وہ جن کے ہاتھوں میں عضب ہے

عبدالقادر حسن  منگل 17 جون 2014
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

’’یہ دہشت گرد یا انھیں جو بھی کہیں، سوویت یونین کے دشمنوں کے اتحادی کی حیثیت سے ہم نے انھیں تخلیق کیا۔ انھیں سرد جنگ کے معرکے میں کامیابی سے استعمال کیا۔ فتح پائی لیکن اس کے بعد انھیں بے یارو مدد گار چھوڑ دیا۔ ان کے لیے نہ کوئی ترقیاتی کام نہ کوئی جمہوری روایت، نہ تعلیم اور صحت کی سہولیات نہ کوئی معاشی مستقبل اور نہ کوئی تفریحی سرگرمیاں۔ ہم نہ تو ان پر حکومت کر پائے اور نہ ہی انھیں اپنا بنا پائے۔ ان کی واحد مصروفیت رہ گئی دہشت گردی۔ ہتھیار بنے ان کے بچوں کے کھلونے اور خود کشی بنی ان کا مستقبل۔

ہمارے ازلی دشمن نے ان کو دوست بنا لیا۔ ہمارا اپنا ہی بنایا ہوا یہ عفریت اور ایک تباہ کن ہتھیار تمام دنیا کے لیے ایک ناسور بن گیا۔ دنیا کی سب سے خوبصورت فطری نظاروں سے بھرپور وادی آج ایک مہلک جنگ کا میدان بن چکی ہے۔ اس جنگ کا شکار بنیں گے ہمارے سپاہی اور ان کے خاندان، وزیرستان کی عورتیں بچے معصوم شہری اور اس دنیا اور وادی کا فطری حسن اور ہم جیسے پاکستان کے امن پسند شہری۔ عالمی رائے عامہ کو پاکستانی فوج کی حمایت کرنی چاہیے کہ وہ تہذیب کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

میں جو ایک پاکستانی خاتون ہوں اور تب ایک بچی تھی جب افغانستان کے صوبہ پکیتا میں میرے سر پر گلبدین حکمت یار نے شفقت کا ہاتھ پھیرا تھا۔ میں افغانستان میں مسلمان قوتوں کی جنگ کو قریب تر دیکھنا چاہتی تھی، اسی جنونی سفر میں اور اسی مبارک سفر میں محترم و مکرم حکمت یار سے ملاقات نصیب ہوئی۔ میں نے ایک زندہ مجاہد پہلی بار دیکھا تھا اور عجیب کیفیت تھی جو میرے وجود پر طاری ہو گئی تھی۔ چند جملوں کی گفتگو میں جناب حکمت یار نے فرمایا کہ ہم افغانستان سے فارغ ہو رہے ہیں، اب ہم کشمیر کی واخان کی پٹی پر قبضہ کر کے کشمیر میں داخل ہوں گے اور پاکستان کو اس کی ماضی کی مسلسل حمایت اور محبت کا شکریہ ادا کریں گے ہمارا تمغہ کشمیر ہو گا‘‘۔

قارئین کرام لوگ اپنی وراثت میں دنیا کی مال و دولت مل جانے پر نازاں ہوتے ہیں اور رئوساء میں شمار ہوتے ہیں۔ میں ایک چھوٹے سے لینڈ لارڈ اور اشرافیہ کا بیٹا ہوں۔ میرا فخر دنیا کی جائیداد وغیرہ نہیں۔ میں نے سب کچھ چھوڑ کر قلم کی اقلیم میں اپنا نیا مقام پیدا کرنے کی کوشش کی اور اس نئے مقام کے لیے قدرت نے مجھے جو جائیداد بخشی اس میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ بیٹا زمانے کے دستور کے مطابق میری دیکھ بھال کرتا ہے اور دنیا داری سنبھالتا ہے، ساتھ ہی شہر میں ملازمت بھی کرتا ہے جو اسے گائوں کے ماحول میں بہت ساز گار اور مدد گار رہتی ہے اور میری بیٹی جس کی تحریر کا ایک ٹکڑا آپ نے شروع میں پڑھا ہے میرے لیے راز تھا۔

