بد امنی کے سدباب کی ضرورت

ایڈیٹوریل  بدھ 26 مارچ 2014
کراچی جو پاکستان کا معاشی حب گزشتہ ایک دہائی سے مسلسل بدامنی کا شکار ہے، فوٹو: فائل

کراچی جو پاکستان کا معاشی حب گزشتہ ایک دہائی سے مسلسل بدامنی کا شکار ہے، فوٹو: فائل

ملک میں امن وامان کی مخدوش صورتحال کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے قواعد، ضابطہ کار و استحقاق نے چیئرمین سینیٹ کی سیکیورٹی فی الفور بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے صرف 16اہلکاروں کی تعیناتی کو استحقاق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اعلیٰ حکومتی شخصیات کی سیکیورٹی کے لیے تو سب فکرمند ہیں لیکن عوام کا بھی کوئی استحقاق ہے یا نہیں یہی بنیادی سوال ہے۔ کراچی تا خیبر صورتحال ایک جیسی ہے، بلوچستان میں بھی بدامنی تھمنے کا نام نہیں لیتی ، کیا اسلام آباد ،لاہور،پشاور،کوئٹہ ،کراچی، حیدرآباد سمیت پاکستان کے چھوٹے بڑے ان گنت شہر رہزنی ، ڈکیتی، قتل وغارت گری اور دہشت گردی سے محفوظ ہیں، جواب نفی میں ہے تو پھر پولیس سمیت بے شمار ایجنسیاں کر کیا رہی ہیں ، عوام کیوں خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں،جب کہ متعدد ایسی شکایات بھی منظر عام پر آئی ہیں جن میں سیکیورٹی اہلکاروں نے اپنے اختیارات سے تجاوزکیا ہے ۔ ماورائے آئین وقانون اقدامات کے باعث بدامنی بڑھتی ہے گھٹتی نہیں ۔کراچی کے مختلف علاقوں میں فائرنگ اورتشددکے واقعات میں خاتون سمیت 5افراد جاں بحق ہوگئے۔

کراچی جو پاکستان کا معاشی حب گزشتہ ایک دہائی سے مسلسل بدامنی کا شکار ہے، قیمتی انسانوں کا ضیاع روز کا معمول بن چکا ہے، بھتہ خوری کے باعث صنعتی ومعاشی سرگرمیوں پر جمود طاری ہے تاجر وصنعت کار طبقہ خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے، موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن بھی شروع کر رکھا ہے ،روزانہ کی بنیادوں پر کثیرتعداد میں مجرموں کی گرفتاری کے اعدادوشمار بھی اخبارات میں شایع کروائے جاتے ہیں ، اب تک ہزاروں جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری کے باوجود  جرائم وقتل وغارت گری کی شرح میں کوئی نمایاں کمی نظر نہیں آرہی۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو گزشتہ روزآئی ایس آئی کے سینئر افسران نے ملکی سلامتی سے متعلقہ معاملات پر تفصیلی ان کیمرہ بریفنگ دی۔آئی ایس آئی کے افسران نے کمیٹی اراکین کو بتایا کہ کراچی میں لاقانونیت اور برائی کی ایک بڑی وجہ قانون شکن عناصر کے سیاسی جماعتوں کے ساتھ روابط ہیں۔ طالبان نے بھی کراچی میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔ 10 لاکھ سے زائد غیر ملکی بھی دہشت گردی کا سبب ہیں۔کراچی میں بدامنی کے حوالے سے اس بات کا ایک عرصہ سے اظہار کیا جا رہا ہے مگر معاملات میں بہتری نہیں آ رہی۔

پولیس و رینجرز اہلکار شاہراہوں پر نامعلوم دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں ۔کراچی میں امن ہوگا تو صنعتوں کا پہیہ چلے گا اور ملکی معیشت درست سمت میں رواں ہوگی ۔ پاکستانی جعلی کرنسی نوٹوں کی خیبرپختونخوا کے بندوبستی علاقوں کے ساتھ قبائلی علاقوں میں وسیع پیمانے پر فروخت جاری ہے، حد تو یہ ہے کہ بینک کے کیشیئر اور اے ٹی ایم کے ذریعے جو نوٹ ایک عام فرد لیتا ہے وہ بھی جعلی ہونے کی شکایات عام ہوتی جا رہی ہیں۔ جعلی کرنسی کا کاروبار پھل پھول رہا ہے ، روزانہ کی بنیاد پر کراچی میں ایک کروڑ جب کہ لاہور کے کاروباری مراکز میں ساٹھ سے نوے لاکھ کے درمیان جعلی نوٹوں کا کاروبار ہو رہا ہے ، اس کی روک تھام کرنیوالے محکمے کے اہلکار آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔آنکھیں تو سندھ کی صوبائی حکومت نے تھرکے المیے پر بند کر رکھی ہیں ، تھر میں غذائی اشیا کی قلت کے باعث مزید دو بچے اور ایک خاتون لقمہ اجل بن چکی ہیں ۔تھر میں قیمتی انسانوں کا ضیاع جہاں انتظامی افسران واہلکاروں کی غفلت کے باعث ہوا ہے ،وہیں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف بھی اس کا ذمے دار ہے جو تنخواہیں تو سرکار کے کھاتے سے وصول کرتے ہیں لیکن اپنی ڈیوٹی کے مقام پر حاضر نہیں ہوتے، انسانیت سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے ۔وطن عزیز میں امن وامان کی مخدوش صورتحال اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ سیکیورٹی اداروں کا میکنزم مکمل طور باہمی رابطوں کے فقدان کے باعث ناکامی سے دوچار ہے اسے مزید بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