سٹے بازی کا آسیب بنگلادیش پریمیئر لیگ سے چمٹ گیا
بھارت اور مشرق وسطیٰ میں بکیز سرگرم،ملک کی گلیوں، بازاروں میں چھوٹے پیمانے پر بھی مکروہ دھندا دھڑلے سے جاری
ایک ارب ڈالر کا لین دین ہونے کی اطلاعات، سٹے بازوں کو روکنے پر نوجوان کے قتل نے منتظمین کے کان کھڑے کردیے۔ فوٹو: فائل
سٹے بازی کا آسیب بنگلادیش پریمیئر لیگ سے بھی چمٹ گیا۔
بنگلادیش پریمیئر لیگ کا پانچواں ایڈیشن جاری ہے،یہ ایونٹ ماضی میں فکسنگ سے داغدار ہوتا رہا،پاکستانی کرکٹرز کے بھی اسکینڈلز میں نام آتے رہے، مگر حیران کن طور پر اس بار بھی کئی موجودہ اور سابق کھلاڑیوں کے مختلف فرنچائزز کے ساتھ معاہدے ہوئے ہیں۔
گزشتہ دنوں اپنے گھر کے باہر قمار بازی کیخلاف احتجاج کرنے والے بی بی اے کے طالب علم نسیم احمد کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے قتل کردیا گیا، اس سے پورے بنگلادیش میں فکسنگ اور اس کے منحوس اثرات کی بحث چل پڑی، ایک طرف پولیس نے تفتیش شروع کردی، دوسری جانب مقامی میڈیا میں بھی معاملہ خوب اچھالا گیا ہے۔
ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق لیگ کا جب بھی ملک میں انعقاد ہو بکیز بھی سرگرم ہوجاتے ہیں۔ اس دھندے میں امیر، غریب، چھوٹے، بڑے، پڑھے لکھے اور ان پڑھ ہر طبقے کے لوگ ملوث نظر آتے ہیں،طلباء، مزدوروں، سائیکل رکشا کھینچنے والوں اور کسانوں کی بڑی تعداد جوئے کے ذریعے مال بنانے کے شوق میں جیبیں خالی کربیٹھتی ہے، ایک طرف بھارت اور مشرق وسطیٰ میں کام کرنے والے بکیز بڑے خفیہ انداز میں سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں تو دوسرے جانب گلیوں، بازاروں، چائے کی دکانوں،اسٹورز میں چھوٹے پیمانے پر بھی مکروہ دھندا دھڑلے سے جاری رکھا جاتا ہے۔
بی پی ایل کا میچ دیکھنے کیلیے ٹی وی کے گرد لوگوں کا ہجوم دیکھیں تو ان میں سے کئی سٹے بازی میں ملوث نظر آئیں گے، ایک گیند سے میچ کے نتیجے تک جوا کھیلا جاتا ہے جب کہ رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر قمار بازی میں ایک ارب ڈالر کا لین دین ہونے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
پی پی ایل کی گورننگ کونسل کے سیکریٹری آئی ایچ ملک نے تسلیم کیاکہ سٹے بازی خطرناک حدوں کو چھونے لگی ہے،نہ صرف کہ اس سے عوام محنت کی کمائی سے محروم ہوتے بلکہ گھروں اور معاشرے میں پریشانیاں بھی پیدا ہوتے ہیں،اس آسیب کو قابو کرنے کیلیے پوری کوشش کررہے ہیں،ہوسکتا ہے کہ اگلے ایڈیشن سے قبل سٹے بازی کے حوالے سے لوگوں کو شعور دینے کیلیے کوئی نعرہ متعارف کرا دیں،اس ضمن میں بورڈ اورکرکٹ ہیروز اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جب کہ اسی کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے بھی سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔
بنگلادیش پریمیئر لیگ کا پانچواں ایڈیشن جاری ہے،یہ ایونٹ ماضی میں فکسنگ سے داغدار ہوتا رہا،پاکستانی کرکٹرز کے بھی اسکینڈلز میں نام آتے رہے، مگر حیران کن طور پر اس بار بھی کئی موجودہ اور سابق کھلاڑیوں کے مختلف فرنچائزز کے ساتھ معاہدے ہوئے ہیں۔
گزشتہ دنوں اپنے گھر کے باہر قمار بازی کیخلاف احتجاج کرنے والے بی بی اے کے طالب علم نسیم احمد کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے قتل کردیا گیا، اس سے پورے بنگلادیش میں فکسنگ اور اس کے منحوس اثرات کی بحث چل پڑی، ایک طرف پولیس نے تفتیش شروع کردی، دوسری جانب مقامی میڈیا میں بھی معاملہ خوب اچھالا گیا ہے۔
ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق لیگ کا جب بھی ملک میں انعقاد ہو بکیز بھی سرگرم ہوجاتے ہیں۔ اس دھندے میں امیر، غریب، چھوٹے، بڑے، پڑھے لکھے اور ان پڑھ ہر طبقے کے لوگ ملوث نظر آتے ہیں،طلباء، مزدوروں، سائیکل رکشا کھینچنے والوں اور کسانوں کی بڑی تعداد جوئے کے ذریعے مال بنانے کے شوق میں جیبیں خالی کربیٹھتی ہے، ایک طرف بھارت اور مشرق وسطیٰ میں کام کرنے والے بکیز بڑے خفیہ انداز میں سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں تو دوسرے جانب گلیوں، بازاروں، چائے کی دکانوں،اسٹورز میں چھوٹے پیمانے پر بھی مکروہ دھندا دھڑلے سے جاری رکھا جاتا ہے۔
بی پی ایل کا میچ دیکھنے کیلیے ٹی وی کے گرد لوگوں کا ہجوم دیکھیں تو ان میں سے کئی سٹے بازی میں ملوث نظر آئیں گے، ایک گیند سے میچ کے نتیجے تک جوا کھیلا جاتا ہے جب کہ رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر قمار بازی میں ایک ارب ڈالر کا لین دین ہونے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
پی پی ایل کی گورننگ کونسل کے سیکریٹری آئی ایچ ملک نے تسلیم کیاکہ سٹے بازی خطرناک حدوں کو چھونے لگی ہے،نہ صرف کہ اس سے عوام محنت کی کمائی سے محروم ہوتے بلکہ گھروں اور معاشرے میں پریشانیاں بھی پیدا ہوتے ہیں،اس آسیب کو قابو کرنے کیلیے پوری کوشش کررہے ہیں،ہوسکتا ہے کہ اگلے ایڈیشن سے قبل سٹے بازی کے حوالے سے لوگوں کو شعور دینے کیلیے کوئی نعرہ متعارف کرا دیں،اس ضمن میں بورڈ اورکرکٹ ہیروز اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جب کہ اسی کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے بھی سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