پاکستان کی عدلیہ پر چھائے خوف کے سائے!

عبدالقیوم فہمید  اتوار 13 اپريل 2014
وکلاء برادری عدلیہ کے تحفظ کے لیے ایک بار پھر احتجاجی تحریک چلانے کو تیار ہیں  فوٹو: فائل

وکلاء برادری عدلیہ کے تحفظ کے لیے ایک بار پھر احتجاجی تحریک چلانے کو تیار ہیں فوٹو: فائل

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں تین مارچ 2013ء کو سیکٹر ایف ایٹ کچہری میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعے کو ایک ماہ سے زائد عرصہ بیت چلا ہے مگر عدلیہ سے وابستہ عزت مآب جج صاحبان اور وکلاء برادری کسی ’’انہونی‘‘  کے خوف سے باہر نہیں آسکے ہیں۔

پاکستان کی عدلیہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے چندماہ قبل کراچی میں جسٹس مقبول باقرسمیت ملک کے کئی دیگرشہروں میں ججوں اور وکلاء کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ تاہم اسلام آباد کے پوش علاقے میں ایک ماہ قبل ہونے والی دہشت گردی کی اس گھناؤنی واردات  اور اس میں سیشن جج رفاقت اعوان سمیت ایک درجن وکلاء اور عام شہریوں کی موت ناقابل فراموش سانحہ ہے۔

ماضی میں پاکستان کی عدلیہ سے وابستہ افراد پرحملوں کو وہ عالمی پذیرائی نہیں ملی جو اسلام آباد کچہری میں دہشت گردی کے واقعے کو حاصل ہوئی ہے۔ اس افسوسناک واقعے کے بعد عالمی ابلاغی، سماجی اور انسانی حقوق کے حلقوں نے پاکستان کی عدلیہ اور وکلاء برادری کے ساتھ جس  فقید المثال یک جہتی کا مظاہرہ کیا اس کی نظیرکم ہی ملے گی۔ سیکٹر ایف ایٹ کچہری میں ہونے والی خونی واردات پر پاکستان کی وکلاء برادری اور جج صاحبان نے جس بلند ہمتی کا مظاہرہ کیا وہ عالمی ذرائع ابلاغ کی خاص طورپر توجہ بنا ہے۔

قطر کے مقبول عربی ٹیلی ویژن نیوز چینل’’الجزیرہ‘‘ اور سعودی عرب کے العربیہ نے اسے خاص طورپر کوریج دی۔ الجزیرہ نے اسلام آباد کچہری کے واقعے پر سلسلہ وار رپورٹس بھی نشر کیں جن میں پاکستان کی عدالتی برادری کے حوصلے اور ہمت کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اسی واقعے سے متعلق ایک تازہ رپورٹ میں عدلیہ کی ہمت افزائی کے ساتھ ساتھ پیش آئند خطرات پرانتباہ بھی کیا گیا۔  رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ خفیہ اندرونی اور بیرونی ہاتھ ایک منظم سازش کے تحت مملکت خداد پاکستان اوراس کے عدالتی نظام کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔

اس نوعیت کی سازشوں کے تانے بانے پاکستان سے باہر ہیں، جن میں مختلف ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کا بھی ہاتھ ہو سکتا ہے۔ گوکہ اسلام آباد کے ایف ایٹ کچہری کے واقعے میں ملوث براہ راست کسی اندرونی قوت کی نشاندہی نہیں ہوسکی۔ پولیس نے جو تحقیقات کی ہیں ان سے ظاہر ہو رہا ہے کہ واقعے میں ملوث گروپوں کے ڈانڈے کہیں دور جاتے ہیں۔ اس ضمن میں بھارت  کی را اور اسرائیل کی موساد کا نام بھی لیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ دونوں خفیہ ادارے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے مربوط انداز میں کام کرتے رہے ہیں۔

