- گندم اسکینڈل؛ وزیراعظم کا ایم ڈی اور جی ایم پاسکو کی معطلی کا حکم
- نان فائلرز کے موبائل بیلنس پر 100 میں سے 90 روپے ٹیکس کٹوتی کا فیصلہ
- خفیہ معلومات کی تشہیر اورپھیلانے والوں کو سزا دینے کا اعلان
- کراچی میں گرمی میں مزید اضافے کا امکان
- پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا امکان
- پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کا آغاز
- بابر اعظم دنیا کے کامیاب ترین ٹی 20 کپتان بن گئے
- شاہین کے 300 انٹرنیشنل شکار مکمل
- پاکستانی ایئرلائنز پر پابندی ختم کرنے کے تناظر میں پیش رفت کاامکان
- ہم ترقی یافتہ قوم کب بنیں گے؟
- اسلام آباد میں پی آئی اے پرواز خراب موسم کی زد میں آگئی، متعدد مسافر زخمی
- زہریلے کیمیکل کا استعمال، بھارتی غذائی اشیاء پرعالمی پابندیاں عائد
- اصلاحات کے ذریعے آئی ایم ایف پروگرام کو گیم چینجر بنانا ممکن
- پاکستان کیلیے چند سال آئی ایم ایف کے بغیر مشکل ہیں، برطانوی چیف اکانومسٹ
- انا چھوڑیں ٹیم کو دیکھیں
- استحکام کیلئے خودانحصاری کی طرف بڑھنا ہوگا!
- ہالا؛ قومی شاہراہ پر مسافر کوچ اور ٹرالر میں تصادم، 5 مسافر جاں بحق
- پکتیکا پر مبینہ حملہ، افغان طالبان نے پاکستانی وفد کا دورہ منسوخ کردیا
- وزیراعظم کا آزاد کشمیر کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار، ہنگامی اجلاس طلب
- بار بی کیو بنانے کیلئے جھاڑن کا استعمال، سوشل میڈیا صارفین کی تنقید
گردشِ ایام میں قائداعظم یونیورسٹی کی نصف صدی
ملال و وصال کی تکرار سے کئی ہزار میل دور بالکونی میں بیٹھا میں اداسی کو اپنے رگ و پے میں اترتا محسوس کر رہا ہوں۔ ایک اجنبیت اور نامانوسیت کا سامنا ہے۔ ایک درد کا آسیب ہے کہ روح کے شگاف میں نقب لگائے بیٹھا ہے۔ وقت ایک عفریت کی طرح روح اور خیال کی رسائی سے دور بگٹٹ بھاگے جارہا ہے۔ مڑ کر نہیں دیکھتا، دیکھ بھی نہیں سکتا۔ منشا یاد کا افسانہ تیرہواں کھمبا رہ رہ کر یاد آتا ہے۔ شاید اردو ادب کی تاریخ میں اتنا شاہکار افسانہ پہلے نہیں لکھا گیا۔ منشا یاد بھی غریقِ خاک ہوگئے، میں آج کل محمد الیاس کی تحریروں کے قرب میں زندہ ہوں۔ کہر، برف، بارش اور دھوپ۔ جمود اتنا ہے کہ روح کی دیواروں پہ کائی اتر آئی ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ اِس قحط الرجال میں بھی احمد جاوید صاحب جیسے لوگ زندہ ہیں
عجب سفر تھا عجب تر مسافرت میری
زمیں شروع ہوئی اور میں تمام ہوا
قائداعظم یونیورسٹی اپنے پچاس سال مکمل کرچکی ہے۔ یچاس سال! وکٹر ہیوگو نے کہا تھا کہ چالیس سال جوانی کا بڑھاپا ہے اور پچاس سال بڑھاپے کی جوانی۔ یہ یونیورسٹی نہیں ایک حصار ہے جو ہماری روحوں کے گرد کھینچ دیا گیا ہے۔ ہم چاہ کر بھی اِس سے نہیں نکل سکتے۔ شاید ہماری ذات کی دیواروں پر قائدِ اعظم یونیورسٹی کے اشلوک لکھ دئیے گئے ہیں۔ بحثیتِ طالب علم اور پھر ایک فیکلٹی ممبر میری اِس یونیورسٹی سے وابستگی کو سات سال ہوچکے ہیں۔ یقین مانئے زندگی باب القائد سے شروع ہوتی ہے۔ مارگلہ کے دامن میں بچھے زمین کے اِس 17 سو ایکڑ کے ٹکڑے میں وقت تھم سا گیا ہے۔
