الوداع بینی ڈکٹ

غلام محی الدین  اتوار 24 فروری 2013
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

اسلام آ باد: مسیحیت کی لگ بھگ دو ہزار سالہ تاریخ میں آج تک کوئی بھی غیر یورپی شخص پوپ کے منصب پر فائز نہیں ہوا۔

مسیحیوں کے سب سے بڑے فرقے رومن کیتھولک کے مذہبی پیش وا پوپ بینی ڈکٹ نے جب 11 فروری 2013 کو اچانک مستعفی ہونے کا اعلان کیا تو پوری دنیا حیران رہ گئی اور یہ سوال گردش میں آیا کہ پوپ کے اچانک مستعفی ہونے کے پسِ پردہ بھید کیا ہے؛ کلیساؤں میں ایک مدت سے جاری بدنظمیوں پر متعدد ’’مقدس افراد‘‘ کی معزولیاں، عالمی مالیاتی بحران کے خاتمے کے لیے اسلامی اقتصادی نظام پر ان کا زور دینا یا کچھ اور بھی؟ اس کے ساتھ یہ بحث بھی چھڑی ہوئی ہے کہ ان کا جا نشین کون ہوگا ؟ یاد رہے کہ پوپ بینی ڈکٹ گزشتہ 600 برسوں میں پہلے پوپ ہیں جو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا چاہتے ہیں۔

جرمنی سے تعلق رکھنے والے 85 سالہ پوپ بینی ڈکٹ کی نے 28 فروری کو مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد مسیحی دنیا کا سب سے بڑا عہدہ ایک بار پھر کسی نئے آنے والے کا منتظر ہو گا۔ ایک زمانے میں پوپ کا منصب صرف اطالوی شہریوں کے لیے مخصوص ہوا کرتا تھا لیکن مسیحیت کے فروغ کے بعد اس منصب کے دروازے جب دیگر یورپی پادریوں پر بھی کھلتے چلے گئے تو یہ توسیع صرف یورپ تک ہی محدود تھے، اسی لیے آج تک پوپ کے عہدے پر کوئی غیر یورپی شخص فائز نہیں ہوسکا تاہم اس بار لگتا ہے کہ صدیوں سے چلی آرہی یہ روایت ٹوٹ جائے گی۔

رومن کیتھولک مسیحیوں کے مرکز ویٹی کن کے دو اعلیٰ عہدے داروں نے حال ہی میں حیرت انگیز طور پر پوپ کے متوقع جانشینوں کی جانب اشارہ کیا تھا جس سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملی تھی کہ نئے پوپ کا تعلق لاطینی امریکا سے ہوسکتا ہے۔ کانگری گیش فار دی ڈاکٹرائن آف فیدا ویٹی کن کا وہ ادارہ ہے جو رومن کیتھولک مسیحیت کے مذہبی عقائد کی تشریح و تعبیر کا مجاز ہے۔ اس ادارے کے سربراہ آرک بشپ گیرہارڈ میولر نے گزشتہ برس کرسمس کے موقع پر اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ لاطینی امریکا سے تعلق رکھنے والے کئی ایسے بشپ اور کارڈینیلز سے واقف ہیں جو مسیحیت کی قیادت کی ذمہ داری سنبھال سکتے ہیں۔ جرمن نژاد آرک بشپ نے بھی اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ مسیحیت صرف یورپ تک محدود نہیں۔

ویٹی کن کے ایک اور شعبے کے سربراہ اور سوئیزرلینڈ کے باسی کارڈینیل کرٹ کوچ نے بھی اپنے انٹرویو میں عندیہ دیا تھا کہ انہیں ویٹی کن کا مستقبل یورپ سے باہر دکھائی دے رہا ہے۔ اپنے انٹرویو میں سوئس کارڈینیل نے کہا تھا کہ بہتر ہوگا کہ اگلے ’’کانکلیو‘‘ میں افریقا اور جنوبی امریکا سے تعلق رکھنے والے امیدورں کے ناموں پر بھی غور کیا جائے۔ خیال رہے کہ کانکلیو مسیحیوں کے بڑے پادریوں کی اس مجلس کو کہا جاتا ہے جو پوپ کا انتخاب کرتی ہے۔ دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے پادریوں کی یہ مجلس پوپ کا منصب خالی ہونے کی صورت میں ویٹی کن کے ’’سسٹائین چیپل‘‘ میں ہوتی ہے۔

