تازہ انتخاب ہی واحد جواب ہے

وزیراعظم صاحب کی یہ بڑی مہربانی ہے۔ پارلیمنٹ کی بحث میں محض مفروضات کی مین میخ نکالی جاتی ہے۔

KARACHI:
کانگریس کی زیر قیادت مرکز میں مخلوط حکومت تتر بتر ہو رہی ہے۔ ایک اسکینڈل کی بو ختم ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا اس سے بھی بدتر اسکینڈل فضا کو متعفن کر دیتا ہے۔ آزادی کے بعد سے کوئی اور حکومت اس بری طرح منتشر نہیں ہوئی جتنی وزیراعظم منموہن سنگھ حکومت ہو چکی ہے۔ وزیراعظم نے خود اپنے اس وقت کے وزیر مواصلات اے راجہ کو بری الذمہ قرار دیدیا تھا جو اس وقت جیل میں ہیں اور ان کے خلاف 22 مقدمات چل رہے ہیں جب کہ وزیراعظم کو کوئی ایک مقدمہ بھی نہ مل سکا تھا۔اس کے باوجود وہ ایک معزز آدمی ہیں جن کی یکجہتی پر کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔

وزیر دفاع اے کے انتھونی کی دستاویز بھی مماثل ہیں۔ انتھونی کی سرکردگی میں ہیلی کاپٹروں کی خرید کا سودا کیا گیا جس میں 34,000 کروڑ روپے کے لگ بھگ کک بیکس لی گئیں جو آج تک کے کسی ایک کنٹریکٹ میں سب سے زیادہ ہے۔ تاہم حقیقت پھر بھی یہی ہے کہ انتھونی نے کک بیکس کی کہانی کو مسترد کر دیا ہے جو کہ تقریباً 11 ماہ قبل منظر عام پر آئی تھی۔ وزیراعظم نے طویل خاموشی کے بعد کہا ہے کہ حکومت کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں اور یہ کہ ہم اس پر پارلیمنٹ میں بحث کے لیے تیار ہیں۔

وزیراعظم صاحب کی یہ بڑی مہربانی ہے۔ پارلیمنٹ کی بحث میں محض مفروضات کی مین میخ نکالی جاتی ہے۔ اس میں کوئی احتساب نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی تحقیقات ہوتی ہے۔ آخر کسی کو کس طرح پتہ چل سکتا ہے کہ یہ کک بیکس یا رشوت کس نے وصول کیں؟ ہم جانتے ہیں کہ کک بیکس وصول کی گئیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ کک بیکس دیں کس نے تھیں، لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ بھارت میں انھیں وصول کس نے کیا۔ کیونکہ اس سلسلے میں جن لوگوں کے نام لیے گئے انھوں نے کک بیکس وصول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

بوفورس توپوں کا معاملہ بھی کم و بیش اس نوعیت کا تھا۔ اس کے لیے ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) بھی بنا دی گئی تھی۔ لیکن آج کے دن تک اس بات کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی جا سکی کہ کس نے کک بیکس وصول کیں اور کتنی کتنی وصول کیں۔ ان کے بارے میں بھی ہم بخوبی جانتے ہیں کہ یہ کک بیکس کس نے دیں، مگر سالہا سال کی کوششوں کے باوجود بھی ان پارٹیوں کی نشاندہی نہیں کی جا سکی جنھوں نے یہ وصولیاں کیں۔

جہاں تک کانگریس کی زیر قیادت پے در پے اسکینڈلوں کا تعلق ہے تو اس حوالے سے آپ نہ منموہن سنگھ کو مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں اور نہ ہی ذاتی طور پر انتھونی کو۔ ان دونوں کی زندگی کے صاف ستھرے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے تو اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ تب آپ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ انھیں پتہ ہی نہیں ہو گا۔ لیکن آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں جب پرائم منسٹر آفس (پی ایم او) ایسی جگہ ہے جہاں سارا کچا چٹھہ کھل جاتا ہے۔ ان اسکینڈلوں کی کئی مہینے اخبارات میں شہ سرخیاں شائع ہوئی ہیں اور اس بات کے باقاعدہ ثبوت ہیں کہ رشوتیں آتی رہی ہیں۔ گویا پی ایم آفس کو سب کچھ معلوم تھا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وزیراعظم سارے لین دین سے لاعلم رہے۔

ویسے یہ ممکن بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ایسی صورتحال پیدا ہو گئی ہو کہ منموہن سنگھ اور انتھونی دونوں کو پتہ نہ چل سکا ہو کہ عین ان کی ناک کے نیچے کیا گل کھلائے جا رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی جب اسکینڈل منظر عام پر آتے ہیں تو پھر کچھ لوگوں کا مواخذہ بھی کیا جاتا ہے بالخصوص جب ملوث افسروں کی نشاندہی بھی کر دی گئی ہو۔ لیکن آج تک کسی ایک کو بھی سزا کیوں نہیں دی گئی اور تحقیقات کا کوئی ٹھوس نتیجہ کیوں اب تک نہیں نکل سکا؟ سوائے چند بیورو کریٹس اور دو تین وزیروں کی گرفتاری کے علاوہ باقی سب کچھ ویسے کا ویسا ہی ہے۔


