جس دن

جاوید چوہدری  جمعرات 30 جنوری 2014
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ملک میں جب بھی تحریک طالبان جیسی تنظیموں سے مذاکرات کی بات ہوتی ہے تو یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے ’’یہ لوگ پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے‘ یہ اسٹیٹ کی رٹ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں‘ ہم ان سے مذاکرات کیسے کر سکتے ہیں؟‘‘ یہ اعتراض بڑی حد تک درست ہے‘ تحریک طالبان پاکستان سمیت ملک کی بعض تنظیمیں ہماری ریاست اور آئین دونوں کو تسلیم نہیں کرتیں‘ یہ تعزیرات پاکستان کو ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں‘ یہ اس ملک میں اپنی مرضی کے قوانین بھی نافذ کرنا چاہتی ہیں اور پاکستان اگر آزاد اور خود مختار ملک ہے تو پھر کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دی جانی چاہیے لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے‘ کیا اس ملک کے سیاستدان‘ ادارے اور عوام ملک کے آئین‘ قانون اور رٹ کو تسلیم کرتے ہیں؟ اگر ہاں تو پھر فیلڈ مارشل ایوب خان کون تھے‘ جنرل یحییٰ خان‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کون تھے؟ کیا یہ آئین پاکستان کو مانتے تھے؟ کیا انھوں نے پاکستان کے قانون کا احترام کیا اور کیا یہ ریاست کی رٹ تسلیم کرتے تھے؟

وہ کون سا آئین‘ کون سا قانون اور کون سی رٹ تھی جس نے 22 ویں گریڈ کے ایک افسر کو ملک پر قبضہ کرنے‘ آئین معطل کرنے‘ ملٹری کورٹس قائم کرنے‘ ججوں سے پی سی او پر حلف لینے اور ایل ایف او کے ذریعے ریاست چلانے کی اجازت دی؟ کیا 1956ء کے آئین سے لے کر 1973ء کے آئین تک ملک کا کوئی دستور باوردی صدر کی اجازت دیتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر ملک میں چار مارشل لاء کس آئین‘ کس قانون کے تحت لگے؟ ہمارے ملک میں آئین کی اوقات تو یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے سر عام فرمایا ’’آئین کیا ہے‘ محض کاغذ کا ایک ٹکڑا‘‘ اور پندرہ سولہ کروڑ زندہ لوگوں کے اس ملک میں کسی شخص نے ان کو ٹوکنے کی جرأت نہیں کی‘ جنرل یحییٰ خان نے ملک توڑ دیا لیکن آئینی انتخابات کے نتائج تسلیم کیے اور نہ ہی آئینی اسمبلی کا اجلاس ہونے دیا‘ جنرل ضیاء الحق نے اپنے ہاتھ سے 1973 ء کے آئین میں اپنی مرضی کی ترامیم کرائیں‘ جنرل پرویز مشرف نے بھی آئین میں اپنی مرضی کی دفعات شامل کرائیں اور جب جمہوری دور آیا تو سیاسی قیادتوں نے بھی اپنے اقتدار کو دوام دینے‘ اپنی سیاسی جماعتوں پر ہولڈ رکھنے اور اپنی اپنی صوبائی ریاستیں قائم کرنے کے لیے آئین میں اٹھارہویں‘ انیسویں اور بیسویں ترامیم کر لیں‘ یہ ترامیم بھی اسمبلی سے باہر طے ہوئیں اور قومی اسمبلی کو ان پر صرف انگوٹھا لگانے کے لیے استعمال کیا گیا.

