حکمرانوں کی اڑن طشتری

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 20 ستمبر 2017

امریکا کے سابق صدر ابراہم لنکن نے گیٹس برگ کے میدان جنگ میں اپنی زندگی کی عظیم ترین تقریرکی تھی۔ ایک لاکھ ستر ہزار سپاہیوں نے اس جنگ میں حصہ لیا تھا اور سات ہزار مار ے گئے تھے۔ لنکن نے دو منٹ سے بھی کم وقت میں اپنی تقریر ختم کر دی تھی اس تقریرکے دوران ایک فوٹو گرافر نے لنکن کی تصویر اتارنی چاہی لیکن اس سے پہلے کے وہ پرانا کیمرہ تصویر اتارتا لنکن اپنی تقریر ختم کر چکا تھا لنکن کی وہ تقریر آکسفورڈ یونیورسٹی کی لائبریری میں انگریزی زبان کے ایک عظیم نمونے کے طور پر محفو ظ ہے ’’ہمارے آباؤ اجداد ستاسی سال پہلے اس سرزمین پر ایک نئی اور آزاد قوم کی حیثیت سے آئے تھے اور اس نظریے کے ماننے والے تھے کہ تمام لوگ پیدائشی طور پر ایک جیسے ہیں اس وقت ہم ایک بہت بڑی خانہ جنگی سے گزر رہے ہیں تاکہ اس بات کا امتحان لیا جا سکے کہ وہ یا کوئی اور قوم اپنے نظریا ت کی پابند رہتی ہے کہ نہیں ۔ ہم اس جنگ کے ایک بڑے میدان میں جمع ہوئے ہیں ہم یہاں اس مقصد کے تحت اکٹھے ہوئے ہیں کہ اس میدان کا ایک بڑا حصہ ان لوگوں کے لیے آخری آرام گاہ کے طور پر وقف کر دیں جنہوں نے قوم کی زندگی لیے اپنی جانیں نچھاور کردیں۔

یوں ہم نے بہت زندہ دلی کا ثبوت دیا ہے لیکن وسیع مفہوم میں ہمیں اس بات کا کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم اس کے کسی حصے کو کسی کے نام وقف کردیں۔ یہ کام تو اس میدان میں لڑنے والے زندہ اور شہید جوان پہلے ہی کر گزرے ہیں اور اس میں کمی بیشی کرنا ہماری طاقت سے باہر ہے۔ دنیا ہماری آج کی باتوں کو ذہن نشین رکھے گی لیکن اس میدان کا انتساب توہم زندوں کے نام پر ہونا چاہیے کیونکہ جس ناتمام کام کو مرنے والوں نے چھوڑا ہے اس کی تکمیل ہمارے سر ہے۔ ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ مرنے والوں کی قربانیاں ضایع نہیں گئیں۔ خدا کے حکم سے یہ قوم آزادی کی نئی فضاؤں میں سانس لے گی اور عوام کے لیے عوامی حکومت اورعوام حکمران کا تصور ہماری زمین سے مٹا تو نہیں۔‘‘

امریکا اور امریکی عوام نے لنکن کے اسی اصول پر چلتے ہوئے ترقی،کامیابی، خوشحالی کی ان گنت منزلیں طے کرچکے ہیں اور ان کا سفر جاری ہے ادھر دوسری طرف ہمارے حکمرانوں نے اسی کامیابی، ترقی اور خوشحالی کے اصولوں کی جس طرح دھجیاں اڑائیں ہیں۔ پوری دنیااس پر حیران و پریشان ہے۔ آئیں اپنے ملک میں جھانک کر دیکھتے ہیں۔ مجھ جیسے کروڑوں لوگ جب اپنی بیچارگی، بے اختیاری، ذلت وخواری اورغربت و افلاس دیکھتے ہیں اور پھر جب ہم دن رات اپنے امرا حکمرانوں کے منہ سے سنتے ہیں کہ یہ عوامی حکومت ہے عوام کے ذریعے ہے اور عوام کے لیے ہے اور ہم عوامی حکمران ہیں تو مارے شرم کے گردنیں جھک جاتی ہیں۔ اگر یہ عوامی حکومت ہے اور عوام کے لیے ہے تو پھر ہم عوام پر یہ ذلت و خواری کیوںچھائی ہوئی ہے اور سارے عیش وآرام، عیش و عشرت، آرام و سکون، ساری آسائشیں، ساری عزتیں، سارے اختیار، ساری لذتیں ہمارے حکمرانوں کو کیوں حاصل ہیں۔

