لازمی اور مفت تعلیم کا جھانسہ
ہو سکتا ہے سندھ کی حکومت نیک نیتی ہی سے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنا چاہتی ہو
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com
حکومت سندھ نے پانچ سے سولہ سال کے بچوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کا ایک قانون منظور کیا ہے ۔ 1973ء کے آئین کی دفعہ نمبر 25A کے تحت 5 سال سے 16 سال کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنا حکومتوں کی ذمے داری ہے اور اگر کوئی حکومت یہ ذمے داری پوری کرتی ہے تو وہ اپنا فرض ادا کرتی ہے، جس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ لیکن عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال بہرحال پیدا ہوتا ہے کہ جس آئین کے حوالے سے یہ ذمے داری پوری کی جا رہی ہے اسے نافذ ہوئے اب 42 سال ہو رہے ہیں اس دوران کئی جمہوری حکومتیں آئیں اور رخصت ہوئیں، خود پیپلز پارٹی چوتھی بار حکومت کر رہی ہے، پھر اسے آج تک اس اہم ترین قومی مسئلے پر عملدرآمد کا خیال کیوں نہیں آیا؟ دوسری سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں پیپلز پارٹی ملک میں غریب عوام کے مسائل حل کرنے کی بڑی دعویدار ہے بلکہ اس پارٹی کے بانی بھٹو مرحوم تو اس ملک میں مزدور کسان راج لانے کے دعوے کرتے رہے ہیں، لیکن نہ ان کے زمانے میں اس اہم ترین مسئلے پر سنجیدگی سے غور کیا گیا، نہ بے نظیر کے دو ادوار حکومت میں آئین کی اس دفعہ پر عملدرآمد کی کوشش کی گئی، نہ زرداری حکومت نے اپنے تقریباً پانچ سالہ دور میں کبھی اس اہم ترین قومی مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی زحمت کی۔ اب جب کہ اس حکومت کو ختم ہونے میں ایک ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے، آئین کی اس انتہائی اہم دفعہ پر عمل درآمد کی بات کی جا رہی ہے۔
ہو سکتا ہے سندھ کی حکومت نیک نیتی ہی سے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنا چاہتی ہو لیکن انتخابات سے کچھ عرصہ قبل وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے عوامی بھلائی کے جو کام دھڑا دھڑ ہو رہے ہیں انھیں اس ملک کا ایک عام ناخواندہ شہری بھی الیکشن مہم کا حصہ سمجھ رہا ہے، جن میں خلوص کا کوئی پہلو نظر آتا ہے نہ ایمانداری کی کوئی رمق نظر آتی ہے۔ پنجاب حکومت ہزاروں کی تعداد میں لیپ ٹاپ بانٹ رہی ہے، دانش اسکول کھول کر اپنی سیاسی دانش کا مظاہرہ کر رہی ہے اور میٹرو بس چلا کر لاہور کے عوام کا دل جیتنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ہماری وفاقی اور سندھ کی صوبائی حکومت کی جانب سے میڈیا میں ترقیاتی پروگراموں کے اشتہاروں کی بھرمار ہے اس اشتہاری مہم پر جتنا سرمایہ خرچ کیا جا رہا ہے شاید اتنا سرمایہ ان پروگراموں پر بھی نہ خرچ کیا گیا ہو جن کی اتنے بڑے پیمانے پر تشہیر کی جا رہی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس پروگرام پر 70 ارب سے زیادہ رقم خرچ کی گئی اور کئی ایسے پروگراموں کی تشہیر کا سلسلہ جاری ہے جس کے فوائد کا بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ سندھ کی حکومت کی طرف سے کسانوں اور ہاریوں میں لاکھوں ایکڑ زمین مفت بانٹنے کی خبریں بھی تواتر کے ساتھ میڈیا میں گردش کر رہی ہیں۔ اب تازہ اصلاحات کے مطابق 27 ہزار رہائشی پلاٹ ''عوام'' میں بانٹے گئے ہیں جس کی تحقیقات کی خبریں بھی میڈیا میں آ رہی ہیں۔