سوال یہ ہے کیا ریاستی ادارے آئین کا احترام کرتے ہیں؟ کیا سیاستدان اس آئین کو تسلیم کرتے ہیں؟ اگر ہاں تو مارشل لاء کیوں لگتے رہے‘ جرنیل یونیفارم میں صدر کیسے بنتے رہے اور سیاستدان آئین سے ماورا ہو کر فوجی جرنیلوں کا ساتھ کیوں دیتے رہے؟ آپ جنرل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف تک آمروں کے ساتھیوں کا ڈیٹا نکال لیجیے‘ آپ کو ان تمام جرنیلوں کے دائیں بائیں وہ لوگ نظر آئیں گے جو آج آئین اور دستور کو سپریم قرار دے رہے ہیں‘ جو آج آئین کے گن گا رہے ہیں‘ یہ تمام لوگ ماضی میں آمروں کو ڈیڈی کہتے تھے‘ ابا جی قرار دیتے تھے یا پھر سید پرویز مشرف کے نعرے لگاتے تھے اور یہ انھیں دس دس بار باوردی صدر منتخب کرانے کے دعوے بھی کرتے تھے‘ آپ ایوب خان سے لے کر جنرل مشرف تک ملک کی آئینی اسمبلیوں کا ریکارڈ نکلوا لیجیے‘ آپ حیران رہ جائیں گے‘ ہماری آئینی اسمبلیوں نے آمروں کو تسلیم بھی کیا تھا‘ ان کا تالیوں سے استقبال بھی کیا تھا اور ان کے تمام غیر آئینی اقدامات کو آئین کا غلاف بھی پہنایا تھا اور یہ تمام کارنامے ان لوگوں نے سرانجام دیے جو آج آئین‘ دستور اور قانون کے چیمپیئن ہیں‘ آج بھی ہماری قومی اسمبلی میں وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے جنرل ضیاء الحق کی ترامیم کے حق میں ووٹ بھی دیے تھے اور ان کے حق میں تقریریں بھی کی تھیں‘ جنرل پرویز مشرف کے وزراء اور حمایتی بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں موجود ہیں‘ آمر کے چند وزراء تو حکومت وقت کا حصہ بھی ہیں‘ میری نظر میں یہ لوگ کالعدم تنظیموں سے زیادہ کالعدم ہیں کیونکہ یہ تنظیمیں صرف آئین کو تسلیم نہیں کرتیں جب کہ یہ لوگ آئین شکن بھی ہیں ۔

آپ اسٹیٹ کی رٹ اور قانون کا احترام بھی دیکھ لیجیے‘ کیا اسٹیٹ نے کراچی اور کوئٹہ میں اپنی رٹ اسٹیبلش کر لی‘ کراچی کے نوے فیصد شہریوں سے موبائل اور پرس چھینے جا چکے ہیں‘ کراچی کے لوگوں نے لٹنے کو اپنا لائف اسٹائل سمجھ لیا ہے‘ یہ اپنی جیب سے پرس اور موبائل نکالتے ہیں اور چپ چاپ سامنے کھڑے شخص کے حوالے کر دیتے ہیں‘ کراچی شہر میں اوسطاً پندرہ لوگ روزانہ قتل ہوتے ہیں‘کراچی میں ٹارگٹ کلنگ‘ اغواء برائے تاوان اور کار چوری زندگی کا حصہ بن چکی ہے‘لوگوں کو اغواء کیا جاتا ہے‘ کار میں بٹھا کر کراچی کی سڑکوں پر گھمایا جاتا ہے اور دو تین گھنٹے میں پانچ دس لاکھ روپے لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے‘ کراچی کے تاجروں کو بھتے کی پرچیاں آتی ہیں اور یہ لوگ بھتہ دیتے ہیں.