کارڈینل کرٹ کوچ سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ پوپ کے انتخاب کی صورت میں کسی یورپی امیدوار کے مقابلے میں غیر یورپی کو ووٹ دیں گے تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا تھا۔ کارڈینیلز کے تیور سے بہ ظاہر ایسا لگتا ہے کہ شاید اب پوپ کا مسند لاطینی امریکا کو ملنے والا ہے، جہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ رومن کیتھولک مسیحی بستے ہیں۔ دنیا بھر میں خود کو رومن کیتھولک کہلانے و الوں کی تعداد ایک ارب 20 کروڑ ہے، جن میں سے صرف 25 فی صد یورپی ہیں جب کہ 42 فی صد لاطینی امریکی ممالک میں بستے ہیں تاہم آبادی کے اس تناسب کے بر عکس پوپ کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالنے کے اہل کارڈینیلز یعنی چیف پادریوں کی نصف تعداد کا تعلق یورپ سے ہے۔

اگلے پوپ کے متوقع لاطینی امریکی امیدواروں میں سرِفہرست اوڈیلو شیرر کو قرار دیا جارہا ہے جو سائو پولو کے گنجان علاقے کے آرک بشپ’’ چیف پادری‘‘ ہیں۔ پاپا بننے کے ایک اور اہم امیدوار ارجنٹا ئن کے اطالوی نژاد پادری لیونارڈو ساندری بھی ہوسکتے ہیں، جو اس وقت مشرقی گرجا گھروں سے متعلق ویٹی کن کے شعبے کے سربراہ ہیں۔ افریقی ملک گھانا سے تعلق رکھنے والے ویٹی کن کے شعبۂِ انصاف اور امن کے سربراہ پیٹر ٹرکسن کو بھی پوپ کے عہدے کے لیے افریقا سے تعلق رکھنے و الا مرکزی امیدوار قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اگر کارڈینیلز ویٹی کن کی اپنی روایت سے وابستہ رہے اور پوپ کے عہدے کے لیے ان کی نگاہِ انتخاب پھر کسی یورپی باشندے ہی پر پڑی تو ان کا اولین انتخاب اٹلی کے شہر میلان کے پادری اینجلو اسکولا ہوسکتے ہیں۔ ان کے علاوہ پوپ بینی ڈکٹ کے سابق شاگرد اور قریبی مشیر اورآسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے کارڈینیل کرسٹوف شوبورن کو بھی پوپ کے متوقع یورپی امیدواروں میں سرِ فہرست قرار دیا جارہا ہے۔

مسیحی رومن کیتھولک فرقے کے موجودہ پوپ بینی ڈکٹ 1927 کوجرمنی کے ایک روایتی باویریئن خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد پولیس کے محکمے میں ملازم تھے۔ چودہ سال کی عمر میں ہٹلر کی تنظیم ’ہٹلر یوتھ‘ میں بھرتی ہوئے، اس وقت جرمنی کے ہر نوجوان پرفوج میں ملازمت لازم تھی تاہم وہ اس تنظیم کے کبھی سرگرم رکن نہیں رہے تھے۔ وہ جرمنی کے شہر ٹراسٹین کے ایک مذہبی اسکول میں زیر تعلیم تھے جب دوسری جنگ عظیم سے قبل انہیں میونخ کے قریب ایک ’اینٹی ایئر کرافٹ‘ یونٹ میں بھرتی کر لیا گیا تاہم جنگ کے آخری دنوں میں انہوں نے جرمن فوج چھوڑ دی اور 1945 میں وہ کچھ دن اتحادی فوج کی قید میں بھی رہے۔

