شرارتی پطرس سے ملاقات

اردو کے نامور مزاح نگار کا دلچسپ وشگفتہ خاکہ

اردو کے نامور مزاح نگار کا دلچسپ وشگفتہ خاکہ۔ فوٹو: فائل

میری بہن ہنستے ہنستے بے حال ہو کر تخت سے نیچے لڑھک گئی۔''بس کرو اللہ کا واسطہ۔''میں نے کرتے کے دامن سے آنسوپونچھ کر خوشامد سے کہا۔ ہمارے پیٹوں میں مروڑیاں اٹھ رہی تھیں۔ سانس پھول گئی تھی۔ ہنسی چیخوں میں بدل گئی تھی۔

ایسا معلوم ہوتا اگر ہنسی کا یہ زناٹا جاری رہا تو کچھ دیر میں جسم بیچ سے دو ٹکڑے ہوجائے گا۔یہ وہ زمانہ تھا جب بات بات پر ہنستی آتی۔ کوئی پھسل پڑا ہنسی چھوٹ نکلی۔ مرغے نے کتے کے پلے کے ٹھونگ ماردی، وہ پیں پیں کرکے بھاگا اور قہقہوں کا طوفان ٹوٹ پڑا۔

کہیں کس کی اماں نے پوچھ لیا کہ بھئی کیوں ہنس رہی ہیں تو بس پھر ہنسی کا وہ شدید دورہ پڑتا کہ معمولی مار پیٹ سے بجائے قابو میں آنے کے اور بھی تیز ہوجاتا۔ ہنسی آسیب بن کر سوار ہوجاتی۔ ہنس ہنس کر شل ہوجاتی، ہڈیاں چٹخنے لگتیں، جبڑے دکھ جاتے۔کسی صورت افاقہ نہ ہوتے دیکھ کر اماں اپنی چپٹی سلیم شاہی لے کر تل پڑتیں اور ساری ہنسی ناک کے راستے نکال دینے کی دھمکی دیتیں۔ تب ہم ناکیں پونچھتے ،پیٹ پکڑے نیم تلے پڑے اپنے مخصوص جھلنگے میں جا گرتے اور نئے سرے سے ہنسنے لگتے۔

مضامین پطرس پڑھنے کے بعد بھی ہم اسی قسم کی جان لیوا ہنسی کے بھنور میں پھنس گئے۔ ہماری کھی کھی، کھوں کھوں سے بردبار اور غمگین آپا کی سمع خراشی ہونے لگتی۔ پطرس کی باتیں.... جی ہاں انہیں میں باتیں ہی کہوں گی کیونکہ ان کی تحریریں بے ساختہ بولتی تھیں۔ ان میں بڑی یگا نگت اور قربت محسوس ہوتی۔ ''میں ایک میاں ہوں'' ہمارے گھر میں کیری کی چٹنی کی طرح چٹخارے لے کر پڑھا گیا۔ اماں تک نے پڑھ ڈالا اور جب اپنی پلنگڑی پر بیٹھ کروہ ہنسیں تو پان دان کی کلہیاں پھدک پھدک کر آپس میں ٹکرانے لگیں۔برسوں گزر گئے۔ہماری شادی ہو گئی۔

بمبئی میں آئے سال بھر گزرا ہوگا کہ ایک دن ریڈیو اسٹیشن کسی صاحب نے فون کیا کہ بخاری صاحب آج کل بمبئی آئے ہوئے ہیں اور مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ پہلا خیال یہ آیا کہ کوئی بہانہ کردو ں۔ کہہ دوں کہ بیمار ہوں۔ پھر سوچا، یہ کیا حماقت ہے۔ پطرس آئے ہیں یعنی سچ مچ پطرس آئے ہیں اور میں ان سے ملنے جان چرارہی ہوں؟ وہ مجھے قطعی قابل ملاقات سمجھتے ہیں، جب ہی تو بلایا ۔ خیر لنچ کا وعدہ رہا۔