یقین نہیں آتا کہ اِس عدم برداشت اور فکری خلجان کے پھلتے پھولتے موسم میں قائداعظم یونیورسٹی جیسی ایک مختلف دنیا بھی موجود ہے۔ گو اِس کی زمین کا ایک بڑا حصہ ایک بڑے بااثر سیاست دان کے قبضے میں ہے اور تمام حکومتی ادارے خاموش ہیں۔ جون ایلیا نے بجا کہا تھا کہ سیاست دانوں کا طبقہ قابلِ نفرت طبقہ ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ انہیں سروں کے بل جوہڑ میں دھکیل دیا جائے۔
یہ زندگی جو یہاں بستی ہے اُس کی کئی جہتیں ہیں۔ یہ ایک انتہائی منفرد دنیا ہے جس کے بام و در میں برداشت، رواداری اور تنوع رچ بس چکے ہیں۔ کیمپس لائف کے اوپر ’’Malcom Bradubury“ کے ناول The History Man سے اچھی کوئی تصنیف نہیں ہے مگر یقین مانئے آپ کو قائد اعظم یونیورسٹی میں بھی کئی Howard Kirk مل جائیں گے۔ کیمپس لائف ساٹھ کی دہائی میں اتنا بڑا ادبی رجحان رہا کہ لاس اینجلس ٹائمز میں ایک قاری نے طنزاً لکھا کہ اگر یونیورسٹی لائف پر لکھے گئے ناول قابلِ ٹیکس ہوتے تو شاید بہت جلد ہم ایک اور جنگ لڑنے کے قابل ہوتے۔ انتہائی خوبصورت لب ولہجے کے شاعر گلزار یاد آئے
بے حد مصروفیت میں ایک خبر انتہائی طمانیت کا باعث تھی کہ قائد اعظم یونیورسٹی ٹائمز رینکنگ میں پہلی پانچ سو جامعات میں جگہ بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ معاشی انحطاط اور گوناگوں مسائل سے نبرد آزما جامعہ کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور اِس کامیابی کی معمار بجا طور پر یونیورسٹی کی فیکلٹی ہے جو انتہائی نامساعد حالات میں بھی تحقیق اور تدریس احسن انداز میں انجام دے رہی ہے۔
انگلینڈ میں قیام کے دوران پروفیسر نیول وائلی سے ملاقات ہوئی۔ نیول انٹرنیشنل ہسٹری کے پروفیسر اور ناٹنگھم یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر ہیں اور 2014ء میں پاکستان میں کئی جامعات کا دورہ کرچکے ہیں اور ڈاکٹر ظفر نواز جسپال کی دعوت پر اسکول آف پالیٹکس اور انٹرنیشل ریلیشنز میں بھی سیمینار سے خطاب کرچکے ہیں۔
نیول نے کہا کہ وہ کئی پاکستانی یونیورسٹیز میں گئے مگر قائداعظم یونیورسٹی کا رنگ طلبہ کی گفتگو اور رجحان انتہائی متاثر کن تھا۔ نیول ڈاکٹر جسپال کی دفاعی امور پر گرفت سے بھی خاصے متاثر ہیں اور بجا طور پر اِس کا اظہار کرتے بھی نظر آئے۔ ڈاکٹر عبدالحمید نیر، ڈاکٹر دشکا سید، ڈاکٹر محمد وسیم، ڈاکٹر رسول بخش رئیس، ڈاکٹر رخسانہ صدیقی، ڈاکٹر طاہر امین، ڈاکٹر طارق رحمان، ڈاکٹر پرویز اقبال چیمہ، ڈاکٹر سکندر حیات، ڈاکٹر رفیق افضل اور نہ جانے کتنے نابغہِ روزگار لوگ۔ مختلف نقطہِ نظر اور مختلف نظریاتی وابستگیاں مگر پھر بھی سفر تھا کہ جاری و ساری رہا۔ افتخار عارف نے بھی کیا خوب کہا تھا،
یہ بہار کے گلاب کی طرح کے در و دیوار، یہ تاحدِ نظر کشادگی، آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والا مارگلہ کا سبزہ اور یہ سکوت۔ زندگی بلند ہے، زندگی مقدس ہے۔ زندگی پاکیزہ ہے اندھیرا زور سے گرجتا ہے.