پاکستان کے خلاف اسرائیل کا بعض پڑوسی ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ گٹھ جوڑمقتدر حلقوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے اور نئی دہلی کو ’’پسندیدہ ملک‘‘ کا اسٹیٹس دینے کے علی الرغم اسلام آباد کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ دوستی کے روپ میں دوست اپنا ہاتھ دکھا سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بیرونی عناصر پاکستان میں جاری شورش سے فائدہ اٹھا کر عدلیہ کو خاص طور پر نشانہ بنا سکتے ہیںکیونکہ موجودہ حالات میں ملبہ فوری طور پر طالبان اور ان کے حامیوں پر گرانا بہت آسان ہے۔

اسی خدشے کا اظہار پاکستان بار ایسو سی ایشن کے نائب صدر محمد رمضان چودھری نے ’’الجزیرہ‘‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔ انہوںنے کہا کہ بینچ اور بار دونوں بندوق کے سائے میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔ سیکٹرF/8 کچہری میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد حکومت نے عدالتوں اور وکلاء کو ’’فو ل پروف‘‘ سکیورٹی فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن حکومتی اقدامات محض چند پولیس افسروں کی معطلی اور ان کے تبادلوں سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔

نئی وکلا تحریک کی بازگشت!

بار ایسو سی ایشن کے نائب صدر رمضان چودھری کا کہنا تھا کہ ہمیں جب بھی اپنا کوئی مطالبہ منوانا ہوتا ہے تو اس کے لیے ہمیں تحریک چلانا پڑتی ہے۔ کیونکہ جب تک تحریک نہ چلائی جائے حکومت کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا کوئی بھی قابل ذکر جج اور متحرک وکیل ایسا نہیں جسے دھمکی آمیز فون نہ آتے رہے ہوں۔ پہلے ہم ان واقعات کو انفرادی نوعیت کی دھمکیاں سمجھتے رہے ہیں لیکن کراچی میں جسٹس مقبول باقر اور اسلام آباد کچہری کے واقعے کے بعد ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ کچھ خفیہ ہاتھ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت پوری عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس دہشت گردی سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے۔ حکومت  پولیس فورس کو جدید تقاضوں کے تحت تربیت فراہم کرنے کے بجائے ان کی دوڑیں لگانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ کہیں بھی دہشت گردی ہوتی ہے فوری طورپر وہاں کی متعلقہ پولیس کی معطلی یا تبادلوں کے احکامات جاری کردیے جاتے ہیں۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کو عصری تقاضوں کے تحت تربیت دی جائے۔ انہیں وسائل فراہم کیے جائیں اور پرانے دور کے اناڑی پولیس افسروں کی جگہ تعلیم یافتہ لوگوں کو آگے آنے کا موقع فراہم کیا جائے کیونکہ روایتی  انداز میں جنگیں لڑنے اور جیتنے کا دور لد چکا ہے۔

محمد رمضان چودھری کا کہنا تھا کہ حکومت چونکہ ججوں اور وکلاء کو تحفظ فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ اس لئے بار ایسوسی ایشن ملک بھر کی بار کونسل کی مشاورت کے بعد احتجاجی ریلیوں، جلسے جلوسوں اور ہڑتالوں کی کال دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے ۔ اس ضمن میں تمام صوبائی بار ایسوسی ایشنوں اور بار کونسلوں سے مشاورت کا عمل جاری ہے، جلد ہی نئے لائحہ عمل کاا علان کیا جائے گا۔ عین ممکن ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک وکلاء برادری ایک بار پھر سڑکوں پر نکل کھڑی ہو۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد واقعے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ملک بھر کی عدالتوں کو اضافی سکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن حکومت پرچیف جسٹس کے احکامات کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے عدلیہ کے تحفظ کے لیے تمام ناگزیر اقدامات کئے جائیں۔ موجودہ نازک حالات میں جب عسکریت پسندی کا عفریت سرچڑھ کر بول رہا ہے، ایسے میں عدلیہ کا آزادانہ کردار مزید ناگزیر ہوگیا ہے۔

