بلدیہ کے تنخواہوں اور پنشن سے محروم ملازمین
سیکڑوں ملازمین ریٹائر ہونے کے بعد دو دو تین تین سال سے اپنے پنشن اور واجبات کا انتظار کررہے ہیں
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com
MONTREAL:
ایک خبر کے مطابق عباسی شہید اسپتال کے ملازمین 2 ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں، حکومت سندھ کی اس سرد مہری کے خلاف عباسی اسپتال کے ملازمین نے جن میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف بھی شامل تھا ،کراچی پریس کلب پر دھرنا دیا ۔ اسپتال میں او پی ڈی سمیت تمام شعبوں میں کام بند رہا جس کی وجہ سے مریضوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک ہفتے سے جاری احتجاج کو ختم کرانے کے لیے ڈپٹی میئر ڈاکٹر ارشد وہرہ نے ملازمین کو یقین دلایا ہے کہ ان کی رکی ہوئی تنخواہیں جلد دلانے کی کوشش کی جائے گی۔ انھوں نے ملازمین سے اپیل کی کہ وہ او پی ڈی کا بائیکاٹ ختم کریں۔ ڈپٹی میئر نے بتایاکہ تنخواہوں کی مد میں دو سو ملین کی سمری حکومت سندھ کو بھیج دی گئی ہے، حکومت نے سمری منظور کرنے کا یقین دلایا ہے۔ ڈپٹی میئر نے وزیراعلیٰ سندھ سے اپیل کی ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کے سب سے بڑے اسپتال کے مالی مسائل مستقل طور پر حل کیے جائیں تاکہ ملازمین کی ہڑتال سے مریضوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
پاکستان اسٹیل ملزکے ملازمین برسوں سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور انھیں چار چھ ماہ بعد ایک تنخواہ دے کر نمٹایا جا رہا ہے۔ پچھلے دنوں اسکولوں کے اساتذہ نے بھی مہینوں سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف احتجاج کیا اور دھرنے دیے اساتذہ کو سی ایم ہاؤس جانے سے روکنے کے لیے پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا جس سے کئی اساتذہ زخمی ہوئے۔
بلدیہ کی ڈی ایم سیز میں کام کرنے والے سیکڑوں ملازمین ریٹائر ہونے کے بعد دو دو تین تین سال سے اپنے پنشن اور واجبات کا انتظار کررہے ہیں لیکن حکومت سندھ ان کی پنشن اور واجبات کی ادائیگی کے لیے بلدیہ کو فنڈ مہیا نہیں کررہی ہے، جس کی وجہ سے ریٹائرڈ ملازمین فاقہ کشی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان مظلوموں کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔
یہ بڑی عجیب ہی نہیں بلکہ شرمناک بات ہے کہ آئے دن کسی نہ کسی محکمے کے ملازمین اپنی مہینوں سے رکی ہوئی تنخواہوں کی ادائیگی کے مطالبے کے ساتھ سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور حکمران طبقہ ان کے جائز مطالبے کو بلا تاخیر پورا کرنے کے بجائے ان پر پولیس کے ذریعے لاٹھی چارج کرواتا ہے ۔ عباسی شہید اسپتال کا شمارکراچی کے تین بڑے اسپتالوں میں ہوتا ہے جہاں لاکھوں مریض اپنا علاج کرانے آتے ہیں۔
علاج اور تعلیم کو ہر ملک میں اولیت دی جاتی ہے اور ان شعبوں کے لیے بجٹ میں بھاری رقوم مختص کی جاتی ہیں کہ ان کی کارکردگی متاثر نہ ہو لیکن ہمارے ملک میں ان دونوں شعبوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور حکومت کے سالانہ بجٹ میں ان کی ضرورت سے بہت کم بجٹ رکھاجاتا ہے، جس کی مثال دیگر پسماندہ ملکوں میں بھی نہیں ملتی۔
کراچی کے ڈھائی کروڑ عوام کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے صرف تین بڑے اسپتال موجود ہیں جن میں سے ایک عباسی اسپتال ہے۔ اس اسپتال کا صرف تنخواہیں نہ ملنے کا ایک ہی مسئلہ نہیں بلکہ دواؤں کی قلت، لیبارٹری کی سہولتوں اور ایکسرے جیسی لازمی اور ضروری سہولتوں کا فقدان بھی سنگین مسائل میں شامل ہیں۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کا ایک بڑا سرکاری ادارہ ہے جس میں 80 ہزار ملازمین کام کرتے ہیں ۔ ہر ملک میں بلدیاتی اداروں کو مالی اور انتظامی اختیارات دیے جاتے ہیں جو جمہوریت کے اصولوں کے عین مطابق ہے لیکن ہمارے ملک کا یہ عجیب اور نرالا دستور ہے کہ ہمارے بلدیاتی اداروں کو مالی اور انتظامی امور اور اختیارات سے محروم کرکے اسے صوبائی حکومت کا دست نگر بنا دیا گیا ہے۔
