آہ۔۔۔۔
طالب علمی کے زمانے میں کلیمی سے قربت کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ پیرالٰہی بخش کالونی میں رہتے تھے
HYDERABAD:
یوں تو بات چلتی ہے عزیز حامد مدنی، سلیم احمد، مجتبیٰ حسین، حنیف اسعدی، ممتاز حسین، قمر جمیل، رضی اختر شوق، محسن بھوپالی، سرور بارہ بنکوی، رئیس فروغ، عبیداللہ علیم، جون ایلیا، س م سوات اور شمیم رومانی سے، لیکن حال ہی میں انور احسن صدیقی، سیف الرحمن گرامی اور محمد علی صدیقی کے داغ مفارقت تازہ ہی تھے کہ یار عزیز، ندیم دیرینہ رسول احمد کلیمی کی سنائونی آگئی، گویا
تھا جن کو جن کو عشق کا آزار، مرگئے
اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار ہوگئے
ادھر میں بھی موت کی دہلیز کو چھوڑ کر واپس آیا ہوں، معلوم نہیں کب تک کے لیے۔ ورنہ ایک اچھی خاصی محفل عالم بالا میں بھی برپا رہتی۔
رسول احمد کلیمی 1954-55 سے میرے دوست تھے۔ اسکول اور کالج میں ہم ایک ساتھ تھے۔ بی ایس سی تک ہمارے ہم جماعتوں میں امیر جماعت اسلامی کے سید منور حسن، عقیل دانش، ڈاکٹر جعفر حلیم، مسرور علی خاں، نفیس صدیقی، اعجاز محمود شامل تھے۔ کلیمی سے اسکول اور کالج کے رسمی ماحول سے ہٹ کر ایسی دوستی ہوئی کہ شاید وباید۔ ادھر چند سال سے وہ کینیڈا میں سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ ان سے رابطہ آخر وقت تک قائم رہا۔ میں نے اپنا سفری مجموعہ ''خدا سے بات کرتے ہیں'' اور نثر کی کتاب ''فیض کے آس پاس'' انھیں بھجوائی تو ٹیلی فون پر بہت دیر تک اپنی رائے کا اظہار مختلف زاویوں سے کرتے رہے۔
طالب علمی کے زمانے میں کلیمی سے قربت کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ پیرالٰہی بخش کالونی میں رہتے تھے اور میرا قیام بھی وہیں تھا، دوسرے سائنس کے علاوہ ادب، تاریخ، فلسفہ اور طنز و مزاح کے موضوعات مشترک حیثیت رکھتے تھے۔ کلیمی نے طالب علم کے دور سے ہی لکھنے کا شعبہ بھی سنبھال لیا تھا۔ جون ایلیا ہمارے مشترک دوست تھے، ان کے ماہ نامے ''انشاء'' کے لیے کلیمی نے بھی ایک دو مضامین لکھے، لیکن اس وقت ان کا قلمی نام ندیم انصاری تھا۔
کلیمی کی ابتدائی زندگی غیر معمولی جدوجہد سے عبارت رہی، وہ اپنے پیشے کے علاوہ معاشرے میں جس مقام تک پہنچے اس میں ان کی انتھک محنت، اعتماد اور ذہانت کا دخل تھا۔ بی ایس سی تک ہم ساتھ رہے پھر وہ انجینئرنگ کی طرف متوجہ ہوگئے اور میں انگلش میں ایم اے کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا ، یعنی
ما و مجنوں ہم سبق بودیم در دیوان عشق
اور بہ صحرا رفت وما در کوچہ ہارسوا ئدیم
اس زمانے میں اپنے کالم کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کلیمی ریڈیو پاکستان میں یاور مہدی کے ساتھ پروگرام کرنے لگے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ روزنامہ حریت میں نئی نسل کے حوالے سے کالم بھی لکھنے لگے۔ اس وقت وہ ندیم انصاری کے بجائے رسول احمد کلیمی ہوگئے۔ اس زمانے میں مولانا حسن مثنیٰ ندوی اور اے آر ممتاز نے کلیمی کی تحریروں کو بطور خاص سراہا۔ کلیمی میں ایک خاص نوع کا حس مزاح تھا جو ان کی قلمی کاوشوں میں نمایاں رہتا تھا، کئی دفعہ تو انھوں نے سوچا کہ سنجیدگی سے طنزومزاح کو اپنالیں، لیکن ان کی پیشہ ورانہ ذمے داریاں آڑے آتی رہیں۔