سپریم کورٹ نے6 اکتوبر 2011ء کے فیصلے میں لکھا‘ کراچی کی سیاسی جماعتوں کے ملٹری ونگز ہیں اور شہر میں نو گو ایریاز موجود ہیں لیکن ریاست نے آج تک سپریم کورٹ کے اس حکم پر عمل نہیں کیا‘ کوئٹہ سے ہزاروں کی تعداد میں غیر بلوچوں کو نکال دیا گیا‘ پہاڑوں سے میزائل داغے جاتے ہیں اور بلوچستان میں پاکستانی پرچم تک اتار دیے جاتے ہیں‘ آپ کراچی اور کوئٹہ کو بھی بھول جائیے‘ آپ پرامن شہروں کی صورتحال دیکھ لیجیے‘ ملک میں اسلحے کی نمائش اور ہوائی فائرنگ پر پابندی ہے لیکن وزراء کا استقبال ہوائی فائرنگ سے ہوتا ہے‘ ریاست ہوائی فائرنگ روک سکتی ہے اور نہ ہی اسلحہ ضبط کر سکتی ہے‘ لاہور شہر میں دن دیہاڑے عورتوں کے پرس چھین لیے جاتے ہیں‘ پستول دکھاکر عوام کو لوٹ لیا جاتا ہے‘ ریاست آٹھ سال سے قتل کے مجرموں کو پھانسی نہیں دے سکی‘ سیاستدان شہر کے غنڈوں کی پرورش کرتے ہیں اور پولیس ان غنڈوں کا احترام۔ سپریم کورٹ چار سال تک مسنگ پرسنز کا مسئلہ اٹھاتی رہی‘ چیف جسٹس نے احکامات بھی جاری کیے‘ فیصلے بھی دیے لیکن ریاست اپنے ہی اداروں سے اپنی رٹ نہ منوا سکی‘ یہ مسنگ پرسنز آج بھی مسنگ ہیں‘ ہماری ریاست کی رٹ کی صورتحال یہ ہے‘ اس کا ایک ایس ایچ او پوری ریاست پر بھاری ہوتا ہے‘ لوگ ای سی ایل پر ہونے کے باوجود ائیر پورٹ کے ذریعے ملک سے نکل جاتے ہیں‘ ارکان اسمبلی ٹیکس دیتے ہیں اور نہ ہی نیشنل ٹیکس نمبر کا تکلف کرتے ہیں‘ ریاست کے اندر ریاستیں قائم ہیں اور ریاست کسی اندرونی ریاست کے اندر داخل نہیں ہو سکتی‘ پورا ملک مل کر جنرل پرویز مشرف کو ملٹری اسپتال سے باہر نہیں نکال سکتا‘ ریمنڈ ڈیوس سڑک پر دو شہریوں کو قتل کر دیتا ہے اور ریاست اسے پاسپورٹ کے بغیر ملک سے جانے کی اجازت دے دیتی ہے‘ سکندر جیسا پاگل شخص دو رائفلیں اٹھا کر بلیو ایریا میں کھڑا ہوتا ہے اور دنیا پانچ گھنٹے تک ریاست کی رٹ کا تماشہ دیکھتی ہے‘ دودھ میں پانی ملتا ہے‘ خون جعلی نکل آتا ہے‘ کیپسولوں میں آٹا برآمد ہوتا ہے‘ مردار جانوروں کا گوشت بیچا جاتا ہے اور گھی میں حرام جانوروں کی چربی ملا دی جاتی ہے لیکن ہم اس کے باوجود ریاست اور اس کی رٹ کے دعوے دار ہیں!

آپ قانون کی صورتحال بھی دیکھ لیجیے‘ ہماری اس ارض پاک پر چپڑاسی سے لے کر صدر تک کون قانون شکن نہیں؟ ہماری سڑکوں پر کتنے لوگ اشارے پر رکتے ہیں؟‘ ہمارے ملک میں اگر کوئی وزیر‘ وزیراعلیٰ یا وزیراعظم خود گاڑی چلا لے یا اشارے پر رک جائے تو یہ بریکنگ نیوز ہوتی ہے‘ ملک کا کون سا قانون اجازت دیتا ہے ہماری پولیس مجرموں کا پیچھا کرنے کے بجائے حکمرانوں کو پروٹوکول اور سیکیورٹی دے‘ ملک میں ایسی پچاس شخصیات ہیں جن کے لیے روٹس بھی لگتے ہیں‘ ٹریفک بھی رکتی ہے اور سائرن بھی بجتے ہیں‘ یہ سائرن کس قانون کے تحت بجائے جاتے ہیں؟‘ سرکاری اداروں کے سربراہان کو پروٹوکول کس قانون کے تحت دیا جاتا ہے؟‘ ملک کی ہر حکومت قانون کو اپنے مخالفوں کو دبانے کے لیے استعمال کرتی ہے‘ کون سا قانون اس لاقانونیت کی اجازت دیتا ہے؟