میں نے شاہد سے کوئی ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے بلایا تو شاہد کو بھی تھا لیکن میں نے بہانہ کردیا کہ انہیں قطعی فرصت نہیں۔ دراصل مجھے ضرورت سے زیادہ ذہین اور جملہ باز لوگوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔ ان کی شخصیت مجھے اپنی جانب کھینچتی ہے اور دور بھی دھکیلتی ہے۔ اور پھر پطرس کا مجھ پر ویسے ہی رعب بیٹھا ہوا تھا۔ خواہ مخواہ ان سے مل کر اور احساس کمتری دونا ہوجائے۔ بڑی کوفت ہوئی۔ نہیں جاتی تو نہ جانے پھر کتنا پچھتانا پڑے۔ جاتی ہوں تو اللہ نہ جانے کیسی چوٹیں کریں گے۔ ضرور بدتمیزی پر اترآؤں گی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ شاہد کے سامنے میرا پول کھل جائے۔، وہ فوراً منٹو سے کہہ دیں گے کہ پطرس نے محترمہ کو وہ پٹخنیاں دیں کہ گھگھی بندھ گئی۔

رات بھر میں نے ان تمام جملوں کے جواب سوچے جو وہ کہیں گے اور میں منہ توڑ جواب دوں گی۔ بدقسمتی سے میری ساری محنت رائیگاں گئی۔ پطرس نے وہ سوال ہی نہ کیے۔ اْف میری حماقت!جب ریڈیو اسٹیشن جانے لگی تو دل سے دعا نکلی کاش پطرس بیمار پڑگئے ہوں یا میرے ہی پیٹ میں درد اٹھ جائے۔ پھر میرا چغتائی خون للکارا۔ میرے سکڑدادا نے کھوپڑیوں کا مینار چنوا اس پر بیٹھ کر خاصہ تناول فرمایا تھا اور میں ایک حقیر پطرس کی دہشت میں فنا ہوئی جارہی ہو۔ ایسا بھی کیا ہے؟مگر بسم اللہ ہی غلط ہوئی۔ ریڈیو اسٹیشن کے دفتر میں پہنچی، تو کاغذوں پر سر جھکائے بیٹھے تھے۔''آداب عرض!''

''گڈمارننگ"۔ جواب ملا۔

''اف بور۔'' میں نے سوچا۔ اب فراٹے کی انگلش کا رعب ڈالیں گے۔ وہ جھکے تھے۔ میں نے غور سے معائنہ شروع کیا اور سوچا، صورت تو کچھ زیادہ توپ نہیں۔ سیدھی سادھی سانولی سلونی شکل ہے مگر تصویر سے نہیں ملتی۔ قطعی مختلف!''کتنے دن قیام رہے گا؟'' میں نے انہیں کاغذوں میں لوٹ پوٹ دیکھ کر پوچھا۔ سوچا پہلے بولنا شروع کردوں تو پہلا وار میرا رہے گا۔ مگر دل ڈوبنے لگا کہ پہلا وار نہایت پھسپھسا رہا۔ ضرور اس جملہ پر ہی دھجیاں اڑیں گی۔

''جی؟'' وہ کاغذوں میں سے ابھرے''میرا تبادلہ بمبئی کا ہوگیا ہے۔''

یہ لیجیے، سنا تھا کسی میٹنگ کے سلسلے میں بمبئی آئے ہیں۔ بہت جلد جانے والے ہیں، یہ آخر مجھ سے جھوٹ کیوں بولا؟کوئی اس میں بھی چال ہوگی۔ اس سے قبل کوئی اور سوال جھاڑتی فرمانے لگے ''چلیے۔''میں نے بٹوہ اٹھا کر پیچھے چلتے ہوئے سوچا،خاصا بور ہے۔ یہ دانت کیوں بار بار نکوستا ہے؟ سارا ریڈیو اسٹیشن گھما کر ایک کمرے میں جانے کو کہا۔ سامنے میز پر اونچے کاغذوں کے ڈھیر کے سامنے عقاب کی سی صورت گوراچٹا پٹھان بیٹھا ہوا تھا۔ طوطے جیسی لمبی ناک، بھاری بھاری آنکھیں

''آئیے آئیے ... معاف کیجیے گا ،میری میٹنگ ذرا لمبی کھنچ گئی۔''


''اوہ'' میں نے سانولے سلونے پطرس کے جانے کے بعد کہا''میں سمجھی تھی آپ وہ ہیں۔''