اس نا انصافی اور بد دیانتی کی وجہ سے بلدیہ کے ادارے سخت مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ 40،30 سال تک بلدیہ میں خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائر ہونے والے ملازمین کو تین تین سال تک نہ پنشن جاری کی جارہی ہے نہ ان کے واجبات ادا کیے جارہے ہیں ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمین اپنی تنخواہوں سے محروم ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے فاقہ کشی سمیت ریٹائرڈ ملازمین کئی مشکلات میں گھر جاتے ہیں اور ان کی زندگی عذاب بن جاتی ہے یہ ایک ایسی بد نما حقیقت ہے جس سے حکام بالا یقینا واقف ہوںگے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ تین تین چار چار سال سے دھکے کھانے والے ضعیف ریٹائرڈ ملازمین کا کوئی پرسان حال نہیں۔
اس حوالے سے بلدیاتی حکام کا یہ عذر بجا ہے کہ وہ مالی اورانتظامی اختیارات سے محرومی کی وجہ سے اپنے ملازمین کی مالی مشکلات حل کرنے سے قاصر ہیں۔ بلدیہ کے ملازمین کی اس حوالے سے ایک شکایت یہ ہے کہ چونکہ بلدیہ میں ایک بڑی تعداد اردو اسپیکنگ کی ہے اس لیے بھی ان کے مسائل حل کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے، ہوسکتا ہے یہ شکایت درست نہ ہو لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بلدیہ کے ملازمین کے ساتھ انصاف نہیں کیا جارہا ہے عباسی شہید جیسے رفاہ عامہ کے ادارے کے ملازمین کو اگر دو دو ماہ تین تین ماہ تنخواہیں ادا نہ کی جائیں تو وہ کھائیںگے کیا؟
کیا اس شرمناک صورتحال کا ازالہ ضرور نہیں ۔ صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ ایک ذمے دار اور محنتی وزیراعلیٰ مانے جاتے ہیں ان کی ناک کے نیچے اس قسم کی سنگین بد عنوانیاں اور مظالم ہورہے ہیں اور میڈیا میں ان کی خبریں بھی تواتر کے ساتھ آرہی ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ ان سنگین مسائل کو حل نہیں کر پارہے ہیں؟
بلدیاتی اداروں کو جن مالی مشکلات کا سامنا ہے، اس کی بڑی وجہ بلدیہ کی مالی اختیارات سے محرومی ہے اور یہ تنازعہ بلدیہ اور سندھ حکومت کا تنازعہ ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ دو اونٹوں کی اس لڑائی میں غریب ملازمین اور وہ ہزاروں مریض پریشان ہورہے ہیں جو بلدیاتی اداروں سے وابستہ ہیں ۔ عباسی اسپتال میں ہزاروں مریض اپنے علاج کے لیے آتے ہیں اور اسپتال کی صورتحال یہ ہے کہ اسپتال میں مریضوں کو نہ دوائیں دستیاب ہیں نہ ایکسرے اور ضروری ٹیسٹوں کی سہولت حاصل ہے۔ حکومت سندھ کا اس حوالے سے تنازعہ بلدیہ کے حکام سے ہے، بے چارے ملازمین اور مریضوں کو اس کی سزا بھگتنی پڑ رہی ہے جو کسی حوالے سے بھی نہ منصفانہ ہے نہ اخلاقی۔
سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور پیپلزپارٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ غریبوں، مزدوروں، کسانوں کی نمایندہ پارٹی ہے جب ہم اس دعوے کی روشنی میں سندھ کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو حکومتی دعوے سراب نظر آتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئے دن سندھ کے مختلف محکموں کے ملازمین اور ریٹائرڈ ملازمین اپنی تنخواہوں اور پنشنوں کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں اور بلدیاتی حکام کہتے ہیں کہ ہمارے پاس فنڈ ہی نہیں ہیں اور یہ عذر اس لیے وزن رکھتا ہے کہ صوبائی حکومتوں نے بلدیات کو مالی اور انتظامی اختیارات سے محروم کردیا ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ حکومت سندھ بلدیاتی ملازمین کی تنخواہوںاور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن اور واجبات کی ادائیگی کا ہنگامی طور پر انتظام کرے اور اس مسئلے کو مستقل طور پر حل کرنے کے لیے بلدیہ کو مالی اور انتظامی اختیارات دے۔
