- دنیا کا گرم ہوتا موسم، مگرناشپاتی کے لیے سنگین خطرہ
- سائن بورڈ کے اندر سے 1 سال سے رہائش پذیر خاتون برآمد
- انٹرنیٹ اور انسانی صحت کے درمیان مثبت تعلق کا انکشاف
- ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافے کا سلسلہ جاری
- بنگلادیشی لڑاکا طیارہ فلمی کرتب دکھانے کی کوشش میں تباہ؛ ویڈیو وائرل
- پنجاب میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو مثالی بنائیں گے، مریم اورنگزیب
- آڈیو لیکس کیس میں مجھے پیغام دیا گیا پیچھے ہٹ جاؤ، جسٹس بابر ستار
- 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ
- غزہ میں اسرائیل کا اقوام متحدہ کی گاڑی پر حملہ؛ 2 غیر ملکی اہلکار ہلاک
- معروف سائنسدان سلیم الزماں صدیقی کے قائم کردہ ریسرچ سینٹر میں تحقیقی امور متاثر
- ورلڈ کپ میں شاہین، بابر کا ہی نہیں سب کا کردار اہم ہوگا، سی ای او لاہور قلندرز
- نادرا کی نئی سہولت؛ شہری ڈاک خانوں سے بھی شناختی کارڈ بنوا سکیں گے
- سونے کی عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں قیمت مسلسل دوسرے روز کم
- کراچی سے پشاور جانے والی عوام ایکسپریس حادثے کا شکار
- بھارتی فوج کی گاڑی نے مسافر بس اور کار کو کچل دیا؛ 2 ہلاک اور 15 زخمی
- کراچی میں 7سالہ معصوم بچی سے جنسی زیادتی
- نیب ترامیم کیس؛ عمران خان کو بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیشی کی اجازت
- کوئٹہ؛ لوڈشیڈنگ کیخلاف بلوچستان اسمبلی کے باہر احتجاج 6 روز سے جاری
- حکومت کو نان فائلرز کی فون سمز بلاک کرنے سے روکنے کا حکم
- آئی ایم ایف کا پاکستان کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم میں خرابیوں پر اظہارتشویش
بجلی کمپنیوں کے واجبات 230 ارب روپے سے تجاوز کرگئے
کراچی: انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے واجبات 230 ارب روپے سے زائد تک پہنچ گئے ہیں اور ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے آئی پی پیز مخمصے کا شکار ہیں کہ بجلی کی فراہمی کو کیسے یقینی بنایا جائے کیونکہ 3 ستمبر 2014 تک کے ان واجبات کے باعث آئی پی پیز کو آپریشن کو جاری رکھنے اور قرضوں کی ادائیگی میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔
اس ضمن میں ایک خط کے ذریعے جو 22 آئی پی پیز کے دستخطوں سے وزیر خزانہ اسحق ڈار کو بھیجا گیا ہے اس میں ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ آئی پی پیز کو مکمل تباہی سے بچایا جائے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ان کے تمام تر وسائل قرضوں کی مد میں ختم ہوچکے ہیں جس سے ان کے شیئر ہولڈرز کو بھی نقصان ہوا ہے۔ اگر پاور پرچیز ایگریمنٹ کے تحت باقاعدہ ادائیگیاں کی جاتی ہیں تو آئی پی پیز کو ورکنگ کیپیٹل کی ضرورت نہیں ہے۔
خط میں اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ کیپیسٹی ادائیگیوں کو بھی روک لیا گیا ہے جو طویل اور مختصر مدت کے پروجیکٹ کے قرضوں، انشورنس ادائیگیوں اور عملے کی تنخواہوں کی ادائیگیوں کے لیے ضروری ہیں۔ سی سی پی کی مجموعی ادائیگیاں 54.138 ارب روپے ہوگئی ہیں۔ اس میں سے 27.945 ارب روپے 90 دن سے بھی زائد عرصے سے ادا نہیں کیے گئے۔خط میں یہ بات بھی واشگاف کی گئی ہے کہ 50.6 ارب روپے شرح سود کی مد میں ہیں جو پاور پرچیزر کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے جمع ہوئے ہیں۔
ماہرین کی رائے ہے کہ یہ غیر ضروری ادائیگی ذمے نہیں پڑتی، اگر پاور پرچیزر بروقت ادائیگیاں کرتا رہتا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ 231.558 ارب روپے کی مجموعی ادائیگیوں میں سے زیادہ تر 131.308ارب روپے حبکو اور کیپکو کی ادائیگی کے ضمن میں ہے۔ خط میں وزیر خزانہ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ آئی پی پیز کو درپیش صورتحال کا نوٹس لیں۔
اس خط پر جن 22 آئی پی پیز نے دستخط کیے ہیں ان میں حبکو، کیپکو، اے ای ایس لال پیر، اے ای ایس پاک جین، کے ای ایل، لبرٹی(گیس)، یو سی ایچ، روش، فوجی، حبیب اللہ، اے جی ایل پاور، حبکو ناروال، اٹلس پاور، نشاط پاور، نشاط چونیاں، لبرٹی ٹیک، اورینٹ پاور، سیف پاور، سیفائر پاور، ہالمور پاور، یوسی ایچ II پاور اور اینگرو پاور شامل ہیں۔ خط کے مطابق واجب الادا رقم میں صباء پاور، فائونڈیشن پاور اور نیو بونگ ہائیڈرو پاور کے واجبات شامل نہیں ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