غیرت کے نام پر قتل

شبیر احمد ارمان  جمعرات 3 جولائی 2014
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

اگر تجزیہ کیا جائے تو آج بھی ہم جاہلیت کے زمانے میں خود کو  موجود پائیں گے۔ فرق اگر پڑا ہے تو صرف یہ کہ ظلم وستم کے طور طریقے تبدیل ہوگئے ہیں۔ عرب قبائل اپنی زندہ بچیوں کو بھوک و افلاس کے ڈر سے دفنا دیا کرتے تھے تو آج بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنی پیدا ہونے والی اولاد کو قبل از پیدائش موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں، اس خوف سے کہ کہیں وہ بھوک و افلاس میں مبتلا ہوکر معاشرے پر بوجھ نہ بن جائے۔

آج بھی دیہات میں عورتیں غلاموں کی سی زندگی بسر کررہی ہیں اور زبردستی انھیں بے آبرو کیا جارہا ہے۔ آج بھی ہماری عورتیں بھٹی اور تندور میں جل کر راکھ ہورہی ہیں جس ملک میں عورتوں کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکا جائے اس ملک میں عورتوں کی اہمیت کا اندازہ با آسانی لگایا جاسکتا ہے۔ اس وقت ملک میں عورتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا ہے اس کا اندازہ ’’غیرت کے نام پر عورتوں کا قتل‘‘ سے لگایا جاسکتا ہے۔

ہر سال درجنوں کے حساب سے خواتین کو ’’کاروکاری‘‘ کے الزام میں قتل کردیا جاتا ہے۔ جس میں اکثر خواتین کو ان کے شوہروں نے قتل کیا اس طرح خواتین پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ غیرت کے نام پر عورتوں کا قتل عام نے عالمی ضمیر کو بیدار کیا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے معاشرتی روایت کی وجہ سے ہمارے وطن عزیز میں عورتیں ان حقوق سے بھی محروم دکھائی دیتی ہیں جو اسلام نے انھیں تفویض کیے ہیں۔ یہ صورت حال تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ گھرانوں میں یکساں دکھائی دیتی ہے۔

عورتوں کے حقوق کو غصب کرنے کو اسلامی شعارکا نام دیا جاتا ہے اور جو عورت اپنے حقوق کی بات کرے تو اسے بے شرمی و بے حیائی سے تعبیر کرکے اس کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔ آئے روز اخبارات میں غیرت کے نام پر تعلیم یافتہ عورتوں کے قتل کی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ کس بے دردی اور بے حسی اور قانون کے خوف سے بالاتر ہوکر یہ انسانیت سوز جرم کیا جاتا ہے اور بے خوفی کی اہم وجہ ہمارا روایتی جرگہ اور پنچائیت نظام ہے جہاں سب مرد ایک تنہا عورت کے خلاف گواہیاں جو کہ جھوٹی ہوتی ہیں، دیتے ہیں ۔ ایسے معاملات کو تھانہ کچہری میں لے جانے کو بے غیرتی سے تعبیر کرتے ہیں۔

جس سے صرف ایک بے گناہ معصوم لڑکی، عورت قانون کے انصاف سے محروم رہ جاتی ہے بلکہ اس گھنائونے جرم میں ملوث افراد کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور یوں بتدریج یہ گھنائونا جرم، جرم نہیں رہتا بلکہ معاشرے کا معمول بن کر اس کی تہذیب، ثقافت و روایت کا ایک حصہ بن جاتا ہے اور قانون کا خوف ختم ہوکر رہ جاتا ہے۔

ہماری خواتین بالخصوص دیہی خواتین اپنوں اور غیروں کے ظلم و ستم کا شکار ہیں اس سلسلے میں صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ میں خاص طور پر ایسے واقعات بہ کثرت ہوتے ہیں اور بے چاری پاک دامن لڑکیوں پر بدکاری کا الزام لگاکر انھیں بدنام کرکے اپنے راستے سے ہمیشہ کے لیے ہٹا دیتے ہیں۔

حدود آرڈیننس پر قرآن و سنت کے عین مطابق عمل کرنے کی وجہ سے حکومت کو بین الاقوامی دبائو کا سامنا رہا ہے ۔ کیوں کہ مغربی کلچر کی حامل خواتین پر مشتمل این جی اوز عرصے سے حدود آرڈیننس کے متعلق قوانین کو عورت کے خلاف امتیازی قانون تصور کرتی ہیں بالخصوص بالجبر زیادتی  کے ملزم کو مجرم قرار دینے کے لیے چار چشم دید گواہوں کی ضرورت کو جو قرآن و سنت کے عین مطابق ہے جس میں ترمیم کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی بحث کرنے کی ضرورت ہے البتہ ان کے مختلف پہلوئوں اور مندرجات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

یوں تو ملک میں ہر سال اضافی حقوق کا دن منایا جاتا ہے۔ تقاریب منعقد کی جاتی ہیں اور حکومتی سطح پر انسانی حقوق کی پاسداری کا اعادہ کیا جاتا ہے۔ اسلام میں عزت کے نام پر قتل کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، ملک میں ایسے قتل کو قتل عمد تصور کرکے ایف آئی آر درج کرنے کا قانون موجود ہے جب یہ قانون بنایا گیا تو توقع کی جا رہی تھی کہ اس اقدام سے غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل عام کا سلسلہ رک جائے گا اور ایک بے بس معصوم لڑکی، عورت کو قانونی تحفظ کا احساس ہوگا اور معاشرہ اس گھناؤنے جرم سے پاک ہوجائے گا ملک میں اب عورتوں کی حالت زار میں تبدیلی آئے گی۔

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس سخت قانون کے باوجود سول سوسائٹی و این جی اوز کی مہم ، دبائو کے باوجود غیرت کے نام پر قتل کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے اور بعض دفعہ یہ قتل عدالتی احاطے ، عین آبادیوں کے بیچ سر عام کیے جاتے ہیں اور قانون منہ تکتا رہ جاتا ہے اور ہم افسوس کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔

انسانی حقوق کمیشن کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 1999ء کے ماہ نومبر تک حاصل شدہ اعداد و شمار سے پتہ چلا تھا کہ پنجاب میں 266  خواتین کو عزت کے نام پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کاروکاری جیسی گھنائونی رسم نہ صرف سندھ بلکہ پنجاب میں بھی فروغ پا رہی ہے۔ اس وقت کے لاہور کے اخبارات کے مطابق ہر ماہ 24خواتین عزت کے نام پر قتل کردی جاتی تھیں۔ اس وقت کے امریکی سفیرLINDA TARR WHELAN نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگرچہ خواتین سے امتیازی سلوک ختم کرنے کے متعلق کنونشن کی منظوری 1979ء میں دی گئی تھی اور 163 ممالک اس معاہدے کی توثیق بھی کرچکے ہیں لیکن اس کے باوجود کوئی ایسا طریقہ موجود نہیں تھا کہ امتیازی سلوک کا شکار خواتین صورت حال کے ازالے کے لیے اس معاہدے سے استفادہ کرسکیں۔

انھوں نے کہا تھا کہ اس پروٹوکول کی افادیت یہ ہے کہ اس کی صورت میں خواتین کو اپنی شکایت کے ازالے کا ذریعہ حاصل ہوگیا ہے۔ یہ کنونشن ستمبر1981 میں نافذ ہوا اور انسانی حقوق کے عالمی اعلان کے تحت وجود میں آنے والے ان سمجھوتوں میں شامل ہے جن کی پابندی لازمی ہے اس پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے ماہرین کی کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں بعض صورتوں میں افراد کے لیے اپیل کا ذریعہ تجویز کیاگیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