تین حکومتوں کا تختہ

صابر کربلائی  اتوار 9 مارچ 2014

امریکا کی سیاست اور امریکی ہٹ دھرمیوں سے پوری دنیا واقف ہے، دور حاضر میں اگر ہم دیکھیں تو دنیا بھر میں امن کا نعرہ لگانے والا، اور دنیا کے انسانوں کو انسانی حقوق دلوانے اور جمہوریت کی بات کرنے والا امریکا اور امریکی انتظامیہ دہرے معیار میں اپنی مثال آپ ہے۔ جب بات کسی مظلوم قوم کی ہو تو امریکا اور امریکا کی انسانیت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کو مظلوموں کے خلاف استعمال کرتی ہوئے نظر آتی ہے اور جب بات ظالموں کو تحفظ فراہم کرنے کی ہو تو یہ امریکا اور امریکی انتظامیہ ہے کہ جو تیس بلین ڈالر سے زائد کی فوجی اور مالی مدد صرف اسرائیل جیسی خطرناک صہیونی ریاست کو فراہم کرنے سے دریغ نہیں کرتی۔

دور حاضر میں امریکا کو 2011 میں لیبیا پر حملہ کرنے کے بعد ماضی قریب میں شام کے معاملے میں کس طرح امریکا اور اس کے حواریوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے، شام کے بعد اب امریکا یوکرین اور ونیزویلا میں بھی اسی قسم کی سازشوں میں مصروف عمل نظر آ رہا ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ واشنگٹن ایک ہی وقت میں ونیزویلا، شام اور یوکرین کی حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لیے بھرپور کردار ادا کر رہا ہے اور اس کوشش میں مصروف عمل ہے کہ ان ریاستوں میں امریکی افواج کو کنٹرول سونپ دیا جائے اور پھر خطے میں صہیونی مفادات کا مزید تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ واشنگٹن یہ سمجھتا ہے کہ طاقت کے بل بوتے پر اپنی قومی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بہت ضروری ہے کہ امریکا شام، ونیزویلا اور یوکرین کی حکومتوں کا تختہ الٹ سکتا ہے، اور اگر امریکا اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر ان ممالک میں کوئی بھی بننے والی نئی حکومت مستقبل میں امریکا کے سامنے مزاحمت نہیں کرسکے گی۔

امریکا ماضی کی اپنی تمام شکستوں کے باوجود اس کوشش میں مصروف عمل ہے کہ کسی طرح حکومتوں کو تبدیل کرسکے اور ایسی نئی حکومتوں کو برسر اقتدار لایا جائے کہ جو امریکی غلامی میں مصروف رہیں اور خطے میں صہیونی ریاست اسرائیل کے مفادات کا تحفظ یقینی بنائیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے بیک وقت ونیزویلا، یوکرین اور شام میں حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لیے حکمت عملی میں اہم ترین عنصر امریکی قومی سلامتی کو رکھا ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ تینوں حکومتوں کا تختہ الٹ دیا جائے۔ اس کام کے لیے امریکا مختلف حربے استعمال کر رہا ہے جس میں شام میں موجود دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی، یوکرین میں حکومت مخالف گروہوں کی فنڈنگ، سمیت ونیزویلا میں کوشش کررہا ہے کہ کسی طرح سازشوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔

اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے امریکی صدر نے قومی سلامتی کی ٹیم کو یہ کام سونپ دیا ہے، اول مشیر برائے امریکی صدر سوزن رائس  اور اقوام متحدہ میں موجود امریکی سفیر سمنتھا پاور کو یہ ذمے داری سونپی گئی ہے کہ وہ ونیزویلا، شام اور یوکرین کی حکومتوں کے تختے الٹنے میں اپنا کردار ادا کریں، یہ دونوں خواتین جمہوری گفت و شنید کی ماہر سمجھی جاتی ہیں، ان دونوں خواتین کو دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سمیت ممالک میں قتل و غارت گری کروانے جیسے کئی اہم ترین معاملات میں کافی حد تک تجربہ بھی حاصل ہے اور یہ اپنے کام میں ماہر خواتین سمجھی جاتی ہیں۔

