عید قصائیاں مبارک

اِسے ہم عوامی بکروں کی خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی کہ یہ دھرتی انواع و اقسام کے قصائیوں کی پیداوار میں خود کفیل ہے۔

ہوسکے تو اِس عیدِ قصائیاں پر اپنے گائے اور بکروں کی خوشی کے لیے ایک بار اپنے قصائی کو بھی ٹٹول ٹٹول کر اچھی طرح چیک کرلیں تاہم زیادہ تفصیل سے ٹٹولنے کی صورت میں نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہونگے۔

KARACHI:
آپ اپنے خرچے پر پورا پاکستان گھوم پھر کر یا جیسے بھی چاہیں تسلی یا تحقیق کرلیں، آپ کو مادی طور پر ایک ہی طبقہ سب سے زیادہ خوشحال اور متمول نظر آئے گا۔ ویسے تو اِس طبقے میں بے شمار خوبیاں پائی جاتیں ہیں مگر اِس کی سب سے بڑی خوبی اور کمال اِن کا ناقابلِ فراموش ہنر اور فن ہے جس کی بدولت یہ راتوں رات وہ بلند مقام اور مرتبہ حاصل کرلیتے ہیں جس کا کوئی نالائق، بزدل یا شریف آدمی ساری زندگی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یہ وہ عظیم لوگ ہوتے ہیں جو اگر منہ میں سونے کا چمچہ نہ بھی لے کر پیدا ہو مگر مرتے وقت اپنے بچوں کے بچوں کے لیے بھی ساری کی ساری کراکری سونے کی ضرور چھوڑ کر جاتے ہیں۔ یہ اَن پڑھ ہوں یا پڑھے لکھے، اِن کی ڈگریاں اصلی ہوں یا جعلی، مگر یہ اپنی فنی مہارت میں ہمیشہ سب سے آگے نظر آتے ہیں اور یہ شاندار مہارت ہے دوسروں کو سلیقے اور طریقے سے ذبح کرنے اور اُن کی کھالیں اتارنے کی۔ پیشہ ورانہ طور پر اِس فن سے وابستہ لوگوں کو قصائی کہا جاتا ہے مگر بے شمار معززین خود کو اپنے منہ پر قصائی کہلوانا پسند نہیں کرتے۔ اپنی سہولت کے لئے آپ انہیں سیاست دان، تاجر، صنعت کار، کرپٹ افسران، ہڑتالی ڈاکڑ، مذہب کے ٹھکیدار وغیرہ وغیرہ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ مراعات یافتہ قصائی اپنی بغل میں دوسرے بکروں کے لئے چھری لئے پھیرتے ہیں مگر خود کو ہر قسم کی چھری سے مستثنیٰ سمجھتے ہیں۔ اِس لئے یہ ہمیشہ اگر کسی چھری کی زد میں آتے ہیں تو وہ ہے قضائے الہی کی چھری۔

اِسے ہم عوامی بکروں کی خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی کہ یہ دھرتی انواع و اقسام کے قصائیوں کی پیداوار میں خود کفیل ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہاں قصائی ہونا اتنا ہی آسان ہے جتنا مشکل بکرا ہونا۔ یہاں آپ کو ہرچھوٹے رینک سے لے کر ہر اعلی درجے کا معزز اور محترم قصائی سننے اور دیکھنے کو ملے گا۔یہ دن رات سماج سیوا کے نام پر بے زبان بکروں کی دنیا اور اپنی آخرت خراب کرنے میں دل و جان سے مصروف عمل رہتے ہیں۔ کسی کے پاس ناجائز منافع خوری اور ملاوٹ کی چھری ہے تو کوئی جعلی ادویات کا چھرا چلا کر بیمار بکروں کو عذاب زندگی سے رہائی دلا کر اُن کی دعائیں سمیٹ رہا ہے۔ کوئی قوم کے مال سے ہی قوم کے بکروں کو ذبح کئے جارہا ہے تو کوئی انہیں گروی رکھ کر اپنی اور اپنے رشتہ داروں کی دنیا جنت بنا چکا ہے۔ الغرض یہاں بکروں سے لے کر گدھوں تک سب کی کھالیں نفاست اور سلیقے سے اتارنے والا ایک سے بڑھ کر ایک کاریگر موجود ہے۔ دو اور چار ٹانگوں والے سبھی گدھے اِن کے پسندیدہ جانور شمار کئے جاتے ہیں۔ اِس لیے یہ دونوں کو ہمیشہ قصائی کی ہی نظرسے دیکھتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ ایسے جانوروں سے خصوصی رغبت رکھتے ہیں جن کا گوشت نہ طبی طور پر کھانا زیادہ مناسب ہوتا اور نہ ہی شرعی طور پر جائز۔ جمہوری ملک میں چونکہ بے زبان بکروں کے بھی کچھ تھوڑے بہت حقوق ہوتے ہیں، لہذا اپنی کھال کس معزز قصائی کے ہاتھوں اتروانی ہے اور کس کے ہاتھوں ذبح ہونا ہے اِس کا انتخاب ہر بکرے کا پیدائشی جمہوری حق ہے جسے بعض ناسمجھ بکرے بریانی کی ایک پلیٹ کے عوض بیچ کر اپنی غربت اور مسائل کے ہاتھوں مسلسل حلال ہوتے رہتے ہیں۔