بی ای اور ایم بی اے کرنے کے بعد کلیمی چند سرکاری محکموں سے وابستہ رہے لیکن جلد ہی ان کا تقرر نیشنل بینک آف پاکستان میں ہوگیا اور وہ ترقی کرتے کرتے ایس ای وی پی کے اعلیٰ عہدے تک پہنچ گئے۔ درمیانی عرصے میں وہ سعودی عرب کے بینک الجزیرہ میں بھی ذمے دار عہدے پر رہے۔ کچھ عرصہ سوڈان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ضمن میں کام کیا۔ اس زمانے میں جامعہ کراچی کے بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ پروفیسر علی احسن بھی ان کے ہمراہ تھے۔
کلیمی نثر کے علاوہ شاعری پر بھی توجہ دیتے تھے، لیکن ان کے اس رجحان کو اس وقت زیادہ تقویت ملی جب وہ جدہ میں فرائض منصبی ادا کر رہے تھے، خصوصاً مصلح الدین سعدی کی رفاقت ان کے تخلیقی کام میں مہمیز کا زاویہ مہیا کرتی رہی۔ کراچی آنے کے بعد ان کا شعری مجموعہ ''ہوائے دشت'' بہت اہتمام سے شائع ہوا۔
کینیڈا جانے سے قبل کلیمی نے خیابان سحر (DHA) میں بڑے ذوق و شوق سے عمدہ مکان تعمیر کروایا تھا، تاہم اس سے قبل وہ کئی سال تک فیڈرل بی ایریا میں رہے۔ یہاں قرب مکانی کی وجہ سے سلیم احمد سے گہرے مراسم ہوگئے۔ سلیم احمد کی قیام گاہ پر ہر مہینے کی سنجیدہ ادبی محفل ہوتی تھی جس میں مکالمے پر خصوصی زور دیا جاتا تھا۔ اس میں کلیمی پابندی سے شریک ہوتے تھے۔
ادھر ایک لمبے وقفے کے بعد انھوں نے ''روزنامہ ایکسپریس'' میں کالم نویسی کا آغاز کیا تھا۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ کراچی میں ایک فلیٹ لے کر موسم سرما یہاں گزارا کریں گے اور علمی ادبی کاموں پر زیادہ توجہ دیں گے، لیکن بہ قول غالب:
کسے خبر ہے کہ واں جنبش قلم کیا ہے
یوں تو بات چلتی ہے عزیز حامد مدنی، سلیم احمد، مجتبیٰ حسین، حنیف اسعدی، ممتاز حسین، قمر جمیل، رضی اختر شوق، محسن بھوپالی، سرور بارہ بنکوی، رئیس فروغ، عبیداللہ علیم، جون ایلیا، س م سوات اور شمیم رومانی سے، لیکن حال ہی میں انور احسن صدیقی، سیف الرحمن گرامی اور محمد علی صدیقی کے داغ مفارقت تازہ ہی تھے کہ یار عزیز، ندیم دیرینہ رسول احمد کلیمی کی سنائونی آگئی، گویا
تھا جن کو جن کو عشق کا آزار، مرگئے
اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار ہوگئے
ادھر میں بھی موت کی دہلیز کو چھوڑ کر واپس آیا ہوں، معلوم نہیں کب تک کے لیے۔ ورنہ ایک اچھی خاصی محفل عالم بالا میں بھی برپا رہتی۔
رسول احمد کلیمی 1954-55 سے میرے دوست تھے۔ اسکول اور کالج میں ہم ایک ساتھ تھے۔ بی ایس سی تک ہمارے ہم جماعتوں میں امیر جماعت اسلامی کے سید منور حسن، عقیل دانش، ڈاکٹر جعفر حلیم، مسرور علی خاں، نفیس صدیقی، اعجاز محمود شامل تھے۔ کلیمی سے اسکول اور کالج کے رسمی ماحول سے ہٹ کر ایسی دوستی ہوئی کہ شاید وباید۔ ادھر چند سال سے وہ کینیڈا میں سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ ان سے رابطہ آخر وقت تک قائم رہا۔ میں نے اپنا سفری مجموعہ ''خدا سے بات کرتے ہیں'' اور نثر کی کتاب ''فیض کے آس پاس'' انھیں بھجوائی تو ٹیلی فون پر بہت دیر تک اپنی رائے کا اظہار مختلف زاویوں سے کرتے رہے۔