یہ ظاہر ہے کہ کوئی انھیں تحفظ دے رہا ہے اور اب معاملہ ٹھپ کیا جا چکا ہے لہٰذا مخصوص دلائل دینے کا کوئی فائدہ نہیں، اصل میں حقیقت کو چھپایا نہیں جا سکتا اور یہ وہی خلش ہے جو حکومت کو اس قسم کی وضاحتیں دینے پر مجبور کرتی ہے مگر وہ بھی مناسب طریقے سے نہیں کی جاتیں۔ میڈیا کے بعض سونگھنے کی تیز صلاحیت رکھنے والے ایسی چیزیں سونگھ لیتے ہیں۔ رہی حکومت تو جو کچھ ہوا ہے اس پر افسوس کا اظہار کرتی بھی نظر نہیں آتی تا کہ اس کی حکمرانی پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔

بعض وزراء یا وزیروں کی ایک ٹیم صورتحال کی کماحقہ' وضاحت پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن جس چیز کا منموہن سنگھ حکومت کو احساس نہیں وہ ہے حکومت پر اعتماد کی شدید کمی۔ اس کے کسی دعوے کو قبول نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کوئی وضاحت قابل بھروسہ سمجھی جاتی ہے، اور نہ ہی اس کے کسی اقدام کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ یہ افسوسناک امر ہے کہ عام پبلک کی آنکھوں میں حکومت مشتبہ ہو چکی ہے گویا اس کے وزیر بدعنوانی کرتے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہوں۔ بمشکل ہی کسی ایک وزیر کو دیانتدار سمجھا جاتا ہے۔ اعتماد اور بھروسے کا اس قدر فقدان پیدا ہو چکا ہے کہ انتظامیہ کے ہر دفتر پر ایک بڑا سا سوالیہ نشان لگا نظر آتا ہے۔

سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) جیسے ادارے اپنی قدر کھو بیٹھے ہیں۔ یہ اب کھلا راز ہے کہ جو تحقیقات یہ ادارہ کرتا ہے اس کا مقصد محض اشک شوئی ہوتا ہے۔ سی بی آئی کے بہت سے سابقہ ڈائریکٹروں نے کتابیں لکھی ہیں اور بتایا ہے کہ کس طرح انھیں کسی مخصوص مقدمے کے فیصلے کے بارے میں اوپر سے ہدایات دی گئیں اور جب تک سی بی آئی حکومتی محکمہ رہتا ہے اس کی ساکھ کے بارے میں شکوک و شبہات ختم نہیں ہو سکتے۔ بعینہ حکومت کے قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے بھی چنداں بہتر نہیں ہیں تاہم اگر سی بی آئی کی تحقیقات کی سپریم کورٹ سے نگرانی کرائی جائے تب شاید حکومت کی طرف سے مداخلت کا عمومی تاثر ختم ہو سکے۔ عوام انتظار کر رہے ہیں کہ آیا ہیلی کاپٹروں کی خرید کے معاملے کی تحقیقات میں سپریم کورٹ سی بی آئی کی نگرانی کرے گی یا نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معیشت پر کرپشن کے جو اثرات مرتب ہوئے ہیں وہ سب کو نظر آ رہے ہیں۔کروڑوں اربوں روپے خورد برد کر لیے گئے ہیں۔ مرکزی اعداد و شمار میں خسارے کے تخمینہ کو پلاننگ کمیشن نے چیلنج کر دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ شرح نمو 9 فیصد سے گر کر صرف 5 فیصد رہ گئی ہے اور جلد ہی اس شرح میں مزید کمی ہو گی اور یہ 3.5 فی صد سالانہ رہ جائے گی، جسے کہ ہمارے ماہر اقتصادیات دوست راج کرشنا ''ہندو گروتھ ریٹ'' (ہندووں کی شرح نمو) کہتے ہیں چنانچہ آنے والے مرکزی بجٹ سے کسی بہتری کی کوئی امید وابستہ نہیں کی جا سکتی۔ اگر یہ نئی بوتلوں میں پرانی شراب نہیں ہو گی تو پھر پرانی بوتلوں میں نئی شراب بھی ہو سکتی ہے۔

درست، کہ طرز عمل کی فضا ناساز گار ہے لیکن یہ حقیقت تو پورے جنوبی ایشیاء کے خطے پر منطق ہوتی ہے۔ دیہی علاقوں میں جہاں ہماری آبادی کا بیشتر حصہ فروکش ہے وہاں خوشحال کاشتکاروں کی اقلیت عارضی کاشت کرنے والوں اور کھیت مزدوروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث دبائو کا شکار ہو رہی ہے اور یہ حالات کافی طویل عرصے سے جاری ہیں جس کو سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کی لالچ نے اور زیادہ بگاڑ دیا ہے جو ملک کی لوٹ مار میں ملوث ہو ہیں۔

ضروری نہیں کہ نئے انتخابات کے نتیجہ میں فی الواقعی کوئی تبدیلی آ جائے لیکن اس میں نئے امید وار ضرور سامنے آئیں گے اور عین ممکن ہے کہ پارٹی کی سیاست میں بھی کوئی تبدیلی آ سکے اور برسراقتدار پارٹی بھی تبدیل ہو جائے۔ موجودہ صورت حال میں بہترین طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ وزیراعظم منموہن سنگھ راشٹر پتی بھون (ایوان صدر) چلے جائیں اور اپنی حکومت کا استعفیٰ پیش کر کے نئے انتخابات کی راہ ہموار کر دیں۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story