آبی تنازع پر پاک بھارت مذاکرات بے نتیجہ
بھارت اور پاکستان کے درمیان ستمبر1960ء میں دریاؤں کی تقسیم کے حوالے سے سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا
بھارت اور پاکستان کے درمیان ستمبر1960ء میں دریاؤں کی تقسیم کے حوالے سے سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا ۔ فوٹو: فائل
واشنگٹن میں عالمی بینک کے ہیڈ کوارٹر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازعات پر ہونے والے مذاکرات بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث ناکام ہو گئے، دو روزہ مذاکرات بے نتیجہ رہنے کے باعث دونوں ممالک کے درمیان کسی قسم کا کوئی معاہدہ طے نہ پا سکا جس پر پاکستان نے ثالثی عدالت کے قیام اور بھارت نے غیرجانبدار ماہرین مقرر کرنے کا مطالبہ کر دیا۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان ستمبر1960ء میں دریاؤں کی تقسیم کے حوالے سے سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا جس کی ضمانت عالمی بینک نے دی تھی' اس معاہدے پر اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستانی صدر ایوب خان نے دستخط کیے تھے، معاہدے کے تحت تین دریاؤں بیاس' راوی اور ستلج کے پانیوں پر بھارت جب کہ مغربی دریاؤں سندھ' چناب اور جہلم پر پاکستان کے کنٹرول کو تسلیم کیا گیا۔ گزشتہ چند دہائیوں سے بھارت مقبوضہ کشمیر میں دریائے جہلم اور چناب پر بجلی کے مختلف منصوبے تشکیل دے رہا ہے' پاکستان کو اعتراض ہے کہ ان منصوبوں کی تکمیل سے بھارت کو پاکستان کی جانب آنے والے پانی پر مکمل کنٹرول حاصل ہونے کے علاوہ پاکستان کے حصے میں آنے والے پانی کی مقدار میں بھی خاطر خواہ کمی واقعہ ہو جائے گی جس سے پانی کی کمی ہونے سے نہ صرف اس کی زراعت کو شدید نقصان پہنچے بلکہ اس کا صنعتی شعبہ بھی شدید دباؤ میں آ جائے گا۔ پاکستان نے اس مسئلے کے حل کے لیے بھارت سے متعدد بار مذاکرات کیے مگر بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا' بھارت کے اس رویے کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو مجبوراً عالمی بینک سے رابطہ کرنا پڑا جس پر دونوں ممالک کے درمیان یکم اگست کو واشنگٹن میں دو روزہ مذاکرات ہوئے جس میں یہ طے پایا تھا کہ بعض امور پر دونوں ممالک کے وفود اپنی اپنی حکومتوں پر مزید مشاورت کے بعد مذاکرات کے اگلے دور میں شریک ہوں گے۔
جس کے بعد 14اور 15ستمبر کو دوبارہ واشنگٹن میں پاک بھارت سیکریٹری سطح کے مذاکرات شروع ہوئے جس میں کشن گنگا اور راتلے ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ کی تعمیر پر پاکستان نے اپنے تحفظات پیش کیے مگر بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث یہ تحفظات دور نہ ہو سکے' دونوں ممالک کے سیکریٹری آبی مسئلہ کے حل کے لیے فورم کے چناؤ پر اتفاق نہ کر سکے' یہ صورت حال دیکھتے ہوئے پاکستان نے عالمی بینک سے ثالثی کورٹ کے قیام کا مطالبہ کیا۔ ان مذاکرات میں پاکستان نے بھارت کے 120میگاواٹ کے میار'48میگاواٹ کے لوئر کلنائی اور ایک ہزارمیگاواٹ کے پکال گل منصوبے پر اعتراضات عائد کیے تھے' یہ تمام منصوبے پاکستان آنے والے دریائے چناب پر بنائے جا رہے ہیں۔ بھارت کے ہٹ دھرمی پر مبنی رویے کو دیکھے ہوئے پاکستان نے عالمی بینک کا دروازہ کھٹکھٹایا جب عالمی بینک بھی کوئی اہم کردار ادا نہ کر سکا اور بھارت کے رویے کے سامنے اس نے ہتھیار ڈال دیے تو اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے ثالثی عدالت کے قیام کا مطالبہ کر دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مذاکرات آگے بڑھتے ہیں یا نہیں اور عالمی بینک ثالثی عدالت کے قیام کا مطالبہ پورا کرتا ہے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