1966 میں انہوں نے تیوبن جن یونی ورسٹی میں ڈوگمیٹک تھیولوجی کی چیئر سنبھالی تاہم وہ نوجوانوں میں مارکس ازم کے رجحانات دیکھ کر حیران رہ گئے۔ یونی ورسٹی میں ان کے ایک خطبے کے دوران طلبہ نے ہنگامہ کر دیا جس سے وہ کافی پریشان ہوئے۔ ان کے خیال میں مذہب کو سیاسی نظریات کا تابع بنانا ایک ظالمانہ، بے رحمانہ اور جابرانہ کوشش تھی۔ بعد ازاں وہ بروریا میں ری جنز برگ یونی ورسٹی منتقل ہو گئے، جہاں وہ ڈین کے عہدے تک پہنچے۔ انہیں 1977 میں پوپ پال ششم نے میونخ کا کارڈنیل مقرر کیا۔ پوپ جان پال دوم کے انتقال کے بعد 2005 میں پوپ بنے۔ انھوں نے اپنا عہدہ سنبھالا تو اس وقت کیتھولک چرچ ایک بہت گندے بحران سے گزر رہا تھا۔ اس دوران یہ خبریں آ رہی تھیں کہ پادری بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے رہے ہیں، اس کے علاوہ دوسرے فحش اعمال، جعلی حادثات اور اسکنڈلز کی وجہ سے چرچ کے اندر اور باہر پوپ پر تنقید کے لیے ناقدین کے ہاتھ خاصا مواد آیا۔

پوپ بینی ڈکٹ نے جب عہدہ سنبھالا تو اس وقت تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا، کلیسائیت کی دو ہزار سالہ قدیم روایات کے لیے متعدد چیلنج کھڑے کر چکی تھی۔ ان کے دور میں نمائندہ پادریوں کے خلاف الزامات، مقدمات اور سرکاری رپورٹیں سامنے آ رہی تھیں، جو 2009 اور 2010 میں اپنے عروج پر پہنچ گئیں، اس علاوہ سب سے زیادہ خطرناک وہ دعوے تھے، جن کی وجہ سے نہ صرف مقامی پادری بل کہ خود ویٹی کن بھی متاثر ہوا اور یہ تاثر ابھرا کہ زیادتی کے بہت سے واقعات پر پردہ ڈالنے اور بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے پادریوں کو سزائیں دینے میں پس و پیش سے کام لیا جا رہا ہے۔

بعض اوقات تو پادری کو محض کسی اور علاقے میں تبدیل کر دیا جاتا تھا، جہاں وہ نئے سرے سے اپنی مجرمانہ کارروائیاں شروع کر دیتا تھا۔ ویٹی کن کے بعض سینیئر ارکان نے پہلے تو میڈیا پر برسنا شروع کیا پھر الزام لگایا کہ یہ کیتھولک مسلک کے خلاف سازش ہے تاہم پوپ نے کہا کہ چرچ کو ذمے داری قبول کرنی چاہیے۔ انہوں نے چرچ کے اندر گناہ کی نشان دہی بھی کی، زیادتی کا نشانہ بننے والے افراد سے ملے بھی اور ان سے معافی بھی مانگی، جس کی مسیحی تاریخ میں کوئی نظیر موجود نہیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ پادری لازماً زیادتی کے واقعات کی نشان دہی کریں، انہوں نے مجرموں کے خلاف تیز رفتار کارروائی کے اصول وضع کیے اور زمے داروں کو معزول کیا۔

پوپ بینی ڈکٹ کے استعفے پر عالمی ردِ عمل 

گزشتہ چھے سو برسوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کیتھولک عقیدے کے پاپائے روم نے 11 فروری کو جب اپنے منصب سے سبک دوش ہونے کا اعلان کیا تو عالمی سطح پر ایک ہل چل سی مچ گئی۔ عالمی رہ نماؤں نے ان کے اعزاز میں تحسینی کلمات کا سلسلہ شروع کر دیا۔

کْرہ ارض کے تقریباً 1.2 ار ب کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیش وا پوپ بینیڈکٹ شانزدہم نے اپنی کم زور صحت اور بڑھاپے کی بنیاد پر پاپائیت کے منصب کو رواں مہینے کی 28 تاریخ کو چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ امید کی جا رہی ہے کہ نئے پوپ کا انتخاب اگلے ماہ مارچ کے دوران مکمل کر لیا جائے گا اور ایسٹر کے مقدس تہوار پر ایک نئے پاپا کیتھولک مسیحیوں کے لیے دعائیہ سروس کی قیادت کریں گے۔ اس اعلان پر اقوام عالم نے پوپ کے لیے نیک تمناؤں اور خراج تحسین کا سلسلہ ابھی تک جاری رکھا ہوا ہے۔ چند اہم رہ نماؤں کے بیانات درج ذیل ہیں۔

