برِکس اعلامیہ ہمیں کیا کرنا چاہیے
کیا امریکی اور بھارتی دباؤ کے زیرِ اثر پاکستان کو ایک کونے میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے؟
بِرکس ممالک سمیت ساری دنیا دہشت گردی، انتہا پسندی اور اُس کے حامیوں کو انسانی ترقی کے لئے زہر قاتل سمجھتی ہے۔ فوٹو: فائل
امریکی صدر کے قوم سے خطاب کے بعد پاکستان کی عوام اور حکومتی غلام گردشوں میں ایک بے چینی دیکھی گئی۔ پاکستانی عوام اور دائیں بازو کے بیشتر دانشور اپنے روایتی جذباتی انداز میں یہ تنبیہ کرتے نظر آئے کہ پاکستان کو دوٹوک جواب دے دینا چاہیے۔ زیادہ تر تجزیہ نگار اور دانشور شکوہ کناں تھے کہ امریکہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جانی و مالی قربانیاں سراسر نظر انداز کرتے ہوئے افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے لئے بھارت کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے کیونکہ امریکی صدر نے اپنی تقریر کے دوران واضح الفاظ میں کہا تھا کہ وہ افغانستان میں پائیدار امن کے لئے بھارت سے توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں۔
دہشت گرد تنظیموں اور ان کی محفوظ آماجگاہوں کے بیان پر پاکستان کے چند آزاد خیال رائے دہندگان نے امریکہ کے اِس بیان کی تائید کی کہ بلاشبہ پاکستان میں دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں۔ آزاد خیال رائے دہندگان کے بیانات کے مطابق ریاست اور ریاستی مشینری میں مخصوص مذہبی بیانیے کے حامل ذمہ داران اور سیاسی زعماء دہشت گردوں اور کالعدم جماعتوں کے حمایتی ہیں اور اِن کو مزید مضبوط کرنے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔
پاکستان کے اندر اِس مکتبہ فکر کے حامل خواتین و حضرات تمام سماجی محفلوں اور ذرائع ابلاغ پر کالعدم جماعتوں کے موجودگی، اُن کی حرکات و سکنات اور سرگرمیوں کو ہدف تنقید بنانے سے نہیں چوکتے۔ اِس لئے اُنہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ٹرمپ کے موقف کی تائید بھی کی اور حکومت سے اِس امر کا تقاضا کیا کہ وہ کالعدم جماعتوں اور شدّت پسند عناصر کے خلاف ایک واضح حکمت عملی اپناتے ہوئے بیرونی دنیا کو ایک مؤثر پیغام دے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ پر بیٹھے دانشور حکومت سے اِس بات پر نالاں دکھائی دئیے کہ حکومتی ذمہ داران امریکی بیان پر کوئی واضح رد عمل نہ دے سکے۔
لیکن امریکی صدر کے خطاب پر پاکستان کے دیرینہ دوست چین نے اُس وقت امریکی صدر کے الزام کی کُھلے لفظوں میں تردید کی اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان کی کاوشوں کو سراہا۔ چین کے بعد روسی حکومت نے بھی امریکی صدر کے بیان کو مضحکہ خیز قرار دیا۔ چین اور روس کی حمایت نے پاکستان کے مذہبی طبقے اور انتہا پسندی کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کام کیا۔
اب آتے ہیں ''برکس'' (BRICS) کی طرف۔
برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل ممالک کا ایک گروپ جسے عرف عام میں ''بِرکس'' کہا جاتا ہے، اگر اسے ابھرتی ہوئی معیشت کے حامل ممالک کی نمائندہ تنظیم کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔ بِرکس کا بنیادی مقصد تمام رکن ممالک کی ترقی کے عمل میں تعمیراتی اور مالی تعاون کرنا ہے۔ اِس سال تمام رکن ممالک کے سربراہان کی ملاقات تین سے پانچ ستمبر تک چین کے شہر زیامین میں ہوئی۔ ملاقات کے اختتام پر تمام مذکورہ ممالک کے سربراہان نے ایک متفقہ اعلامیہ جاری کیا۔