امریکی صدر کی جانب سے بنائی جانے والی کمیٹی کے تین ریجنل کوآرڈینیٹر بشمول فلپ گورڈن جو کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا،Karen Donfried  جو کہ یورپ، ریکارڈو زونیگا جو کہ لاطینی امریکا کے معاملات میں امریکی صدر کے اہم ترین کو آرڈینیٹر ہیں۔ فلپ گورڈن جو کہ نکولس سرکوزی کے قریبی دوست اور مترجم ہیں، ان کا حال تو یہ ہے کہ شام کے معاملے میں ہونے والے دوسری جنیوا امن کانفرنس کو سبوتاژ کرنے میں بھرپور سرگرم عمل رہے اور یہی وجہ ہے کہ مسئلہ فلسطین جو برسوں سے حل طلب ہے اس پر کسی قسم کی پیش رفت نہ ہونے دی۔ کانفرنس کے دوسرے مرحلے میں جان کیری جب امن کی بات کر رہے تھے تو دوسری جانب گورڈن اردن، قطر، سعودی عرب اور ترکی کے خفیہ اداروں کے سربراہوں سے ملاقات میں مصروف عمل تھے اور نئے حملوں کی منصوبہ بندی کرر ہے تھے۔ ان ملاقاتوں میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ 13000 جنگجوئوں کا لشکر تیار کیا جائے گا اور ایک ہزار ماہر ترین امریکی کمانڈوز ان کو جدید ٹینک اور اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت دیں گے اور یہ سب کام اردن میں کیا جائے گا، جس کے بعد شام پر بڑے حملے کا اعلان کیا جائے گا۔

اس سازش کا دہرا فائدہ یقیناً ان تمام ممالک کو ہوگا جن کے خفیہ اداروں کے اعلیٰ عہدیدار گورڈن سے ملاقات کررہے تھے، کیونکہ اگر شامی افواج نے اپنی اینٹی ائیر کرافٹ اور اسلحوں کے ذریعے اردن سے حملہ آور دہشت گردوں کا مقابلہ کیا تو شاید بعد میں شام اسرائیل کے مقابلے میں اس طاقت سے مقابلہ نہیں کر سکے گا، جو آج کر سکتا ہے۔ تاہم اس سازش کا مقصد شامی حکومت کا تختہ الٹنا اور شام میں امریکی اور اسرائیلی فرمانبردار حکمرانوں کی حکومت قائم کرنا ہے۔Karen Donfried جو کہ یورپ میں امریکا کا سابق انٹیلی جنس اعلیٰ عہدیدار رہی ہیں، آج کل یورپی یونین کو اس بات پر قائل کرنے پر مامور ہیں کہ یورپی یونین امریکا کی جانب سے دیگر ممالک میں کی جانے والی مداخلت پر آنکھیں بند رکھے اور امریکا کے خلاف بات نہ کرے اور خصوصاً یوکرین میں امریکا جو کچھ کر رہا ہے اس پر صرف نظر کی جائے۔ بہرحال ایک اسکینڈل کے باوجود بھی یہ خاتون یورپی یونین کو اس بات پرمطمئن کرنے میں کامیاب رہی ہیں کہ یورپ یوکرین میں امریکی مداخلت پر صرف نظر کرے۔ بہرحال ان تمام افراد کو امریکی صدر اوباما نے ذمے داری سونپ دی ہے کہ شام، یوکرین اور ونیزویلا میں حکومتوں کا تختہ الٹ دیا جائے، کہیں فوجی مداخلت، کہیں پابندیاں اور کہیں سفارتی ذرایع استعمال کیے جائیں اور نتیجے میں امریکی انتظامیہ یہ چاہتی ہے کہ یوکرین سمیت شام اور ونیزویلا کی حکومتوں کو بیک وقت ختم کردیا جائے۔

یوکرین میں کچھ امریکی حمایت یافتہ نازی گروہ ہیں جو یوکرین کی حالت کے ذمے دار ہیں، اسی طرح ونیزویلا میں چند نوجوان منچلوں کو استعال کیا جا رہا ہے اور ہر جگہ یہی دیکھا جا رہاہے کہ امریکا کچھ مخالفین کی مدد سے وہاں کی مقامی حکومتوں کے تختے الٹنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے۔ تمام معاملات میں حکومت مخالفین کا تعلق امریکی این جی او National Endowment for Democracy کے ساتھ ہے جو کہ کانگریس سے مالی مدد حاصل کر رہی ہے اور امریکی انتظامیہ کی ایما پر دیگر ممالک میں اندرونی معاملات میں دخل اندازی جیسے اقدامات کے حوالے سے مالی تعاون فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔

واشنگٹن دنیا کو دکھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ دنیا کا مالک ہے، اور امریکا نے اس بات کا یقین دلوانے کے لیے عین اس وقت یوکرین اور ونیزویلا میں اپنے آپریشن کا آغاز کیا جب سوچی اولمپکس کا آغاز کیا جارہا تھا، البتہ روس کو خطے میں موجود دہشت گرد قوتوں سے خطرات لاحق تھے کہ شاید سوچی اولمپکس میں حملے ہو سکتے ہیں، تاہم سوچی میں اولمپکس کا خاتمہ پرامن طریقے سے ہو ہی گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ روس کیا کردار ادا کرے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