جرمن چانسلر انجیلا میرکل:
’’ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پوپ اپنے بڑھاپے میں پاپائیت کی ذمہ داریوں نباہ رہے تھے۔ جرمنی کی قائدِ حکومت کے طور پر میں پوپ کے معاملات کو احسن طریقے سے نباہنے پر مشکور اور ان کی بہتر صحت کی متمنی ہوں، میں پوپ کی ایک مذہبی اسکالر کی حیثیت کو تسلیم کرتی ہوں، مسلم اور یہودی مذاہب سے، ان کے رابطوں کی کوششیں انتہائی اہم ہیں‘‘۔

سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ بان کی مون :
’’ ادیان کے درمیان مکالمے کے عمل کی شان دار کوششوں پر میں پوپ بینی ڈکٹ کو بھرپور خراج تحسین پیش کرتا ہوں، زمین پر غربت کے خاتمے کی کوششوں کے علاوہ بھوک کو کم کرنے میں ان کا کردار انتہائی قابل تعریف رہا، ان کے بعد نئے پوپ کے دور میں بھی مکالمے اور برداشت کی تلقین اور ترویج کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے‘‘

امریکی صدر باراک اوباما:
’’ میں اور میری اہلیہ مِشل 2009 میں پوپ بینی ڈکٹ سے اپنی ملاقات کو ہمیشہ یاد رکھیں گے، عالمی معاملات کے لیے ویٹی کن اور امریکا کی کوششیں اہم رہیں، چرچ کا امریکا میں ایک انتہائی اہم اور فعال کردار ہے، امید کی جاتی ہے کہ کیتھولک کلیسا جلد پوپ کے جانشین کا انتخاب عمل میں لائے گا‘‘۔

اطالوی صدر گیارگیو ناپولیٹانو:
’’یہ انسانی حوصلے کی ایک بڑی مثال ہے، پوپ کا یہ فیصلہ مستقبل میں بھی ایک رہ نما اصول کے طور پر دیکھا جائے گا‘‘۔

صدر یورپی یونین ہیرمان فان روم پوئے:
’’پوپ نے روایت سے ہٹ کر جو فیصلہ کیا ہے، اس نے ان کے وقار کو مزید بلند کر دیا ہے، ان کا عہدِ پاپائیت علالت کی وجہ سے مختصر رہ گیا، انہوں نے اپنے دور میں کئی مشکلات کا بھی سامنا کیا‘‘۔

عالمی کیتھولک کلیسا کا ردعمل:
یورپی ممالک اسپین، پولینڈ، آسٹریا کے علاوہ براعظم ایشیا، جنوبی و شمالی امریکا اور افریقا میں کیتھولک کلیسا کے پادریوں کی تنظیموں نے پوپ بینی ڈکٹ کے مستعفی ہونے کے اعلان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کو شان دار الفاظ میں خراجِ عقیدت بھی پیش کیا۔ اسپین کے اعلیٰ پادریوں کی تنظیم ’’کانفرنس آف بشپس‘‘ کے سربراہ کارڈینیل انتونیو ماریا روکو واریلا نے کہا کہ پوپ کے مستعفی ہونے کے اعلان سے ان سمیت تمام بشپس بہت اداس ہو گئے ہیں اور ہم خود کو یتیم محسوس کرنے لگے ہیں۔

اسپین کے وزیراعظم ماریانو راخوئے کی حکم ران جماعت کرسچیئن کنزرویٹیو پارٹی کے سیکرٹری جنرل ڈولورز ڈی کوسپیڈال نے بھی پوپ کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عزت کے انسانی پہلو کی بھر پور عکاسی ہے۔

