کیا نئی نسل کی بربادی ہماری غفلت کا نتیجہ ہے
والدین جسے ’’لاڈ پیار‘‘ کہتے ہیں وہ دراصل بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے جو انہیں تباہ کردیتی ہے
والدین جسے ’’لاڈ پیار‘‘ کہتے ہیں وہ دراصل بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے جو انہیں تباہ کردیتی ہے۔ (فوٹو: فائل)
میری ایک دوست نے اپنے بچے کے بارے میں اپنی پریشانی کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ وہ میری کوئی بات نہیں سنتا۔ اگر زیادہ روک ٹوک کروں تو وہ جواب بھی دینے لگا ہے۔ ایسا کیوں کررہا ہے وہ؟
بحیثیت ایک معلمہ میں یہ جملہ ہر دوسرے والدین کے منہ سے آئے روز سنتی رہتی ہوں کہ آج کل کے بچوں کو کیا ہوگیا ہے؟ کوئی بات سنتے ہی نہیں۔ لیکن کیا کبھی ہم نے بحیثیت والدین یہ سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ آج جب بچہ اپنے کام کرنے کے قابل ہوتا ہے تو جس چیز کا وہ اظہار کرتا ہے وہ ہے ماں اور باپ سے بدتمیزی۔ کچھ والدین اس خطرے کی بُو کو فورا محسوس کرلیتے ہیں جیسے میری دوست نے کیا اور اپنے بچے میں ہونے والی اس تبدیلی کی وجہ تلاش کرنے کی کوشش کی اور اس کا ممکنہ سدباب کرنے کی کوشش بھی کی۔ دوسری جانب ایسے بھی والدین ہیں جو بچے کی پہلی مرتبہ کی جانے والی بدتمیزی کی طرف توجہ نہیں دیتے اور اسے نظر انداز کردیتے ہیں۔
اور یہی وہ سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے جس کا خمیازہ والدین اور اساتذہ، دونوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ والدین جسے ''لاڈ پیار'' کہتے ہیں وہ دراصل بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے کیونکہ بچہ ہر چھوٹی چھوٹی بات کی شکایت کرتا ہے اور ماں باپ حمایت میں لڑنے چلے جاتے ہیں۔ استاد نے بچے کی اصلاح کے پیش نظر ڈانٹ دیا تو پرنسپل سے شکایت۔ لیکن جب بات خود پر آتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ یہ کیا ہوا؟ ہمارا بچہ اتنا بدتمیز کیسے ہوگیا؟
خدانخواستہ میرا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ آپ اپنے بچے کی کوئی بات نہ سنیں اور اس کی حمایت نہ کریں، بلکہ اس کی ہر جائز بات میں اس کی حمایت کیجیے لیکن ساتھ ساتھ اپنے بچے پر کڑی نظر بھی رکھیے۔ اس کی ہر قدم پر پیار و محبت سے اصلاح بھی کرتے جائیے۔ آپ اپنے بچوں کے ساتھ اتنا مضبوط رشتہ بنائیے کہ وہ ہر اچھی اور بری بات آپ کو بتائے۔ اپنا سب سے اچھا دوست وہ آپ کو سمجھے۔
معاشرے کا سب سے اہم حصہ اساتذہ ہیں جو بچوں کی معاشرتی و اخلاقی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔اساتذہ وہ ہوتے ہیں جو ایک قوم کی تشکیل کرتے ہیں۔ ماضی میں جتنے بھی انقلاب آئے ہیں ان میں اساتذہ کا کردار شامل رہا ہے۔ لیکن آج وہ اپنا کردار بخوبی نہیں نبھا پارہے ہیں۔ آج اساتذہ اور والدین کو مل کر بچے کی تربیت کرنی ہے۔