بِرکس اعلامیے کی مجموعی طور پر 71 شقیں ہیں جن میں بنیادی انسانی حقوق، ترقی، ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے متوقع بگاڑ، علاقائی تعاون، تعلیم، صحت، بین الاقوامی معیشت، شام، عراق، افغانستان، نقل مکانی، آبادکاری، موسمی تغیر و تبدل، مذاکرات، توانائی اور وسائل کو انسانی استعمال میں لانے، غرضیکہ تمام شعبہ ہائے زندگی پر مل کر کام کرنے اور عالمی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے انسانی ترقی میں حصہ ڈالنے پر زور دیا گیا۔
اسی اعلامئے کی شق نمبر 47 اور 48 پر پاکستانی عوام اور حکومت سیخ پا دکھائی دئیے جبکہ دونوں شقوں میں پاکستان کا نام نہیں لیا گیا۔
شق نمبر 47 میں تمام ممالک کے سربراہان نے افغانستان کے اندر ہونے والی دہشت گردی کی مندرجہ ذیل الفاظ میں مذمت کی:
''ہم دہشت گرد حملوں کے نتیجے میں معصوم افغان شہریوں کی موت کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ تشدد کو فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے. ہم افغانستان کے لوگوں کو افغانستان کی قیادت میں اور افغان ملکیت میں امن اور قومی مفاہمت کے حصول کے لئے اپنے تعاون کی توثیق کرتے ہیں۔ ہم افغانستان میں قیام امن کیلئے جاری بین الاقوامی کوششوں جن میں مشاورت کے لئے ماسکو فارمیٹ اور ہارٹ آف ایشیا استنبول طریقہ کار کے ساتھ ساتھ ربط، قیام ِامن، استحکام، دہشت گردی اور منشیات کے خاتمے کیلئے افغانستان کے کثیرالجہتی منصوبوں کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ ہم افغان قومی دفاعی اور عسکری طاقت کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معاون ہیں۔''
مذکورہ بالا شق میں کہیں بھی افغانستان میں امریکی جارحیت اور جنگ کے نتیجے میں ہونے والے جانی اور مالی نقصان کا ازالہ کرنے کی بات نہیں کی گئی اور نہ ہی امریکہ مخالف بیان دیا گیا بلکہ بِرکس کے تمام رکن ممالک نے یہ عزم کیا کہ وہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے افغانستان کی مقامی حکومت کے ساتھ بین الاقوامی کوششوں کا ساتھ دیں گے۔
ایک بات واضح ہے کہ ابھرتی معیشت کے حامل ممالک یا اقوام جو معاشی طور پر بے یقینی کی کیفیت میں ہوتے ہیں، کبھی بھی معاشی طور پر مستحکم ممالک کی دشمنی مول لینے سے احتراز برتتے ہیں۔
بِرکس اعلامیے کی شق نمبر 48 میں جنوبی ایشیا کے اندر بالعموم اور افغانستان میں بالخصوص طالبان، داعش، القاعدہ، مشرقی ترکستان کی اسلامی تحریک، ازبکستان کی اسلامی تحریک، حقانی نیٹ ورک، تحریک ِطالبان پاکستان، لشکرِطیبہ، جیش محمد اور حزب التحریر کی شدت پسندانہ کارروائیوں کو خطے میں امن کے لیے خطرہ سمجھا گیا۔
اعلامیے کے منظرِعام پر آنے کے فوراً بعد پاکستان کے حکومتی ایوانوں اور عوام میں بےچینی کی کیفیت بڑھی تو پاکستانی حکومت نے ایک جوابی بیانیہ دینے کی سعی کی جس میں یہ واضح کیا گیا کہ حزب التحریر، لشکر طیبہ، جیش محمد، حقانی نیٹ ورک اور تحریکِ طالبان پاکستان جیسی شدت پسند تنظیمیں کالعدم قرار دی گئی ہیں۔ وفاقی وزراء، ترجمان دفتر خارجہ اور وزیر دفاع نے شاید اعلامیے کی تفصیلات پڑھے بغیر یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان دہشت گردوں کی جنت نہیں جب کہ چالیس فیصد افغانستان دہشت گردوں کا ہے، جہاں سے دہشت گرد پاکستان میں بھی کارروائیاں کرتے ہیں۔
