سائیکل سے سائیکل تک

عبدالقادر حسن  پير 19 جنوری 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

سب سے پہلے میں اپنی حکومت کی کارکردگی اور کارگزاری پر مختصراً سبحان اللہ کہتا ہوں کہ اس کی تعریف و توصیف کے لیے مناسب الفاظ اب ختم ہو گئے ہیں چنانچہ حکمرانوں کو اللہ کے حوالے کر کے پٹرول کی یاد میں عرض ہے کہ جب میں نے صحافت شروع کی تو مالک اور ایڈیٹر مرحوم و مغفور حمید نظامی کی خدمت میں اپنی ملازمت کی درخواست کی یاد دہانی کے لیے حاضر ہوا تو انھوں نے بتایا کہ درخواست ملتے ہی اس کا جواب لکھ دیا تھا جو کسی وجہ سے مجھے مل نہ سکا بہر کیف درخواست منظور لیکن یہ بتائیں کہ سائیکل ہے یا نہیں میں نے عرض کیا، ہے۔ جواب میں کہا گیا کہ کل دفتر میں شیخ صاحب (شیخ حامد محمود) سے مل لیں۔

ہر صبح ان دونوں کی میٹنگ ہوتی تھی اور اخبار سے متعلق معاملات طے ہوتے تھے اس میٹنگ میں میرا معاملہ بھی طے ہو گیا اور ایڈیٹر کو سائیکل کی اطلاع دے کر میں مینجنگ ایڈیٹر کے پاس گیا تو پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ انھوں نے میرے انٹرویو کی روشنی میں میری ایک ایک ضرورت کا جائزہ لے کر میری تنخواہ ایک سو روپے طے کی اور بیس روپے جیب خرچ کے اس طرح میں زندگی میں پہلی مرتبہ ملازم ہوا اور تنخواہ ایک سو بیس روپے جو اس وقت بہت معقول تھی۔ سائیکل میرے پاس پہلے سے موجود تھی۔ میں اور میری سائیکل ہم دونوں نے مل کر اس اخبار کے سخت گیر ایڈیٹر کو اپنی کارکردگی سے مطمئن رکھا۔ اس زمانے میں پٹرول وغیرہ کی قلت کا کوئی تصور تک نہ تھا البتہ پٹرول والی سواری کا تصور بھی تھا اور حسرت بھی تھی۔ آج کے لاہور سے اس وقت کا لاہور رقبہ کے اعتبار سے آدھا سمجھ لیں چنانچہ سائیکل پر ہی پورے شہر میں کہیں بھی جایا جا سکتا تھا۔

پریس کانفرنسیں مال روڈ پر ہوتی تھیں جہاں مال روڈ پر واقع اپنے دفتر سے پیدل ہی پہنچ جاتے تھے خبروں سے متعلق شہر کی دوسری سرگرمیاں البتہ سائیکل کی سواری سے کور کی جاتی تھیں۔ کبھی کبھار قتل کی کوئی واردات ہو جاتی تو اگر دور بھی ہوتی تب بھی سائیکل وہاں لے جاتی۔ سائیکل کی سواری ایک آسان سواری تھی یا آسان لگتی تھی اور اس کے سامنے فاصلے سمٹ جاتے تھے بشرطیکہ سائیکل درست حالت میں ہو اور چونکہ سائیکل دن رات کی ایک سواری تھی اس لیے ،بیمار سائیکلوں کے اسپتال، جگہ جگہ موجود تھے لیکن ایک مشکل تھی کہ سائیکلوں کے چالان ہوتے تھے۔ کمزور ترین سواری یہی تھی اور پولیس اپنا سارا غصہ سائیکل سواروں پر نکالتی تھی۔ پولیس والے ناکے لگاتے تھے۔

ایک بار میں پکڑا گیا تو پولیس پر رعب ڈالنے کے لیے میں نے کہا کہ مجھے خبر دینے کے لیے دفتر جلدی جانا ہے مجھے جانے دیں اس پر موقع پر موجود افسر نے اونچی آواز میں کہا کہ ان کا چالان جلدی کر دو اخبار والے ہیں اور جلدی میں ہیں۔ اس پولیس افسر نے مجھے جو نصیحت کی اس کے نتیجے میں پھر کبھی اخبار کا نام نہیں لیا اور چپ چاپ چالان کرا لیا۔ اس زمانے میں تو سائیکل بوجہ ناداری ایک مجبوری تھی لیکن آج بوجہ پٹرول کی نایابی کے ایک مجبوری ہے براتیں اور بیمار بھی جب گدھا گاڑیوں اور تانگوں پر ہوں تو کیا سائیکل ایک نعمت نہیں ہے۔ گاڑیوں والے قطار اندر قطار پٹرول پمپوں پر کھڑے ہوں اور آپ ان کے قریب سے ان کا گویا مذاق اڑاتے ہوئے گزر جائیں تو کیسا ہے۔

