انقلابی شاعر مخدوم محی الدین کی یاد میں

ایم اسلم کھوکھر  جمعرات 24 اگست 2017

دنیا میں چار قسم کے لوگ ہوتے ہیں، اول وہ جو جبرکرتے ہیں، دوم وہ جو جبرکا شکار ہوتے ہیں، سوم وہ جو نہ تو جبر کا شکار ہوتے ہیں نہ ہی دوسروں پر جبر ہوتے ہوئے دیکھ کر جبرکے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، چہارم، وہ لوگ ہوتے ہیں جوکہ خود کسی حد تک جبر کا شکار نہیں ہوتے مگر دوسروں پر جبر ہوتے دیکھ کر خاموش بھی نہیں رہتے اور مقدور بھر سماج میں ہونے والے جبرکے خلاف جدوجہد بھی کرتے رہتے ہیں۔

ایسے لوگوں میں ایک نام ہے مخدوم محی الدین کا جنھوں نے حیدرآباد ریاست کے ضلع میرک میں 1908ء میں جنم لیا ان کے والد جو تحصیل دارکے صیغے دار تھے جو 1912ء میں اس وقت انتقال کرگئے، جب مخدوم محی الدین کی عمر فقط چار برس تھی، والد کی وفات کے بعد ان کے چچا بشیرالدین نے انھیں اپنی زیرکفالت لے لیا۔ مخدوم محی الدین کا خاندان اگرچہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا مگر اس کے باوجود وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے بھی بے خبر نہ تھا، اکثر ان کے گھر میں عالمی حالات و رونما ہونے والے واقعات پر گفتگو ہوتی، چنانچہ ایک دن ان کے چچا نے جب پورا خاندان کھانا کھا رہا تھا یہ خبر سب کے گوش گزار کی کہ روس میں انقلاب آ گیا ہے، اب گویا سب لوگ ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھاتے ہیں۔

اس وقت 9 برس عمر رکھنے والے مخدوم محی الدین کئی روز اس فکر میں مبتلا رہے کہ روس کے لوگ کتنا بڑا دسترخوان بچھاتے ہوں گے ایک ہی جگہ کھانا کھانے کے لیے جب کہ ان کے چچا کا بات کرنے مقصد یہ تھا کہ روس میں اب مساوات کا نظام قائم ہوگا۔ مخدوم کی ابتدائی تعلیم درس قرآن، گلستان و بوستان سعدی سے شروع البتہ 1929ء میں مخدوم نے میٹرک کا امتحان سنگا ریڈی ہائی اسکول سے پاس کرلیا اسی برس انھوں نے جامعہ عثمانیہ میں داخلہ لے لیا مگر اپنے استاد سے کثرت سے بحث کرنے کے سبب انھیں کلاس میں بیٹھنے کی اجازت کم کم ہی ملتی چنانچہ حاضری پوری نہ ہونے کے باعث انھیں امتحان میں حصہ لینے سے روک دیا گیا یہ مخدوم کے لیے مشکل ترین وقت تھا مگر انھوں نے ہمت نہ ہاری انھوں نے اخبارات میں کام کیا اخبارات فروخت کیے، ٹیوشن پڑھائی، تیسرے درجے کی کلرکی کی۔ انھوں نے جامعہ کا جمود توڑا، مخدوم نے ڈرامے لکھے، اسٹیج کیے ان ڈراموں میں اداکاری بھی کی اور اپنے ہم کلاس ساتھیوں کے ہر دل عزیز ہوتے چلے گئے۔

مخدوم کی ان خوبیوں کا علم جب رابندر ناتھ ٹیگور کو ہوا تو انھوں نے مخدوم کو اپنے مکتب شانتی نکیتن آنے کی دعوت دے دی۔ وہ ٹیگور کی شخصیت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے ٹیگور کی شاعری پر ایک کتاب ٹیگور اور ان کی شاعری لکھی اور شایع کروا دی۔ یہ مخدوم کی اولین تصنیف تھی جوکہ ان کے زمانہ طالب علمی میں شایع ہوئی تھی۔ مخدوم نے مزاحیہ نظم پیلا دوشالہ لکھ کر اپنی شاعری کا آغاز کیا۔ ان کے ہم درس طالب علم فرمائش کر کے مخدوم سے یہ نظم ان سے سنتے یہ ذکر ہے 1933ء کا البتہ اسی برس ان کی نظم ’’طور‘‘ مجنوں گورکھ پوری کے رسالہ ایوان میں شایع ہوئی۔ 1936ء میں مخدوم نے ایم اے کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ اسی برس انھوں نے عالمی ادبی تنظیم انجمن ترقی پسند مصنفین مسز سروجنی، ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری، قاضی عبدالغفار، سبط حسن، ڈاکٹر جے سوریا کی ہمراہی میں قائم کی جب کہ اسی برس 10 اپریل کو سید سجاد ظہیر کی کوششوں سے لکھنو میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ مخدوم کا شمار انجمن کے صف اول کے رہنماؤں میں ہوتا تھا۔

