نجم سیٹھی صاحب کراچی کو نظراندازنہ کریں

سلیم خالق  بدھ 23 اگست 2017
اب پی سی بی کو چاہیے کہ حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر بہترین انتظامات کرے۔ فوٹو: این این آئی/فائل

اب پی سی بی کو چاہیے کہ حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر بہترین انتظامات کرے۔ فوٹو: این این آئی/فائل

ورلڈالیون، پھر سری لنکا اور اب ویسٹ انڈین ٹیم کی آمد کے اعلان سے ہر پاکستانی بیحد خوش ہے، ہمارے کرکٹ شائقین اپنے سامنے قومی ہیروز کو دیکھنے کیلیے بے چین ہیں، لاکھوں نوجوانوں کو تو علم ہی نہیں ہوگا کہ اپنے ہوم گراؤنڈ میں گرین شرٹس کو ایکشن میں دیکھنے کا کیا لطف ہوتا ہے،شائقین ہی کیوں کھلاڑی بھی اس تجربے سے محروم ہیں، موجودہ اسکواڈ کے بہت کم پلیئرز نے ہی کسی بڑی ٹیم کے خلاف ہوم میچز کھیلے ہوں گے، پی سی بی کرکٹ کی واپسی کیلیے اقدامات کر رہا ہے، مگر میچز صرف ایک شہر تک محدود رکھنا دیگر شہروں کے ساتھ ناانصافی ہے۔

ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ دنیا کو کیا یہ بتانا ہے کہ لاہور کرکٹ کیلیے محفوظ ہے یا پھر پورا پاکستان، اس وقت ایسا لگتا ہے کہ پی سی بی کو خود اپنی سیکیورٹی فورسز پر بھروسہ نہیں اس لیے وہ کرکٹ کو ایک شہر تک محدود کر رہا ہے، یا چونکہ نجم سیٹھی پنجاب حکومت کے بیحد قریب ہیں اور انھیں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ہی بطور انعام چیئرمین کا عہدہ سونپا، وہ بھی خود محدود رہنا چاہتے ہیں۔

اگر آپ کو حقیقی معنوں میں سونے میدان آباد کرنے ہیں تو پھر لاہور کے ساتھ فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی، کراچی اور پشاور سمیت تمام شہروں میں میچز کرانے ہوں گے،2 برس قبل زمبابوین ٹیم کو قذافی اسٹیڈیم تک محدود رکھا گیا، پھر پی ایس ایل کا فائنل بھی وہیں ہوا، اب ورلڈ الیون، سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کے میچز بھی لاہور میں کرانے کا اعلان کر دیا گیا، ویسے تو کرکٹ ہونا اچھی بات ہے لیکن اگر آپ گہرائی میں جاکرسوچیں تو اس سے دیگر شہروں میں احساس محرومی بڑھے گا۔

آپ خود اپنے شہروں کو غیر محفوظ قرار دیں تو دوسرے کیسے آنے پر قائل ہوںگے،کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے مگر بورڈ چیف نجم سیٹھی اسے محفوظ نہیں مانتے، وہ تو یہاں تک کہہ چکے کہ سو فیصد غیر ملکی کرکٹرز شہرقائد آنے کو تیار نہیں، پہلے بھی ذکر کر چکا کہ اگر ایسی بات ہے تو آپ نیشنل اسٹیڈیم کی تزئین وآرائش پر کیوں ڈیڑھ ارب روپے خرچ کر رہے ہیں، شاید حقیقت کا علم حکومت کی تبدیلی کے بعد جب فائلز کھلیں تب ہی ہوسکے گا۔

میں یاد دلاتا چلوں کہ سندھ کے مرحوم وزیر کھیل ڈاکٹر محمد علی شاہ 5 سال قبل ہی ورلڈ الیون کو کراچی لاچکے تھے جس نے نیشنل اسٹیڈیم میں دو میچز کھیلے، پی سی بی نے حالانکہ ڈاکٹر شاہ کی سپورٹ نہیں کی مگر پھر بھی وہ جے سوریاسمیت کئی اسٹارز کو لانے میں کامیاب رہے، گزشتہ برس نعمان نبی احمد نے جونٹی رہوڈز، ڈینی موریسن، ڈیمین مارٹن اور اینڈی رابرٹس کو کراچی کا دورہ کرایا، یہاں وہ آزادی سے گھومتے رہے،کھلاڑیوں کے ٹرائلز لیے اورکوچنگ کی، میں نے ان سے ملاقات بھی کی، چاروں سیکیورٹی سے خوش و مطمئن نظر آئے۔

