غزہ آزمائش کی سرزمین (آخری حصہ)

عرفان علی  جمعـء 22 اگست 2014

سال 2006ء میں جون میں آپریشن برسات موسم گرما اور یکم نومبر کو آپریشن خزاں کے بادل، 2007ء میں غزہ کا محاصرہ اور سال 2008ء میں فروری میں آپریشن سرما کے بعد27 دسمبر میں آپریشن کاسٹ لیڈ نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو مسلسل جاری رکھا۔ 2008-2009ء کی اسرائیلی جارحیت میں بھی اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے پہل کی اور غزہ سے صرف جوابی کارروائی کی گئی۔

مارچ 2012ء میں آپریشن بازگشت تکرار میں زہیر ال قیسی کو شہید کیا گیا۔ نومبر 2012ء میں آپریشن ستون ہائے دفاع ہوا تو حزب جہاد اسلامی فلسطین نے آپریشن حجارۃ سجیل کے ذریعے جواب دیا۔ 2012ء کی جنگ بندی ختم کرتے ہوئے اب تین یہودیوں کے اغوا کے بعد جو پہلا آپریشن کیا گیا اس کا نام حفاظت برادران رکھا گیا اور جو آپریشن دفاعی برتری میں تبدیل ہوا۔

مقاومت فلسطین کا کہنا ہے کہ وہ درجنوں اسرائیلی فوجی واصل جہنم کر چکے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت کے ایک مہینے کے بعد فلسطینی شہداء کی تعداد1900 ہو چکی ہے۔ ساڑھے 9 ہزار سے زائد زخمی ہیں لیکن مشرق وسطیٰ کے اُمور کے ماہر تجزیہ نگار حسن ہانی زادہ کا کہنا ہے کہ صہیونی حکومت کو اس جارحیت پر روزانہ ایک بلین ڈالر کا نقصان اٹھا نا پڑ رہا ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے حماس کی کئی سرنگیں پکڑ کر کھود ڈالی ہیں۔ غزہ پر زمینی یلغار بھی شروع ہو چکی ہے لیکن مقاومت کا کہنا ہے کہ صہیونیوں کو اس جنگ کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ تل ابیب، نقب، اشدود، ایشکول، اشکیلون، بیر شعبا تک حماس کے راکٹ پہنچ رہے ہیں۔ اسرائیلی شدید خوف زدہ ہیں اور پناہ گاہوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ غزہ اپنی استقامت کی تاریخ دہرا رہا ہے۔

ادھر امریکی صدر باراک اوباما نے انتہائی منافقانہ انداز اختیار کرتے ہوئے مسلمان ممالک کے سفیروں کے اعزاز میں دعوت افطار میں، امریکا میں متعین صہیونی سفیر رون ڈرمر کو بھی مدعو کیا۔ نہ صرف یہ کہ اسے دعوت میں شریک کیا بلکہ سب سے پہلے خطاب کی دعوت بھی دی۔ اس نسل پرست صہیونی نے اس خطاب میں مسلمانوں کی بے عزتی کی اور کہا کہ مسلمان بنیادی طور پر جنگ پسند اور جھگڑالو ہیں اور یہ رجحان اُن میں مذہب کی وجہ سے پایا جاتا ہے۔

ٹھیک یہی الفاظ جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت 1980ء کے عشرے میں سیاہ فام افریقیوں کے بارے میں کہتی تھی اور اسے ثقافتی رجحان قرار دیتی تھی۔ خود صہیونی اخبار ھا آرتس نے اس کی امریکا تعیناتی پر لکھا تھا کہ بش خاندان سے قریبی تعلقات رکھنے والا نیوکنررویٹو اگلا سفیر ہو گا۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نیتن یاہو سے زیادہ انتہا پسند ہے اور آزاد فلسطینی ریاست، امن عمل، اور غیر قانونی یہودی بستیوں پر اس کا موقف امریکی و یورپی حکومتوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ کیوں کہ امریکا و یورپ کھل کر ساتھ دینے کے بجائے زبانی طور پر مخالفت اور عملی طور پر صہیونیوں کی حمایت کے قائل ہیں۔

میں فلسطینی مائوں سے اور ان بچوں سے شرمندہ ہوں کہ ان کی مدد کو نہیں جا سکا لیکن اس تحریر کے ذریعے اپنے حصّے کے قلمی جہاد میں مصروف ضرور ہوں۔ ٹی وی پر ایک روتی ہوئی ماں کا یہ سوال اپنے جواب کے انتظار میں ہے کہ عالم اسلام اور عالم عرب کہاں ہیں؟ کیا دیکھ نہیں رہے کہ ہمیں قتل کیا جا رہا ہے، ہمارے بچے  بے دردی سے بموں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ پھر اس خاتون نے یہ کہہ کر عرب حکمرانوں کو خود ہی جواب دیا کہ ہم تا آخر مقاومت کریں گے! میں اس شہید بچے کو دیکھ کر رو پڑا جس کے بال اور چہرہ تو ہے لیکن سر کے اندر کچھ بھی نہیں۔