جب ہم ملک کے اصل حاکم اور وارث ہیں تو پھر ہم کیوں ایک ایک روٹی کو ترستے پھرتے ہیں تو پھر ہمار ے گھروں میں کیوں خاک اڑتی پھرتی ہے؟ ہمیں کیوں زہریلا پانی پلایا جا رہاہے؟ ہم کیوں سارا سارا دن اور ساری ساری رات بجلی آنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ ہم بیمار ہوجائیں تو ہم پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے، سرکاری اسپتالوں میں پھر ہم سسک سسک کر اور تڑپ تڑپ کر اپنی جانیں دیتے ہیں اور تمہارے اپنے ذرا سا بیمار ہوجائیں تو تم ان کو سرکاری اسپتالوں میں علاج کروانے کے بجائے باہر کے ممالک میں جا کر کیوں کرواتے ہو۔ ہمیں تو ٹو ٹے پھوٹے گھر تک میسر نہیں ہیں آخر تمہارے پاس دنیا کے ہر ملک میں عالیشان گھر کیوں ہیں ہم ساری ساری عمر محنت کرکے بھی چند ہزار ہی جمع کر پاتے ہیں تم آخر ایسا کونسا کاروبار کر رہے ہو کہ تم چند سالوں میں کھربوں کے مالک بن گئے ہو۔ کیا الہ دین کا چراغ مل گیا اور اس کا جن دن رات تمہیں نوٹ چھاپ چھاپ کر دے رہا ہے۔

دنیا کے ہر ملک میں عالیشان گھر بنا بنا کر دے رہا ہے اور نئی نئی ملیں بنا کر دے رہا ہے دنیا بھر کے بینکوں میں تمہارے ا کاؤنٹ میں دن رات پیسے جمع کر وا رہا ہے او ر وہ جن ہمارا دشمن بنا ہوا ہے کہ ہمارے گھر ہمارے کاروبار سکھ و چین دن رات تباہ و برباد کررہا ہے کیا تم ہم بیس کروڑ لوگوں کو بے وقوف سمجھتے ہو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم بیس کروڑ لوگوں کو خدا نے بغیر عقل کے پیدا کیا ہے ؟ کیا ہم سب بغیر دماغ کے صرف گوشت پوست کا ڈھیر ہیں ؟ آخر بے شرمی اور بے حیائی کی کوئی حد ہوتی ہے ہمارے حکمرانوں ہم تم سے زیادہ سمجھ دار اور با شعور ہیں ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ تمہارے پاس جو سب کچھ ہے وہ سب تم نے کرپشن ، لوٹ مار ، غبن ، دھوکہ دہی سے بنایا ہے اور وہ سب کچھ ہمارا ہے جس کو تم نے دن دہاڑے ڈاکہ مار کر ہم سے لوٹ لیا ہے اور تمہارا سا را بھانڈا تو سپریم کورٹ اور J.I.T بھی پھوڑ چکی ہے اس لیے خدا را یہ ڈھو سلے بازی ، فریب ، دھوکہ دینا بند کردو۔

ہمیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ہمارے نام پر یہ اشرافیہ کی حکومت ہے جو صرف اشرافیہ کے لیے ہے ہم سب تو صرف ایکسٹرا اداکار ہیں ایسے اداکارجن کی ضرورت ہر پانچ سال بعد پڑتی ہے جو پانچ سال بعد چند دنوں کے لیے یاد آتے ہیں۔ میاں صاحب تمہاری حکومت کے بارے میں ہی بر نارڈ شا نے کہا تھا Government off the people, buy the people, far the people، وہ کہتا ہے عوام کے نام پر حاصل کر دہ حکومت کی مثال ایک اڑن طشتری کی ہے جس میں عوام کے نام نہاد منتخب نمائندے بیٹھے ہیں اور وہ انہیں لے کر اوپر اڑ جاتی ہے عوام اڑن طشتری کی طرف منہ اٹھائے بہتری اور خوشحالی کی امیدیں لگائے رکھتے ہیں اس دوران جیب کترے ان کی جیبیں صاف کرکے اپنی راہ لیتے ہیں۔ پانچ سال گزرنے کے بعد جب یہ طشتری واپس زمین پر آتی ہے تو عوام کو انتخاب میں نیالالی پاپ دے کر کچھ پرانے اور بعض نئے سیاست دانوں کو لے کر دوبارہ اڑجاتی ہے۔ ‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