میں آج اپنی ہرکولیس کی اس سائیکل کو یاد کر رہا ہوں جس نے لاہور کو میرے پاؤں تلے روند دیا تھا مگر افسوس کہ میں اپنی موٹر سواری کے زعم میں اپنی اس وفادار پرانی ساتھی کو بھول گیا ہوں جس کی تھوڑی بہت مرمت بھی میں خود کر لیا کرتا تھا آج اگر میرے پاس سائیکل ہوتی اور میری ٹانگوں میں پرانی سکت بھی ہوتی تو میں اپنا کالم دفتر بھجوانے کے لیے پریشان نہ ہوا کرتا اور بروقت پٹرول کی آمد کے انتظار میں پریشان حال نہ رہتا۔ پٹرول کی قلت پر میں نے بہت غور کیا اور معلومات بھی جمع کیں پتہ یہ چلا کہ یہ بحران اس سستی کا نتیجہ ہے جو ہمارے افسروں نے دکھا دی ہے اور عوام کے لیے اس قدر پریشانی کا باعث بن گئی ہے کہ حکومت کو بھی دن میں تارے دکھائی دینے لگے ہیں یا دکھائی دینے چاہئیں تھے۔

سنا ہے کہ بعض سرکاری کارندوں کو پتہ تھا کہ شاید یہ بھی کسی ،ڈیل، کا نتیجہ ہے اللہ جانے کیا ہے لیکن، پنجاب کے عوام پر چودہ سے زیادہ طبق روشن ہو گئے ہیں۔ آج کا بندوبست تو کچھ ہو گیا مگر کل بچے اسکول کیسے جائیں گے۔ پہلے تو تعلیم ہی بے حد مہنگی ہو گئی ہے اس پر اس کا حصول اس سے بھی زیادہ مہنگا ہو رہا ہے۔ آخر ہمارے حکمرانوں کا مقصد کیا ہے اور وہ اس ملک کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں بجلی اور گیس جو شہری زندگی اور صنعت کے لیے لازم ہے اب اس پر پٹرول کا اضافہ کرکے عوام کو زندہ درگور کر دینے کا عمل ہے۔

بات سائیکل سے شروع ہوئی تھی جو مجھے ان دنوں بے حد یاد آ رہی ہے۔ سائیکل نہ صرف ایک سواری تھی بلکہ ایک آزادی بھی تھی اسے صرف اپنے ٹائروں میں ہوا کی ضرورت پڑتی تھی جو پمپ کے ذریعے خود بھی بھرلی جاتی تھی اس کے علاوہ وہ بروقت کسی محتاجی کے بغیر حاضر تھی آزادانہ آمدورفت جب جی چاہے روانہ ہو جائیں اور منزل مقصود پر پہنچ جائیں۔ اس سفر میں پٹرول وغیرہ کہیں بھی نہیں آتے تھے اس آزادی میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی کسی افسر کو سستی کی مجال نہیں تھی کہ وہ کسی سائیکل سوار کو تنگ کر سکے اور اس کی سفر کی آزادی میں کوئی مداخلت کر سکے لیکن کچھ حالات یعنی ضروریات کی مجبوریاں اور کچھ آرام پسندی اس نے ہمیں محتاج کر دیا ہے آج پٹرول کے محتاج ہیں تو کل کسی اور چیز کے محتاج ہوں گے۔ ہم دیوانوں نے اپنی زنجیریں خود بنائی ہیں جن میں جکڑے ہوئے ہیں اور پرانی سائیکلوں کو یاد کر رہے ہیں۔

سائیکلیں تو آج بھی بہت ہیں لیکن ہم خود وہ نہیں رہے جو سائیکل چلایا کرتے تھے اور ایک آزادانہ زندگی بسر کرتے تھے مگر لگتا یہ ہے کہ اب پھرسے سائیکل کی طرف لوٹنا پڑے گا اور یہ ایک مجبوری ہے کہ نقل و حرکت کے بغیر اب زندگی گزارنی مشکل ہو گئی ہے اور اس نقل و حرکت کا ذریعہ اب سوائے سائیکل کے اور کوئی نظر نہیں آتا۔ باہر جو گاڑی کھڑی ہے وہ پٹرول کی محتاج ہے جس کے بغیر وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھتی اور یہ پٹرول نہیں ہے۔ ہمارے حکمران اس پٹرول کے مسئلے پر غور کر رہے ہیں اور مسلسل اجلاس کر رہے ہیں لیکن ان میں سے پٹرول نہیں نکل رہا اب کوئی کیا کرے حکمران بھی بے بس ہیں لیکن پٹرول ان کا مسئلہ نہیں ہے یہ مسئلہ میرا آپ کا ہے اور میری اس گم شدہ سائیکل کا ہے جو تھک ہار کر کہیں سو گئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