آلودگی اور گلوبل وارمنگ کا خطرناک بم

بھارت، پاکستان اور انڈونیشیا میں دنیا کی تقریباً 20 فیصد انسانی آبادی ہے جو فضائی آلودگی سے براہِ راست متاثر ہے۔

بھارت، پاکستان اور انڈونیشیا میں دنیا کی تقریباً 20 فیصد انسانی آبادی ہے جو فضائی آلودگی سے براہِ راست متاثر ہے۔ (فوٹو: فائل)

ماحول اور انسانی صحت کےلیے کھلی فضا اور صاف ہوا میں سانس لینا بہت ضروری ہے لیکن اس ترقی یافتہ اور سائنٹفک دور میں انسان کو نہ تو صاف ہوا میسر ہے اور نہ ہی کھلی فضا۔ اس جدید ترین دور میں بھی انسان ایک آلودہ زندگی گزارنے پر مجبور ہے جس کے باعث وہ نہ صرف بے شمار بیماریوں کا شکار ہو رہا ہے بلکہ ایک فعال زندگی گزارنے کے بجائے ذہنی کوفت میں مبتلا ہو رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی میں سب سے بڑا کردار فضائی آلودگی کا ہے جو ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دینے میں بڑی رکاوٹ بن رہی ہے۔

کیمیائی طور پر تیار کی گئی اشیا اور مختلف قسم کے کچرے کو جب جلایا جاتا ہے تو اس سے نکلنے والا دھواں فضائی آلودگی کا باعث بنتا ہے اور اس میں شامل زہریلی گیسیں اور ذرات فضا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان سے انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ کینسر اور پھیپھڑوں کے امراض کے علاوہ گلے کی پیچیدہ بیماریوں کا باعث بھی بنتے ہیں۔ ماہرین ماحولیات نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی بڑی آبادی کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کے پاس رہتی ہے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ان ممالک میں مختلف اقسام کی جسمانی اور ذہنی بیماریاں بڑھتی چلی جائیں گی جو کسی بھی صحت مند معاشرے کےلیے مسائل کے انبار سے کم نہ ہوں گی۔

تحقیقات کے مطابق کچرے کے ڈھیروں سے بے شمار زہریلی گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔ بھارت، پاکستان اور انڈونیشیا کے ممالک میں ساری دنیا کی تقریباً 20 فیصد انسانی آبادی ہے جو اس فضائی آلودگی سے براہِ راست متاثر ہے۔ ماہرین کے مطابق زہریلا مادہ خون میں جذب ہونے سے رحم مادر میں پرورش پانے والے بچوں کو مسائل پیش آ سکتے ہیں جو بچوں کی ذہنی نشوونما کےلیے خطرہ ہیں۔

میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) سے وابستہ اسٹیون بیرٹ کہتے ہیں کہ گزشتہ 5 سے10 برسوں کے اعداد و شمار سے ثابت ہوا ہے کہ فضائی آلودگی سے شرح اموات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

سڑکوں پر رواں دواں، دھواں اڑاتی ہوئی گاڑیاں فضائی آلودگی میں اضافے کا باعث ہیں۔ ہمارے یہاں روش چل پڑی ہے کہ ہر معاملے میں گاڑی کا استعمال کیا جاتا ہے جب کہ ان سڑکوں کے ارد گرد اور درمیان میں سبزہ اور ماحول دوست پودوں کی کمی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں گاڑیوں کی موزوں مینٹی ننس کا نہ ہونا بھی ماحول کی خرابی کا سبب ہے۔


بجلی کی پیداوار کےلیے استعمال کیے جانے والے ذرائع بھی فضائی آلودگی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں جو لوگوں کو وقت سے پہلے ہی موت کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی کی پیداوار کےلیے قابلِ تجدید (رینیوایبل) اور ماحولیاتی طور پر محفوظ ذرائع استعمال کیے جائیں تا کہ ماحولیاتی آلودگی میں کمی واقع ہو۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اس حوالے سے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ سندھ میں جھمپیر کے مقام پر ہوا کے ذریعے بجلی حاصل کرنے کےلیے ایک امریکی ادارے کے تعاون سے منصوبے پر کام کیا جا رہا ہے اور پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں گومل زام ڈیم کے ذریعے بجلی کی پیداوار پر کام شروع کیا جاچکا ہے جو ماحول دوست اقدامات کی کڑی ہے۔

گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے جب کہ سردیوں کا موسم سکڑتا جا رہا ہے۔ موسمی تغیر کے باعث مختلف ممالک میں طوفانی بارشوں، سیلابی ریلوں، سمندری طوفان سے ہونے والے نقصانات میں اضافہ ہو رہا ہے اور کہیں قحط اور خشک سالی کی صورتحال دکھائی دے رہی ہے۔ یہ سب در اصل گلوبل وارمنگ (عالمی تپش) ہی کا نتیجہ ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے زراعت متاثر ہو رہی ہے اور غذا کی قلت بھی بڑھ رہی ہے۔ دوسری جانب صنعتی پیداوار بھی متاثر ہورہی ہے کیوں کہ اکثر اشیا کی تیاری میں خام مال زرعی شعبے سے حاصل ہوتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آب و ہوا کی تبدیلی (کلائمیٹ چینج) سے دنیا کی مجموعی اقتصادی پیداوار میں 1.6 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ کرۂ ارض کے تمام مسائل اور مشکلات کا سب سے بڑا سبب یہاں بسنے والے انسان ہیں۔ سڑکوں پر دھواں اڑاتی گاڑیاں، کارخانوں کی دھواں اگلتی چمنیاں، کیمیکل پلانٹس سے خارج ہوتا زہریلا پانی گرین ہاؤس گیسوں میں اضافے اور اوزون تہہ کی تباہی کی وجہ سے بن رہا ہے۔ علاوہ ازیں بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی کرۂ ارض کے توازن میں بگاڑ کا باعث ہے جب کہ یہی درخت فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو دوبارہ زندگی بخش آکسیجن میں تبدیل کرتے ہیں۔ اب ہمارا بنیادی اور اہم فریضہ ہے کہ ہر شخص اپنی سہولت کے مطابق ایک پودا لگائے جو صدقہ جاریہ کے ساتھ ساتھ فضائی خوشگواری کا ذریعہ بھی ہے۔ پولی تھین بیگز کا استعمال کم سے کم اور ری سائیکلنگ کے قابل اور ری سائیکل کی گئی اشیا کا استعمال زیادہ کیا جائے تا کہ کچرا بننے کے امکانات کم سے کم ہوں۔

آئیے! ہم سب ماحول دوست بنیں، ماحول دشمن نہں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story