سنہ2007ء کے بعد عدلیہ نے آزادی کا جو سفرشروع کیا ہے اس کی راہ میں کسی اندرونی یا بیرونی ہاتھ کو حائل نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ملک میں عدلیہ کمزور ہو جاتی ہے تونہ حقیقی سلطانی جمہور کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے اور نہ ہی عام آدمی کو انصاف کی فراہمی ممکن ہے۔ اس باب میں عدلیہ کے دونوں شعبوں بنچ اور بار کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ وکلاء برادری اپنی آزادی اور تحفظ کے لیے پرامن دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے ضرور آواز اٹھائے مگر اس تحریک کو تخریبی عناصر کے ہاتھوں یرغمال ہونے سے بھی بچایا جائے۔

عسکریت پسند گروپ اور عدلیہ

اسلام آباد کچہری میں دہشت گردی کی واردات کی ذمہ داری ایک گمنام عسکری گروپ’’احرارالہند‘‘ نے قبول کی تھی، لیکن اس کا طالبان کے ساتھ تعلق ثابت نہیں ہو سکا ۔ عسکری گروپوں کے امور پرگہری نگاہ رکھنے والے صحافی قمرالزمان یوسف زئی کا کہنا ہے کہ گو ’’احرار الہند‘‘ کو طالبان کی ہم شکل تنظیم قرار دیا جاسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ تنظیم کے ’’ٹی ٹی پی‘‘ اور مولوی فضل اللہ کے ساتھ روابط رہے ہوں لیکن اب اس تنظیم نے طالبان سے اپنے راستے جدا کر لیے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ  ایسے تمام عسکریت پسند گروپ جو شریعت کے علاوہ کسی دوسرے آئین کو نہیں مانتے ،وہ ججوں اور وکلاء برادری کو بھی اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ البتہ طالبان اور ان کے زیر اثر حکومت سے  مذاکرات میں شامل عسکری گروپ یہ تاثر دے چکے ہیں کہ اگر ان کے خلاف لڑائی بند کردی جاتی ہے وہ دوبارہ اپنے قبائلی علاقوں تک محدود ہو سکتے ہیں۔ یوسف زئی کا ماننا ہے کہ پاکستان کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو طالبان کو اپنے مطالبات میں ملک میں نفاذ شریعت کا مطالبہ شامل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ پاکستان کے اندر سے طالبان کو نفاذ شریعت کے مطالبے کے لیے اصرار نہ کیا جائے تو حکومت اور طالبان کا ساتھ آسانی کے ساتھ’’نباہ ‘‘ ہو سکتا ہے۔

آزاد عدلیہ اور معاصرعدالتی نظام

الجزیرہ ٹیلی ویژن ہی کی ایک دوسری مفصل رپورٹ میں پاکستان میں عدلیہ کی آزادی کا معاصر مسلمان ممالک بالخصوص ترکی اور مصر کی عدلیہ کے ساتھ ایک تقابل بھی کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق عدالتی آزادیوں کے میدان میں بھی پاکستان نے ایک اہم سنگ میل طے کیا ہے۔ ماضی میں پاکستان  کا نظام عدل ’’طاقتور قوتوں‘‘ کے ہاتھوں یرغمال بنا رہا ہے۔ آمریت نے عدلیہ کو اپنے پنجے مضبوط بنانے اور جمہوریت کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لیے بے دریغ طریقے سے استعمال کیا۔ تقابلی جائزے کے مطابق پاکستان، مصر اور ترکی میں عدلیہ نے نسبتاً ایک جیسا ماضی گزارا ہے۔ تینوں ملکوں کی عدلیہ طوعاً وکرھاً آمریت کی مضبوطی کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ مصر میں حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود عدالتوں کا آمرانہ مزاج ختم نہیں ہوسکا جبکہ ترکی اور پاکستان کے نظام عدل نے اپنے ماضی پر لگے داغ دھونے کا عمل شروع کردیا ہے۔ آزاد صحافت کے ہوتے ہوئے اب پاکستان میں عدلیہ کو یرغمال بنانا اتنا آسان نہیں رہا ہے۔ یہ بات خوش کن ہے کہ بہت سے شعبوں میں پسپائی کے باوجود ہم عدالتی آزادیوں کے باب میں آگے بڑھے ہیں، لیکن اصلاح احوال کا یہ عمل بھی تسلسل کا تقاضا کرتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آج اگر کسی سابق فوجی آمر کا احتساب ہو رہا ہے تو یہ عدلیہ کی کایا پلٹنے اور اس کے آزادانہ فیصلوں کی درخشندہ مثال ہے۔ پاکستان کی عدالتی اور سیاسی تاریخ میں کسی سابق مرد آہن کو اس طرح عدالتوں میں نہیں گھسیٹا گیا جیسا کہ اب پرویز مشرف کے باب میں ہو ا  ہے۔

