اپوزیشن کی حالت زار

ہماری بڑی سیاسی پارٹیاں دعوے کرتی ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

جمہوری ملکوں میں اپوزیشن کا قیام اس لیے عمل میں لایا جاتا ہے کہ حکمران جماعت یا جماعتوں کو بدعنوانیوں اور بیڈگورننس سے روکا جائے، لیکن پاکستان میں اپوزیشن کا عمومی کردار حکمرانوں کی غلطیوں کی اصلاح کے حوالے سے کم اور حکومتوں کی ''مخالفت برائے مخالفت'' کے حوالے سے زیادہ اہم رہا ہے۔ اس حوالے سے ہم اپوزیشن کی 1977ء کی تحریک کا حوالہ دے سکتے ہیں۔

بھٹو صاحب ایک منتخب وزیر اعظم تھے اور 1977ء میں معینہ وقت سے پہلے انتخابات کروا کر نیا مینڈیٹ لینا چاہتے تھے تاکہ زیادہ بہتر طریقے سے کام کرسکیں لیکن اس وقت کی اپوزیشن کو یہ اعتراض تھا کہ پنجاب کی کچھ سیٹوں پر دھاندلی ہوئی ہے، ہم اس کا ازالہ چاہتے ہیں۔ یہاں تک تو بات درست بھی تھی اور جمہوری قدروں کے مطابق بھی لیکن اس وقت کی اپوزیشن نے اس تحریک کو حکومت ہٹانے کی تحریک میں بدل دیا حالانکہ بھٹو حکومت پر نہ کرپشن کے الزامات تھے نہ کسی قسم کی سنگین بدعنوانیوں کے الزامات تھے لیکن تحریک کا رخ انتخابی دھاندلی سے حکومت ہٹانے کی طرف موڑ دیا گیا۔

بھٹو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے مقبول ترین رہنما تھے بلاشبہ وہ اس ٹریک سے اتر گئے تھے جس کا انھوں نے پارٹی کی تشکیل کے وقت انتخاب کیا تھا لیکن بھٹو یا ان کے خاندان پر کرپشن اور سنگین قسم کی بدعنوانیوں کے الزامات نہ تھے اس حوالے سے انھیں یقین تھا کہ عوام ان کا ساتھ دیں گے لیکن ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ ذوالفقارعلی بھٹو نے عوام سے روٹی کپڑا مکان اور مزدور کسان راج کے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہ کرسکے، عوام ان سے اس لیے بھی ناراض تھے کہ انھوں نے اپنے مخلص اور نظریاتی دوستوں کو دور کرکے جاگیرداروں اور وڈیروں کو اپنے قریب کرلیا تھا۔ عوام کی اس ناراضگی کو بھٹو سمجھ نہ سکے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپوزیشن انھیں اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہوگئی، یہی نہیں بلکہ انھیں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔ عوام خاموش رہے۔

اس وقت سارا ملک ایک غیر یقینی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ ملک کے وزیر اعظم اور ان کے خاندان پر کیس چل رہے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ نے وزیر اعظم کو نااہل قرار دے کر وزارت عظمیٰ کے عہدے سے الگ کردیا ہے عدلیہ نے انھیں اپنی پارٹی کی صدارت کے عہدے سے بھی الگ کردیا تھا لیکن بڑے جتن کرکے انھوں نے پارٹی کی صدارت کا عہدہ بچالیا۔

اب تازہ صورت حال یہ ہے کہ ان کے سمدھی وزیر خزانہ اسحق ڈار پر اپنی انکم سے زیادہ دولت اور اثاثے رکھنے کے الزام میں فرد جرم لگا دی گئی ہے میاں صاحب کے بیٹوں، بیٹی اور داماد کے خلاف بھی وارنٹ نکالے گئے ہیں، لیکن سابق وزیر اعظم اور ان کے وزرا اپنے خلاف فیصلوں کو سازش کا نام دے کر اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔


اپنی ہی پارٹی کے ایک وزیر شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بناکر اس خلا کو پورا کردیا گیا ہے جو میاں صاحب کی نااہلی سے پیدا ہوا تھا۔ گلشن کا کاروبار چل رہا ہے لیکن عوام بھٹو دور کے عوام سے زیادہ مشکلات کا شکار ہیں۔ نچلی سطح سے اوپر کی سطح تک ملک کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے۔ قومی اداروں پر اربوں کی کرپشن کے الزامات ہیں، بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ سے عوام بے زار ہیں، مہنگائی اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہے، ٹماٹر دو سو روپے کلو اور پیاز ستر روپے کلو فروخت ہو رہے ہیں۔ کراچی کچرے کے ڈھیر میں بدل گیا ہے سارا شہر سیوریج کے گندے پانی سے اٹا ہوا ہے۔ پینے کے پانی میں گٹر کا پانی شامل ہو رہا ہے۔ اسٹریٹ کرائم کا حال یہ ہے کہ کوئی علاقہ کوئی گلی ان سے محفوظ نہیں۔ بینک ڈکیتیاں عام ہیں۔ دہشتگردی کم ہے لیکن عوام خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ میڈیا پر کرپشن کی داستانیں گونج رہی ہیں۔