گزشتہ ستر (70) سالوں سے قربانیاں دے دیکر اور حلال ہو ہو کر ہماری عوام کا مزاج اور چال چلن بھی قربانی کے بکروں جیسا ہوچکا ہے، اِس لئے اب جب تک اُن کا کوئی سیاسی یا غیر سیاسی خیر اندیش اُن کے ساتھ قصائیوں والا سلوک نہ کرے۔ اُنہیں چین آتا ہے اور نہ ہی سکون ملتا ہے۔ اِس لیے یہ بے چارے سارا سال اپنے اپنے نام نہاد پسندیدہ قصائیوں کے پیچھے پیچھے اور قصائی اُن کے آگے آگے ہوتے ہیں۔ عیدالاضحی کے موقع پر اِن عوامی بکروں کی قصائیوں سے یہ محبت اُس وقت اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے جب ہر ایرا غیرا نتھو خیرا قصائی کا روپ دھارے اُنہیں اِس طرح نخرے دکھا رہا ہوتا ہے جیسے کوئی سعادت مند عاشق اپنی نئی نویلی محبوبہ کے ہتھے چڑھ گیا ہو۔ کیا سدا بہار اور کیا موسمی قصائی سبھی کی چاندی ہوتی ہے۔ فن قصائیت سے واجبی سی بھی واقفیت رکھنے والا بھی خود کو اِس طرح ماہر بنا کر پیش کررہا ہوتا ہے جیسے اُس کے والدین نے اُسے پیدا ہی قصائی بننے کی شرط پر کیا تھا۔


بڑی عید پر قصائیوں کے ہوشربا ظہور کو دیکھتے ہوئے اُسے 'عید قصائیاں' کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ جب خاندانی قصائیوں کے ساتھ ساتھ سیلف میڈ قصائیوں کے تیور بھی دیکھنے والے ہوتے ہیں۔ مختلف رنگوں و نسل کے میک شفٹ اور کچے پکے قصائی نظریہ ضرورت کے تحت راتوں رات قصائی کا روپ دھارے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے ہاتھ میں چھریاں پکڑے گلی گلی اپنی خدمات پیش کررہے ہوتے ہیں۔ اِن میں سے بے شمار کی فنی مہارت ایسی ہوتی ہے کہ عام دنوں میں اُن کے اپنے گھر والے بھی اُن سے مرغا تک ذبح کروانے کا رسک نہیں لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ چھپے رستم سال کے باقی دنوں پنکچر لگا کر، ناشتہ بیچ کر، موٹریں ٹھیک کرکے، رشتے کرواکر اور چنگ چی رکشے چلا کر اپنے فن کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں، تاہم عید کے تینوں دنوں اِن کا حلیہ اور فنی چال چلن دیکھ کر خود قربانی کے بکروں کا ایمان بھی قربانی کے فلسفے پر تازہ ہوجاتا ہے۔ اِس لئے ذبح ہونے سے پہلے یہ باقاعدہ دعائیں مانگ رہے ہوتے کہ اے خدا یا، تیری بارہ گار میں حاضری تو برحق ہے مگر کیا اچھا ہو کہ اگر قصائی کوئی بندے کا پتر ہو تو قربان ہونے کا حق ادا ہوجائے۔

ہوسکے تو اِس عیدِ قصائیاں پر اپنے گائے اور بکروں کی خوشی کے لیے ایک بار اپنے قصائی (اگر وہ بُرا نہ منائے تو) کو بھی ٹٹول ٹٹول کر اچھی طرح چیک کرلیں تاہم زیادہ تفصیل سے ٹٹولنے کی صورت میں نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہونگے۔ اگر خوش قسمتی سے آپ کا قصائی خاندانی نکل آئے تو اپنے فیس بک اکاونٹ پر اُس کے ساتھ اپنی سیلفی پوسٹ کریں اور نیچے لکھیں کہ الحمداللہ آپ بھائیوں کی دعا سے اللہ نے اِس سال آپ کو اصلی قصائی سے نوازا ہے۔ نیز یہ کہ اللہ پاک تمام فیس بک فرینڈزکے بکروں کو موسمی قصائیوں کے شر اور چھری کلہاڑوں سے محفوظ رکھے اور اگر خوانخواستہ آپ کا قصائی موسمی نکل آئے تو ایک بار اخلاقی طور اپنے بکرے سے معذرت کرتے ہوئے اُسے سمجھائیں کہ اِس ملک میں کچھ موسمی قصائی واقعی بندے کے پتر اور صاحب سلیقہ ہوتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی
Load Next Story