مجھے بھنک تو پڑی تھی کہ اسماء شاعری بھی کرتی ہے اور شاعرانہ نثر بھی لکھتی ہے لیکن جب اس نے پرس میں سے کاغذ کا ایک ٹکڑا نکال کر مجھے دیا تو میں  کسی دنیا میں گم ہو کر انوکھی کیفیت میں ڈوب گیا۔ وہ ایک مشہور و معروف گرلز کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہے۔ ایک کامیاب ڈاکٹر کی بیوی ہے اور تین بڑے ہی خوبصورت بچوں کی ماں ہے جو پاکستان اور بیرون پاکستان پڑھ رہے ہیں، اس عزم کے ساتھ کہ وہ اپنے ملک کو نئی نسل کے لیے قابل فخر بنائیں گے۔ کوئی ملک سے باہر مجبوراً پڑھنے نہیں جائے گا۔

میں قارئین کرام سے معذرت خواہ ہوں کہ ذاتی باتوں میں ان کا وقت ضایع کر گیا۔ اگر اسماء کی یہ تحریر ہمارے حالات کی عکاس نہ ہوتی تو میں اس کا ذکر نہ کرتا اور اسماء کے ذکر سے اس نالائق کا ذکر بھی نہ کرتا جو اب تک مجھ سے مار نہیں کھا سکا۔ میری بہو بھی اس بات سے مایوس ہے۔

بات یہ ہے کہ ملک میں مارشل لاء بھی ہے اور نہیں بھی اور ہماری فوج اللہ کا نام لے کر اس کے رسول پاکﷺ کی تلوار لے کر دشمنوں کے خلاف معرکہ میں ہے۔ یہ کاٹ دار اور تیز دھار تلوار عضب ناکام نہیں ہو سکتی اگر ہم نے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ و رسولؐ کے نام پر بننے والے ملک کی فوج اس ملک کی حفاظت میں ناکام ہو جائے۔ ناممکن۔ اب تک ہم نے اگر کبھی زخم کھایا ہے اور فتح حاصل نہیں کی تو وہ سراسر ہماری کوتاہی اور ایمان کی کمزوری تھی ورنہ جب خدا کہتا ہے کہ تم فتح یاب رہو گے تو پھر کسی معرکے میں شکست کیسی۔ یہ سب ہمارا اپنا کیا دھرا ہوتا ہے۔

حیرت ہے کہ ایک مسلمان سپہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبی کا جانشین جب قوم کو اپنی زیارت کرائے تو دو کتوں کو بغل میں لے کر۔ ایسے نام نہاد مسلمان جرنیلوں کو قدرت کی طرف سے فتح نہیں ملتی۔ ہمارا آج کا سپہ سالار کسی حد تک میرا جانا پہچانا ہے اس کے والد ماجد میجر شریف ہمارے دوست تھے اور سب سے بڑی اور بے مثال بات تو لہو کے دو مقدس قطرے ہیں جو ہمارے سالار کو بھائی سے اسے پیشانی روشن رکھنے کے لیے ملے تھے۔ نشان حیدر کا بھائی۔ کتنا بڑا اعزاز ہے۔ جنرل راحیل شریف اسی اعزاز کے ساتھ ہمارا جرنیل ہے۔ فتح اس کے قدم چومے گی۔ یہ جنگ بے حد مشکل ہے۔

دشمن سامنے نہیں کسی غار میں دبکا ہوا ہے اس کے باہر نکلنے کا انتظار ہماری ایک آزمائش ہے۔ ہماری سخت جان فوج ان چھپے دشمنوں کو تلاش بھی کرے گی اور فنا بھی کرے گی۔ مجھے اگر کوئی خطرہ محسوس ہوتا ہے تو اپنے بھارتی دوستوں سے جو اسلام مسلمان اور پاکستان دشمنی کے ووٹ لے کر آتے ہیں اور یہی ان کا مشن ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ ایک ہزار سال تک یہ مشن جاری رہا مگر غلامی کے محل کی ایک اینٹ بھی نہ اکھاڑ سکا، سقوط ڈھاکہ پر یاد آیا کہ ہم نے تو ایک ہزار سال کا بدلہ لینا ہے اور یہ بدلہ بھی جیسے لیا اس کا ذکر ہوتا بھی رہتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