زیادہ دور کیوں جائیں گزشتہ ماہ ہی معروف فٹبالرز رونالڈینو و دیگر کراچی آئے اور میچ بھی کھیلا، اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر بورڈ چاہے تو یہاں میچ کرا سکتا ہے مگر شاید سیٹھی صاحب کی ترجیحات میں یہ شہر شامل نہیں، حالانکہ یہاں بھی حالات اب اچھے ہو چکے، یہاں بھی وہی قانون نافذ کرنے والے ادارے فرائض انجام دیں گے جو دیگر شہروں میں دیتے ہیں، جہاں تک غیر ملکی کرکٹرز کا تعلق ہے انھیں تھوڑی زیادہ رقم دینے کی لالچ دیں تو وہ آجائیں گے، جیسے ورلڈ الیون کے کھلاڑیوں کو ایک ، ایک کروڑ سے زائد رقم دی جا رہی ہے، تھوڑا ریٹ بڑھا دیتے تو وہ کراچی بھی آ جاتے۔

سب جانتے ہیں کہ یہ ٹیمیں پاکستان کی محبت میں یہاں نہیں آ رہیں ان کا مقصد پیسہ ہے تو رقم بڑھا کر دیگر شہروں میں بھی کھیلنے کا کہیں تب ہی ملک بھر میں شائقین کا انتظار ختم ہو سکے گا، اگر دو، تین شہروں میں میچز ہوئے تب ہی ہم دنیا کو اپنی سیکیورٹی پر قائل کر سکیں گے ورنہ اتنی بڑی رقم خرچ کرنے سے بھی اصل مقصد حاصل نہ ہو گا۔

ویسٹ انڈین ٹیم کی آمد اچھی پیش رفت ثابت ہوسکتی ہے، پی سی بی نے اپنے کارڈز عمدگی سے شو کیے، سب سمجھ رہے تھے کہ فٹنس ٹیسٹ کیلیے کھلاڑیوں کو بلایا گیا دراصل اصل وجہ ویسٹ انڈین بورڈ پر دباؤ ڈالنا تھی، جیسے ہی دورے کی تصدیق ہوئی اعلان سامنے آ گیا کہ پاکستانی کرکٹرز کیریبیئن لیگ کھیلنے واپس جا سکتے ہیں، مگر اب دیکھنا یہ ہو گا کہ اپنی لیگ ختم ہونے کے بعد کہیں ویسٹ انڈین بورڈ مکر تو نہیں جائے گا، کہیں کھلاڑیوں کی تشویش کو آڑ بنا کر وہ پیچھے تو نہیں ہٹ جائے گا؟

امید ہے ایسا نہیں ہوگا مگر پی سی بی کو اپنے طور پربھی کھلاڑیوں سے رابطہ کرنا ہوگا، کیریبیئن کرکٹرز کی بڑی کمزوری پیسہ ہے اس کا فائدہ اٹھائیں،اگر ویسٹ انڈین بورڈ پر دباؤ والا حربہ کامیاب رہتا ہے تو اسے بنگلہ دیش پر بھی آزمانا چاہیے، بی پی ایل کی این او سی دورئہ پاکستان سے مشروط کر دیں، البتہ ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ بنگلہ دیش وعدے سے مکر جاتا ہے۔

پی سی بی کو اب ورلڈ الیون کے کھلاڑیوں کا اعلان بھی کر دینا چاہیے، ہر دن ٹویٹر پر چند نام آتے رہتے ہیں مگر تصدیق نہیں ہوتی، نجم سیٹھی نئی میڈیا پالیسی کے تحت ٹویٹر پر اپنے قابل بھروسہ افراد کو کوئی ’’ٹپ ‘‘ دیتے ہیں جو اسے آگے بڑھاتے رہتے ہیں،ویسے 70 سال کی عمر میں جس طرح نجم سیٹھی سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں وہ قابل تعریف ہے۔ صرف لاہور ہی میں سہی کرکٹ واپس تو آ رہی ہے۔

اب پی سی بی کو چاہیے کہ حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر بہترین انتظامات کرے، پی ایس ایل فائنل میں بیشتر ٹکٹوں کے نرخ بہت زیادہ رکھے گئے جو عام آدمی کی پہنچ سے دور تھے، اب ایسا نہ کریں اتنی قیمت رکھیں کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں شائقین اسٹیڈیم آ کر اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کر سکیں، ساتھ کم از کم ایک میچ تو کراچی میں رکھیں، پھر کسی دوسرے شہر کو میزبانی دیں، اسی طرح محفوظ پاکستان کا تاثر دنیا میں جا سکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