پنجاب وفاق اور سندھ کی ان ''عوامی خدمات'' کو دیکھ کر ہمارے صوبہ پختونخوا کی حکومت کے دل میں بھی اس مقابلے میں حصہ لینے کا درد جاگا ہے وہ بھی غریب نوجوانوں میں ہزاروں کی تعداد میں لیپ ٹاپ بانٹنے کے اعلان کر رہی ہے، رہ گیا غریب بلوچستان تو وہاں کے حکمران بے چارے سڑکوں پر رکھی اور سڑکوں پر بکھری لاشوں سے اس قدر پریشان ہیں کہ انھیں کسی ترقیاتی کام کی طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ جنوری میں جب شیعہ کمیونٹی 86 تابوت لے کر عملدار روڈ پر بیٹھی تھی تو اس وقت صوبے کے محترم وزیر اعلیٰ ایک مغربی ملک میں سیر فرما رہے تھے، جب ان کی توجہ علمدار روڈ پر رکھے 86 جنازوں کی طرف دلوا کر انھیں فوری کوئٹہ پہنچنے کا مشورہ دیا گیا تو نواب رئیسانی نے فرمایا کہ میں نے ہوٹل کا کرایہ ایڈوانس دیا ہے جب تک میں اس کرائے سے مستفید نہ ہوں کیسے کوئٹہ جا سکتا ہوں۔ اسی جذبہ خدمت اور میڈیا کی چیخ و پکار کی وجہ سے سردار صاحب کی وزارت اعلیٰ گئی اور صوبے میں گورنر راج نافذ ہوا۔ پنجاب وفاق سندھ اور پختونخوا میں جو اربوں کھربوں کے عوامی فلاح کے کام ہو رہے ہیں وہ سب عوام کے پیسے سے یا ان غیر ملکی قرضوں اور امداد سے ہو رہے ہیں جو عوام کی فلاح کے لیے فراہم کیے جا رہے ہیں، لیکن ان پروگراموں کی تشہیر اس طرح کی جا رہی ہے کہ یہ سارے پروگرام حکمرانوں کی جیب سے مکمل کیے جا رہے ہیں اور ان اشتہاری مہموں میں حکمران خاندانوں کی بڑی بڑی تصاویر لگا کر اس تاثر کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔
کوئی بھی حکومت عوام کی بھلائی کے کام کرتی ہے تو اس پر اعتراض کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں رہتا، لیکن عین انتخابات کے موقع پر عوامی بھلائی کا ریلا آ جاتا ہے اور حکمرانوں کے دلوں میں عوامی خدمت کا درد جاگتا ہے تو عوام یہ سوچنے میں حق بجانب نظر آتے ہیں کہ ان فلاحی کاموں میں نہ خلوص ہے نہ ایماندار ی نہ سچائی بلکہ یہ سارے ڈرامے انتخابی مہم کا حصہ ہیں جن کا مقصد عوام کو بے وقوف بنا کر ان کی حمایت حاصل کرنا ہے۔ آج کل میڈیا میں ہنگامی بنیاد پر بیورو کریسی کے تبادلوں اور تقرریوں کی خبریں بھی عام ہورہی ہیں اس حوالے سے دنیا کے 36 ملکوں میں 40 سفارتکاروں کی ہنگامی بنیاد پر تعیناتی بھی قابل ذکر ہے۔ سندھ میں جو بڑے پیمانے پر سیاسی الٹ پھیر ہو رہی ہے وہ کس قدر خطرناک راہوں پر جائے گی فی الوقت ہمارا زیر بحث موضوع بچوں کی مفت اور لازمی تعلیم ہے۔
بچوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کا تعلق براہ راست ملک کے مستقبل کی سیاست میں غریب طبقات کی ممکنہ شمولیت سے ہے، لیکن بچوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم اس وقت تک ایک پروپیگنڈے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی جب تک ہمارے ملک میں رائج دہرا نظام تعلیم مسلط ہے، وہ ہماری وڈیرہ شاہی جمہوریت کے مفادات سے تو مطابقت رکھتا ہے، لیکن اس نظام تعلیم کے ذریعے ایک طویل بلکہ نامعلوم عرصے تک غریب طبقات مڈل اور لوئر مڈل کلاس کو ملک کے اعلیٰ انتظامی عہدوں اور اقتدار تک رسائی سے محروم کر دیا گیا ہے۔ غریب کے بچوں کو تو چھوڑیئے، مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے بچے بھی وی آئی پی تعلیمی اداروں میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کو لالی پاپ دینے کے لیے جگہ جگہ انگلش اسکولوں کی دکانیں کھول دی گئی ہیں جہاں میٹرک اور انٹر پاس بے روزگار لڑکوں اور لڑکیوں کو ٹیچر رکھا جاتا ہے اور انگلش میڈیم کے نام پر غریب طبقات سے ہزاروں روپے ماہانہ فیس وصول کی جاتی ہے یہ ایک ایسا کھلا فراڈ ہے جس کا نوٹس کوئی حکومت اس لیے نہیں لیتی کہ اس فراڈ سے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی تشفی بھی ہو جاتی ہے اور اس ملک کی خود غرض اشرافیہ کے مقاصد بھی پورے ہو جاتے ہیں، اس فراڈ نظام میں مفت اور لازمی تعلیم سب سے بڑا فراڈ ہی نظر آتا ہے۔
غریب طبقات کے لیے جو لال پیلے سرکاری اسکول موجود ہیں ان ہی اسکولوں میں مفت اور لازمی تعلیم پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ ویسے بھی پہلے ہی سے ان اسکولوں میںنہ صرف مفت تعلیم کی سہولت موجود ہے بلکہ کورس بھی مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ مفت تعلیم مفت کتابیں بچوں کو عموماً پرائمری سے آگے نہیں لے جاتیں اگر بچہ تعلیم سے دلچسپی رکھنے والا ہو تو وہ سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری تک بھی چلا جائے گا، لیکن نہ وہ اے لیول تک جائے گا نہ او لیول تک۔ کیونکہ یہ لیول اسے سوٹ ہی نہیں کرتا، اس انتہائی بدترین دہرے نظام کی موجودگی میں مفت اور لازمی تعلیم کا نفاذ ایک پروپیگنڈے اور فراڈ کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اصل مسئلہ اس دہرے نظام تعلیم کو ختم کر کے سارے ملک میں ایک جیسا ایسا نظام تعلیم کا نفاذ ضروری ہے جو مفت بھی ہو، لازمی بھی اور جو طلباء کو بلاامتیاز O اور A لیول تک جانے اور اعلیٰ ترین ڈگریوں تک پہنچنے کی سہولت فراہم کرے، کیا اس قسم کا نظام اس وڈیرہ شاہی جمہوریت میں ممکن نہیں؟ نہیں ہر گز نہیں، ایسے نظام کے نفاذ کے لیے اس منافقتی امتیازی اور اشرافیائی نظام حکمرانی کا مکمل خاتمہ ضروری ہے اور اس کے لیے ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کو رعایا سے با اختیار اور طاقت کا سر چشمہ بننا پڑے گا۔
ہو سکتا ہے سندھ کی حکومت نیک نیتی ہی سے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنا چاہتی ہو لیکن انتخابات سے کچھ عرصہ قبل وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے عوامی بھلائی کے جو کام دھڑا دھڑ ہو رہے ہیں انھیں اس ملک کا ایک عام ناخواندہ شہری بھی الیکشن مہم کا حصہ سمجھ رہا ہے، جن میں خلوص کا کوئی پہلو نظر آتا ہے نہ ایمانداری کی کوئی رمق نظر آتی ہے۔ پنجاب حکومت ہزاروں کی تعداد میں لیپ ٹاپ بانٹ رہی ہے، دانش اسکول کھول کر اپنی سیاسی دانش کا مظاہرہ کر رہی ہے اور میٹرو بس چلا کر لاہور کے عوام کا دل جیتنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ہماری وفاقی اور سندھ کی صوبائی حکومت کی جانب سے میڈیا میں ترقیاتی پروگراموں کے اشتہاروں کی بھرمار ہے اس اشتہاری مہم پر جتنا سرمایہ خرچ کیا جا رہا ہے شاید اتنا سرمایہ ان پروگراموں پر بھی نہ خرچ کیا گیا ہو جن کی اتنے بڑے پیمانے پر تشہیر کی جا رہی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس پروگرام پر 70 ارب سے زیادہ رقم خرچ کی گئی اور کئی ایسے پروگراموں کی تشہیر کا سلسلہ جاری ہے جس کے فوائد کا بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ سندھ کی حکومت کی طرف سے کسانوں اور ہاریوں میں لاکھوں ایکڑ زمین مفت بانٹنے کی خبریں بھی تواتر کے ساتھ میڈیا میں گردش کر رہی ہیں۔ اب تازہ اصلاحات کے مطابق 27 ہزار رہائشی پلاٹ ''عوام'' میں بانٹے گئے ہیں جس کی تحقیقات کی خبریں بھی میڈیا میں آ رہی ہیں۔
پنجاب وفاق اور سندھ کی ان ''عوامی خدمات'' کو دیکھ کر ہمارے صوبہ پختونخوا کی حکومت کے دل میں بھی اس مقابلے میں حصہ لینے کا درد جاگا ہے وہ بھی غریب نوجوانوں میں ہزاروں کی تعداد میں لیپ ٹاپ بانٹنے کے اعلان کر رہی ہے، رہ گیا غریب بلوچستان تو وہاں کے حکمران بے چارے سڑکوں پر رکھی اور سڑکوں پر بکھری لاشوں سے اس قدر پریشان ہیں کہ انھیں کسی ترقیاتی کام کی طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ جنوری میں جب شیعہ کمیونٹی 86 تابوت لے کر عملدار روڈ پر بیٹھی تھی تو اس وقت صوبے کے محترم وزیر اعلیٰ ایک مغربی ملک میں سیر فرما رہے تھے، جب ان کی توجہ علمدار روڈ پر رکھے 86 جنازوں کی طرف دلوا کر انھیں فوری کوئٹہ پہنچنے کا مشورہ دیا گیا تو نواب رئیسانی نے فرمایا کہ میں نے ہوٹل کا کرایہ ایڈوانس دیا ہے جب تک میں اس کرائے سے مستفید نہ ہوں کیسے کوئٹہ جا سکتا ہوں۔ اسی جذبہ خدمت اور میڈیا کی چیخ و پکار کی وجہ سے سردار صاحب کی وزارت اعلیٰ گئی اور صوبے میں گورنر راج نافذ ہوا۔ پنجاب وفاق سندھ اور پختونخوا میں جو اربوں کھربوں کے عوامی فلاح کے کام ہو رہے ہیں وہ سب عوام کے پیسے سے یا ان غیر ملکی قرضوں اور امداد سے ہو رہے ہیں جو عوام کی فلاح کے لیے فراہم کیے جا رہے ہیں، لیکن ان پروگراموں کی تشہیر اس طرح کی جا رہی ہے کہ یہ سارے پروگرام حکمرانوں کی جیب سے مکمل کیے جا رہے ہیں اور ان اشتہاری مہموں میں حکمران خاندانوں کی بڑی بڑی تصاویر لگا کر اس تاثر کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔
کوئی بھی حکومت عوام کی بھلائی کے کام کرتی ہے تو اس پر اعتراض کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں رہتا، لیکن عین انتخابات کے موقع پر عوامی بھلائی کا ریلا آ جاتا ہے اور حکمرانوں کے دلوں میں عوامی خدمت کا درد جاگتا ہے تو عوام یہ سوچنے میں حق بجانب نظر آتے ہیں کہ ان فلاحی کاموں میں نہ خلوص ہے نہ ایماندار ی نہ سچائی بلکہ یہ سارے ڈرامے انتخابی مہم کا حصہ ہیں جن کا مقصد عوام کو بے وقوف بنا کر ان کی حمایت حاصل کرنا ہے۔ آج کل میڈیا میں ہنگامی بنیاد پر بیورو کریسی کے تبادلوں اور تقرریوں کی خبریں بھی عام ہورہی ہیں اس حوالے سے دنیا کے 36 ملکوں میں 40 سفارتکاروں کی ہنگامی بنیاد پر تعیناتی بھی قابل ذکر ہے۔ سندھ میں جو بڑے پیمانے پر سیاسی الٹ پھیر ہو رہی ہے وہ کس قدر خطرناک راہوں پر جائے گی فی الوقت ہمارا زیر بحث موضوع بچوں کی مفت اور لازمی تعلیم ہے۔
بچوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کا تعلق براہ راست ملک کے مستقبل کی سیاست میں غریب طبقات کی ممکنہ شمولیت سے ہے، لیکن بچوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم اس وقت تک ایک پروپیگنڈے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی جب تک ہمارے ملک میں رائج دہرا نظام تعلیم مسلط ہے، وہ ہماری وڈیرہ شاہی جمہوریت کے مفادات سے تو مطابقت رکھتا ہے، لیکن اس نظام تعلیم کے ذریعے ایک طویل بلکہ نامعلوم عرصے تک غریب طبقات مڈل اور لوئر مڈل کلاس کو ملک کے اعلیٰ انتظامی عہدوں اور اقتدار تک رسائی سے محروم کر دیا گیا ہے۔ غریب کے بچوں کو تو چھوڑیئے، مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے بچے بھی وی آئی پی تعلیمی اداروں میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کو لالی پاپ دینے کے لیے جگہ جگہ انگلش اسکولوں کی دکانیں کھول دی گئی ہیں جہاں میٹرک اور انٹر پاس بے روزگار لڑکوں اور لڑکیوں کو ٹیچر رکھا جاتا ہے اور انگلش میڈیم کے نام پر غریب طبقات سے ہزاروں روپے ماہانہ فیس وصول کی جاتی ہے یہ ایک ایسا کھلا فراڈ ہے جس کا نوٹس کوئی حکومت اس لیے نہیں لیتی کہ اس فراڈ سے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی تشفی بھی ہو جاتی ہے اور اس ملک کی خود غرض اشرافیہ کے مقاصد بھی پورے ہو جاتے ہیں، اس فراڈ نظام میں مفت اور لازمی تعلیم سب سے بڑا فراڈ ہی نظر آتا ہے۔
غریب طبقات کے لیے جو لال پیلے سرکاری اسکول موجود ہیں ان ہی اسکولوں میں مفت اور لازمی تعلیم پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ ویسے بھی پہلے ہی سے ان اسکولوں میںنہ صرف مفت تعلیم کی سہولت موجود ہے بلکہ کورس بھی مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ مفت تعلیم مفت کتابیں بچوں کو عموماً پرائمری سے آگے نہیں لے جاتیں اگر بچہ تعلیم سے دلچسپی رکھنے والا ہو تو وہ سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری تک بھی چلا جائے گا، لیکن نہ وہ اے لیول تک جائے گا نہ او لیول تک۔ کیونکہ یہ لیول اسے سوٹ ہی نہیں کرتا، اس انتہائی بدترین دہرے نظام کی موجودگی میں مفت اور لازمی تعلیم کا نفاذ ایک پروپیگنڈے اور فراڈ کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اصل مسئلہ اس دہرے نظام تعلیم کو ختم کر کے سارے ملک میں ایک جیسا ایسا نظام تعلیم کا نفاذ ضروری ہے جو مفت بھی ہو، لازمی بھی اور جو طلباء کو بلاامتیاز O اور A لیول تک جانے اور اعلیٰ ترین ڈگریوں تک پہنچنے کی سہولت فراہم کرے، کیا اس قسم کا نظام اس وڈیرہ شاہی جمہوریت میں ممکن نہیں؟ نہیں ہر گز نہیں، ایسے نظام کے نفاذ کے لیے اس منافقتی امتیازی اور اشرافیائی نظام حکمرانی کا مکمل خاتمہ ضروری ہے اور اس کے لیے ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کو رعایا سے با اختیار اور طاقت کا سر چشمہ بننا پڑے گا۔