سب سے زیادہ تشویش اِس بات پر ظاہر کی گئی کہ چین اور روس کے اعلامیے میں لشکر طیبہ اوردوسری کالعدم جماعتوں کا ذکر اُن کے ماضی قریب میں امریکہ مخالف بیان سے قطعاً مماثلت نہیں رکھتا۔ چین اور روس کے باقی ممالک کی ہاں میں ہاں ملانے پر پاکستان کی اکثریت مایوس اور رنجیدہ نظر آئی۔
کیا اِس حقیقت سے نظر چرانا ممکن ہے کہ مذکورہ کالعدم تنطیمیں اور اُن کے حامی پاکستان میں وجود نہیں رکھتے؟ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ پاکستان سفارتی اور بین الاقوامی سطح پر دہشت گرد تنطیموں کی موجودگی پر ندامت کا سامنا کرچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سوائے بھارت کے بِرکس ممالک میں سے کسی کی پاکستان سے بالواسطہ یا بلاواسطہ مخاصمت نہیں ہے تو کیا اِس بات کو من و عن تسلیم کرلیا جائے کہ امریکی اور بھارتی دباؤ کے زیرِ اثر پاکستان کو ایک کونے میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے؟
دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کا باشعور انسان کبھی بھی بیس کروڑ انسانوں کو تباہی بربادی اور افلاس کی چکی میں پستا ہوا دیکھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا، بلکہ بِرکس ممالک سمیت ساری دنیا دہشت گردی، انتہا پسندی اور اُس کے حامیوں کو انسانی ترقی کے لئے زہر قاتل سمجھتی ہے۔ معاشی و اقتصادی مقابلے بازی اور اجارہ داری اپنی جگہ ایک حقیقت ہے مگر 22 کروڑ انسانوں کی ترقی، منصوبہ بندی، معیشت اور دنیا کی ترقی کے لئے پاکستانی ریاست کو بالخصوص اور پاکستانی عوام کو بالعموم یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہوکر طے کرنا پڑے گا کہ وہ متنوع اور ترقی پسند بیانئے کے ساتھ انسانی ترقی کے عمل میں حصہ ڈالیں گے یا بدامنی، دہشت، عدم استحکام اور منافرت کو سینے سے لگا کر تاریخ کے اوراق سیاہ کریں گے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
دہشت گرد تنظیموں اور ان کی محفوظ آماجگاہوں کے بیان پر پاکستان کے چند آزاد خیال رائے دہندگان نے امریکہ کے اِس بیان کی تائید کی کہ بلاشبہ پاکستان میں دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں۔ آزاد خیال رائے دہندگان کے بیانات کے مطابق ریاست اور ریاستی مشینری میں مخصوص مذہبی بیانیے کے حامل ذمہ داران اور سیاسی زعماء دہشت گردوں اور کالعدم جماعتوں کے حمایتی ہیں اور اِن کو مزید مضبوط کرنے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔
پاکستان کے اندر اِس مکتبہ فکر کے حامل خواتین و حضرات تمام سماجی محفلوں اور ذرائع ابلاغ پر کالعدم جماعتوں کے موجودگی، اُن کی حرکات و سکنات اور سرگرمیوں کو ہدف تنقید بنانے سے نہیں چوکتے۔ اِس لئے اُنہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ٹرمپ کے موقف کی تائید بھی کی اور حکومت سے اِس امر کا تقاضا کیا کہ وہ کالعدم جماعتوں اور شدّت پسند عناصر کے خلاف ایک واضح حکمت عملی اپناتے ہوئے بیرونی دنیا کو ایک مؤثر پیغام دے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ پر بیٹھے دانشور حکومت سے اِس بات پر نالاں دکھائی دئیے کہ حکومتی ذمہ داران امریکی بیان پر کوئی واضح رد عمل نہ دے سکے۔