''کیا؟... میں وہ ہوں ...آپ میری ہتک کررہی ہیں۔'' وہ برا مان گئے۔'' وہ لکشمنن ہیں اور میں قطعی وہ نہیں ۔''ایک جھٹکے سے سارا اعصابی دباؤ بھک سے اڑ گیا۔ ایرکنڈیشنڈ کمرے میں یک دم مجھے نیند سی آنے لگی۔ یاخدا ،ناحق میں نے اس شخص کی اپنی جان پر اتنی ہیبت سوار کرلی۔ ایسا معلوم ہوا میں انہیں برسوں سے جانتی ہوں۔ یہ عقاب تو قطعی فاختہ نکلی۔ پھر جو باتوں کا ریلا چلا ہے تو میرا سارا ریہرسل بے کار گیا۔ سارے تراشے ہوئے جملے اڑن چھْو ہوگئے۔ تاج محل ہوٹل پہنچتے پہنچتے دو چار مسائل پر اختلاف بھی ہوگیا ۔میرے خیال میں پطرس کی خاصیت یہی تھی کہ ان سے ملتے ہی برسوں کی ملاقات کا احساس ہونے لگتا ۔ یہ معلوم کر کے حیرت ہوئی اور مسرت بھی کہ انہوں نے اس زمانے کے لکھنے والوں کا ایک ایک لفظ بڑی دل چسپی سے پڑھا اور یاد رکھا تھا۔ انہیں جملے کے جملے ازبر تھے۔ شعر تو میں نے بہت لوگوں کو یاد رکھتے سنا ہے مگر نثر صرف پطرس کی زبان سے اسی طرح سنی۔

باتیں ہو چکیں تو کھانا کھانے تاج محل ہوٹل پہنچے۔وہاں انھوں نے اشارے سے بیرے کو بلایا اوربڑی پریشان صورت بناکر چاروں طرف دیکھا۔

"معاف کیجیے گا۔" پطرس نے بڑے ادب سے مجھ سے معذرت چاہی۔ پھر سرگوشی میں بیرے سے کچھ کہا۔ وہ سرہلا کر کہنے لگا ''صاحب آپ اطمینان رکھو، کسی سے کچھ نہیں کہوں گا۔''بیرے نے ہمت بڑھائی۔

"نہیں اگر کوئی اعتراض ہوتو...''اورپھر سہم کر چاروں طرف دیکھا۔

''آپ بولو صاب۔''

''منیجر صاحب کو تو کچھ نہیں کہو گے؟''

''نہیں صاحب ،مینجر صاحب کو کون بولے گا؟ ... ہم کو بولو کیا کہنا ہے ...''

پطرس نے بڑی شکرگزاری سے اسے دیکھا۔ پھر بالکل کان کے پاس ہونٹ لے جا کر بولے۔''مرغ روسٹ۔''

''مرغ روسٹ؟''بیرا چکرا سا گیا۔

''ہاں اور روٹیاں بھی۔'' بیرامجسم سوال بنا کبھی مجھے اور کبھی انہیں دیکھنے لگا۔

''کسی کو کانوں کان پتا نہ چلے ...جاؤ شاباش۔''

''نہیں صاحب، اطمینان رکھو''... یہ کہہ کر بھونچکا سا بیرا کھانا لینے چلا گیا۔ جاتے جاتے اس نے حیرت زدہ ہو کر پلٹ کر دیکھا جیسے کہتا ہو، دماغ تو سلامت ہے حضور کا؟ پطرس نے نہایت معنی خیز انداز میں آنکھ ماری تو بے چارا گھگیا کر ہنسنے لگا۔اس واقعے سے مجھے معلوم ہوا ،پطرس مزاح نگار ہی نہیں ان کی زندگی میں بھی شرارت اور چلبلا پن ہے۔ زبان میں لطیفے ہیں ، برتاؤ میں ہلکا بھولا پن اور طنز میں تیکھا پن ۔ انہوں نے زندگی کا تنگ و تاریک رخ نہیں دیکھا۔ وہ الجھنوں کا شکار نہیں تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ نئے لکھنے والوں کی تلخی اور جھنجھلاہٹ سے مکدر ہوجاتے۔
Load Next Story