جنرل پرویز مشرف نے شریف فیملی کو گرفتار کیا‘ یہ گرفتاری خلاف قانون تھی‘ مقدمہ بنا‘ عدالتی کارروائی ہوئی‘ سزا ہوئی لیکن یہ سزا معاف کر دی گئی‘ یہ بھی قانون کی خلاف ورزی تھی‘ جنرل پرویز مشرف نے این آر او کے ذریعے آٹھ ہزار اکتالیس ملزموں کی کرپشن اور سزائیں معاف کر دیں‘ یہ بھی قانون کی خلاف ورزی تھی لیکن اس لاقانونیت پر کسی نے ان کا ہاتھ روکا؟ اور طاقتور لوگ مجرموں کو تھانوں سے چھڑا لے جاتے ہیں‘ دنیا کا کون سا قانون اس لاقانونیت کی اجازت دیتا ہے چنانچہ اس ملک جس میں ہر طاقتور شخص قانون توڑتا ہو‘ ریاست کی رٹ راولپنڈی سے لے کر کراچی تک روز چیلنج ہوتی ہو اور آئین ساز اسمبلی کے ارکان آئین کا احترام نہ کرتے ہوں اور وہ لوگ آئین کو کاغذ کا ٹکڑا قرار دے دیتے ہوں جو آئین کی بقا کا حلف اٹھا کر سروس میں آتے ہیں تو پھر ہم طالبان جیسی تنظیموں کو برا کیوں کہتے ہیں؟

ہم تحریک طالبان پاکستان سے آئین‘ قانون اور ریاست کی رٹ تسلیم کرنے کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں؟ یہ بھی درست ہے ’’ ہمیں معصوم شہریوں کو قتل کرنے والوں سے مذاکرات نہیں کرنے چاہئیں‘‘ ٹھیک‘ درست لیکن جو سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمے دار تھے‘ جو ملک کو پرائی جنگوں میں دھکیلتے رہے اور جنہوں نے کراچی میں لاشیں گرنے کے بعد مکا لہرایا اور کہا ’’ دیکھا عوامی رد عمل‘‘ کیا ہم نے آج تک ان سے معصوم شہریوں کے قتل کا حساب لیا؟وہ لوگ تو آخری وقت تک اپنے گرم گھروں میں مقیم رہے‘یہ آج بھی اسپتال میں فائیو اسٹار سہولتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں لیکن ہمیں طالبان سے مذاکرات کرتے ہوئے آئین بھی یاد آ جاتا ہے‘ قانون بھی اور ریاست کی رٹ بھی‘ مجھے یقین ہے‘ ریاست جس دن کسی بھی وی وی آئی پی کو ٹریفک کے سرخ اشارے پر روک لے گی‘ اس دن اس ملک میں کوئی تحریک طالبان جیسی تنظیم بنے گی اور نہ ہی ریاست کو اس تنظیم کے سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑیں گے‘ ملک میں جب تک طاقتور کے لیے کوئی آئین‘ کوئی قانون‘ کوئی ریاست اور کوئی رٹ نہیں بنتی‘ اس وقت تک تنظیمیں بنتی رہیں گی کیونکہ ایک خرابی ہزاروں خرابیوں کو جنم دیتی ہے۔

 

 

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