لیکن امریکی صدر کے خطاب پر پاکستان کے دیرینہ دوست چین نے اُس وقت امریکی صدر کے الزام کی کُھلے لفظوں میں تردید کی اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان کی کاوشوں کو سراہا۔ چین کے بعد روسی حکومت نے بھی امریکی صدر کے بیان کو مضحکہ خیز قرار دیا۔ چین اور روس کی حمایت نے پاکستان کے مذہبی طبقے اور انتہا پسندی کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کام کیا۔
اب آتے ہیں ''برکس'' (BRICS) کی طرف۔
برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل ممالک کا ایک گروپ جسے عرف عام میں ''بِرکس'' کہا جاتا ہے، اگر اسے ابھرتی ہوئی معیشت کے حامل ممالک کی نمائندہ تنظیم کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔ بِرکس کا بنیادی مقصد تمام رکن ممالک کی ترقی کے عمل میں تعمیراتی اور مالی تعاون کرنا ہے۔ اِس سال تمام رکن ممالک کے سربراہان کی ملاقات تین سے پانچ ستمبر تک چین کے شہر زیامین میں ہوئی۔ ملاقات کے اختتام پر تمام مذکورہ ممالک کے سربراہان نے ایک متفقہ اعلامیہ جاری کیا۔
بِرکس اعلامیے کی مجموعی طور پر 71 شقیں ہیں جن میں بنیادی انسانی حقوق، ترقی، ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے متوقع بگاڑ، علاقائی تعاون، تعلیم، صحت، بین الاقوامی معیشت، شام، عراق، افغانستان، نقل مکانی، آبادکاری، موسمی تغیر و تبدل، مذاکرات، توانائی اور وسائل کو انسانی استعمال میں لانے، غرضیکہ تمام شعبہ ہائے زندگی پر مل کر کام کرنے اور عالمی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے انسانی ترقی میں حصہ ڈالنے پر زور دیا گیا۔
اسی اعلامئے کی شق نمبر 47 اور 48 پر پاکستانی عوام اور حکومت سیخ پا دکھائی دئیے جبکہ دونوں شقوں میں پاکستان کا نام نہیں لیا گیا۔
شق نمبر 47 میں تمام ممالک کے سربراہان نے افغانستان کے اندر ہونے والی دہشت گردی کی مندرجہ ذیل الفاظ میں مذمت کی:
''ہم دہشت گرد حملوں کے نتیجے میں معصوم افغان شہریوں کی موت کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ تشدد کو فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے. ہم افغانستان کے لوگوں کو افغانستان کی قیادت میں اور افغان ملکیت میں امن اور قومی مفاہمت کے حصول کے لئے اپنے تعاون کی توثیق کرتے ہیں۔ ہم افغانستان میں قیام امن کیلئے جاری بین الاقوامی کوششوں جن میں مشاورت کے لئے ماسکو فارمیٹ اور ہارٹ آف ایشیا استنبول طریقہ کار کے ساتھ ساتھ ربط، قیام ِامن، استحکام، دہشت گردی اور منشیات کے خاتمے کیلئے افغانستان کے کثیرالجہتی منصوبوں کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ ہم افغان قومی دفاعی اور عسکری طاقت کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معاون ہیں۔''
مذکورہ بالا شق میں کہیں بھی افغانستان میں امریکی جارحیت اور جنگ کے نتیجے میں ہونے والے جانی اور مالی نقصان کا ازالہ کرنے کی بات نہیں کی گئی اور نہ ہی امریکہ مخالف بیان دیا گیا بلکہ بِرکس کے تمام رکن ممالک نے یہ عزم کیا کہ وہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے افغانستان کی مقامی حکومت کے ساتھ بین الاقوامی کوششوں کا ساتھ دیں گے۔