مستعفی پوپ بینی ڈکٹ کا تاریخی پس منظر:
پوپ بینی ڈکٹ جرمنی کے رہنے والے ہیں، 19 اپریل 2005 کو اس عہدے کے لیے منتخب کئے گئے تھے، یہ وہ زمانہ تھا جب مغربی میڈیا شدومد کے ساتھ رومن کیتھولک کے گرجا گھروں میں جنسی جرائم کو کھل کر رپورٹ کر رہا تھا۔ اس وقت ہزاروں چرچ بوائز نے اپنے ساتھ ہونے والے جنسی جرائم کا میڈیا پر انکشاف کیا، جس سے یورپ اور نارتھ امریکا میں رائے عامہ بپھر چکی تھی۔ ویٹی کن سٹی نے اس کا حل یہ نکالا کہ جنسی جرائم کا شکار ہونے والوں کو بھاری رقوم دے دلا کر معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی پالیسی اختیار کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بڑی تعداد میں مزید کیس سامنے آنے لگے۔ 2008 میں پوپ بینی ڈکٹ نے ان جنسی جرائم پر نہ صرف اظہارِ ندامت کیا بل کہ متاثرین سے ملاقاتیں شروع کر دیں، جس کا میڈیا پر بہت چرچا ہوا اور چرچ کے خفیہ حالات بدنامی کا باعث بنے۔ انہوں نے مخصوص حالات میں ایڈز سے بچنے کے لئے کنڈوم استعمال کرنے کی ضرورت کو قبول کیا اور بعدازاں سن 2010 میں شائع ہونے والی کتاب ’’لائٹ آف دی ورلڈ‘‘ میں کہا ’’میرے خیالات مستقبل کی آواز ہیں، ہمیں انسانی جنسی ضروریات کا ادراک اور اقرار کرنا پڑے گا‘‘۔

ان کے قابل اعتماد بٹلر نے جب نہایت خفیہ معلومات میڈیا کو فراہم کر دیں تو انہیں بے طرح ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر طرف چرچ کے خفیہ معاملات پر بحث چھڑ گئی اور پوپ بینی ڈکٹ نے پہلے پوپ کی حثیت سے متعدد زبانوں میں سوشل میڈیا پر ذاتی اکاؤنٹ کھولے اورکہا کہ چرچ کے معاملات کو اب خفیہ نہ رکھا جائے، چرچ کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہیے، چرچ میں موجود تمام برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ انہوں نے مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی پر نہ صرف زور دیا بل کہ وکالت کی کہ اسلام کو عظیم مذہب ہے، انہوں نے چین کے ساتھ کھلے دوستانہ تعلقات پر بھی زور دیا۔
بینی ڈکٹ مغربی بینکوں میں اسلامی اقتصادی نظام چاہتے ہیں۔

روز نامہ ایل اوسرواٹور رومانو نے پوپ بینی ڈکٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ موجودہ عالمی اقتصادی بحران کو اسلامی بینکنگ نظام کے ذریعہ حل کیا جا سکتا ہے۔ پوپ نے مغربی بینکوں کو اسلامی بینکنگ نظام اپنانے کا مشورہ دیا، وہ دنیا کے اقتصادی بحران کو ختم کرنے اور بینکنگ پر گاہکوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے اسلامی بینکاری نظام کے قائل ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ اسلامی بینکنگ نظام کی اساس جن اخلاقی بنیادوں پر رکھی گئی ہے، ان کو بااختیار کرکے ہی بینک اور ان کے گاہکوں کے درمیان حائل دوریاں ختم کی جاسکتی ہیں، نیز مالیاتی اداروں کی کارگزاری کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ پچھلے سال بازار کے اتار چڑھاؤ پر تبصرہ کرتے ہوئے پوپ نے کہا تھا کہ’’ یہ دولت چیز ہی ایسی ہے جس میں ٹھہراؤ نہیں ہے، اس لئے اس پر زیادہ توجہ بھی نہیں دینی چاہیے، ہمیشہ باقی رہنے والی ذات صرف اللّٰہ کی ہے‘‘۔

پوپ نے اقتصادی بحران پر تبصرہ کرتے ہو ئے آزادا منڈی کے نظام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اوراس بات پر تشویس کا اظہار کیا کہ فری مارکیٹ کے تناسب میں روز بہ روز جو اضافہ ہو رہا ہے، وہ خطرناک ہے مگر دوسری جانب آسٹریا کے اخبار ہیوچ نے اس خبر کو بہت مختصر جگہ دی اور خبر کی سرخی جماتے ہوئے لکھا ’’پوپ نے بینکوں کو خواہ مہ خواہ اسلامی نظام اپنے کی نصیحت کی ہے‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