امریکی صدر پاکستان کو کھلی دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر پاکستان نے دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو ختم نہ کیا تو پھر یہ ذمے داری ہم ادا کریں گے۔ روس، چین جیسے دوست ممالک بھی پاکستان پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ دہشتگردوں کے اڈے ختم کرنے کی ذمے داری پوری نہیں کر رہا ہے۔ افغانستان الزام لگا رہا ہے کہ افغانستان میں دہشتگردی پاکستان کی ایما پر ہو رہی ہے۔ بھارت ساری دنیا میں پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ کشمیر میں ہونے والی خون آشام جدوجہد میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔ یہ ہے وہ خطرناک منظرنامہ جو ہمارے حکمران طبقات کی بداعمالیوں اور خارجی سیاست کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہر طرف ایک انتشار اور خوف کی فضا طاری ہے۔

ان حالات کا تقاضا تھا کہ ملک کی اپوزیشن ان بدترین حالات سے نکلنے کے لیے یا ملک کو ان بدترین حالات سے نکالنے کے لیے کسی متفقہ لائحہ عمل پر متحد ہوتی لیکن ہو یہ رہا ہے کہ اپوزیشن کا چولا اوڑھے ہوئے کچھ جماعتیں اندر سے حکومت سے ملی ہوئی ہیں۔ دعوے یہ کیے جا رہے ہیں کہ حکمرانوں کا سخت احتساب ہوگا اور حکومت کے خلاف تیز بیانات کی بمباری کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن اصل مقصد حصول اقتدار یا اقتدار میں حصہ بقدر جثہ ہے۔ بے چارے عوام ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔

ہماری بڑی سیاسی پارٹیاں دعوے کرتی ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں، عوام جمہوریت کے ساتھ ہیں اگر جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو عوام سڑکوں پر آجائیں گے لیکن ہمارے عوام دوست سیاسی رہنما یہ نہیں جانتے کہ عوام کے سروں پر جمہوری حکمرانوں نے اتنے مسائل لاد دیے ہیں کہ ان کا سانس لینا بھی مشکل ہوگیا ہے اور ان کی ہر سانس کے ساتھ ان کے مسائل کے ذمے داروں کے خلاف بددعائیں نکلتی ہیں۔کیا ایسے ستم رسیدہ عوام ان لوگوں کے ساتھ ہو سکتے ہیں جو ان کے مسائل کے ذمے دار ہیں؟ کیا اس ملک کے عوام اس اشرافیائی جمہوریت کو بچانے کے لیے سڑکوں پر آئیں گے جو کرپشن میں سر سے پاؤں تک لتھڑی ہوئی ہے اور اربوں کھربوں کی کرپشن کے گھنگھرو پیروں میں باندھ کر ٹی وی کی اسکرینوں اور اخبارات کے صفحات پر ناچ رہی ہے؟

ہم نے بات شروع کی تھی جمہوری ملکوں میں اپوزیشن کے کردار سے، اسی حوالے سے حقیقت یہ ہے کہ ہماری اپوزیشن میں شامل جماعتوں میں سے ہر جماعت کا رخ دوسری جماعت کی طرف ہے۔ آپس میں عدم اعتماد کا عالم یہ ہے کہ ایک جماعت دوسری پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جماعتوں کے اندر کسی کا ایک دوسرے پر اعتماد نہیں ہر محترم و مکرم کا آخری اور پہلا مقصد بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا ہے۔ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لالچیوں نے بہتی گنگا میں اس طرح نہانا شروع کیا کہ قانون اور انصاف کے اداروں کو بھی آنکھیں ملتے ہوئے اٹھنا پڑا۔

ہمارے کپتان پر لوگوں کا اعتماد نسبتاً اس لیے زیادہ ہے کہ کپتان کرپشن کی گنگا اقتدار سے اب تک دور ہیں لیکن ان کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ وہ اہم قومی مسائل اور ان کی ترجیحات کا تعین نہیں کر پاتے اور کون سا قدم کب اٹھانا چاہیے اس جھنجھٹ میں پڑنا نہیں چاہتے۔ بیٹھے بیٹھے انھوں نے اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کا مسئلہ کھڑا کردیا اور دیگر جماعتوں کو اعتماد میں لیے بغیر بطور اپوزیشن لیڈر شاہ محمود قریشی کو آگے بڑھا دیا۔ اس فیصلے کے خلاف اپوزیشن کی جماعتوں نے ہی تحفظات کا اظہار نہیں کیا بلکہ خود ان کی پارٹی میں دو دھڑے بن گئے۔ ان سارے اقدامات کے پیچھے یا تو ناتجربہ کاری ہے یا ذاتی اور جماعتی مفادات ہیں۔ ایسے ملک میں عوامی جمہوریت کا گزر کہاں یہاں تو اشرافیائی جمہوریت بھی کان پکڑے کھڑی ہے اور یہ بس اس لیے ہو رہا ہے کہ عوام نیند میں مگن ہیں۔
Load Next Story