امریکا سے درآمد کیے گئے 31اژدھے ضبط کراچی چڑیا گھر کے حوالے کردیے گئے
اژدھے کراچی کے نوجوانوں نے منگوائے،کسٹم حکام نے حوالگی کیلیے این او سی طلب کرلی،قانون سے بے خبر تھے، حمزہ ، حسین.
2اژدھے14 فٹ کے اور باقی بچے ہیں،کسٹم حکام نے اژدھے ایڈمنسٹریٹرکراچی کے حوالے کردیے، مجموعی قیمت 2 لاکھ روپے ہے۔ فوٹو: فائل
سانپ اور اژدھے پالنے کا انوکھا شوق رکھنے والے کراچی کے رہائشی بھائیوں کی جانب سے امریکا سے درآمد کیے جانے والے 31 اژدھوں کو پاکستان کسٹمز نے ضبط کرکے چڑیا گھر کی انتظامیہ کے سپرد کردیا ہے۔
کسٹم حکام کا موقف ہے کہ کنونشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ آف انڈینجر اسپیشیز کے مطابق ان اژدھوں کی تجارت غیرقانونی ہے جبکہ اژدھے درآمد کرنے والے نوجوان بھائیوں کا موقف ہے کہ اس امر سے لاعلم تھے کہ اژدھوں کی درآمد کیلیے این او سی کی ضرورت تھی،تفصیلات کے مطابق پی ای سی ایچ ایس بلاک 2 کے رہائشی نوجوانوں حمزہ اور حسین نے دو سال قبل نایاب اژدھوں کو بیرون ملک سے درآمد کرکے پاکستان لائے تھے اور انھوں نے اپنے انوکھے شوق کی تکمیل کیلیے پاکستان سے بھی چند نایاب اژدھے پال رکھے ہیں، دونوں بھائی اس وقت 28 نایاب سانپ اور اژدھوں کے مالک ہیں اور حال ہی میں انھوں نے امریکا سے اژدھوں کی ایک اور نایاب قسم کو درآمد کیا تھا۔
امریکا سے آنے والے 31 اژدھے 11 فروری کو کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پہنچے تھے جہاں پاکستان کسٹمز کے ایئرفریٹ یونٹ نے اژدھے ان کے حوالے کرنے سے قبل ان سے متعلقہ دستاویزات طلب کی تھیں، اسسٹنٹ ڈائریکٹر کسٹمز ایئر فریٹ یونٹ رانا آفتاب نے ایکسپریس کو بتایا کہ جانوروں کی درآمد اور برآمد کیلیے بین الاقوامی اور ملکی قوانین کے مطابق مخلتف قسم کے سرٹیفیکیٹس اور این او سی کی ضرورت ہوتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان نے کنونشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ آف انڈینجر اسپیشیز پر دستخط کررکھے ہیں جس کے مطابق نایاب جنگلی حیات کی درآمد کیلیے نیشنل کونسل فار کنزرویشن آف وائلڈ لائف کا این او سی لازمی ہے، انھوں نے بتایا کہ درآمد کنندگان متعلقہ دستاویزات اور این او سی پیش کرنے میں ناکام رہے،رانا آفتاب نے بتایا کہ محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے مراسلہ ملنے کے بعد اژدھوں کو کراچی کے چڑیا گھر کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اژدھوں کی مجموعی قیمت تقریبا دو لاکھ روپے ہے، کسٹم حکام نے ضبط کیے گئے 29 اژدھے اور 2 سانپوں کو اتوار کی صبح ائیر پورٹ سے کراچی چڑیا گھر منتقل کردیا،ان اژدھوں میں ایک17فٹ لمبا اور ایک12فٹ جبکہ27 اژدھے کم عمر ہیں، ایڈیشنل کلکٹر پاکستان کسٹم محمد یعقوب ماکو نے ان اژدھوں کوکراچی ایئر پورٹ پر ایڈمنسٹریٹر کراچی محمد حسین سید کے حوالے کیا۔
کسٹم حکام کا موقف ہے کہ کنونشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ آف انڈینجر اسپیشیز کے مطابق ان اژدھوں کی تجارت غیرقانونی ہے جبکہ اژدھے درآمد کرنے والے نوجوان بھائیوں کا موقف ہے کہ اس امر سے لاعلم تھے کہ اژدھوں کی درآمد کیلیے این او سی کی ضرورت تھی،تفصیلات کے مطابق پی ای سی ایچ ایس بلاک 2 کے رہائشی نوجوانوں حمزہ اور حسین نے دو سال قبل نایاب اژدھوں کو بیرون ملک سے درآمد کرکے پاکستان لائے تھے اور انھوں نے اپنے انوکھے شوق کی تکمیل کیلیے پاکستان سے بھی چند نایاب اژدھے پال رکھے ہیں، دونوں بھائی اس وقت 28 نایاب سانپ اور اژدھوں کے مالک ہیں اور حال ہی میں انھوں نے امریکا سے اژدھوں کی ایک اور نایاب قسم کو درآمد کیا تھا۔
امریکا سے آنے والے 31 اژدھے 11 فروری کو کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پہنچے تھے جہاں پاکستان کسٹمز کے ایئرفریٹ یونٹ نے اژدھے ان کے حوالے کرنے سے قبل ان سے متعلقہ دستاویزات طلب کی تھیں، اسسٹنٹ ڈائریکٹر کسٹمز ایئر فریٹ یونٹ رانا آفتاب نے ایکسپریس کو بتایا کہ جانوروں کی درآمد اور برآمد کیلیے بین الاقوامی اور ملکی قوانین کے مطابق مخلتف قسم کے سرٹیفیکیٹس اور این او سی کی ضرورت ہوتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان نے کنونشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ آف انڈینجر اسپیشیز پر دستخط کررکھے ہیں جس کے مطابق نایاب جنگلی حیات کی درآمد کیلیے نیشنل کونسل فار کنزرویشن آف وائلڈ لائف کا این او سی لازمی ہے، انھوں نے بتایا کہ درآمد کنندگان متعلقہ دستاویزات اور این او سی پیش کرنے میں ناکام رہے،رانا آفتاب نے بتایا کہ محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے مراسلہ ملنے کے بعد اژدھوں کو کراچی کے چڑیا گھر کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اژدھوں کی مجموعی قیمت تقریبا دو لاکھ روپے ہے، کسٹم حکام نے ضبط کیے گئے 29 اژدھے اور 2 سانپوں کو اتوار کی صبح ائیر پورٹ سے کراچی چڑیا گھر منتقل کردیا،ان اژدھوں میں ایک17فٹ لمبا اور ایک12فٹ جبکہ27 اژدھے کم عمر ہیں، ایڈیشنل کلکٹر پاکستان کسٹم محمد یعقوب ماکو نے ان اژدھوں کوکراچی ایئر پورٹ پر ایڈمنسٹریٹر کراچی محمد حسین سید کے حوالے کیا۔