آج ہماری نئی نسل جس بے راہ روی کا شکار ہورہی ہے اس کے پیش نظر تمام والدین، تمام اساتذہ اور ہر اس فرد کو اپنی اپنی جگہ ذمہ داری نبھانی ہے جو اس معاملے میں اہم کردار کا حامل ہے؛ کیونکہ کسی بھی قوم کا سرمایہ نئی نسل ہوتی ہے۔ اگر ہم اپنی نئی نسل کو غلط راستے پر چلنے سے نہیں روک سکے تو پھر کوئی بھی کچھ نہیں کرسکے گا، سوائے پچھتانے کے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بحیثیت ایک معلمہ میں یہ جملہ ہر دوسرے والدین کے منہ سے آئے روز سنتی رہتی ہوں کہ آج کل کے بچوں کو کیا ہوگیا ہے؟ کوئی بات سنتے ہی نہیں۔ لیکن کیا کبھی ہم نے بحیثیت والدین یہ سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ آج جب بچہ اپنے کام کرنے کے قابل ہوتا ہے تو جس چیز کا وہ اظہار کرتا ہے وہ ہے ماں اور باپ سے بدتمیزی۔ کچھ والدین اس خطرے کی بُو کو فورا محسوس کرلیتے ہیں جیسے میری دوست نے کیا اور اپنے بچے میں ہونے والی اس تبدیلی کی وجہ تلاش کرنے کی کوشش کی اور اس کا ممکنہ سدباب کرنے کی کوشش بھی کی۔ دوسری جانب ایسے بھی والدین ہیں جو بچے کی پہلی مرتبہ کی جانے والی بدتمیزی کی طرف توجہ نہیں دیتے اور اسے نظر انداز کردیتے ہیں۔
اور یہی وہ سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے جس کا خمیازہ والدین اور اساتذہ، دونوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ والدین جسے ''لاڈ پیار'' کہتے ہیں وہ دراصل بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے کیونکہ بچہ ہر چھوٹی چھوٹی بات کی شکایت کرتا ہے اور ماں باپ حمایت میں لڑنے چلے جاتے ہیں۔ استاد نے بچے کی اصلاح کے پیش نظر ڈانٹ دیا تو پرنسپل سے شکایت۔ لیکن جب بات خود پر آتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ یہ کیا ہوا؟ ہمارا بچہ اتنا بدتمیز کیسے ہوگیا؟
خدانخواستہ میرا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ آپ اپنے بچے کی کوئی بات نہ سنیں اور اس کی حمایت نہ کریں، بلکہ اس کی ہر جائز بات میں اس کی حمایت کیجیے لیکن ساتھ ساتھ اپنے بچے پر کڑی نظر بھی رکھیے۔ اس کی ہر قدم پر پیار و محبت سے اصلاح بھی کرتے جائیے۔ آپ اپنے بچوں کے ساتھ اتنا مضبوط رشتہ بنائیے کہ وہ ہر اچھی اور بری بات آپ کو بتائے۔ اپنا سب سے اچھا دوست وہ آپ کو سمجھے۔
معاشرے کا سب سے اہم حصہ اساتذہ ہیں جو بچوں کی معاشرتی و اخلاقی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔اساتذہ وہ ہوتے ہیں جو ایک قوم کی تشکیل کرتے ہیں۔ ماضی میں جتنے بھی انقلاب آئے ہیں ان میں اساتذہ کا کردار شامل رہا ہے۔ لیکن آج وہ اپنا کردار بخوبی نہیں نبھا پارہے ہیں۔ آج اساتذہ اور والدین کو مل کر بچے کی تربیت کرنی ہے۔
آج ہماری نئی نسل جس بے راہ روی کا شکار ہورہی ہے اس کے پیش نظر تمام والدین، تمام اساتذہ اور ہر اس فرد کو اپنی اپنی جگہ ذمہ داری نبھانی ہے جو اس معاملے میں اہم کردار کا حامل ہے؛ کیونکہ کسی بھی قوم کا سرمایہ نئی نسل ہوتی ہے۔ اگر ہم اپنی نئی نسل کو غلط راستے پر چلنے سے نہیں روک سکے تو پھر کوئی بھی کچھ نہیں کرسکے گا، سوائے پچھتانے کے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