ایک بات واضح ہے کہ ابھرتی معیشت کے حامل ممالک یا اقوام جو معاشی طور پر بے یقینی کی کیفیت میں ہوتے ہیں، کبھی بھی معاشی طور پر مستحکم ممالک کی دشمنی مول لینے سے احتراز برتتے ہیں۔
بِرکس اعلامیے کی شق نمبر 48 میں جنوبی ایشیا کے اندر بالعموم اور افغانستان میں بالخصوص طالبان، داعش، القاعدہ، مشرقی ترکستان کی اسلامی تحریک، ازبکستان کی اسلامی تحریک، حقانی نیٹ ورک، تحریک ِطالبان پاکستان، لشکرِطیبہ، جیش محمد اور حزب التحریر کی شدت پسندانہ کارروائیوں کو خطے میں امن کے لیے خطرہ سمجھا گیا۔
اعلامیے کے منظرِعام پر آنے کے فوراً بعد پاکستان کے حکومتی ایوانوں اور عوام میں بےچینی کی کیفیت بڑھی تو پاکستانی حکومت نے ایک جوابی بیانیہ دینے کی سعی کی جس میں یہ واضح کیا گیا کہ حزب التحریر، لشکر طیبہ، جیش محمد، حقانی نیٹ ورک اور تحریکِ طالبان پاکستان جیسی شدت پسند تنظیمیں کالعدم قرار دی گئی ہیں۔ وفاقی وزراء، ترجمان دفتر خارجہ اور وزیر دفاع نے شاید اعلامیے کی تفصیلات پڑھے بغیر یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان دہشت گردوں کی جنت نہیں جب کہ چالیس فیصد افغانستان دہشت گردوں کا ہے، جہاں سے دہشت گرد پاکستان میں بھی کارروائیاں کرتے ہیں۔
سب سے زیادہ تشویش اِس بات پر ظاہر کی گئی کہ چین اور روس کے اعلامیے میں لشکر طیبہ اوردوسری کالعدم جماعتوں کا ذکر اُن کے ماضی قریب میں امریکہ مخالف بیان سے قطعاً مماثلت نہیں رکھتا۔ چین اور روس کے باقی ممالک کی ہاں میں ہاں ملانے پر پاکستان کی اکثریت مایوس اور رنجیدہ نظر آئی۔
کیا اِس حقیقت سے نظر چرانا ممکن ہے کہ مذکورہ کالعدم تنطیمیں اور اُن کے حامی پاکستان میں وجود نہیں رکھتے؟ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ پاکستان سفارتی اور بین الاقوامی سطح پر دہشت گرد تنطیموں کی موجودگی پر ندامت کا سامنا کرچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سوائے بھارت کے بِرکس ممالک میں سے کسی کی پاکستان سے بالواسطہ یا بلاواسطہ مخاصمت نہیں ہے تو کیا اِس بات کو من و عن تسلیم کرلیا جائے کہ امریکی اور بھارتی دباؤ کے زیرِ اثر پاکستان کو ایک کونے میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے؟
دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کا باشعور انسان کبھی بھی بیس کروڑ انسانوں کو تباہی بربادی اور افلاس کی چکی میں پستا ہوا دیکھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا، بلکہ بِرکس ممالک سمیت ساری دنیا دہشت گردی، انتہا پسندی اور اُس کے حامیوں کو انسانی ترقی کے لئے زہر قاتل سمجھتی ہے۔ معاشی و اقتصادی مقابلے بازی اور اجارہ داری اپنی جگہ ایک حقیقت ہے مگر 22 کروڑ انسانوں کی ترقی، منصوبہ بندی، معیشت اور دنیا کی ترقی کے لئے پاکستانی ریاست کو بالخصوص اور پاکستانی عوام کو بالعموم یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہوکر طے کرنا پڑے گا کہ وہ متنوع اور ترقی پسند بیانئے کے ساتھ انسانی ترقی کے عمل میں حصہ ڈالیں گے یا بدامنی، دہشت، عدم استحکام اور منافرت کو سینے سے لگا کر تاریخ کے اوراق سیاہ کریں گے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کیجیے۔