عالمی بینک سندھ طاس معاہدے کا ضامن ہے اگر اس نے بھی بھارتی ہٹ دھرمی کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تو صورت حال پاکستان کے لیے پریشان کن ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ بھارت کی جانب سے شروع کیے گئے آبی منصوبے مکمل ہونے کے بعد پاکستان کو اپنے حصے کے ملنے والے پانی میں خاطر خواہ کمی کا سامنا کرنا پڑے گا' پاکستان پہلے ہی پانی کی کمی کے مسئلے سے دوچار ہے اور اگر دریائے جہلم اور چناب پر بھی بھارت کو کنٹرول حاصل ہو جاتا ہے تو کروڑوں ایکڑ زرخیز زمینیں تباہی کا شکار ہوجائیں گی۔ یہ صورت حال زیادہ عرصے برقرار رہی تو دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑنے کی نوبت بھی آ سکتی ہے جس کا خدشہ تجزیہ نگار ایک عرصے سے ظاہر کرتے چلے آ رہے ہیں۔ آبی ماہرین اس خدشے کا اظہار کرتے آرہے ہیں کہ آیندہ برسوں میں پانی کے مسئلے پر مختلف ممالک کے درمیان جنگیں ہو سکتی ہیں اس لیے اس مسئلے کے حل کی جانب ابھی سے توجہ دی جائے۔ عالمی بینک کو بھارت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ ہٹ دھرمی کا رویہ ترک کر کے پاکستان کے تحفظات دور کرے۔ بھارتی رویے کے پس منظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کو پانی کے بحران میں مبتلا کر رہا لہٰذا وہ ارادتاً مذاکرات میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے ناکام بنا رہا ہے۔ یہ صورت حال خوش آیند نہیں لہٰذا عالمی بینک کو جلد از جلد پاکستان کے مطالبے پر غور کرتے ہوئے ثالثی عدالت کا قیام عمل میں لانا چاہیے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان آبی تنازعات کو پرامن طور پر حل کیا جا سکے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان ستمبر1960ء میں دریاؤں کی تقسیم کے حوالے سے سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا جس کی ضمانت عالمی بینک نے دی تھی' اس معاہدے پر اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستانی صدر ایوب خان نے دستخط کیے تھے، معاہدے کے تحت تین دریاؤں بیاس' راوی اور ستلج کے پانیوں پر بھارت جب کہ مغربی دریاؤں سندھ' چناب اور جہلم پر پاکستان کے کنٹرول کو تسلیم کیا گیا۔ گزشتہ چند دہائیوں سے بھارت مقبوضہ کشمیر میں دریائے جہلم اور چناب پر بجلی کے مختلف منصوبے تشکیل دے رہا ہے' پاکستان کو اعتراض ہے کہ ان منصوبوں کی تکمیل سے بھارت کو پاکستان کی جانب آنے والے پانی پر مکمل کنٹرول حاصل ہونے کے علاوہ پاکستان کے حصے میں آنے والے پانی کی مقدار میں بھی خاطر خواہ کمی واقعہ ہو جائے گی جس سے پانی کی کمی ہونے سے نہ صرف اس کی زراعت کو شدید نقصان پہنچے بلکہ اس کا صنعتی شعبہ بھی شدید دباؤ میں آ جائے گا۔ پاکستان نے اس مسئلے کے حل کے لیے بھارت سے متعدد بار مذاکرات کیے مگر بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا' بھارت کے اس رویے کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو مجبوراً عالمی بینک سے رابطہ کرنا پڑا جس پر دونوں ممالک کے درمیان یکم اگست کو واشنگٹن میں دو روزہ مذاکرات ہوئے جس میں یہ طے پایا تھا کہ بعض امور پر دونوں ممالک کے وفود اپنی اپنی حکومتوں پر مزید مشاورت کے بعد مذاکرات کے اگلے دور میں شریک ہوں گے۔