عربی نیوز ویب پورٹل ’’مفکرۃ الاسلام‘‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی جوڈیشری کی دونوں شاخوں(ججوں، وکلاء) نے تین نومبر2007ء کے بعد آزادی کا ایک فقید المثال سفرشروع کیا ہے۔ اس سفر کو تبھی کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے جب بنچ سے زیادہ بار ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔ اگر سنہ 2007ء کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے ایمرجنسی قانون کے خلاف وکلاء سڑکوں پر نہ نکلتے تو شائد عدلیہ آج اس قابل فخر مقام پر نہ کھڑی ہوتی۔ اب بھی اگر وکلاء برادری پانسہ پلٹ دیتی ہے توبہتری کی امیدیں پھر سے زندہ ہو جائیں گی۔

پاکستان ہی کی طرح ترکی میں بھی عدلیہ نے کایا پلٹی اور سابق فوجی حکمرانوں کے خلاف پوری دیدہ دلیری کے ساتھ مقدمات کی سماعت شروع کی۔ ترک عدالتوں نے نہ صرف آمریت نوازوں کے خلاف دائرمقدمات کی سماعت کی بلکہ باربار منتخب حکومتوں کو چلتا کرنے والوں کو سزائیں بھی دیں۔ ترک معاصر’’زمان‘‘ نے بھی ایسی ہی ایک رپورٹ میں پاکستان اور ترکی کے عدالتی اور سیاسی نظام کا ایک تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ گوکہ اس رپورٹ  کے کئی دوسرے پہلوؤں پرایک مفصل مضمون تیار کیا جاسکتا ہے مگر یہاں صرف دونوں برادرملکوں کی عدالتی آزادیوں کا حوالہ دینا ضروری ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان اور ترکی دونوں نے آمریت کے طویل ادوار کو برداشت کرنے کے بعد اب سلطانی جمہور کے مفہوم سے آگاہی حاصل کی ہے۔ دونوں ملکوں کی عدالتی تاریخ ایک جیسی ہے اور دونوں میں عدلیہ کی کایا پلٹنے کا عرصہ بھی ایک ہی ہے۔ ترکی میں سنہ 2005ء کے بعد عدلیہ نے انگڑائی لی جب کہ پاکستان میں دو سال  بعد 2007ء میں اپنی آزادی کے سفرکا آغاز کیا ہے۔ دونوں نے سابقہ حکومتوں کے بڑے بڑے کرپشن اسکینڈل کی جرات مندانہ طریقے سے چھان بین کی اور دونوں ملکوں کی عدلیہ کو سابق فوجی حکمرانوں کے مقدمات نمٹانے پڑے ہیں۔ اسی طرح دونوں ملکوں کو یکساں دور میں آزاد میڈیا کا تعاون حاصل ہوا اور دونوں ہی نے حکومت وقت کے بعض فیصلوں کو کالعدم قرار دے کر ملک و قوم کے مفاد میں فیصلے کرائے ہیں۔

جہاں تک مصرکا تعلق ہے تو وہاں سنہ 2011ء میں حسنی مبارک کے تیس سالہ آمرانہ نظام کے خاتمے کے بعد مثبت تبدیلی اور عدلیہ کی آزادی کی ایک خفیف سی کرن روشن ہوئی تھی مگر وہ ایک سال سے زیادہ عرصے تک اپنی چمک نہ دکھاسکی۔ وہی عدلیہ اب محض سیاسی بنیادوں پر پانچ پانچ سو کارکنوں کو موت کی سزائیں سنا رہی ہے۔ یوں ترکی اور پاکستان میں آزاد عدلیہ مزید مستحکم ہوئی ہے جبکہ مصرمیں عدلیہ کی بجائے فوجی آمریت کو استحکام اور دوام ملا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