقتور اور متحرک مگر بے ضابطہ اور غیر رسمی سیکٹر کی کارکردگی میں اضافہ اور حکومت کے وسائل سے کیے گئے خرچ شامل ہیں۔ بظاہر حکومت نے کوئی بڑی رقم نہ تو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کی، نہ صحت اور تعلیم کے شعبوں پر۔ حکومت کے اخراجات کی ایک انتہائی تشویشناک صورت حال اس حقیقت سے عیاں ہوتی ہے کہ گزشتہ سال حکومت نے صرف انرجی سیکٹر (یعنی گیس اور بجلی) میں سرمایہ کاری تو صرف 50 ارب روپے کے قریب کی، مگر 475 ارب روپے سے زیادہ کی خصوصی مالی امداد یا سبسڈی بھی اسی سیکٹر کو عطا کی۔ اس کے باوجود اس سیکٹر کے ہاتھوں عوام کی زندگی جس طرح اجیرن ہو رہی ہے، اس کا احوال کچھ عوام ہی جانتے ہیں۔ غالباً اسی لیے اسٹیٹ بینک نے بجلی کی پیداواری صلاحیت اور اصلاحات بھی اس رپورٹ میں شامل کر کے اپنا دامن بھی پاک کر لیا اور ایک غیر ضروری خدمت بھی سر انجام دے دی ہے۔

KESC کی نجکاری کے فیوض و برکات اور اس کی شاندار کارکردگی کے ثمرات کا قصیدہ رقم کرنے سے پہلے کراچی کے عوام کی بھی رائے لے لینی چاہیے تھی اور ساتھ ہی ایمانداری کا تقاضہ تو یہ بھی تھا کہ اس نجکاری کی وجہ سے قوم کو جو کثیر مالی خسارہ اٹھانا پڑا ہے اس کا بھی تذکرہ کر دیا جاتا۔ اس رپورٹ میں ایک اور خوفناک اطلاع یہ ہے کہ پورا مالیاتی شعبہ حکومت اور پبلک سیکٹر اداروں کو قرض دینے میں مصروف ہے۔ اسٹیٹ بینک بوجوہ ارباب اختیار و اقتدار کے سفارشیوں کو دیے جانے والے قرضوں کا تذکرہ کرنا بھول گیا ہے۔ حقیقی جی ڈی پی کے سلسلے میں اس رپورٹ کے غیر منطقی اور غیر سائنسی اعداد و شمار پر سوالات تو اٹھائے جا سکتے ہیں مگر اس کے پر مزاح اور کارآمد ہونے میں ہر گز کوئی شبہ نہیں، اس لیے کہ اس کی بنیاد پر حکومت اور خود اسٹیٹ بینک کی کارکردگی پر نہایت شاندار چارج شیٹیں تیار کی جا سکتی ہیں۔ یقین نہیں آتا؟ آزما کر دیکھ لیں۔
Load Next Story