ایک خبر کے مطابق عباسی شہید اسپتال کے ملازمین 2 ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں، حکومت سندھ کی اس سرد مہری کے خلاف عباسی اسپتال کے ملازمین نے جن میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف بھی شامل تھا ،کراچی پریس کلب پر دھرنا دیا ۔ اسپتال میں او پی ڈی سمیت تمام شعبوں میں کام بند رہا جس کی وجہ سے مریضوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک ہفتے سے جاری احتجاج کو ختم کرانے کے لیے ڈپٹی میئر ڈاکٹر ارشد وہرہ نے ملازمین کو یقین دلایا ہے کہ ان کی رکی ہوئی تنخواہیں جلد دلانے کی کوشش کی جائے گی۔ انھوں نے ملازمین سے اپیل کی کہ وہ او پی ڈی کا بائیکاٹ ختم کریں۔ ڈپٹی میئر نے بتایاکہ تنخواہوں کی مد میں دو سو ملین کی سمری حکومت سندھ کو بھیج دی گئی ہے، حکومت نے سمری منظور کرنے کا یقین دلایا ہے۔ ڈپٹی میئر نے وزیراعلیٰ سندھ سے اپیل کی ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کے سب سے بڑے اسپتال کے مالی مسائل مستقل طور پر حل کیے جائیں تاکہ ملازمین کی ہڑتال سے مریضوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
پاکستان اسٹیل ملزکے ملازمین برسوں سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور انھیں چار چھ ماہ بعد ایک تنخواہ دے کر نمٹایا جا رہا ہے۔ پچھلے دنوں اسکولوں کے اساتذہ نے بھی مہینوں سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف احتجاج کیا اور دھرنے دیے اساتذہ کو سی ایم ہاؤس جانے سے روکنے کے لیے پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا جس سے کئی اساتذہ زخمی ہوئے۔
بلدیہ کی ڈی ایم سیز میں کام کرنے والے سیکڑوں ملازمین ریٹائر ہونے کے بعد دو دو تین تین سال سے اپنے پنشن اور واجبات کا انتظار کررہے ہیں لیکن حکومت سندھ ان کی پنشن اور واجبات کی ادائیگی کے لیے بلدیہ کو فنڈ مہیا نہیں کررہی ہے، جس کی وجہ سے ریٹائرڈ ملازمین فاقہ کشی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان مظلوموں کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔
یہ بڑی عجیب ہی نہیں بلکہ شرمناک بات ہے کہ آئے دن کسی نہ کسی محکمے کے ملازمین اپنی مہینوں سے رکی ہوئی تنخواہوں کی ادائیگی کے مطالبے کے ساتھ سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور حکمران طبقہ ان کے جائز مطالبے کو بلا تاخیر پورا کرنے کے بجائے ان پر پولیس کے ذریعے لاٹھی چارج کرواتا ہے ۔ عباسی شہید اسپتال کا شمارکراچی کے تین بڑے اسپتالوں میں ہوتا ہے جہاں لاکھوں مریض اپنا علاج کرانے آتے ہیں۔
علاج اور تعلیم کو ہر ملک میں اولیت دی جاتی ہے اور ان شعبوں کے لیے بجٹ میں بھاری رقوم مختص کی جاتی ہیں کہ ان کی کارکردگی متاثر نہ ہو لیکن ہمارے ملک میں ان دونوں شعبوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور حکومت کے سالانہ بجٹ میں ان کی ضرورت سے بہت کم بجٹ رکھاجاتا ہے، جس کی مثال دیگر پسماندہ ملکوں میں بھی نہیں ملتی۔
کراچی کے ڈھائی کروڑ عوام کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے صرف تین بڑے اسپتال موجود ہیں جن میں سے ایک عباسی اسپتال ہے۔ اس اسپتال کا صرف تنخواہیں نہ ملنے کا ایک ہی مسئلہ نہیں بلکہ دواؤں کی قلت، لیبارٹری کی سہولتوں اور ایکسرے جیسی لازمی اور ضروری سہولتوں کا فقدان بھی سنگین مسائل میں شامل ہیں۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کا ایک بڑا سرکاری ادارہ ہے جس میں 80 ہزار ملازمین کام کرتے ہیں ۔ ہر ملک میں بلدیاتی اداروں کو مالی اور انتظامی اختیارات دیے جاتے ہیں جو جمہوریت کے اصولوں کے عین مطابق ہے لیکن ہمارے ملک کا یہ عجیب اور نرالا دستور ہے کہ ہمارے بلدیاتی اداروں کو مالی اور انتظامی امور اور اختیارات سے محروم کرکے اسے صوبائی حکومت کا دست نگر بنا دیا گیا ہے۔