جس کے بعد 14اور 15ستمبر کو دوبارہ واشنگٹن میں پاک بھارت سیکریٹری سطح کے مذاکرات شروع ہوئے جس میں کشن گنگا اور راتلے ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ کی تعمیر پر پاکستان نے اپنے تحفظات پیش کیے مگر بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث یہ تحفظات دور نہ ہو سکے' دونوں ممالک کے سیکریٹری آبی مسئلہ کے حل کے لیے فورم کے چناؤ پر اتفاق نہ کر سکے' یہ صورت حال دیکھتے ہوئے پاکستان نے عالمی بینک سے ثالثی کورٹ کے قیام کا مطالبہ کیا۔ ان مذاکرات میں پاکستان نے بھارت کے 120میگاواٹ کے میار'48میگاواٹ کے لوئر کلنائی اور ایک ہزارمیگاواٹ کے پکال گل منصوبے پر اعتراضات عائد کیے تھے' یہ تمام منصوبے پاکستان آنے والے دریائے چناب پر بنائے جا رہے ہیں۔ بھارت کے ہٹ دھرمی پر مبنی رویے کو دیکھے ہوئے پاکستان نے عالمی بینک کا دروازہ کھٹکھٹایا جب عالمی بینک بھی کوئی اہم کردار ادا نہ کر سکا اور بھارت کے رویے کے سامنے اس نے ہتھیار ڈال دیے تو اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے ثالثی عدالت کے قیام کا مطالبہ کر دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مذاکرات آگے بڑھتے ہیں یا نہیں اور عالمی بینک ثالثی عدالت کے قیام کا مطالبہ پورا کرتا ہے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
عالمی بینک سندھ طاس معاہدے کا ضامن ہے اگر اس نے بھی بھارتی ہٹ دھرمی کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تو صورت حال پاکستان کے لیے پریشان کن ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ بھارت کی جانب سے شروع کیے گئے آبی منصوبے مکمل ہونے کے بعد پاکستان کو اپنے حصے کے ملنے والے پانی میں خاطر خواہ کمی کا سامنا کرنا پڑے گا' پاکستان پہلے ہی پانی کی کمی کے مسئلے سے دوچار ہے اور اگر دریائے جہلم اور چناب پر بھی بھارت کو کنٹرول حاصل ہو جاتا ہے تو کروڑوں ایکڑ زرخیز زمینیں تباہی کا شکار ہوجائیں گی۔ یہ صورت حال زیادہ عرصے برقرار رہی تو دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑنے کی نوبت بھی آ سکتی ہے جس کا خدشہ تجزیہ نگار ایک عرصے سے ظاہر کرتے چلے آ رہے ہیں۔ آبی ماہرین اس خدشے کا اظہار کرتے آرہے ہیں کہ آیندہ برسوں میں پانی کے مسئلے پر مختلف ممالک کے درمیان جنگیں ہو سکتی ہیں اس لیے اس مسئلے کے حل کی جانب ابھی سے توجہ دی جائے۔ عالمی بینک کو بھارت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ ہٹ دھرمی کا رویہ ترک کر کے پاکستان کے تحفظات دور کرے۔ بھارتی رویے کے پس منظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کو پانی کے بحران میں مبتلا کر رہا لہٰذا وہ ارادتاً مذاکرات میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے ناکام بنا رہا ہے۔ یہ صورت حال خوش آیند نہیں لہٰذا عالمی بینک کو جلد از جلد پاکستان کے مطالبے پر غور کرتے ہوئے ثالثی عدالت کا قیام عمل میں لانا چاہیے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان آبی تنازعات کو پرامن طور پر حل کیا جا سکے۔