طالب علمی کے زمانے میں کلیمی سے قربت کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ پیرالٰہی بخش کالونی میں رہتے تھے اور میرا قیام بھی وہیں تھا، دوسرے سائنس کے علاوہ ادب، تاریخ، فلسفہ اور طنز و مزاح کے موضوعات مشترک حیثیت رکھتے تھے۔ کلیمی نے طالب علم کے دور سے ہی لکھنے کا شعبہ بھی سنبھال لیا تھا۔ جون ایلیا ہمارے مشترک دوست تھے، ان کے ماہ نامے ''انشاء'' کے لیے کلیمی نے بھی ایک دو مضامین لکھے، لیکن اس وقت ان کا قلمی نام ندیم انصاری تھا۔
کلیمی کی ابتدائی زندگی غیر معمولی جدوجہد سے عبارت رہی، وہ اپنے پیشے کے علاوہ معاشرے میں جس مقام تک پہنچے اس میں ان کی انتھک محنت، اعتماد اور ذہانت کا دخل تھا۔ بی ایس سی تک ہم ساتھ رہے پھر وہ انجینئرنگ کی طرف متوجہ ہوگئے اور میں انگلش میں ایم اے کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا ، یعنی
ما و مجنوں ہم سبق بودیم در دیوان عشق
اور بہ صحرا رفت وما در کوچہ ہارسوا ئدیم
اس زمانے میں اپنے کالم کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کلیمی ریڈیو پاکستان میں یاور مہدی کے ساتھ پروگرام کرنے لگے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ روزنامہ حریت میں نئی نسل کے حوالے سے کالم بھی لکھنے لگے۔ اس وقت وہ ندیم انصاری کے بجائے رسول احمد کلیمی ہوگئے۔ اس زمانے میں مولانا حسن مثنیٰ ندوی اور اے آر ممتاز نے کلیمی کی تحریروں کو بطور خاص سراہا۔ کلیمی میں ایک خاص نوع کا حس مزاح تھا جو ان کی قلمی کاوشوں میں نمایاں رہتا تھا، کئی دفعہ تو انھوں نے سوچا کہ سنجیدگی سے طنزومزاح کو اپنالیں، لیکن ان کی پیشہ ورانہ ذمے داریاں آڑے آتی رہیں۔
بی ای اور ایم بی اے کرنے کے بعد کلیمی چند سرکاری محکموں سے وابستہ رہے لیکن جلد ہی ان کا تقرر نیشنل بینک آف پاکستان میں ہوگیا اور وہ ترقی کرتے کرتے ایس ای وی پی کے اعلیٰ عہدے تک پہنچ گئے۔ درمیانی عرصے میں وہ سعودی عرب کے بینک الجزیرہ میں بھی ذمے دار عہدے پر رہے۔ کچھ عرصہ سوڈان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ضمن میں کام کیا۔ اس زمانے میں جامعہ کراچی کے بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ پروفیسر علی احسن بھی ان کے ہمراہ تھے۔
کلیمی نثر کے علاوہ شاعری پر بھی توجہ دیتے تھے، لیکن ان کے اس رجحان کو اس وقت زیادہ تقویت ملی جب وہ جدہ میں فرائض منصبی ادا کر رہے تھے، خصوصاً مصلح الدین سعدی کی رفاقت ان کے تخلیقی کام میں مہمیز کا زاویہ مہیا کرتی رہی۔ کراچی آنے کے بعد ان کا شعری مجموعہ ''ہوائے دشت'' بہت اہتمام سے شائع ہوا۔
کینیڈا جانے سے قبل کلیمی نے خیابان سحر (DHA) میں بڑے ذوق و شوق سے عمدہ مکان تعمیر کروایا تھا، تاہم اس سے قبل وہ کئی سال تک فیڈرل بی ایریا میں رہے۔ یہاں قرب مکانی کی وجہ سے سلیم احمد سے گہرے مراسم ہوگئے۔ سلیم احمد کی قیام گاہ پر ہر مہینے کی سنجیدہ ادبی محفل ہوتی تھی جس میں مکالمے پر خصوصی زور دیا جاتا تھا۔ اس میں کلیمی پابندی سے شریک ہوتے تھے۔
ادھر ایک لمبے وقفے کے بعد انھوں نے ''روزنامہ ایکسپریس'' میں کالم نویسی کا آغاز کیا تھا۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ کراچی میں ایک فلیٹ لے کر موسم سرما یہاں گزارا کریں گے اور علمی ادبی کاموں پر زیادہ توجہ دیں گے، لیکن بہ قول غالب:
کسے خبر ہے کہ واں جنبش قلم کیا ہے