اس نا انصافی اور بد دیانتی کی وجہ سے بلدیہ کے ادارے سخت مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ 40،30 سال تک بلدیہ میں خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائر ہونے والے ملازمین کو تین تین سال تک نہ پنشن جاری کی جارہی ہے نہ ان کے واجبات ادا کیے جارہے ہیں ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمین اپنی تنخواہوں سے محروم ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے فاقہ کشی سمیت ریٹائرڈ ملازمین کئی مشکلات میں گھر جاتے ہیں اور ان کی زندگی عذاب بن جاتی ہے یہ ایک ایسی بد نما حقیقت ہے جس سے حکام بالا یقینا واقف ہوںگے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ تین تین چار چار سال سے دھکے کھانے والے ضعیف ریٹائرڈ ملازمین کا کوئی پرسان حال نہیں۔
اس حوالے سے بلدیاتی حکام کا یہ عذر بجا ہے کہ وہ مالی اورانتظامی اختیارات سے محرومی کی وجہ سے اپنے ملازمین کی مالی مشکلات حل کرنے سے قاصر ہیں۔ بلدیہ کے ملازمین کی اس حوالے سے ایک شکایت یہ ہے کہ چونکہ بلدیہ میں ایک بڑی تعداد اردو اسپیکنگ کی ہے اس لیے بھی ان کے مسائل حل کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے، ہوسکتا ہے یہ شکایت درست نہ ہو لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بلدیہ کے ملازمین کے ساتھ انصاف نہیں کیا جارہا ہے عباسی شہید جیسے رفاہ عامہ کے ادارے کے ملازمین کو اگر دو دو ماہ تین تین ماہ تنخواہیں ادا نہ کی جائیں تو وہ کھائیںگے کیا؟
کیا اس شرمناک صورتحال کا ازالہ ضرور نہیں ۔ صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ ایک ذمے دار اور محنتی وزیراعلیٰ مانے جاتے ہیں ان کی ناک کے نیچے اس قسم کی سنگین بد عنوانیاں اور مظالم ہورہے ہیں اور میڈیا میں ان کی خبریں بھی تواتر کے ساتھ آرہی ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ ان سنگین مسائل کو حل نہیں کر پارہے ہیں؟
بلدیاتی اداروں کو جن مالی مشکلات کا سامنا ہے، اس کی بڑی وجہ بلدیہ کی مالی اختیارات سے محرومی ہے اور یہ تنازعہ بلدیہ اور سندھ حکومت کا تنازعہ ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ دو اونٹوں کی اس لڑائی میں غریب ملازمین اور وہ ہزاروں مریض پریشان ہورہے ہیں جو بلدیاتی اداروں سے وابستہ ہیں ۔ عباسی اسپتال میں ہزاروں مریض اپنے علاج کے لیے آتے ہیں اور اسپتال کی صورتحال یہ ہے کہ اسپتال میں مریضوں کو نہ دوائیں دستیاب ہیں نہ ایکسرے اور ضروری ٹیسٹوں کی سہولت حاصل ہے۔ حکومت سندھ کا اس حوالے سے تنازعہ بلدیہ کے حکام سے ہے، بے چارے ملازمین اور مریضوں کو اس کی سزا بھگتنی پڑ رہی ہے جو کسی حوالے سے بھی نہ منصفانہ ہے نہ اخلاقی۔
سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور پیپلزپارٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ غریبوں، مزدوروں، کسانوں کی نمایندہ پارٹی ہے جب ہم اس دعوے کی روشنی میں سندھ کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو حکومتی دعوے سراب نظر آتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئے دن سندھ کے مختلف محکموں کے ملازمین اور ریٹائرڈ ملازمین اپنی تنخواہوں اور پنشنوں کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں اور بلدیاتی حکام کہتے ہیں کہ ہمارے پاس فنڈ ہی نہیں ہیں اور یہ عذر اس لیے وزن رکھتا ہے کہ صوبائی حکومتوں نے بلدیات کو مالی اور انتظامی اختیارات سے محروم کردیا ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ حکومت سندھ بلدیاتی ملازمین کی تنخواہوںاور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن اور واجبات کی ادائیگی کا ہنگامی طور پر انتظام کرے اور اس مسئلے کو مستقل طور پر حل کرنے کے لیے بلدیہ کو مالی اور انتظامی اختیارات دے۔