فاٹا اصلاحات پر اے پی سی تقسیم فضل الرحمٰن اور اچکزئی کی مخالفت
انضمام کے اعلامیے پر دستخط سے انکار، ڈیورنڈ لائن کا کیا ہو گا؟ فضل الرحمن
پارلیمنٹ کو مداخلت کا اختیار نہیں، اچکزئی۔ فوٹو : ایکسپریس
لاہور:
فاٹا اصلاحات کے حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام کل جماعتی کانفرنس نے فاٹا کو مزید کسی تاخیر کے خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا مطالبہ کیا تاہم حکومتی اتحادی جماعتوں پختونخوا میپ اور جے یو آئی (ف) کے سربراہان محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن نے اعلامیے پر دستخط نہیں کیے۔
اعلامیے میں حکومت سے فاٹا میں ایف سی آرکے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے بجائے پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھایا جائے۔ اعلامیے میں فاٹا کو 2018 کی صوبائی اسمبلی میں مکمل نمائندگی دینے اور10 سالہ ترقیاتی منصوبہ تیار کرنے کے مطالبات بھی کیے گئے ہیں۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ فاٹاکو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے میں اگر مزید تاخیرکی گئی تو اے پی سی تمام جماعتوں سے توقع رکھتی ہے کہ وہ راست قدم اٹھائے گی۔
اس سے قبل جے یوآئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہا قومی اسمبلی کے ممبران کو ملک کے کسی حصے کے اسٹیٹس کو تبدیل کرنے کا حق حاصل نہیں، فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام، الگ صوبہ بنانے یا موجودہ اسٹیٹس برقرار رکھنے کا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ہماری بھی سنی جائے، ہمیں بھی یہ بتانے کا حق دیا جائے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ فاٹا میں چیف آپریٹنگ افسر کی تعیناتی برائی کی بنیاد تو بن سکتا مسائل حل نہیں ہوسکیں گے، کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے قبائل کو آباد توکرائیں، ڈیورنڈ لائن کا کیا ہوگا۔
پختونخوا میپ کے سربراہ محمود اچکزئی نے کہا پاکستان کی پارلیمنٹ کو فاٹا میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں، 16 دنوں میں فاٹا کا فیصلہ ان لوگوں نے کیا جو فاٹا کو سمجھتے ہی نہیں، میں، مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی فاٹا نہیں جاسکتے جبکہ ازبکوں کو آبادکیا گیا۔ محمود اچکزئی نے فاٹاکے معاملے پر قومی اور بین الاقوامی کانفرنس بلانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا دنیاکو بتانا ہوگا پختون دہشت گرد نہیں ہیں۔
اجلاس کے میزبان عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی کے موقف پر تنقیدکرتے ہوئے کہا یہ سمجھ سے بالاترہے کہ فاٹا کیلیے حکومتی اصلاحات پر اس کے اتحادی ہی اعتراض کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن دونوں اطراف کے مزے لے رہے ہیں، اپوزیشن میں بھی ہیں اور حکومتی اتحادی بھی ہیں۔ اسفندیار ولی نے کہا قومی دھارے میں لائے بغیر فاٹا سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ نے کہا فاٹا کی تقدیر بدلنے کیلیے ہم سب کا اکٹھا ہونا خوش آئند ہے، ہماری پارٹی کا مطالبہ ہے کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا یہ بیانیہ غلط ہے کہ فاٹا کے لوگ پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے۔ فاٹا کے رکن قومی اسمبلی شاہ جی گل آفریدی نے کہا فاٹاکو جلد از جلد خیبرپختونخوا میں ضم کیا جائے، فاٹا کی حثیت تبدیل نہ کی گئی تو پورے ملک کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، ہم نے ریفارمز کے نام پر ووٹ لیے ہیں، اگر فاٹا ریفارمز نہ کی گئیں تو وہاں ہمارا استقبال اب پتھروں سے کیا جائیگا۔
ادھر حاصل بزنجو نے کہا اگر قبائلی پاکستان کے دیگر شہروں میں پاکستان کے قانون کے تحت زندگی گزار سکتے ہیں تو فاٹا میں کیوں نہیں اس لیے فاٹا کو پختونخوا میں ضم کیا جائے جب کہ ایم کیو ایم کے رہنما بیرسٹر سیف سمیت دیگر مقریرین نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا۔ ن لیگ اور تحریک انصاف کے کسی نمائندے نے بھی اے پی سی میں شرکت نہیں کی۔
