میاں نواز شریف کی وطن واپسی

سیاسی جماعتوں کی جانب سے جلسے جلوس اور خود کو مستحکم بنانے کے لیے سیاسی جوڑ توڑ جمہوریت ہی کا ایک حصہ ہے

سیاسی جماعتوں کی جانب سے جلسے جلوس اور خود کو مستحکم بنانے کے لیے سیاسی جوڑ توڑ جمہوریت ہی کا ایک حصہ ہے . فوٹو: فائل

KARACHI:
سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی لندن سے وطن واپسی پر قومی سیاسی ماحول کی گرما گرمی میں مزید تیزی آ گئی جس سے حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین بیان بازی کو مہمیز ملی ہے۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کے علاج کے سلسلے میں 31اگست کو لندن گئے تھے جس پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے یہ قیاس آرائیاں اپنے عروج پر پہنچ گئیں کہ وہ اپنے خلاف مقدمات کا سامنا نہیں کرنا چاہتے لہٰذا اس تناظر میں وہ اب وطن واپس نہیں آئیں گے اور لندن میں بیٹھ کر پارٹی امور چلائیں گے لیکن ان کی اچانک وطن واپسی سے اس نوعیت کی تمام قیاس آرائیاں دم توڑ گئی ہیں۔ اب یہ بات واضح ہے کہ وہ احتساب عدالت میں مقدمات کا سامنا کریں گے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اپنے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے مقدمے کی سماعت کے سلسلے میں پیر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔ ادھر تحریک انصاف کے چیئرمین نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو نیا مینڈیٹ لینے اور قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر دیا ہے جس کی مسلم لیگ ن' پی پی' اے این پی' جے یو آئی ف سمیت دیگر جماعتوں نے بھرپور مخالفت کی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا موقف ہے کہ قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ درست نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کو پانچ سال پورے کرنے چاہئیں تاکہ جمہوری عمل مستحکم ہو۔

سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنی نااہلی کے فیصلے کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ اسی دوران بیگم کلثوم نواز کی علالت کے باعث وہ لندن چلے گئے' بعض مسلم لیگی رہنما میاں نواز شریف کو وطن واپس نہ آنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ اب ان کی وطن واپسی اس امر کا عندیہ ہے کہ وہ اپنی مخالف قوتوں کے سامنے جھکنے یا مفاہمانہ رویہ اختیار کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔ انھوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ ہر محاذ پر ان سے لڑنے کے لیے آمادہ ہیں اور اپنے خلاف دائر کردہ مقدمات کے سلسلے میں بھی عدالتوں کا سامنا کریں گے۔

میاں محمد نواز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا احتساب عدالت میں پیش ہونا مثبت پیش رفت ہے۔ عدالتی فیصلوں پر تنقید کرنا اپنی جگہ لیکن عدالتی فیصلوں کو تسلیم کرنا عدالتی نظام کو مستحکم بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔ میاں محمد نواز شریف اور اسحاق ڈار نے احتساب عدالتوں میں پیش ہو کر مثبت سمت قدم اٹھایا اس سے جہاں عدالتی فیصلوں پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہو گا وہاں ملک میں سیاسی استحکام کو بھی نئی جہت ملے گی۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف' ان کی فیملی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف جو ریفرنسز دائر ہیں ان سے بری ہونے کا سب سے مثبت طریقہ یہی ہے کہ ان قانونی معاملات کو قانونی انداز ہی میں حل کیا جائے اور اسے سیاسی پلیٹ فارم پر متنازع بنانے سے گریز کیا جائے۔


پاکستان اس وقت داخلی اور خارجی سطح پر مشکل حالات سے گزر رہا ہے اس صورت میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی ملکی سیاسی استحکام کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ ان کی رائے ہے اور جمہوریت میں ایسا مطالبہ کرنا غلط بات نہیں تاہم ملک کی دیگر بڑی سیاسی جماعتوں نے ان کے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے موجودہ اسمبلیوں کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کی حمایت کی ہے۔

بہرحال جمہوریت کے استحکام کے لیے سیاستدانوں کو ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے جس سے ملک میں سیاسی انتشار کی کیفیت پیدا ہو۔ قومی انتخابات قریب آ رہے ہیں اور موجودہ حکومت اور اسمبلیوں کی آئینی مدت اگلے سال مئی میں پوری ہو جائے گی اس لیے فہمیدہ حلقوں کے نزدیک اپوزیشن جماعتوں کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے آیندہ انتخابات کے لیے اپنی تیاریاں کرنی چاہئیں۔ ادھر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو تبدیل کرنے کی باتیں بھی منظرعام پر آ رہی ہیں' اگر اپوزیشن جماعتیں نئے قائد کی ضرورت محسوس کرتی ہیں تو انھیں محاذ آرائی سے گریز کرتے ہوئے پارلیمانی اصولوں کے مطابق نئے قائد کا انتخاب کرنا چاہیے۔

سیاسی جماعتوں کی جانب سے جلسے جلوس اور خود کو مستحکم بنانے کے لیے سیاسی جوڑ توڑ جمہوریت ہی کا ایک حصہ ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق ملک بھر میں جلسے کر کے حکومت کے خلاف سیاسی ماحول گرما رہے ہیں تو دوسری جانب پیپلز پارٹی' ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان بڑھتی ہوئی قربتوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔ حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں جمہوریت کی محافظ ہیں انھیں جمہوری روایات کی پاسداری کرتے ہوئے ایسے رویے سے گریز کرنا چاہیے جس سے جمہوریت پٹڑی سے اترنے کے خدشات جنم لیں۔
Load Next Story