وہ دو بچے جو ایک دوسرے کے گلے لپٹ کر شہید ہوئے، اُنہیں دیکھ کر بھی دل کو جھٹکا لگا۔ ایک ایک گھر سے کئی کئی نوجوانوں کے جنازے اٹھے ہیں۔ خاندان کے خاندان لقمہ اجل بنے ہیں۔ میں غزہ کی شام غریباں کا نوحہ لکھتے وقت حیران ہوں کہ اُردن، مصر، لبنان اور سعودی عرب کی حکومتیں اور افواج، سرحد پار کر کے اسرائیلی فوج کو صفحہ ہستی سے نابود کیوں نہیں کر دیتیں۔ ترکی بحر متوسط سے اپنی افواج کو اسرائیل پر حملے کا حکم کیوں نہیں دیتا۔

عرب لیگ اور او آئی سی کے جنازے کہاں چھپے ہیں؟ لبیک یا غزہ کی صدائیں کیوں نہیں آتیں۔ عراق اور شام کی حکومتوں کے سقوط کے لیے مسلمانوں کو دہشت گرد بنانے والے، افغانستان سے چیچنیا تک کے معاملات میں ’’مسلمانی‘‘ دکھانے والے اپنے پڑوس میں موجود عرب دشمن، اسلام دشمن، انسانیت دشمن ناجائز صہیونی وجود کا خاتمہ کیوں نہیں کر دیتے۔

سعودی عرب کے ادارے موتمر عالم اسلامی نے خود ہی 1970ء میں صہیونی پروٹوکولز نامی دستاویز کا انگریزی ترجمہ شایع کروایا تھا۔ پاکستان میں شایع اس کتاب میں گریٹر اسرائیل کے نقشے میں صرف ترکی اور شام ہی نہیں بلکہ مصر، مدینہ منورہ، اردن، فلسطین، کویت اور ترکی کے علاقے بھی شامل دکھائے گئے تھے۔ آج یہ ممالک اپنے ہی وجود کو بچانے کے لیے اسرائیل کو مٹا دیں، غزہ کی مدد تو وہ نہیں کر سکتے، کیا اپنے دفاع کی جنگ بھی نہیں لڑیں گے؟

امت اسلامیہ کو ایک ٹائم فریم مقرر کرنا ہو گا۔ امریکا و اسرائیل کے اتحادی عرب و مسلم ممالک نے اگر اس ٹائم فریم میں غزہ کی مدد نہیں کی تو پھر لبنان کی حزب اللہ اور ایران کی قدس فورس سمیت پوری دنیا سے مسلمان اور فلسطین کے غیر مسلم دوستوں کو غزہ کی آزادی کی جنگ لڑنا ہو گی۔ کچھ نہ کچھ ضرور کرنا ہو گا۔ ہم سے غزہ کی شام غریباں نہیں دیکھی جاتی۔

غزہ میں جن فلسطینی بچوں کا مقدس خون ارزاں بنا دیا گیا ہے، وہ ہمارا اپنا خون ہے، اگر مسلمانان عالم ایک جسد واحد ہیں تو غزہ کی قیامت پر ہم پُرسکون کیسے رہ سکتے ہیں؟  یہ خوش آیند بات ہے کہ ایران اور حزب اللہ نے غزہ اور حماس کی حمایت کا رسمی اعلان بھی کر دیا ہے۔ ماضی میں بھی غزہ میں ایران کی مدد پر اس کے شکریہ کے بینرز آویزاں کیے گئے تھے۔ حزب اللہ کے قائد حسن نصراللہ نے حزب جہاد اسلامی کے رمضان عبداللہ شلاح اور حماس کے خالد مشعل سے فون پر گفتگو بھی کی ہے۔ انھوں نے ہر ممکن مدد کا یقین دلایا۔

یرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر علی لاریجانی اور پاسداران انقلاب اسلامی کے سابق سربراہ محسن رضائی نے اعتراف کیا کہ ایران نے مقاومت اسلامی فلسطین کو ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی فراہم کی اور آیندہ بھی کریں گے۔ ایران کا امدادی قافلہ مصر میں موجود ہے لیکن  مصری حکومت اسے غزہ جانے کی اجازت نہیں دے رہی۔ ایران کا پارلیمانی وفد بھی غزہ کے دورے کا اعلان کر چکا ہے۔

دوسری جانب سعودی بادشاہت حماس اور دیگر مقاومتی گروہوں کو اس صورتحال کا ذمے دار قرار دے رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں قدس فورس کے سربراہ حاج قاسم سلیمانی نے مقاومت اسلامی کو پیغام بھیجا ہے جس میں ان کی شجاعت کی داد دی گئی ہے۔ قاسم سلیمانی نے کہا ہے کہ آسمان و زمین اور سمندر کو صہیونی جارح دہشت گردوں کے لیے جہنم بنا دیا جائے۔

مقاومت اسلامی فلسطین نے محض دو جائز مطالبات تسلیم کیے جانے پر جنگ بندی کا فیصلہ سنایا۔ ان کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ غزہ کا محاصرہ مکمل طور پر ختم کر دیا جائے اور فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے آزاد کر دیا جائے۔ تنظیم آزادی فلسطین نے بھی ان مطالبات کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ بال اب غاصب صہیونی حکومت اور ان کے سرپرست امریکا کی کورٹ میں ہے، جب وہ مطالبات مان لیں گے یعنی اس یکطرفہ جارحیت کو جو انھوں نے خود شروع کی، اسے روک کر دیگر دو مطالبات مان لیں گے تو مسئلہ عارضی طور پر حل ہو جائے گا۔ مسئلے کا مستقل حل ناجائز و غاصب صہیونی ریاست کا خاتمہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