پچاس سالہ تقریبات کے ضمن میں نوجوان پروفیسرز وقاص سلیم اور سلمان علی بھٹانی کی کوششیں لائقِ تحسین ہیں۔ گزشتہ ایک مہینے میں نے ہر روز اِس تحریر کو لکھنے کا ارادہ کیا مگر مظہرالاسلام کے افسانے، جون ایلیا کی شاعری اور ناصر کاظمی کی تیرگی میرے جسم اور روح سے لپٹ گئی۔
ایک بات بہرحال طے ہے کہ قائداعظم یونیورسٹی میں ادب اور فنونِ لطیفہ کی کوئی سنجیدہ روایت نہ پنپ سکی۔ قائداعظم یونیورسٹی اُس ثریا کی خاک کو بھی چھونے سے قاصر رہی جس اوجِ کمال پر گورنمنٹ کالج لاہور گیا۔ کوئی فیض یا پطرس نہ بن سکا۔ نہ کوئی غامدی نہ خشونت سنگھ۔ کوئی ن م راشد بھی نہیں اور کوئی مرزا اطہر بیگ بھی نہیں۔ کوئی طارق فارانی نہیں جس کے قدموں میں بڑے بڑے موسیقار بیٹھتے ہیں اور نہ کوئی بخاری آڈیٹوریم جیسی روایت۔ شاید گورنمنٹ کالج کو بنے ڈیڑھ سو سال اور قائدِ اعظم کو محض پچاس سال۔
اگر کچھ ہے تو وہ مارگلہ کی کشادگی جو دلوں اور دماغوں میں بھی بس گئی ہے اور تنگ نظری کو مات دے گئی ہے اور ہٹس جو ہیبرماس کی زبان میں ایک Public Sphere ہے۔ زاہد امروز انتہائی غیر راویتی اور شاندار شاعر تھا مگر وہ بھی انگلینڈ جاچکا ہے۔ بہرحال پھر بھی اِس درسگاہ کا ادبی بانجھ پن کھائے جاتا ہے۔ سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر بننے والی دیوار نے گو اِس کا حُسن گہنا دیا ہے اور یہ بات انتہائی اداس کر دینے والی ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ بد امنی کے دور میں بنائی جانے والی دیواریں کیا امن کے دور میں گرائی بھی جائیں گی؟
یادوں کا ایک سیل رواں ہے جو رکنے میں نہیں آتا۔ روحوں پہ لکھے اشلوک سے بھلا فرار کہاں ممکن ہے۔ میلان کندیرا نے لکھا تھا کہ یونانی میں واپسی کو nostos کہتے ہیں اور algos کا مطلب ہے دکھ۔ اسی لئے ناسٹیلجیا وقت کی واپسی کی خواہشِ لاحاصل میں حاصل کردہ دکھ کا نام ہے۔ اپنے ہی ایک ٹوٹے پھوٹے شعر پر قلم روکوں گا:
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