فاٹا اصلاحات کے حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام کل جماعتی کانفرنس نے فاٹا کو مزید کسی تاخیر کے خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا مطالبہ کیا تاہم حکومتی اتحادی جماعتوں پختونخوا میپ اور جے یو آئی (ف) کے سربراہان محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن نے اعلامیے پر دستخط نہیں کیے۔
اعلامیے میں حکومت سے فاٹا میں ایف سی آرکے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے بجائے پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھایا جائے۔ اعلامیے میں فاٹا کو 2018 کی صوبائی اسمبلی میں مکمل نمائندگی دینے اور10 سالہ ترقیاتی منصوبہ تیار کرنے کے مطالبات بھی کیے گئے ہیں۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ فاٹاکو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے میں اگر مزید تاخیرکی گئی تو اے پی سی تمام جماعتوں سے توقع رکھتی ہے کہ وہ راست قدم اٹھائے گی۔
اس سے قبل جے یوآئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہا قومی اسمبلی کے ممبران کو ملک کے کسی حصے کے اسٹیٹس کو تبدیل کرنے کا حق حاصل نہیں، فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام، الگ صوبہ بنانے یا موجودہ اسٹیٹس برقرار رکھنے کا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ہماری بھی سنی جائے، ہمیں بھی یہ بتانے کا حق دیا جائے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ فاٹا میں چیف آپریٹنگ افسر کی تعیناتی برائی کی بنیاد تو بن سکتا مسائل حل نہیں ہوسکیں گے، کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے قبائل کو آباد توکرائیں، ڈیورنڈ لائن کا کیا ہوگا۔
پختونخوا میپ کے سربراہ محمود اچکزئی نے کہا پاکستان کی پارلیمنٹ کو فاٹا میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں، 16 دنوں میں فاٹا کا فیصلہ ان لوگوں نے کیا جو فاٹا کو سمجھتے ہی نہیں، میں، مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی فاٹا نہیں جاسکتے جبکہ ازبکوں کو آبادکیا گیا۔ محمود اچکزئی نے فاٹاکے معاملے پر قومی اور بین الاقوامی کانفرنس بلانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا دنیاکو بتانا ہوگا پختون دہشت گرد نہیں ہیں۔
اجلاس کے میزبان عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی کے موقف پر تنقیدکرتے ہوئے کہا یہ سمجھ سے بالاترہے کہ فاٹا کیلیے حکومتی اصلاحات پر اس کے اتحادی ہی اعتراض کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن دونوں اطراف کے مزے لے رہے ہیں، اپوزیشن میں بھی ہیں اور حکومتی اتحادی بھی ہیں۔ اسفندیار ولی نے کہا قومی دھارے میں لائے بغیر فاٹا سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ نے کہا فاٹا کی تقدیر بدلنے کیلیے ہم سب کا اکٹھا ہونا خوش آئند ہے، ہماری پارٹی کا مطالبہ ہے کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا یہ بیانیہ غلط ہے کہ فاٹا کے لوگ پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے۔ فاٹا کے رکن قومی اسمبلی شاہ جی گل آفریدی نے کہا فاٹاکو جلد از جلد خیبرپختونخوا میں ضم کیا جائے، فاٹا کی حثیت تبدیل نہ کی گئی تو پورے ملک کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، ہم نے ریفارمز کے نام پر ووٹ لیے ہیں، اگر فاٹا ریفارمز نہ کی گئیں تو وہاں ہمارا استقبال اب پتھروں سے کیا جائیگا۔
ادھر حاصل بزنجو نے کہا اگر قبائلی پاکستان کے دیگر شہروں میں پاکستان کے قانون کے تحت زندگی گزار سکتے ہیں تو فاٹا میں کیوں نہیں اس لیے فاٹا کو پختونخوا میں ضم کیا جائے جب کہ ایم کیو ایم کے رہنما بیرسٹر سیف سمیت دیگر مقریرین نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا۔ ن لیگ اور تحریک انصاف کے کسی نمائندے نے بھی اے پی سی میں شرکت نہیں کی۔