1937-38ء میں انھوں نے حیدر آباد دکن میں طلبا تحریک کی بنیاد بھی رکھی تھی۔ 1939ء تک وہ انقلابی شاعری میں خاصا نام کما چکے تھے اسی برس وہ سٹی کالج میں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔ سٹی کالج میں مخدوم نے دو برس ملازمت کی۔ یہ 1941ء کا زمانہ تھا البتہ اس وقت وہ ترقی پسند نظریات کا خاصا ادراک کر چکے تھے سٹی کالج کی ملازمت سے فراغت کے بعد ان پر بغاوت کا مقدمہ قائم ہوا اور وہ تین ماہ تک پابند سلاسل رہے۔ اسی زمانے میں مخدوم نے کامریڈ ایسوسی ایشن قائم کی۔ مارکسٹ اسٹڈی سرکل قائم کیے جب کہ کیفیت یہ تھی کہ اس زمانے میں ترقی پسند نظریات پر بات کرنا بھی گویا ناممکن تھا۔ 1942ء میں مخدوم نے مزدور تحریک میں کام کرنے کا فیصلہ کیا اور ریلوے ورکرز یونین میں کام کرنے لگے اور جلد ہی یونین کے وائس چیئرمین بنا دیے گئے۔ 1945ء میں پھر گرفتار ہوئے مقدمہ چلا مگر رہا ہوگئے۔

1946ء میں ان کی گرفتاری کے احکامات جاری ہوئے مگر انھوں نے روپوشی اختیار کرلی اور 1945ء سے 1951ء تک روپوش رہ کر مزدوروں کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ اسی زمانے میں انھوں نے تلنگانہ کے کسانوں کی ہتھیار بند جد و جہد کی قیادت بھی کی۔ مخدوم نے تلنگانہ کو دیار ہند کی محبوب ارض چین کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ 1951ء میں وہ پھر گرفتار ہوئے البتہ اگلے برس 1952ء میں رہائی پانے کے بعد حضور نگر کے انتخابی حلقے سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیتا۔ 1956ء میں آندھرا پردیش قانون ساز کونسل میں کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار نامزد ہوئے اور دم آخر کمیونسٹ پارٹی کے ارکان کو لیڈ کرتے رہے۔ 1968ء میں جب چاول کی قیمتوں میں اچانک اضافہ کر دیا گیا تو مخدوم نے طویل بھوک ہڑتال کر دی اکتوبر 1968ء میں افرو ایشیائی ادبی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے وہ سوویت یونین تشریف لے گئے یہ ادبی کانفرنس تاشقند میں منعقد ہوئی تھی اسی برس یورپ کا دورہ بھی مخدوم نے کیا۔

زمانہ طالب علمی میں انھوں نے اپنی چچا زاد سے شادی کی، کل چار اولادیں ہوئیں۔ بیٹیاں ذکیہ و اسادری، بیٹے نصرت محی الدین و ظفر محی الدین۔ وہ اپنی شریک حیات کا بے حد احترام کرتے کہ جنھوں نے مخدوم کی خاطر تمام عمر مصائب کا سامنا کیا۔ 1969ء میں جب وہ دہلی میں مقیم تھے تو ان پر دل کا جان لیوا دورہ حملہ آور ہوا، اور 25 اگست 1969ء کو جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ یوں ترقی پسند حلقے ایک کسان و مزدور رہنما کے ساتھ ایک انقلابی شاعر و سب سے بڑھ کر ایک انسان دوست شخصیت سے محروم ہو گئے۔ان کا یہ شعر شہرت کے بام بلند تک پہنچ گیاتھا۔

حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو

چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

1965ء میں مخدوم کے دو شعری مجموعے سرخ سویرا گل تر، بساط رقص کے عنوان سے حیدرآباد دکن سے شایع ہوئے۔ مخدوم نے ایک حقیقی مارکسٹ کی طرح ہمیشہ دنیا بھر میں ہونے والے جبر کو محسوس کیا اور اس جبرکے خلاف آواز بلند کی۔ جب مسولینی نے حبشہ پر حملہ کیا تو مخدوم محی الدین نے نظم جنگ لکھی جس کے چند اشعار ہم ذیل میں بطور تبرک پیش کر رہے ہیں:

نکلے دہانِ توپ سے بربادیوں کے راگ

باغِ جہان میں پھیل گئی دوزخوں کی آگ

برٹش دور غلامی کے دور میں نظم مشرق لکھی جس کے چند اشعار یہ ہیں:

جیل فاقہ بھیک بیماری نجاست کا مکان

زندگانی تازگی عقل و فراست کا مسان

وہم زائیدہ خداؤں کا روایات کا غلام

پرورش پاتا رہا ہے جس میں صدیوں کا جذام

جھڑ چکے ہیں دست و بازو جس کے اس مشرق دیکھ

کھیلتی ہے سانس سینے میں مریضِ دق کو دیکھ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